سیلاب اور قومی بے حسی

کیا سیاسی انتشار نے عوام میں بھی ایثار اور ایک دوسرے کی مدد کے جذبہ میں کمی کر دی ہے


مزمل سہروردی August 30, 2022
[email protected]

سیلاب کی موجودہ صورتحال میں مجھے عوام میں ایثار اور مدد کا وہ جذبہ نظر نہیں آرہا جو آنا چاہیے۔ ویسے تو سیاسی قائدین کے آپسی اختلافات اور سیاست بھی اس سیلاب میں افسوسناک منظر ہی پیش کر رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی مجھے عوام میں جذبہ کی کمی نظر آرہی ہے۔

کیا سیاسی انتشار نے عوام میں بھی ایثار اور ایک دوسرے کی مدد کے جذبہ میں کمی کر دی ہے۔ کیا ہم بحیثیت قوم بھی اب اتنے بے حس ہو گئے ہیں کہ ہمارے لیے ایک دوسرے کا درد کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔

میں نے ماضی میں بھی پاکستان کو مشکل حالات میں دیکھا ہے۔ 2010 کا سیلاب دیکھا ہے۔ تاریخی زلزلہ دیکھا ہے۔ ویسے بھی جب کہیں کوئی آفت آئی ہے تو عوام کا جذبہ دیکھا ہے۔ ہم تو ایسی قوم ہیں کہ مدد کرنا فرض سمجھتے ہیں۔ لیکن آج قوم میں وہ جذبہ نظر نہیں آرہا۔ میرے ارد گرد لوگ سیلاب کی تباہی میں اس طرح مدد کے لیے تیار نہیں ہیں جیسے بحیثیت ایک قوم ہمیں تیار ہونا چاہیے۔

آپ حکومت کا ہی اندازہ کر لیں اس وقت وزیر اعظم اور چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ اکٹھے بیٹھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ چاروں صوبے سیلاب سے متاثر ہیں لیکن صوبائی حکومتیں اکٹھے بیٹھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ سب نے اپنی اپنی الگ ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مساجد بنائی ہوئی ہیں۔ سیلاب کی اس صورتحال میں بھی وہ کسی قومی مفاد میں اکٹھے بیٹھنے کے لیے تیار نہیں۔

کیا کوئی سوال کر سکتا ہے کہ آپ اکٹھے بیٹھنے کے لیے کیوں تیار نہیں۔ کیا اس وقت ای سی سی کی کوئی ہنگامی میٹنگ ہو سکتی ہے۔ کیا این ایف سی کا کوئی غیر معمولی اجلاس ہو سکتا ہے۔

جب حکومت کے تمام ستون اکٹھے بیٹھ ہی نہیں سکتے تو کیا سوال کیا جا سکتا ہے۔ جب دو صوبوں کے وزراء اعلیٰ اپنے صوبوں میں وفاقی حکومت کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہی نہیں تو حکومت اکٹھے مل کر سیلاب زدگان کی کیسے مدد کر سکتی ہے۔سیلاب کی یہ تباہی بھی ہمارے سیاستدانوں اور حکومتی عہدیداروں کو اکٹھے بٹھانے کے لیے کافی نہیں ہے۔

اگر وزیر اعظم سندھ جائیں تو سندھ کے وزیر اعلیٰ ان کے ساتھ ہوتے ہیں لیکن اگر وہ پنجاب اور کے پی جائیں تو وہاں کے وزیر اعلیٰ ان کے ساتھ نہیں ہوتے ہیں۔ حالانکہ کہیں نہ کہیں یہ بات بھی طے ہونی چاہیے کہ حکومتی عہدیداران کو اپنے کام میں اپنی سیاست کو سامنے نہیں رکھنا چاہیے۔ کم از کم سیلاب کی اس صورتحال میں حکومتی عہدیداران کو تو اکٹھے بیٹھنا چاہیے۔

کے پی کے وزیر اعلیٰ عمران خان کے ساتھ تو ہیلی کاپٹر پر سیلاب کے متاثرہ علاقوں کے دورے کے لیے تیار نظر آتے ہیں لیکن وزیر اعظم کے ساتھ جانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پنجاب کی بھی یہی صورتحال ہے۔

یہ درست ہے کہ پاک فوج سیلاب کی اس صورتحال میں مدد کے لیے سامنے آئی ہے۔ پاک فوج ہی واحد ایسی طاقت کے طور پر سامنے آئی ہے جس پر ساری قوم سیلاب کی اس صورتحال میں متفق نظر آئی ہے۔ پاک فوج چاروں صوبوں اور سیلاب کے تمام علاقوں میں متحرک نظر آرہی ہے۔ پاک فوج کا کام قابل دید ہے۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی سیلاب کے متاثرین کی مدد کے لیے پیغام جاری کیا ہے۔ انھوں نے غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں سے بھی مدد کی اپیل کی ہے۔

جب ملک کے تین صوبے سیلاب میں ہیں کیا ہم اپنی دولت کا ایک چوتھائی بھی ان کی مدد کے لیے عطیہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ دولت مند دولت نکالتے نظر نہیں آرہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے اس وقت لوگ معاشی طور پر شدید مشکل میں ہیں۔ مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارا امیر آدمی بھی خاموش ہے۔ویسے تو گلی محلوں میں بھی سیلاب زدگان کی مدد کا کوئی جذبہ نظر نہیں آرہا۔ جو چند کیمپ لگے ہیں ان میں بھی وہ چہل پہل نظر نہیں آرہی۔ سیاسی انتشار اس قدر بڑھ گیا ہے کہ لوگ سیلاب میں بھی سیاست ہی دیکھ رہے ہیں۔

ویسے تو سوات میں پانچ بھائی جس طرح مدد کے لیے پانچ گھنٹے پکارتے رہے اور کوئی حکومتی مدد ان تک نہیں پہنچی ۔ پانچ بھائی جن کو ایک ہیلی کاپٹر بھیج کر بچایا جا سکتا تھا نہیں بچایا گیا۔ کے پی کی حکومت کا موقف ہے کہ پانچ گھنٹے تک مدد کے لیے پکارنے والے ان بھائیوں کی فریاد پہنچی ہی نہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ پانچ گھنٹے تک اگر فریاد نہیں پہنچ سکی تو کیا کہا جا سکتا ہے۔

وزیر اعلیٰ کے پی کا ہیلی کاپٹر سیاسی جلسوں کے لیے تو استعمال ہو سکتا ہے لیکن پانچ بھائیوں کی مدد کے لیے نہیں پہنچ سکتا۔یہ منطق بھی مضحکہ خیز ہے کہ کے پی وزیر اعلیٰ کا ہیلی کاپٹر ریسکیو کے لیے استعمال نہیں ہو سکتا۔ ان پانچ بھائیوں کو تو صرف وہاں سے اٹھانا تھا۔ اس میں ریسکیو والی کوئی بات ہی نہیں تھی۔

میں سمجھتا ہوں کہ سیلاب سے نبٹنے کے لیے صوبائی حکومتوں کی کارکردگی اچھی نہیں رہی ہے۔ صوبائی خود مختاری حاصل کرنے کے بعد صوبائی حکومتیں اس قسم کے حالات سے نبٹنے کے لیے تیار نظر نہیں آئی ہیں۔ صوبائی حکومتوں نے اپنے اپنے پی ڈی ایم اے بنائے ہیں لیکن ان کی صلاحیت بڑھانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ وہ آج بھی این ڈی ایم اے کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

صوبائی حکومتوں کی نا اہلی کھل کر سامنے آئی ہے۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ تو کہیں نظر ہی نہیں آئے ہیں۔ اسی طرح پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھی سیلاب زدہ علاقوں میںنظر نہیں آئے ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ حکومتوں کی کارکردگی کا جائزہ لینا بھی ضروری ہوگیا ہے۔ صوبائی خود مختاری کی شق کے تحت زیادہ اختیارات ملنے کے باوجود کارکردگی بہتر نہیں ہوئی۔ صوبائی حکومتوں کی کوئی تیاری نظر نہیں آئی، ان کی بے حسی افسوسناک ہے۔

بہر حال سیلاب کی تباہ کاریوں سے نبٹنے کے لیے جس قومی جذبہ اور قومی یکجہتی کی ضرورت ہے اس کا نہ ہونا بھی خطرے کی ایک گھنٹی ہے۔ کیا ہم بحیثیت قوم اتنے بے حس ہو گئے ہیں کہ ہم اتنی تباہی میں بھی اکٹھے نہیں ہیں۔ ہم اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہم میں کوئی قومی جذبہ نہیں ہے۔حالانکہ ہونا تو یہی چاہیے کہ ہم اس وقت اپنا سب کچھ اپنے بھائیوں پر نچھاور کر دیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم سب مل کر ان کی مدد کریں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔

کیا ہم سب اپنی دولت کا ایک حصہ سیلاب ز دگان کی مدد کے لیے دینے کو تیار نہیں۔ یہ بے حسی کیوں ہے۔ کیا یہ قومی بے حسی ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے ملک میں قومی یکجہتی کا پیغام دیا جائے۔ لوگوں کو احساس دلایا جائے کہ یہ وقت مدد کا ہے۔ صوبائی وزراء کا رویہ اور بیانات بھی قابل مذمت ہیں۔اقتدار انسانیت سے اہم تو نہیں ہے۔ چند دن اختلافات کو بھلا کرسیلاب زدگان کی مدد کے لیے سب کو متحد ہونا ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔