سندھ میں نیا تعلیمی سیشن درسی کتب 300 فیصد تک مہنگی

مہنگائی کے ستائے والدین اب کتابوں کی قیمتوں میں اضافے کا سامنا کرنے پر مجبور


Safdar Rizvi August 31, 2022
تعلیمی سیشن شروع ہونے کے باوجود انٹرکی بیشتر کتب اب بھی مارکیٹ میں موجود نہیں۔ (فوٹو: فائل)

حکومت سندھ نے سرکاری نصاب کی حامل درسی کتابوں کی قیمتوں کے معاملے پر عوام پر مہنگائی کا پہاڑ توڑ دیا ہے اور محکمہ اسکول ایجوکیشن سندھ کے ماتحت کام کرنیوالے سندھ ٹیکسٹ بورڈ کی جانب سے نئے تعلیمی سیشن 2022 کے لیے شائع کی گئی کتابوں کی قیمتیں 300 فیصد تک بڑھادی گئی ہیں۔

پہلی جماعت سے میٹرک تک کی جو درسی کتب چھاپ کر بازار میں بھیجی گئی ہیں ان کی قیمتوں نے والدین کی کمر توڑ دی ہے اور مہنگائی و بجلی کی قیمتوں کے ستائے والدین اب کتابوں کی قیمتوں میں اضافے کی ایک نئی عفریت کا سامنا کررہے ہیں۔

ادھر انٹر سال اور و دوئم کی بیشتر کتابیں چھاپ کر تاحال مارکیٹ کو فراہم ہی نہیں کی گئی ہیں، ان کتابوں کی قیمتوں میں بھی کئی سو فیصد تک اضافے کا امکان ہے، پہلی بار سندھ کے سرکاری کالجوں میں تعلیمی سیشن بروقت شروع کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو بازار میں انٹرمیڈیٹ کی درسی کتابیں ہی موجود نہیں۔

حکومت سندھ کی جانب سے درسی کتابوں کی قیمتوں میں کئی سو فیصد تک اضافے پر والدین کا کہنا ہے کہ ایک جانب حکومت سندھ سرکاری اسکولوں کے طلبہ کے لیے درسی کتابیں مفت فراہم کرتی ہے اور اس کے لیے اربوں روپے کا بجٹ مختص ہوتا ہے لیکن وہ لاکھوں والدین جو اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں پڑھا رہے ہیں کیا ان کے لیے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کو کتابوں کی قیمتیں نہ بڑھانے کا پابند نہیں کیا جاسکتا یا مارکیٹ کو بھجوائی گئی کتابوں پر زر تلافی نہیں دی جاسکتی جس سے نجی اسکولوں میں پڑھنے والے طلبہ کے والدین کو بھی کچھ سہولت مل سکے۔

"ایکسپریس" نے کتابوں کی قیمتوں کے حوالے سے جب اردو بازار کراچی کے بک سیلرز اور بعض پبلشرز سے رابطہ کیا تو انکشاف ہوا کہ گزشتہ برس والدین جتنی قیمت میں کسی جماعت کا کورس لے کر چلے جاتے تھے اب اتنی رقم میں بمشکل نصف کورس خرید پارہے ہیں۔

اردو بازار ایسوسی ایشن کراچی کے صدر سلیمان جیوانی نے ایکسپریس کو بتایا کہ گذشتہ سال کے مقابلے میں سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی درسی کتابوں کی قیمتیں ڈبل سے بھی زیادہ ہیں،انھوں نے تصدیق کی کہ انٹر سال اول و دوئم کی زیادہ تر کتابیں موجود نہیں ہیں۔

ادھر اردو بازار کراچی کے ایک بک سیلر نے ایکسپریس کو بتایا کہ نویں جماعت کا مکمل کورس جو 1 ہزار روپے کے آس پاس خرید لیا جاتا تھا اب 2 ہزار روپے میں بھی دستیاب نہیں، سندھی کے مضمون کی کتاب 40 روپے سے 100 روپے کردی گئی ہے، مطالعہ پاکستان کی کتاب جو 111 روپے کی تھی اب 260 روپے میں دستیاب ہے، ریاضی کی نویں جماعت کی کتاب 200 روپے سے بڑھا کر 420 روپے کردی گئی ہے، اسی طرح طبعیات کے مضمون کی کتاب 150 سے 300 روپے اور کیمیا کے مضمون کی کتاب 100 روپے سے 256 روپے کی ہوگئی ہے اور یہی صورتحال دیگر جماعتوں کی درسی کتابوں کی ہے۔

واضح رہے کہ ڈائریکٹر جنرل کالجز سندھ کی سفارش پر وزیر تعلیم سندھ نے پہلی بار انٹر سال اول کے داخلے نویں کے نتائج پر دینے کی منظوری دی تھی تاکہ کالجوں میں تعلیمی وقت پر شروع ہوسکے اس فیصلے پر عملدرآمد کے بعد کالجوں میں سیشن تو بظاہر شروع ہوگیا ہے لیکن محکمہ ایجوکیشن کے ذیلی شعبوں میں رابطوں کے فقدان کے سبب طلبہ کی تدریس کے لیے کتابیں موجود نہیں ہیں بتایا جارہا ہے کہ انٹر سال اول کے کچھ مضامین کی کتابیں تبدیل ہوئی ہیں جس کے سبب ان کی بروقت اشاعت نہیں ہوسکی۔

ایکسپریس نے جب سیکریٹری سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ حفیظ مہر سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ قیمتوں میں اضافے کی منظوری بورڈ آف گورنرز سے لی گئی تھی، بورڈ نے 2016 سے قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا تھا جبکہ کاغذ کی قیمت مسلسل بڑھ رہی تھی، ہماری کتابیں آکسفورڈ پریس سے بہت سستی ہیں، ہماری کتابیں اب بھی چند سو روپے میں مل رہی ہیں جبکہ آکسفورڈ کی کتابیں ہزاروں روپے کی ہیں۔

مزید براں انٹر کی کتابوں کی عدم دستیابی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ بارش کے باعث پبلشرز کے کام میں تاخیر ہوئی اب کتابیں آنا شروع ہوگئی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں