کامیاب پاکستان پروگرام اسمال لون اسکیم میں ضم کردیا گیا
کے پی پی کو وزارت خزانہ جبکہ دیگر پروگراموں کو وزیراعظم آفس سے چلایا جارہا تھا
وفاقی حکومت نے کامیاب پاکستان پروگرام کو دیگر اسکیموں میں ضم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
ایک سینئر اہلکار نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ کامیاب پاکستان پروگرام کی اسٹیئرنگ کمیٹی نے کے پی پی کو اسی نوع کے دیگر پروگراموں میں ضم کردینے کی سفارش کی ہے۔ یہ سفارش وزیرخزانہ کے زیرصدارت ہونے والے اسٹیئرنگ کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا۔
کے پی پی کو ضم کرنے کی سفارش رسمی منظوری کے لیے کابینہ میں پیش کی جائے گی۔ کے پی پی کو وزارت خزانہ جبکہ دیگر پروگراموں کو معاون خصوصی برائے امورنوجوانان کے ذریعے وزیراعظم آفس سے چلایا جارہا تھا۔
وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ کامیاب پاکستان پروگرام کو وزیراعظم '' اسمال لون اسکیم'' میں ضم کردیا گیا ہے۔ سابقہ حکومت نے کسانوں کے لیے 5لاکھ روپے کے بلاسود قرضوں کی منظوری دی تھی اس کے علاوہ حکومت کے پی پی کے تحت گھروں کی تعمیر کے لیے بھی قرضے فراہم کررہی تھی جسے اب بند کردیا جائے گا۔
آئی ایم ایف کے اعتراض کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت نے بلاسود قرضوں کی اسکیم کا حجم 16کھرب روپے سے کم کرکے 228 ارب روپے کردیا تھا۔ تاہم تین برس کے دوران کے پی پی کے مختلف اجزا کے تحت صرف 12 ارب روپے ہی تقسیم کیے جاسکے۔
ایک سینئر اہلکار نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ کامیاب پاکستان پروگرام کی اسٹیئرنگ کمیٹی نے کے پی پی کو اسی نوع کے دیگر پروگراموں میں ضم کردینے کی سفارش کی ہے۔ یہ سفارش وزیرخزانہ کے زیرصدارت ہونے والے اسٹیئرنگ کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا۔
کے پی پی کو ضم کرنے کی سفارش رسمی منظوری کے لیے کابینہ میں پیش کی جائے گی۔ کے پی پی کو وزارت خزانہ جبکہ دیگر پروگراموں کو معاون خصوصی برائے امورنوجوانان کے ذریعے وزیراعظم آفس سے چلایا جارہا تھا۔
وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ کامیاب پاکستان پروگرام کو وزیراعظم '' اسمال لون اسکیم'' میں ضم کردیا گیا ہے۔ سابقہ حکومت نے کسانوں کے لیے 5لاکھ روپے کے بلاسود قرضوں کی منظوری دی تھی اس کے علاوہ حکومت کے پی پی کے تحت گھروں کی تعمیر کے لیے بھی قرضے فراہم کررہی تھی جسے اب بند کردیا جائے گا۔
آئی ایم ایف کے اعتراض کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت نے بلاسود قرضوں کی اسکیم کا حجم 16کھرب روپے سے کم کرکے 228 ارب روپے کردیا تھا۔ تاہم تین برس کے دوران کے پی پی کے مختلف اجزا کے تحت صرف 12 ارب روپے ہی تقسیم کیے جاسکے۔