سماجی علوم پر قدغن

پاکستان تعلیم کے معاملہ میں دنیا بھر سے پیچھے البتہ افغانستان سے آگے ہے


Dr Tauseef Ahmed Khan August 31, 2022
[email protected]

حکومت سندھ نے کالجز میں فرسٹ ایئر میں داخلوں کی پالیسی کا کیا تو پتہ چلا کہ فرسٹ ایئر آرٹس کے شعبہ میں داخلے نہیں ہوںگے۔

نئی داخلہ پالیسی بنانے والے ماہرین نے فیصلہ کیا کہ طلبہ کی اکثریت کمپیوٹر سائنس کی تعلیم کی طرف متوجہ ہورہی ہے ،اس بناء پر آرٹس کی کلاسیں منعقد نہیں ہوںگی۔ یوں اب معاشیات، عمرانیات، سوکس، نفسیات، اردو، انگریزی، جغرافیہ، ایجوکیشن اور تاریخ وغیرہ پڑھنے والے پرائیویٹ امتحان دینگے۔

جب چمپینزی نے موجودہ شکل اختیار کی تو پہلے انسانی زندگی کو بہتر بنانے کی جدوجہد شروع ہوئی۔ انسان نے اس جدوجہد میں زبان کا فن سیکھا، پھر حروف تیار ہوئے۔ انسانوں نے پہلے اپنے جذبات کا اظہار شاعری کی صورت میں کیا، پھر درخت کی چھال اور چمڑہ کے مشکیزہ اور جانوروں کی کھالوں اور پتھروں پر لکھنا سیکھ لیا۔ چینیوں نے کاغذ ایجاد کیا۔ جرمنی میں پرنٹنگ پریس ایجاد ہوا اور کتابیں شایع ہونے لگیں۔ کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے مذہبی کتابوں کی اشاعت شروع ہوئی، پھر دیگر موضوعات پر کتابیں شایع ہونے لگیں۔ عظیم یونانی فلسفی ارسطو اور افلاطون نے مکالموں کے ذریعہ علم پھیلانے کے سلسلے کی بنیاد رکھی تھی۔

انسان نے زبانوں کے علم کے ساتھ منطق کے علم پر توجہ دی۔ منطق کے علم کا مطلب ہر معاملے کا پس منظر اور وجوہات معلوم کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح لوگوں کو فیصلہ کرنے میں آزادی ہوگی۔ اس کے ساتھ ریاضی کا مضمون بھی اہمیت اختیار کرگیا اور یہ بات واضح ہوگئی کہ ترقی کے لیے ریاضی کا علم ضروری ہے۔ یورپ میں Galileoنے دوربین ایجاد کی۔ اس دوربین کے ذریعہ پتہ چلا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ اس تحقیق نے یورپ میںکلیسا کی اجارہ داری کے خاتمے کا آغاز کیا۔ چرچ نے گلیلیو کو پھانسی دیدی لیکن تر قی کا سفر نہ رک سکا۔

برصغیر میں ہزار سال تک تعلیم کے ادارے قائم نہ ہوئے، مغل بادشاہوں کو مقبرے ، باغات اور بڑی بڑی مساجد بنانے کا شوق تھا۔ شاہی خاندان اور درباریوں کے بچے گھروں میں ہی کسی معلم یا اتالیق سے تعلیم لیتے تھے، یہ تعلیم بھی روایتی ہوتی تھی۔ عام شہریوں کو یہ سہولت حاصل نہیں تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدا رمیں آنے کے بعد لارڈ میکالے نے جدید تعلیمی، انتظامی اور عدالتی نظام قائم کیا۔ اس جدید نظام میں زبانوں کا علم، تاریخ، جغرافیہ اور ریاضی کے مضامین کی تدریس لازمی قرار دی گئی، یوں اس نظام نے تعلیم عام کرنے میں بنیادی کردار ادا گیا۔ لارڈ میکالے کے اس نظام کے بارے میں خاصی تنقید ہوتی ہے۔

بعض ناقدین کہتے ہیں کہ اس نظام کے فارغ التحصیل انگریزی ذہنیت کا شکار ہوئے۔ وہ قومی جذبہ کی نفی کرتا ہے۔ ہندوستان کے بٹوارہ کے بعد بھارت میں مولانا ابو الکلام آزاد نئے وزیر تعلیم بنے۔ مولانا ابو الکلام آزاد نے بھارت کو سیکولر اور جدید سائنٹیفک بنیادوں پر استوار کیا اور بہت سے نئے ادارے قائم کیے جنھوں نے مستقبل میں بھارت کی ترقی کے لیے اہم کردار ادا کیا۔

اس نظام میں ادب، تاریخ، جغرافیہ، فلسفہ کے علاوہ نئے سائنسی مضامین، فزکس، کیمسٹری، ایئر سائنس، ایٹمی سائنس، نیوکلیئر فزکس، بزنس ایڈمنسٹریشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسے مضامین کی تدریس شروع ہوئی۔ برطانوی ہند کے نظام کو بھارت اور پاکستان نے Inheretکیا تھا تو برطانیہ میں آئی ٹی، بزنس ایڈمنسٹریشن، اکنامکس، بائیولوجیکل سائنس اور نیوکلیئر سائنس جیسے نئے مضامین رائج ہوئے وہاں طلبہ کا زیادہ جھکاؤ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور بزنس ایڈمنسٹریشن کی طرف رہا مگر سماجی سائنس کے مضامین اپنی جگہ موجود ہیں۔

یونیورسٹیاں اور کاؤنٹی ہمیشہ کی طرح مستحق طلبہ کو وظائف دینے کا اعلان کرتی ہیں۔ 90ء کی دہائی کے بعد اب یورپ اور امریکا میں انسانی حقوق اور جینڈر ایشوز کی تعلیم کی اہمیت بڑھ گئی۔ نئی دنیا کا آغاز گلوبلائزیشن کی صورت میں ہوا۔ گلوبلائزیشن کے مثبت اور منفی اثرات سامنے آئے۔

پہلی سوشلسٹ ریاست سوویت یونین کے آئین میں ہر فرد کو تعلیم ریاست کی ذمے داری قرار پائی تھی مگر سوویت یونین کے بکھر جانے کے بعد گلوبلائزیشن کے ساتھ ریاست کا کردار محدود ہوا۔ تعلیم اور صحت کو بھی بطور پروڈکٹ مارکیٹ سے منسلک کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان مضامین میں طلبہ کی دلچسپی بڑھی۔ ان مضامین کے سند یافتہ طلبہ کا مستقبل روشن ہوگئے مگر وہاں سماجی سائنس کی اہمیت کو برقرار رکھنے کے لیے اقدامات ہوئے۔

پاکستان تعلیم کے معاملہ میں دنیا بھر سے پیچھے البتہ افغانستان سے آگے ہے، اگر سماجی سائنس کے مضامین کی تدریس ختم کردی جائے تو طلبہ زبانوں کے علم سے محروم ہوجائیں گے۔ فرسٹ ایئر میں داخلہ لینے والا نوجوان ذ ہنی طور پر بالکل کورا ہوتا ہے۔ اس کے جسم میں بلوغت کی بناء پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کو اظہار کی ضرورت ہوتی ہے۔ اردو شاعری اظہار کی قوت دیتی ہے۔ اردو نثر میں مضمون ہو یا کہانی یا افسانہ تو نوجوانوں کے ذہنوں کو سوچنے کی طرف مائل کرتا ہے۔

ایک دوسرے کے احساسات کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے، یوں نوجوانوں کے ذہن ارتقاء میں خواہ اردوکا ادب ہو یا سندھی زبان کا ادب اہم کردار ادا کرتا ہے۔ نوجوانوں میں سوکس سینس کے لیے سوکس کے مضمون کی تعلیم ضروری ہے۔ اس مضمون سے نوجوانوں کو خاندان، محلہ ، برادری، معاشرہ، جمہوری رویوں اور برداشت کے بارے میں پتہ چلتا ہے۔ اسی طرح نفسیات کے مضمون کی تعلیم سے نفسیاتی مسائل کے بارے میں شعور آتا ہے۔ نفسیاتی مسائل مسلسل بڑھ رہے ہیں۔

نفسیاتی امراض کا ماہر ڈاکٹر سائیکالوجی کونسلنگ کرنا ہے۔ دواؤں سے علاج کرتا ہے۔ جغرافیہ اور تاریخ کا علم ہر فرد کے لیے ضروری ہے مگر اس فیصلہ کے اور بھی کئی منفی نتائج برآمد ہوںگے۔ جو طلبہ آرٹس کی تعلیم حاصل کرنے کے خواہاں ہیں انھیں پرائیویٹ امتحان دینا ہوگا۔ کالجوں میں ایوننگ سیکشن میں آرٹس کی کلاسیں ہوںگی۔

سماجی سائنسدان زیبسٹ، کلیہ سماجی سائنس کے ڈین ڈاکٹر ریاض شیخ اس فیصلے کا جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے جیسے معاشروں میں جہاں سوسائٹی کوئی نئی تخلیق نہیں کرنا چاہتی وہاں سماجی امور کو نظرانداز کیا جانا ایک بہت اہم سوال ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نئی قائم ہونے والی یونیورسٹیوں میں بھی سارا زور انفارمیشن ٹیکنالوجی اور بزنس ایڈمنسٹریشن کی تعلیم پر ہے حتیٰ کہ میڈیکل یونیورسٹیوں میں بھی بزنس ایڈمنسٹریشن کے کورس شروع کرنا ایک المیہ ہے۔ اس نفسانفسی کے دور میں ڈاکٹروں کو اخلاقی تعلیم کی زیادہ ضرور ت ہے۔ انجینئرنگ کے شعبہ میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی کا تدارک سماجی علوم کی تعلیم سے ہی ممکن ہے۔

ڈاکٹر ریاض کی تجویز ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے طلبہ کے لیے 10فیصد سماجی علوم کا پڑھنا لازمی ہونا چاہیے۔ ابلاغ عامہ کے استاد ڈاکٹر عرفان عزیز کہتے ہیں کہ ریاست کی ترقی کا دارومدار جمہوری نظام کی بالادستی پر ہے۔ سوکس، سیاسیات اور نفسیات جیسے مضامین کی تعلیم حاصل کرنا نوجوانوں کے لیے ضروری ہے تاکہ ان میں جمہوری رویہ پروان چڑھ سکے، اگر ایسا نہ ہوا تو اس کا نقصان جمہوری کلچر کو ہوگا۔ نوجوان اختلافِ رائے اور آزادئ اظہار جیسے جذبات سے محروم ہوجائیں گے۔

سندھ میں تعلیمی پالیسی بنانے والے صاحبانِ علم و دانش کو آرٹس میں داخلوں کے لیے مکمل وظائف کتابوں کی فراہمی کے ساتھ آئی ٹی کے کورسز کے ساتھ منسلک کرنا چاہیے۔ سندھ کی ہر یونیورسٹی میں ہزاروں طالب علم سوشل سائنسز کے شعبوں میں سند حاصل کررہے ہیں جن میں اکثریت خواتین کی ہے۔ یہ طالب علم پرائمری اسکول سے لے کر کالج تک میں طلبہ کو تعلیم دیتے ہیں۔

جب حکومت نے داخلہ بند کردیے تو اس کا مطلب ہے کہ اس فیصلہ سے اساتذہ کی ملازمتیں بہت کم ہوجائیں گی اور شعبہ تعلیم میں مزید بحران پیدا ہوجائے گا۔ یہ کوئی انتظامی مسئلہ نہیں ہے بلکہ تعلیم کے مستقبل کے تناظر میں اہم ترین فیصلہ ہے۔ اس مسئلہ پر سندھ اسمبلی میں سیر حاصل بحث ہونی چاہیے۔ سندھ اسمبلی کے اسپیکر کو رولز آف بزنس میں ترمیم کر کے ماہرین کو مدعو کرنا چاہیے تاکہ ایک جامع پالیسی بن سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں