والدین پر مہنگائی کا پہاڑ ٹیکسٹ بک بورڈ کی درسی کتب میں 300 فیصد تک اضافہ
سیشن شروع ہونے کے باوجود انٹر کی بیشتر درسی کتب اب بھی مارکیٹ میں موجود نہیں ہیں
حکومت سندھ نے سرکاری نصاب کی حامل درسی کتابوں کی قیمتوں کے معاملے پر عوام پر مہنگائی کا پہاڑ توڑ دیا ہے اور محکمہ اسکول ایجوکیشن سندھ کے ماتحت کام کرنے والے سندھ ٹیکسٹ بورڈ کی جانب سے نئے تعلیمی سیشن 2022 کے لیے شائع کی گئی کتابوں کی قیمتیں 300 فیصد تک بڑھادی گئی ہیں۔
یہ قیمتوں میں حالیہ اضافہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے بورڈ آف گورنرز کی منظوری سے کیا گیا ہے پہلی جماعت سے میٹرک تک کی جو درسی کتب چھاپ کر بازار میں بھیجی گئی ہیں ان کی قیمتوں نے والدین کی کمر توڑ دی ہے اور مہنگائی و بجلی کی قیمتوں کے ستائے والدین اب کتابوں کی قیمتوں میں اضافے کی ایک نئی عفریت کا سامنا کررہے ہیں ادھر انٹر سال اور و دوئم کی بیشتر کتابیں چھاپ کر تاحال مارکیٹ کو فراہم ہی نہیں کی گئی ہیں ان کتابوں کی قیمتوں میں بھی کئی سو فیصد تک اضافے کا امکان ہے۔
پہلی بار سندھ کے سرکاری کالجوں میں تعلیمی سیشن بروقت شروع کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو بازار میں انٹرمیڈیٹ کی درسی کتابیں ہی موجود نہیں حکومت سندھ کی جانب سے درسی کتابوں کی قیمتوں میں کئی سو فیصد تک اضافے والدین کا کہنا ہے کہ ایک جانب حکومت سندھ سرکاری اسکولوں کے طلبہ کے لیے درسی کتابیں مفت فراہم کرتی ہے اور اس کے لیے اربوں روپے کا بجٹ مختص ہوتا ہے لیکن وہ لاکھوں والدین جو اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں پڑھا رہے ہیں کیا ان کے لیے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کو کتابوں کی قیمتیں نہ بڑھانے کا پابند نہیں کیا جاسکتا یا مارکیٹ کو بھجوائی گئی کتابوں پر زر تلافی نہیں دی جاسکتی جس سے نجی اسکولوں میں پڑھنے والے طلبہ کے والدین کو بھی کچھ سہولت مل سکے۔
"ایکسپریس" نے کتابوں کی قیمتوں کے حوالے سے جب اردو بازار کراچی کے بک سیلرز اور بعض پبلشرز سے رابطہ کیا تو انکشاف ہوا کہ گذشتہ برس والدین جتنی قیمت میں کسی جماعت کا کورس لے کر چلے جاتے تھے اب اتنی رقم میں بمشکل نصف کورس خرید پارہے ہیں اردو بازار ایسوسی ایشن کراچی کے صدر سلیمان جیوانی نے "ایکسپریس" کو بتایا کہ گذشتہ سال کے مقابلے میں سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی درسی کتابوں کی قیمتیں ڈبل سے بھی زیادہ ہیں انھوں نے تصدیق کی کہ انٹر سال اول و دوئم کی زیادہ تر کتابیں موجود نہیں ہیں"
ادھر اردو بازار کراچی کے ایک بک سیلر نے "ایکسپریس" کو درسی کتب کی حالیہ اور سابقہ قیمتوں کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ نویں جماعت کا مکمل کورس جو 1 ہزار روپے کے آس پاس خرید لیا جاتا تھا اب 2 ہزار روپے میں بھی دستیاب نہیں ہے انھوں نے بتایا کہ سندھی کے مضمون کی کتاب 40 روپے سے 100 روپے کردی گئی ہے مطالعہ پاکستان کی کتاب جو 111 روپے کی تھی اب 260 روپے میں دستیاب ہے ریاضی کی نویں جماعت کی کتاب 200 روپے سے بڑھا کر 420 روپے کردی گئی ہے۔
اسی طرح طبعیات کے مضمون کی کتاب 150 سے 300 روپے اور کیمیاء کے مضمون کی کتاب 100 روپے سے 256 روپے کی ہوگئی ہے اور یہی صورتحال دیگر جماعتوں کی درسی کتابوں کی ہے" واضح رہے کہ سندھ میں نجی اسکول میٹرک اور انٹر کی سطح پر سب سے زیادہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کا نصاب استعمال کرتے ہیں کیونکہ متعلقہ تعلیمی بورڈز سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی درسی کتب سے ہی طلبہ کا امتحان لیتے ہیں۔
ادھر انٹر سال اول و دوئم کی درسی کتب کی قیمتوں کے حوالے سے جب معلومات لی گئی تو معلوم ہوا کہ بیشتر کتابیں تو چھاپ کر بازار میں بھجوائی ہی نہیں گئی انٹر سال اول و دوئم میں بائیولوجی (زولوجی /بوٹنی) کیمسٹری، انگریزی اور فزکس کی کتابیں بازار میں موجود نہیں ہیں انٹر سال دوئم میں کیمسٹری کی کتابیں ابتداء میں بازار میں محدود تعداد میں دی گئی تھی جو اب ختم ہوچکی ہیں صرف اسلامیات اور اردو کی کتابیں ہیں۔
اسی طرح نویں اور دسویں جماعتوں کی کمپیوٹر سائنس کی کتابیں بھی بازار میں نہیں ہیں واضح رہے کہ ڈائریکٹر جنرل کالجز سندھ کی سفارش پر وزیر تعلیم سندھ نے پہلی بار انٹر سال اول کے داخلے نویں کھ نتائج پر دینے کی منظوری دی تھی تاکہ کالجوں میں تعلیمی وقت پر شروع ہوسکے اس فیصلے پر عملدرآمد کے بعد کالجوں میں سیشن تو بظاہر شروع ہوگیا ہے لیکن محکمہ ایجوکیشن کے ذیلی شعبوں میں رابطوں کے فقدان کے سبب طلبہ کی تدریس کے لیے کتابیں موجود نہیں ہیں بتایا جارہا ہے کہ انٹر سال اول کے کچھ مضامین کی کتابیں تبدیل ہوئی ہیں جس کے سبب ان کی بروقت اشاعت نہیں ہوسکی ہے۔
جب کتابوں کی قیمتوں اور بازار میں انٹر سال اول کی کتابوں کی عدم دستیابی کے معاملے پر سیکریٹری سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ حفیظ مہر سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ "قیمتوں میں اضافے کی منظوری بورڈ آف گورنرز سے لی گئی تھی بورڈ نے 2016 سے قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا تھا جبکہ کاغذ کی قیمت مسلسل بڑھ رہی تھی 2016 میں ڈالر 75 روپے کا تھا اب 240 روپے تک جا پہنچا پبلشرز کا بھی مطالبہ تھا کہ قیمتیں بڑھائیں کیونکہ پرانی قیمتوں میں کتابیں چھاپنا ممکن نہیں رہا اس کے باوجود ہماری کتابیں آکسفورڈ پریس سے بہت سستی ہیں ہماری کتابیں اب بھی چند سو روپے میں مل رہی ہیں۔
آکسفورڈ کی کتابیں ہزاروں روپے کی ہیں ٹیکسٹ بک بورڈ کتابوں کی بائنڈنگ کے لیے پن کے بجائے درآمد شدہ ہارڈ گلو استعمال کررہا ہے مزید براں انٹر کی کتابوں کی عدم دستیابی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ بارش کے باعث پبلشرز کے کام میں تاخیر ہوئی اب کتابیں آنا شروع ہوگئی ہیں۔