پاکستانی دل کھول کر سیلاب زدگان کی مدد کریں
نمائش اور کریڈٹ سے بے نیاز یہ لوگ متاثرین کو ریسکیو کرنے سے لے کر بنیادی ضروریاتِ زندگی فراہم کر رہے ہیں
اس وقت ملک کے حالات یہ ہیں کہ کئی دنوں سے پاکستان کے اکثر علاقے سیلاب میں ڈوبے ہوئے ہیں اور دوسری جانب ہمارے سارے سیاسی لیڈران اپنی سیاست کو سامنے رکھ کر کام کررہے ہیں، کہیں جلسے، کہیں پریس کانفرنسیں۔کون گرفتار ہو گیا، کون گرفتار ہو سکتا ہے، کس کے ساتھ گرفتاری میں کیا سلوک ہوا؟
وغیرہ وغیرہ۔ جب سوشل میڈیا پر ملک کے سنگین حالات آنے شروع ہوئے تو مجبوراََ سیاستدانوں اور میڈیا کو بھی یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ وہ بھی کچھ اعلانات کر دیں، سیلاب زدگان کے لیے درد کا اظہار کریں، اپنی بے حسی کی کچھ پردہ داری کریں اور کچھ وڈیوز اور فوٹو سیشن کرا لیں کہ اگلے الیکشن میں کام آئیں گے۔بلکہ اس حوالے سے دشمن میڈیا (بھارت) کے مشکور ہیں کہ جنھوں نے ہمیں احساس دلایا کہ ہمارے ہاں شدید سیلاب آیا ہوا ہے۔
ایک بھارتی اخبار نے ان الفاظ کے ساتھ رپورٹ شایع کی ہے کہ '' کئی دنوں سے سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں سیلاب کے ہاتھوں مچی شدید تباہ کاریوں کے بعد آخر کار پاکستان غفلت کی نیند سے بیدار ہو ہی گیا''۔ میرے خیال میں تو اس بھارتی اخبار کا ہم پر احسان ہے کہ دشمن ہونے کے با وجود اس نے ہمیں شرمندہ کرنے اور احساس دلانے کی کوشش کی ہے۔
چلو اس برس تو جو ہونا تھا ہو گیا، شاید اگلے سیلاب میں ہمارے لیڈر بہتر طور پر اپنی قوم کے لیے کچھ کر لیں۔خیر بات لمبی ہوگئی مگر آج یہاں بات یہی کرنے کا ارادہ ہے کہ امیر پاکستانیوں کو بھی چاہیے کہ وہ ذاتی حیثیت میں اپنے متاثرہ بھائیوں کی مدد کریں تو یقینا اسی میں بھلائی ہے۔
میرے خیال میں ہمیں ان سیلاب زدگان کی ہر طرح سے مددکرنی چاہیے، یقین مانیں اس وقت ایک لقمہ بھی اندر نہیں جاتا جب یہ سوچ آتی ہے کہ اُن لوگوں کا کیا حال ہوگا جن کے تمام جانور ، فصلیں، گھر بار سب کچھ اُجڑ گیا اور پھر انھوں نے قومی شاہراہوں پر ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ فی الوقت ہمیں گوشت کھانا چھوڑ دینا چاہیے، لوگ لگژری لائف اسٹائل کو ترک کردیں، شادیاں سادگی سے کرنا چاہیے اور بچے ہوئے پیسے سیلاب زدگان کو دیں گے تو میرے خیال میں یہ اُن کے لیے زیادہ نیک عمل ہے۔ بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ 6ستمبر کی تقریبات کو سیلاب زدگان کے لیے فنڈ ریزنگ کے مقاصد کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔
اگر ایسا ہو جائے تو ہمیں باہر سے مدد لینے کی ضرورت ہی نہیں ، اور ویسے بھی باہر سے وصول کی گئی رقوم کے بارے میں ہمارا ماضی بہت داغدار ہے، وہ پیسہ اوپر والے آپس میں ہی بانٹ لیتے ہیں جب کہ غریب کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ یقین مانیں زلزلہ زدگان کے لیے آئے ہوئے کمبل اور دیگر اشیاء کئی سال تک باڑہ مارکیٹ میں فروخت ہوتے رہے۔ ہمیں افسوس سے یہ بات بھی کہنا پڑتی ہے کہ کسی میں اسٹریم سیاسی جماعت کے کارکن سیلاب زدگان کی امداد کے لیے پیش پیش نظر نہیں آرہے۔
تحریک انصاف کے ٹائیگرز نہ کہاں چلے گئے ہیں کیونکہ ان کی ضرورت تو اب ہے کہ وہ سیلاب زدگان کی عملی مدد کے لیے کے باہر نکلیں، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے رہنما اور ورکرز کدھر چلے گئے ہیں، اے این پی اور بلوچستان کے قوم پرست کہاں چلے گئے۔ سیلاب زدگان کی مدد کے لیے جماعت اسلامی اور ٹی ایل پی کے ورکرز گہرے پانیوں میں گہرے لوگوں کو اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال کر محفوظ مقامات تک پہنچا رہے ہیں۔
کہنے کو تحریک انصاف کی ٹائیگر فورس' جمعیت علمائے اسلام کی انصار الاسلام' پیپلزپارٹی کے جیالے اور مسلم لیگ (ن) کے متوالے، عوامی نیشنل پارٹی کے سرخ پوش، بلوچوں کے حق کا نعرہ بلند کرنے والی تنظیمیں موجود ہیں جو اقتدار میں آنے کے لیے سیاسی سرگرمیوں میں تو پیش پیش ہوتے ہیں مگر فلاحی کاموں میں دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔
غیرسرکاری امدادی تنظیمیں' ادارے اور نجی سطح پر لوگوں نے ایثار کی مثال قائم کر دی ہے۔ سماج کے یہ روشن چہرے اْمید کی کرن بن کر متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان پہنچا رہے ہیں۔نمائش اور کریڈٹ سے بے نیاز یہ لوگ متاثرین کو ریسکیو کرنے سے لے کر بنیادی ضروریاتِ زندگی فراہم کر رہے ہیں۔
بہرکیف سیلاب کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں' اب بھی دریائے سوات' پنجگوڑا' دریائے کابل اور دریائے سندھ میں پانی کی سطح بلند ہے۔ ہمیں آگے بڑھنا ہو گا اور ہر شخص کو پاکستان کا عبدالستار ایدھی بننا ہوگا جو کہا کرتے تھے کہ میری ایمبولینس یہ نہیں دیکھتی کہ لاش مسلمان کی پڑی ہے یا ہندو کی۔ وہ صرف یہ دیکھتی ہے کہ سامنے پڑا مردہ انسان ہے! ہمیں بھی ایسی سوچ رکھنے کی ضرورت ہے ورنہ ہم ''رانگ نمبروں'' کے ہاتھوں یونہی ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے ۔
وغیرہ وغیرہ۔ جب سوشل میڈیا پر ملک کے سنگین حالات آنے شروع ہوئے تو مجبوراََ سیاستدانوں اور میڈیا کو بھی یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ وہ بھی کچھ اعلانات کر دیں، سیلاب زدگان کے لیے درد کا اظہار کریں، اپنی بے حسی کی کچھ پردہ داری کریں اور کچھ وڈیوز اور فوٹو سیشن کرا لیں کہ اگلے الیکشن میں کام آئیں گے۔بلکہ اس حوالے سے دشمن میڈیا (بھارت) کے مشکور ہیں کہ جنھوں نے ہمیں احساس دلایا کہ ہمارے ہاں شدید سیلاب آیا ہوا ہے۔
ایک بھارتی اخبار نے ان الفاظ کے ساتھ رپورٹ شایع کی ہے کہ '' کئی دنوں سے سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں سیلاب کے ہاتھوں مچی شدید تباہ کاریوں کے بعد آخر کار پاکستان غفلت کی نیند سے بیدار ہو ہی گیا''۔ میرے خیال میں تو اس بھارتی اخبار کا ہم پر احسان ہے کہ دشمن ہونے کے با وجود اس نے ہمیں شرمندہ کرنے اور احساس دلانے کی کوشش کی ہے۔
چلو اس برس تو جو ہونا تھا ہو گیا، شاید اگلے سیلاب میں ہمارے لیڈر بہتر طور پر اپنی قوم کے لیے کچھ کر لیں۔خیر بات لمبی ہوگئی مگر آج یہاں بات یہی کرنے کا ارادہ ہے کہ امیر پاکستانیوں کو بھی چاہیے کہ وہ ذاتی حیثیت میں اپنے متاثرہ بھائیوں کی مدد کریں تو یقینا اسی میں بھلائی ہے۔
میرے خیال میں ہمیں ان سیلاب زدگان کی ہر طرح سے مددکرنی چاہیے، یقین مانیں اس وقت ایک لقمہ بھی اندر نہیں جاتا جب یہ سوچ آتی ہے کہ اُن لوگوں کا کیا حال ہوگا جن کے تمام جانور ، فصلیں، گھر بار سب کچھ اُجڑ گیا اور پھر انھوں نے قومی شاہراہوں پر ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ فی الوقت ہمیں گوشت کھانا چھوڑ دینا چاہیے، لوگ لگژری لائف اسٹائل کو ترک کردیں، شادیاں سادگی سے کرنا چاہیے اور بچے ہوئے پیسے سیلاب زدگان کو دیں گے تو میرے خیال میں یہ اُن کے لیے زیادہ نیک عمل ہے۔ بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ 6ستمبر کی تقریبات کو سیلاب زدگان کے لیے فنڈ ریزنگ کے مقاصد کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔
اگر ایسا ہو جائے تو ہمیں باہر سے مدد لینے کی ضرورت ہی نہیں ، اور ویسے بھی باہر سے وصول کی گئی رقوم کے بارے میں ہمارا ماضی بہت داغدار ہے، وہ پیسہ اوپر والے آپس میں ہی بانٹ لیتے ہیں جب کہ غریب کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ یقین مانیں زلزلہ زدگان کے لیے آئے ہوئے کمبل اور دیگر اشیاء کئی سال تک باڑہ مارکیٹ میں فروخت ہوتے رہے۔ ہمیں افسوس سے یہ بات بھی کہنا پڑتی ہے کہ کسی میں اسٹریم سیاسی جماعت کے کارکن سیلاب زدگان کی امداد کے لیے پیش پیش نظر نہیں آرہے۔
تحریک انصاف کے ٹائیگرز نہ کہاں چلے گئے ہیں کیونکہ ان کی ضرورت تو اب ہے کہ وہ سیلاب زدگان کی عملی مدد کے لیے کے باہر نکلیں، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے رہنما اور ورکرز کدھر چلے گئے ہیں، اے این پی اور بلوچستان کے قوم پرست کہاں چلے گئے۔ سیلاب زدگان کی مدد کے لیے جماعت اسلامی اور ٹی ایل پی کے ورکرز گہرے پانیوں میں گہرے لوگوں کو اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال کر محفوظ مقامات تک پہنچا رہے ہیں۔
کہنے کو تحریک انصاف کی ٹائیگر فورس' جمعیت علمائے اسلام کی انصار الاسلام' پیپلزپارٹی کے جیالے اور مسلم لیگ (ن) کے متوالے، عوامی نیشنل پارٹی کے سرخ پوش، بلوچوں کے حق کا نعرہ بلند کرنے والی تنظیمیں موجود ہیں جو اقتدار میں آنے کے لیے سیاسی سرگرمیوں میں تو پیش پیش ہوتے ہیں مگر فلاحی کاموں میں دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔
غیرسرکاری امدادی تنظیمیں' ادارے اور نجی سطح پر لوگوں نے ایثار کی مثال قائم کر دی ہے۔ سماج کے یہ روشن چہرے اْمید کی کرن بن کر متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان پہنچا رہے ہیں۔نمائش اور کریڈٹ سے بے نیاز یہ لوگ متاثرین کو ریسکیو کرنے سے لے کر بنیادی ضروریاتِ زندگی فراہم کر رہے ہیں۔
بہرکیف سیلاب کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں' اب بھی دریائے سوات' پنجگوڑا' دریائے کابل اور دریائے سندھ میں پانی کی سطح بلند ہے۔ ہمیں آگے بڑھنا ہو گا اور ہر شخص کو پاکستان کا عبدالستار ایدھی بننا ہوگا جو کہا کرتے تھے کہ میری ایمبولینس یہ نہیں دیکھتی کہ لاش مسلمان کی پڑی ہے یا ہندو کی۔ وہ صرف یہ دیکھتی ہے کہ سامنے پڑا مردہ انسان ہے! ہمیں بھی ایسی سوچ رکھنے کی ضرورت ہے ورنہ ہم ''رانگ نمبروں'' کے ہاتھوں یونہی ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے ۔