ترین آڈیو لیک اور ایک ملک کا تصور
پاکستان کی سلامتی کے ذمے داروں کوبھی اسے نظر انداذ نہیں کرنا چاہیے
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے پ معاہدے کی باضابطہ منظوری دے دی ہے۔لیکن سیاسی صو رتحال نے نئی کروٹ لے لی ہے، نئے سیاسی منظر نامے میں یہ معاہدہ ، ریاست پاکستان، وفاقی حکومت اور مسلم لیگ (ن) کی کامیابی بن گیا ہے لیکن عمران خان اور تحریک انصاف کی بہت بڑی ناکامی بن گیا ہے۔
عمران خان اقتدار سے بے دخل ہوتے ہوتے آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ ڈیل توڑ کر گئے تھے، اسی پر بس نہیں، انھوں نے آخری لمحے تک سرتوڑ کوشش کی ہے کہ یہ ڈیل نہ ہو سکے۔ کہیں نہ کہیں یہ احساس مضبوط ہو گیا ہے کہ عمران خان جانتے تھے کہ اگر موجودہ حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان ڈیل ہو گئی تو ان کی سیاست کو نقصان ہوگا اور انھیں اپنے سیاسی اہداف حاصل کرنے میں ناکامی ہوگی، بہر حال اب ڈیل تو ہو گئی ہے۔
پاکستان میں اپوزیشن نے ہمیشہ حکومت کی عالمی مالیاتی اداروں سے ڈیل کی مخالفت کی ہے۔ موجودہ حکومت بھی جب اپوزیشن میں تھی تو عمران خان حکومت کی آئی ایم ایف سے ڈیل کی مخالفت کرتی تھی۔پارلیمان میں تقاریر بھی کی جاتی تھیں۔ ایسے میں یہ سوال اہم ہے کہ اگر عمران خان ڈیل روکنے کی کوشش کر رہے تھے تو اس میں غلط کیا ہے کیونکہ ماضی میں ہراپوزیشن ایسے ہی کرتی رہی ہے ، اس لیے عمران خان نے ایسا کر لیا ہے تو کونسی قیامت آگئی ہے، اپوزیشن کا کام ہی برسراقتدار حکومت کی مخالفت کرنا ہوتا ہے ، عمران خان وہی کر رہے ہیں۔
نہیں جناب! عمران خان کے کیس میں صورتحال مختلف ہے۔ وہ یہ کام بطور اپوزیشن نہیں کر رہے، انھوںنے آئی ایم ایف سے ڈیل اپنا اقتدار جاتا دیکھ کر بطور وزیر اعظم ہی توڑی ہے۔ اس وقت وہ اپوزیشن میں نہیں تھے بلکہ جس ڈیل پر بطور وزیر اعظم انھوں نے دستخط کیے تھے، پارلیمان سے منظور کرائی تھی، اپنی حکومت ختم ہوتی دیکھ کر خود ہی اس ڈیل کو توڑ کر گئے تاکہ انھیں ریپلیس کرنے والی حکومت شدید معاشی اور مالیاتی بحران میں پھنس جائے لیکن ایسا کرکے انھوں نے ریاست پاکستان کو بھی انتہائی مشکل میں ڈال دیا ، اس لیے دونوں صورتحال میں بہت فرق ہے، عمران خان اور ان کے قریبی ساتھیوں نے جو کچھ کیاہے، اسے برسراقتدار حکومت کی اپوزیشن کرنا نہیں کہا جائے بلکہ سازش ہی کہا جائے گا۔
اس لیے شوکت ترین کی آڈیو لیکس کو بھی آسان نہیں لینا چاہیے۔ شوکت ترین بطور سابق وزیر خزانہ چاہے روزانہ آئی ایم یف کے ساتھ ڈیل کے خلاف پریس کانفرنس کریں، دل کھول کر مخالفت کریں، اس ڈیل کے ملک کو نقصانات سے عوام کو آگاہ کریں ، یہ سب جائز کہلاتا ہے لیکن اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے صوبائی حکومتوں کو وفاقی حکومت کے خلاف استعمال کرنا درست نہیں۔ یہ پاکستان کی سالمیت کے خلاف ایکٹ ہی کہلائے گا۔
ویسے تو شوکت ترین کی آڈیوز پر کوئی تبصرہ کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس میں ساری بات واضح اور دوٹوک ہے کہ جب عمران خان پر دہشت گردی کے مقدمات درج ہو رہے ہیں، اس لیے تحریک انصاف کی صوبائی حکومتوں زبانی کلامی نہیں بلکہ وفاقی حکومت کو باقاعدہ خط تحریر کرکے کہہ دیا جائے کہ ہم معاہدے پر عمل نہیں کریں گے کیونکہ عمران خان پاکستان سے زیادہ اہم ہیں۔ حالانکہ پنجاب کے وزیر خزانہ نے شوکت ترین سے اسی آڈ یو لیک میں سوال بھی کیا ہے کہ اس سے ریا ست پاکستان کو نقصان تو نہیں ہوگا۔ لیکن شاید عمران خان اور شوکت ترین کے لیے ریاست پاکستان سے زیادہ ان کی ذاتی سیاست اور مفادات اہم ہیں۔
کے پی کے وزیر خزانہ نے خط لکھ بھی دیا اور اس کو سوشل میڈیا پر لیک بھی کر دیا تا کہ آئی ایم یف تک پہنچ جائے۔ ویسے آڈیو لیک میں بھی شوکت ترین سوشل میڈیا پر لیک کرنے کی ہی ہدایات دے رہے تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ خط لکھنا کتنا جائز اور کتنا ناجائز ہے۔ تحریک انصاف کی طرف سے خط کے بعد یہ موقف لیا گیا ہے کہ یہ ہماری پالیسی ہے، اب ہم سیلاب کے بعد اس ڈیل کو نہیں مانیں گے۔ تحریک انصاف بطور سیاسی جماعت تو یہ پالیسی رکھ سکتی ہے لیکن وفاق کے ماتحت ایک صوبائی حکومت کیا یہ پالیسی رکھ سکتی ہے؟
کیا کوئی صوبائی حکومت کسی عالمی مالیاتی ادارے کو یہ کہہ سکتی ہے کہ آپ سے وفاقی حکومت نے جو ڈیل کی ہے، میں بطور صوبائی حکومت اس ڈیل کو نہیں مانتی، اس لیے آپ مجھے اس ڈیل سے باہر سمجھیں۔ بطور ایک ملک یہ ممکن نہیں ہے۔ صوبائی خود مختاری جتنی بھی دے دی جائے لیکن وفاق کو عالمی سطح پر اس طرح Dis ownنہیں کیا جا سکتا۔ ایک ملک میں رہتے ہوئے صوبائی حکومتوں کو وفاقی حکومتوں کے معاہدوں سے انحراف کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یہ ایک ملک کے تصور کی نفی ہوگی۔
کیا تحریک انصاف جب عالمی معاہدہ کرتی تھی توبے شک بلاول قومی اسمبلی میں ان معاہدوں کی مخالفت کرتے تھے لیکن پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نے کبھی خط لکھ کر عمران خان کی وفاقی حکومت کو یہ نہیں کہا تھا کہ ہم ان معاہدوں کو نہیں مانتے۔ اس طرح خط لکھ کر کبھی لیک نہیں کیے گئے تھے۔ آصف زرداری اور فریال تالپور گرفتار ہو ئیں لیکن انھوں نے اپنی گرفتاریوں پر سندھ حکومت کو وفاق کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی۔ کیونکہ سب کو علم ہے کہ ا س سے نہ صرف پاکستان کی عالمی سطح پر ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا بلکہ پاکستان کا بطور ایک مقتدر اور بااختیار ریاست قائم رہنا بھی مشکل ہو جائے گا۔
صوبائی حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو اور وفاقی حکومت کسی بھی جماعت کی، انھیں مل کر ہی چلنا ہوتا ہے۔ ایک دوسرے سے تعاون کرنا ہوتا ہے۔ تحریک انصاف یہ کیسے سوچ رہی کہ وہ اپنی صوبائی حکومتوں کو وفاق کے خلاف بغاوت کے لیے استعمال کر لے گی اور اس طرح صوبائی حکومتوں کی بغاوت کے ذریعے وفاقی حکومت کو گرا لے گی۔ وہ شاید وفاقی حکومت کو نہیں وفاق کو گرا لے گی۔ کیا تحریک انصاف یہ کرنا چاہتی ہے کہ کل جب کوئی عالمی مالیاتی ادارہ یا کوئی دوسر املک پاکستان سے کوئی معاہدہ کرنے لگے تو وہ پہلے ہمارے ملک کی صوبائی حکومتوں سے پوچھے کہ کیا وہ اس معاہد ہ کو مانیں گے کہ نہیں۔ پتہ نہیں کب کونسی صوبائی حکومت معاہدے کو ماننے سے انکار کر دے۔
ویسے تو تحریک انصاف کی کے پی اور صوبائی حکومتوں نے وفاق کو لکھ کر دیا ہوا تھا کہ وہ آئی ایم ایف سے ڈیل کو مانتی ہیں۔ اب تو اس سے بھی خطرناک بات کر دی گئی ہے، آپ نے ایک دفعہ لکھ کر دے دیا ہے اور آپ بعد میں اپنے ہی لکھے ہوئے سے مکر جائیں۔ اس کے بعد کیا کسی کو اندازہ ہے کہ عالمی سطح پر کوئی ہماری گارنٹی کو ہی مانے گا۔ کسی کو اندازہ ہے کہ تحریک انصاف اور عمران خان کیا کرنے جا رہے تھے۔ اس سے پاکستان بطور ریاست قائم رہ سکتی ہے؟۔
شوکت ترین کی آڈیو لیک وفاق پاکستان پر حملہ ہے۔ جن لوگوں کا یہ موقف ہے کہ اس میں غیر قانونی کوئی بات نہیں۔ میں حیران ہوں وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ اگر شوکت ترین کی بات کوئی غیر قانونی نہیں تو کل کو وفاق پاکستان کے خلاف کوئی بھی ساز ش غیر قانونی نہیں ہوگی۔ اگر کے پی کے وزیر خزانہ کا خط غیر قانونی نہیں تو کل کو کسی بھی صوبائی حکومت کا وفاق سے بغاوت کرنا غیر قانونی نہیں ہوگا۔ اس لیے میری رائے میں اس معاملے کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی سلامتی کے ذمے داروں کوبھی اسے نظر انداذ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ملکی سالمیت پر حملے سے کم نہیں ہے۔ عمران خان بطور سیاسی لیڈر چاہے خو د اس آئی ایم ایف ڈیل کی مخالفت کریں۔ لیکن اپنی کسی صوبائی حکومت کو وفاق پاکستان کے سامنے کھڑا کرنے کا اختیار انھیں حاصل نہیں ہے۔ ایک نظام حکومت میں صوبائی حکومتوں کو وفاق کے ماتحت ہی کام کرنا ہے۔ وفاقی حکومت پورے پاکستان کی حکومت ہے۔
اسے پچیس کلومیٹر کی حکومت ثابت کرنے کی عمران خان کی کوشش اور بیانیہ ریاست پاکستان کے مفاد نہیں ہے اور نہ ہی آئین پاکستان کسی کو ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس لیے آپ سیاست کریں، اقتدار حاصل کرنے کی خواہش بھی جائز ہے۔ لیکن اس کوشش میں پاکستان کو نقصان پہنچانا اور ایک حد سے آگے چلے جانا کوئی ہوش مندی نہیں ہے۔ کوئی لیڈریا کوئی جماعت حتیٰ کہ پارلیمنٹ، عدلیہ، بیوروکریسی اور فوج تمام ریاست پاکستان سے اوپر نہیں ہیں۔