جانور بھی اتنے ہی مظلوم سیلاب زدگان ہیں
اگر انسان بچ گیا اور اس کا مویشی مر گیا تب بھی کنبے کا معاشی قتل ہو گیا
سیلاب میں گھرے انسانوں کے مددگاروں کو سب سے بڑی شکائیت یہ ہوتی ہے کہ جب تک پانی آنکھوں کو نہ چھونے لگے تب تک مصیبت زدگان گھر بار چھوڑ کے نقل مکانی پر آمادہ نہیں ہوتے۔ بعض اوقات تو ڈنڈا لہرا کر دھمکانا پڑتا ہے کہ یہاں سے نہ نکلے تو تمہارا ککھ نہیں بچے گا۔
مدد گاروں کا پس منظر اکثر شہری ہوتا ہے لہٰذا وہ یہ شکوہ تو کرتے ہیں کہ مصیبت میں گھرے دیہاتی پانی سر سے اونچا ہونے کے باوجود محفوظ مقامات پر نقل مکانی پر آمادہ نہیں۔ لیکن کیوں آمادہ نہیں ؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے اور ان کا انکاری رویہ اور نفسیات سمجھنے کا امدادی کارکنوں اور سرکاری بابوؤں کے پاس نہ وقت ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی خاص دلچسپی۔
فطری بات ہے کہ کوئی بھی مصیبت میں گھرا انسان کسی نہ کسی کی مدد تو چاہے گا۔اگر مدد ملنے کے باوجود بھی وہ فائدہ اٹھانے اور کنبے کی جان بچانے کو تیار نہیں تو یا تو اس کا دماغ چل گیا ہے یا پھر مددگار کا دماغ مصیبت زدہ کی بنیادی مشکل سمجھنے سے قاصر ہے۔ میں اس بابت دیہی حساسیت سمجھانے کے لیے چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔
دو ہزار دس کے سیلاب میں اسکردو تا کراچی چاروں صوبوں کے چھتیس متاثرہ اضلاع میں سفر کرنے اور ہزاروں مصیبت زدگان کے درمیان رہنے کا اتفاق ہوا۔
مظفر گڑھ سے نقل مکانی کر کے تھل کے ریگستان میں ایک اونچے ٹیلے پر پناہ لینے والے ایک خاندان سے بھی ملاقات ہوئی۔اس خاندان کے ادھیڑ عمر سربراہ نے بتایا کہ اس ویرانے میں کھانے یا پانی کا اتنا مسئلہ نہیں۔کوئی نہ کوئی روز کچھ دے جاتا ہے۔اصل مسئلہ سانپوں کا ہے۔میرے پاس چار بھینسیں اور نو بکریاں ہیں۔ویسے تو گیارہ تھیں مگر دو سانپ نے مار دیں۔
اب ہم رات کو جاگتے اور دن کو باری باری سوتے ہیں تاکہ سانپ کسی اور مویشی کو نہ کاٹ لے۔میں نے پوچھا تمہارے کتنے بچے ہیں۔اس نے بتایا کہ چھ۔ سب سے چھوٹا ایک سال کا ہے۔میں نے پوچھا تمہیں یہ سوچ کے ڈر نہیں لگتا کہ سانپ نے خدانخواستہ کسی مویشی کے بجائے تمہارے بچے کو کاٹ لیا ؟
کہنے لگا۔ڈر تو لگتا ہے پر زیادہ خوف یہ ہے کہ سانپ کسی بھینس کو نہ کاٹ لے۔ نئی بھینس خریدنے کی میری حیثیت نہیں۔بھینسیں مریں تو ہم مر جائیں گے۔بچہ تو ایک اور بھی اگلے برس پیدا ہو جائے گا۔
لیہ میں سیلاب سے گھرے ایک گاؤں سے سب نقل مکانی کر گئے مگر ایک کنبہ ڈٹا رہا۔پانی سینے تک آ گیا تو وہ چھت پر چلے گئے۔ان کے جانور گھر کے سامنے ایک اونچی جگہ پر طویلے میں بند تھے۔میں جس کشتی میں وہاں پہنچا اس کے ملاح نے بتایا کہ انھیں آرمی نے کئی بار کہا کہ ہمارے ساتھ چلو مگر ان کی شرط یہ تھی کہ ہم مال مویشی کے بغیر یہاں سے نہیں نکلیں گے اور آرمی والوں کو صرف انسانوں کو نکالنے کا حکم تھا۔
دیہاتیوں کو یہ فکر بھی ہوتی ہے کہ اگر گھر چھوڑ دیا اور جانور بھی ساتھ لے گئے تو پیچھے سے چور کھڑکیاں دروازے اور چوکھٹیں تک اکھاڑ کے نہ لے جائے اور نقلِ مکانی کے باوجود جہاں انسانوں کی خوراک کے لالے پڑے ہوں وہاں جانوروں کو چارہ کون دے گا۔وہاں بھی اگر انھیں بھوک سے مرنا ہے تو یہیں مرنا زیادہ اچھا ہے۔
جو دیہاتی اپنا مال مویشی کشتی والے کو منہ مانگا کرایہ دے کر محفوظ مقام تک کسی طرح پہنچانے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو ان کے پاس روزمرہ خرچے کے لیے کافی رقم نہیں ہوتی۔کنارے اور کیمپوں کے آس پاس مویشیوں کے آڑھتی یا ایجنٹ منڈلاتے رہتے ہیں۔ وہ ضرورت مند مصیبت زدہ کی مجبوری کو آخری حد تک نچوڑنے کے ماہر ہوتے ہیں۔میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے پیسے سے مجبور دیہاتیوں کو پچھتر ہزار کی بھینس بیس ہزار میں ، پچیس ہزار کا بکرا پانچ ہزار میں اور ڈیڑھ سو روپے کی مرغی پندرہ روپے میں فروخت کرتے دیکھا ہے۔
میں نے ایک خریدار سے پوچھا تمہیں خدا کا خوف نہیں۔اس کی جگہ اگر تم ہوتے اور تمہاری جگہ یہ ہوتا پھر تم پر کیا بیتتی ؟ ڈھٹائی سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے کہنے لگا '' یہ تو کاروبار ہے۔میں تو اس کے مویشی خرید کے اس کی مدد کر رہا ہوں۔اس کی مرضی بیچے نہ بیچے۔میں نے سر پے پستول تھوڑی رکھا ہے ''۔
کتنے شہری جانتے ہیں کہ جب آپ ایک غریب دیہاتی یا چرواہے سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے کتنے بال بچے ہیں تو وہ دل ہی دل میں اپنی بکریوں ، بھینسوں اور گایوں کو بھی جوڑ رہا ہوتا ہے۔ان جانوروں کا ایک عدد محافظ کتا اس دیہاتی یا چرواہے کا نائب ہوتا ہے۔اس وسیع کنبے میں جو ہم آہنگی اور الفت ہوتی ہے اس کی باریکیاں ایک شہری باشندہ کبھی سمجھ ہی نہیں سکتا۔
یہ مویشی نہیں دیہات کی معاشی شہہ رگ ہیں۔ یہ مویشی ہل جوتتے ہیں ، رہٹ چلا کے پانی نکالتے ہیں ، کولہو سے تیل نکالتے ہیں ، سواری کا کام دیتے ہیں ، ہر طرح کا وزن ڈھوتے ہیں۔پینے اور بیچنے کے لیے دودھ اور ایندھن کے لیے گوبر دیتے ہیں۔گوشت کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ان کی کھال الگ سے بکتی ہے۔ کسی ناگہانی ضرورت کے وقت یہی جانور اے ٹی ایم مشین بن جاتے ہیں اور انھیں بیچ کر فوری مالی مسئلہ حل کیا جاتا ہے یا قرض کا بوجھ ہلکا کیا جاتا ہے۔
لہٰذا یہ بات ہم میں سے ہر ایک کے سمجھنے کی ہے کہ سیلاب و دیگر قدرتی آفات میں آپ کی جتنی مدد ایک انسان اور اس کے بال بچوں کو درکار ہے اتنی ہی مدد اس کے مال مویشیوں کو بھی درکار ہے۔مصیبت زدہ خاندان کو جو اپنے لیے چاہیے وہی اپنے جانوروں کے لیے بھی چاہیے۔ورنہ بحالی کا عمل نامکمل ہے۔
اگر انسان بچ گیا اور اس کا مویشی مر گیا تب بھی کنبے کا معاشی قتل ہو گیا۔اب یا تو وہ شہر کی جانب روٹی کی تلاش میں نقل مکانی کرے یا اپنے ہی علاقے میں کسی بھٹے پر اینٹیں ڈھوئے یا کوئی اور معمولی مزدوری کرے اور مزید قرض میں بندھتا چلا جائے۔
تمام انفرادی مددگاروں اور این جی اوز سے میری درخواست ہے کہ انسانوں کے لیے کھانا، کپڑے، برتن، خیمے ، ادویات ضرور دیں۔مگر ان کے جانوروں کے لیے چھت ، چارہ ، طبی دیکھ بھال وغیرہ ہرگز ہرگز نہ بھولیں۔ورنہ آپ اپنی دریا دلی کے باوجود سماج میں ایک اور امکانی بھکاری کا انجانے میں اضافہ کر رہے ہوں گے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
مدد گاروں کا پس منظر اکثر شہری ہوتا ہے لہٰذا وہ یہ شکوہ تو کرتے ہیں کہ مصیبت میں گھرے دیہاتی پانی سر سے اونچا ہونے کے باوجود محفوظ مقامات پر نقل مکانی پر آمادہ نہیں۔ لیکن کیوں آمادہ نہیں ؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے اور ان کا انکاری رویہ اور نفسیات سمجھنے کا امدادی کارکنوں اور سرکاری بابوؤں کے پاس نہ وقت ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی خاص دلچسپی۔
فطری بات ہے کہ کوئی بھی مصیبت میں گھرا انسان کسی نہ کسی کی مدد تو چاہے گا۔اگر مدد ملنے کے باوجود بھی وہ فائدہ اٹھانے اور کنبے کی جان بچانے کو تیار نہیں تو یا تو اس کا دماغ چل گیا ہے یا پھر مددگار کا دماغ مصیبت زدہ کی بنیادی مشکل سمجھنے سے قاصر ہے۔ میں اس بابت دیہی حساسیت سمجھانے کے لیے چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔
دو ہزار دس کے سیلاب میں اسکردو تا کراچی چاروں صوبوں کے چھتیس متاثرہ اضلاع میں سفر کرنے اور ہزاروں مصیبت زدگان کے درمیان رہنے کا اتفاق ہوا۔
مظفر گڑھ سے نقل مکانی کر کے تھل کے ریگستان میں ایک اونچے ٹیلے پر پناہ لینے والے ایک خاندان سے بھی ملاقات ہوئی۔اس خاندان کے ادھیڑ عمر سربراہ نے بتایا کہ اس ویرانے میں کھانے یا پانی کا اتنا مسئلہ نہیں۔کوئی نہ کوئی روز کچھ دے جاتا ہے۔اصل مسئلہ سانپوں کا ہے۔میرے پاس چار بھینسیں اور نو بکریاں ہیں۔ویسے تو گیارہ تھیں مگر دو سانپ نے مار دیں۔
اب ہم رات کو جاگتے اور دن کو باری باری سوتے ہیں تاکہ سانپ کسی اور مویشی کو نہ کاٹ لے۔میں نے پوچھا تمہارے کتنے بچے ہیں۔اس نے بتایا کہ چھ۔ سب سے چھوٹا ایک سال کا ہے۔میں نے پوچھا تمہیں یہ سوچ کے ڈر نہیں لگتا کہ سانپ نے خدانخواستہ کسی مویشی کے بجائے تمہارے بچے کو کاٹ لیا ؟
کہنے لگا۔ڈر تو لگتا ہے پر زیادہ خوف یہ ہے کہ سانپ کسی بھینس کو نہ کاٹ لے۔ نئی بھینس خریدنے کی میری حیثیت نہیں۔بھینسیں مریں تو ہم مر جائیں گے۔بچہ تو ایک اور بھی اگلے برس پیدا ہو جائے گا۔
لیہ میں سیلاب سے گھرے ایک گاؤں سے سب نقل مکانی کر گئے مگر ایک کنبہ ڈٹا رہا۔پانی سینے تک آ گیا تو وہ چھت پر چلے گئے۔ان کے جانور گھر کے سامنے ایک اونچی جگہ پر طویلے میں بند تھے۔میں جس کشتی میں وہاں پہنچا اس کے ملاح نے بتایا کہ انھیں آرمی نے کئی بار کہا کہ ہمارے ساتھ چلو مگر ان کی شرط یہ تھی کہ ہم مال مویشی کے بغیر یہاں سے نہیں نکلیں گے اور آرمی والوں کو صرف انسانوں کو نکالنے کا حکم تھا۔
دیہاتیوں کو یہ فکر بھی ہوتی ہے کہ اگر گھر چھوڑ دیا اور جانور بھی ساتھ لے گئے تو پیچھے سے چور کھڑکیاں دروازے اور چوکھٹیں تک اکھاڑ کے نہ لے جائے اور نقلِ مکانی کے باوجود جہاں انسانوں کی خوراک کے لالے پڑے ہوں وہاں جانوروں کو چارہ کون دے گا۔وہاں بھی اگر انھیں بھوک سے مرنا ہے تو یہیں مرنا زیادہ اچھا ہے۔
جو دیہاتی اپنا مال مویشی کشتی والے کو منہ مانگا کرایہ دے کر محفوظ مقام تک کسی طرح پہنچانے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو ان کے پاس روزمرہ خرچے کے لیے کافی رقم نہیں ہوتی۔کنارے اور کیمپوں کے آس پاس مویشیوں کے آڑھتی یا ایجنٹ منڈلاتے رہتے ہیں۔ وہ ضرورت مند مصیبت زدہ کی مجبوری کو آخری حد تک نچوڑنے کے ماہر ہوتے ہیں۔میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے پیسے سے مجبور دیہاتیوں کو پچھتر ہزار کی بھینس بیس ہزار میں ، پچیس ہزار کا بکرا پانچ ہزار میں اور ڈیڑھ سو روپے کی مرغی پندرہ روپے میں فروخت کرتے دیکھا ہے۔
میں نے ایک خریدار سے پوچھا تمہیں خدا کا خوف نہیں۔اس کی جگہ اگر تم ہوتے اور تمہاری جگہ یہ ہوتا پھر تم پر کیا بیتتی ؟ ڈھٹائی سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے کہنے لگا '' یہ تو کاروبار ہے۔میں تو اس کے مویشی خرید کے اس کی مدد کر رہا ہوں۔اس کی مرضی بیچے نہ بیچے۔میں نے سر پے پستول تھوڑی رکھا ہے ''۔
کتنے شہری جانتے ہیں کہ جب آپ ایک غریب دیہاتی یا چرواہے سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے کتنے بال بچے ہیں تو وہ دل ہی دل میں اپنی بکریوں ، بھینسوں اور گایوں کو بھی جوڑ رہا ہوتا ہے۔ان جانوروں کا ایک عدد محافظ کتا اس دیہاتی یا چرواہے کا نائب ہوتا ہے۔اس وسیع کنبے میں جو ہم آہنگی اور الفت ہوتی ہے اس کی باریکیاں ایک شہری باشندہ کبھی سمجھ ہی نہیں سکتا۔
یہ مویشی نہیں دیہات کی معاشی شہہ رگ ہیں۔ یہ مویشی ہل جوتتے ہیں ، رہٹ چلا کے پانی نکالتے ہیں ، کولہو سے تیل نکالتے ہیں ، سواری کا کام دیتے ہیں ، ہر طرح کا وزن ڈھوتے ہیں۔پینے اور بیچنے کے لیے دودھ اور ایندھن کے لیے گوبر دیتے ہیں۔گوشت کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ان کی کھال الگ سے بکتی ہے۔ کسی ناگہانی ضرورت کے وقت یہی جانور اے ٹی ایم مشین بن جاتے ہیں اور انھیں بیچ کر فوری مالی مسئلہ حل کیا جاتا ہے یا قرض کا بوجھ ہلکا کیا جاتا ہے۔
لہٰذا یہ بات ہم میں سے ہر ایک کے سمجھنے کی ہے کہ سیلاب و دیگر قدرتی آفات میں آپ کی جتنی مدد ایک انسان اور اس کے بال بچوں کو درکار ہے اتنی ہی مدد اس کے مال مویشیوں کو بھی درکار ہے۔مصیبت زدہ خاندان کو جو اپنے لیے چاہیے وہی اپنے جانوروں کے لیے بھی چاہیے۔ورنہ بحالی کا عمل نامکمل ہے۔
اگر انسان بچ گیا اور اس کا مویشی مر گیا تب بھی کنبے کا معاشی قتل ہو گیا۔اب یا تو وہ شہر کی جانب روٹی کی تلاش میں نقل مکانی کرے یا اپنے ہی علاقے میں کسی بھٹے پر اینٹیں ڈھوئے یا کوئی اور معمولی مزدوری کرے اور مزید قرض میں بندھتا چلا جائے۔
تمام انفرادی مددگاروں اور این جی اوز سے میری درخواست ہے کہ انسانوں کے لیے کھانا، کپڑے، برتن، خیمے ، ادویات ضرور دیں۔مگر ان کے جانوروں کے لیے چھت ، چارہ ، طبی دیکھ بھال وغیرہ ہرگز ہرگز نہ بھولیں۔ورنہ آپ اپنی دریا دلی کے باوجود سماج میں ایک اور امکانی بھکاری کا انجانے میں اضافہ کر رہے ہوں گے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)