سیاسی ہتھکنڈے

قائد اعظم نے اپنے مخالفین پر کفر کے فتوے لگانے کے باوجود کبھی ان کے خلاف غیر شائستہ بات نہیں کی


Muhammad Saeed Arain August 30, 2022
[email protected]

اپنے تمام سیاسی مخالفین کو چور، ڈاکو قرار دینے والے عمران خان کو ان کے حامی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح سے تشبیہ دینے کی کوشش میں سوشل میڈیا پر ایسی پوسٹیں لگا رہے ہیں جن کا قائد اعظم سے موازنہ کیا ہی نہیں جاسکتا۔

74 سال قبل جب قائد اعظم کا انتقال ہوا اس وقت عمران خان پیدا بھی نہیں ہوئے تھے مگر پی ٹی آئی والے ایسی مصنوعی تصاویر بنا کر شیئر کر رہے ہیں جن میں کہیں عمران خان کو قائد اعظم کی کار کا دروازہ کھولتے دکھایا جا رہا ہے کہیں وہ علامہ اقبال سے نیچے اور قائد اعظم کے برابر بیٹھے دکھائے جا رہے ہیں۔ ا

یک شیئر ہونے والی تصویر میں قائد اعظم اور عمران خان کی سوٹ پہنے الگ الگ تصویروں کو برابر برابر لگا کر لکھا گیا ہے کہ دونوں کی تعلیم انگلستان سے، دونوں کی شادیاں ناکام، دونوں ایک سیٹ والے، دونوں پر ملاؤں کی طرف سے کفر (ایجنٹ) ہونے کے فتوے، دونوں کے مخالفین ان کے ناقابل فروخت اور ناقابل خوف ہونے کے معترف، دونوں ہی انگریز سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر برابری سے بات کرنے والے اور دونوں ہی نے اپنے اپنے وقت کی اسٹیبلشمنٹ، اداروں اور مافیاز کے خلاف تحریک چلاتے ہوئے عوام کے حقوق کی جنگ کو وکٹری اسٹینڈ تک پہنچایا۔

قائد اعظم کا احسان پوری قوم کبھی نہیں بھولے گی جنھوں نے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی مدد سے پاکستان بنایا اور پاکستانیوں کو ایک قوم بنایا تھا جس کو عمران خان نے تقسیم کرکے رکھ دیا اور ملک میں مہنگائی و بے روزگاری بڑھانے کے بعد کہا کہ'' میں سبزیوں کے دام دیکھنے نہیں، پاکستانیوں کو ایک قوم بنانے آیا تھا۔''

عمران خان نے حصول اقتدار کے لیے قوم سے ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر بنا کر دینے کا ایسا بے بنیاد دعویٰ کیا تھا جس پر عمل مشکل ہی نہیں ناممکن تھا جب کہ قائد اعظم نے برصغیر میں رہنے والے مسلمانوں سے ان کے الگ وطن کا وعدہ کیا تھا جس کا قیام ہندوستان کے رہنے والے اکثریتی لوگوں کے علاوہ خود بعض مسلم رہنماؤں نے شدید مخالفت کی تھی مگر قائد اعظم نے اپنی صلاحیت سے کسی جنگ و جدل کے بجائے مذاکرات کرکے پاکستان کا قیام ممکن بنا کر دکھایا تھا جو ہماری بدقسمتی اور سیاسی مفاد پرستی کے باعث 1971 میں دولخت ہوگیا تھا۔

پاکستانیوں کی پہلی بدقسمتی یہ تھی کہ قائد اعظم 13ماہ کے بعد ہی دنیا سے رخصت ہوگئے تھے اور بعد میں ان کے قریبی ساتھی وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان بھی شہید کردیے گئے تھے جو زندہ رہتے تو ملک کا منظر مختلف ہوتا۔

قائد اعظم اردو کے ماہر تھے نہ چرب زبان، کوئی قائد اعظم کے متعلق نہیں کہہ سکتا کہ انھوں نے قوم سے کوئی ایک جھوٹا وعدہ کیا ہو، مگر عمران خان نے سیاست میں جھوٹوں کو ہی اپنا منشور بنایا تھا۔ قائد اعظم کھرے اور سچے انسان تھے جب کہ عمران خان نے اپنی سیاست جھوٹ اور اپنے مخالفین پر الزامات سے شروع کی اور تحریک انصاف بنا کر غریب و امیر کے لیے ایک قانون پر عمل کرانے اور ملک سے کرپشن کے خاتمے کے بلند و بانگ دعوے کیے تھے۔

جن پر جب پونے چار سالہ اقتدار میں عمل نہ کرسکے اور نہ ہی ملک سے لوٹی گئی مبینہ دولت واپس لاسکے اور نہ ہی اپنے کسی سیاسی مخالف کو عدالت سے سزا دلا سکے مگر انھوں نے اپنے سیاسی مخالفین سابق صدر آصف زرداری اور تین بار ملک کا وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف سمیت اپنے تمام مخالف رہنماؤں کو گرفتار کرانے کے اپنے اعلانات پر ضرور عمل کیا اور ان کے جیلوں میں رہنے پر دلی تسکین ضرور حاصل کی اور سیاسی انتقام کی انتہا کردی مگر قائد اعظم نے گورنر جنرل ہوتے ہوئے اپنے کسی مخالف کو گرفتار کرایا تھا اور نہ کسی کی کردار کشی کی تھی کیونکہ وہ خود ایک باکردار انسان اور پوری قوم کے متفقہ رہنما تھے۔

قائد اعظم انگلستان سے تعلیم حاصل کرکے اعلیٰ پائے کے وکیل ثابت ہوئے اور اپنے دلائل سے یہ ملک حاصل کیا تھا مگر عمران خان نے انگلینڈ سے تعلیم حاصل کرکے صرف کرکٹ میں اپنا مقام بنایا اور پلے بوائے کی زندگی گزاری۔ عمران خان مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں نہ دلائل سے اپنے سیاسی مخالفین کو قائل کرسکتے ہیں نہ ان میں قوت برداشت ہے، وہ اپنے مخالفین کے نام بگاڑنا، انھیں برا بھلا کہنے اور جھوٹے الزامات لگانے کی صلاحیت ضرور رکھتے ہیں۔

قائد اعظم کا ماضی اتنا صاف ستھرا تھا کہ انھیں کسی ثاقب نثار سے صادق و امین کی سند لینے کی ضرورت نہ تھی کیونکہ قوم ان کی انگلش میں کی گئی تقاریر پر بلاسوچے سمجھے یقین کرلیتی تھی کیونکہ انھیں پتا تھا کہ قائد اعظم قوم سے جھوٹ بولیں گے نہ اپنی تقاریر سے قوم کو گمراہ کریں گے۔

قائد اعظم نے اپنے مخالفین پر کفر کے فتوے لگانے کے باوجود کبھی ان کے خلاف غیر شائستہ بات نہیں کی جب کہ عمران خان پر الزام ہے کہ وہ اندرون خانہ اپنے مخالفین کو گالیاں تک دیتے ہیں اور وہ جج نہ ہونے کے باوجود اپنے مخالفوں کو چور ،ڈاکو قرار دیتے آئے ہیں اور سیاسی مفاد پر خود ہی پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دیے گئے شخص کو اسی صوبے کا وزیر اعلیٰ اور جس کو اپنا چپڑاسی رکھنے کے قابل نہ سمجھتے تھے۔

اس کو وفاقی وزیر داخلہ بنایا جب کہ قائد اعظم ہمیشہ اپنی زبان پر قائم رہے نہ ہی کسی مخالف سے انھوں نے انتقام لیا۔ قائد اعظم نے گورنر جنرل بن کر سیاست میں ایمانداری و مخلص ہونے کا ثبوت دیا۔ قومی خزانہ اپنی ذات پر خرچ کیا نہ سرکاری وسائل اپنے لیے استعمال کیے۔ وہ علاج اور خوراک پر اپنی جیب سے خرچ کرتے تھے نہ سرکاری ہیلی کاپٹروں پر سفر کے شوقین تھے نہ اپنی حفاظت کے لیے سرکاری فورس کا بے دریغ استعمال کیا کرتے تھے نہ بنی گالا جیسی وسیع عمارت میں رہتے تھے بلکہ سادگی ان کا اصول، اخلاق و کردار ان کا مثالی تھا اور جھوٹ بولنے پر یقین ہی نہیں رکھتے تھے۔

قائد اعظم واقعی انگریزوں سے برابری کی بنیاد اور دلائل سے بات کرتے اور بلا خوف مذاکرات کے حامی تھے۔ قائد اعظم نے صرف ایک شادی کی اور ان کی ایک صاحبزادی تھی جب کہ عمران خان نے تین شادیاں کیں،لندن میں اپنے یہودی برادر نسبتی کو مسلمان پر ترجیح دے کر اس کی میئر کی انتخابی مہم چلائی۔

قائد اعظم نے اپنے قریبی عزیزوں کو سرکاری مراعات دیں نہ ہی انھیں اپنے عہدے کا کوئی فائدہ دیا جب کہ عمران خان کی کابینہ ان کے ذاتی دوستوں سے بھری پڑی تھی جن پر کرپشن کے الزامات لگے مگر ان کے خلاف کارروائی تک نہیں ہونے دی۔ قائد اعظم سرکاری مراعات احتیاط سے استعمال اور اپنے وسائل سے زندگی گزارتے تھے جب کہ عمران خان دوسروں کے وسائل پر مفت میں سفر کے عادی رہے اور اپنی جیب سے کسی کو چائے تک نہ پلانے میں مشہور ہیں اور انھوں نے اپنے اقتدار میں سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کیا۔

عمران خان پر الزامات ہیں کہ انھوں نے اپنے اسپتال کے لیے حاصل کی گئی دولت سیاست کے لیے استعمال کی اور غیر قانونی طور کروڑوں روپے جمع کیے۔ توشہ خانہ سے کروڑوں کا مال لاکھوں میں حاصل کیا جس کا اب وہ کوئی جواب نہیں دیتے اور خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ عمران خان پر جو الزامات ہیں ان میں سچائی ہے یا نہیں،اصل صورتحال سامنے لانے کے لیے حکومت کو اس پر پوری تحقیق کرکے اسے عوام کے سامنے لانا چاہیے تاکہ سچ اور جھوٹ واضح ہو سکے۔

ہماری سیاست میں مخالفین بغیر تحقیق اور ثبوت کے ایک دوسرے پر الزامات لگاتے رہتے ہیں جب کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کے لوگ اپنے ساتھیوں کی کرپشن اور غلطیوں پر پردہ ڈالتے ہیں۔ عمران خان کو قائد اعظم سے مشابہت دینا بھی قائد اعظم کی توہین کے مترادف اور انھیں قائد اعظم جیسا قرار دینا حقائق کے برعکس اور قائد اعظم سے ناانصافی ہے کیونکہ قائد اعظم عظیم انسان تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں