لاپتہ ملائیشین مسافر طیارہ اور چہ مگوئیاں

1989 میں پاکستان میں گلگت سے اسلام آباد جانے والا فوکر طیارہ اے پی۔ بی بی ایف 5 بھی مسافروں سمیت لاپتہ ہوگیا تھا۔

لاپتہ ملائیشین طیارے کو تلاش کرنے کے لئے دنیا بھر کی ٹیکنالوجی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے. فوٹو: رائٹرز

ملائشین ایئرلائن کے مسافر طیارے کو لاپتہ ہوئے اب 10 روزگزر چکے ہیں لیکن امریکا، چین اور جاپان سمیت دنیا کے 25 بڑے ممالک کے جدید ٹیکنالوجی سے لیس بحری جہاز، درجنوں طیارے اور سیٹلائٹ نظام لاکھ کوششوں کے باوجود یہ پتہ لگانے میں ناکام ہیں کہ آخر طیارے کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ صاحب بہادر امریکا کے مشہور و معروف جریدے وال اسٹریٹ جرنل نے طیارے کو پاکستان میں اغوا کرنے کا شوشا چھوڑ کر مشہوری حاصل کرنے کی بھی کوشش کی۔

لاپتہ ملائیشین طیارے کو تلاش کرنے کے لئے دنیا بھر کی ٹیکنالوجی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے لیکن جہاز ہے کہ ملنے کا نام ہی نہیں لے رہا شاید موصوف نے دنیا کی ٹیکنالوجی سے ناراض ہو کر کسی ویرانے میں ڈیرا ڈال لیا ہے۔

جو چیز پوری دنیا کو حیرت زدہ کئے ہوئے ہے وہ یہ ہے کہ امریکا کی جانب سے کہا گیا کہ طیارہ ریڈار سے رابطہ منقطع ہونے کے بعد بھی گھنٹوں اڑتا رہا لیکن یہ نہیں پتہ چل سکا کہ آخر طیارہ کس دنیا میں سیر و تفریح کر رہا تھا۔ پھر کہا گیا کہ بہت سے مسافروں کے فون نمبرز آن ہیں اور تو اور ان کا سوشل میڈیا پر اسٹیٹس بھی آن رہا لیکن ٹیکنالوجی کے گرو اس جدید دور میں بھی یہ نہ بتا سکے کہ ان لوگوں کا اسٹیٹس دنیا کے کس مقام سے آن لائن ہے۔ چینی ماہرین نے تو سیٹلائٹ کے ذریعے ملائیشین جہاز کا ملبہ بھی دکھا دیا لیکن بعد میں کہا گیا کہ سیٹلائٹ کی مدد سے ملائشین جہاز کے ملبے کی جو تصاویر دکھائی گئیں وہ محظ ایک غلطی تھی۔ جب دنیا بھر کی ٹیکنالوجی نے گھٹنے ٹیک دیئے تو پھر جادوگر حضرات بھی نمبر بڑھانے میدان میں کود پڑے لیکن جب ساحروں کے جادو ٹونے بھی کارآمد ثابت نہ ہوئے تو یہ حضرات بھی منہ کی کھا کر چپ چاپ اپنے گھروں کو ہو لئے۔



دس روز کی ناکام جدوجہد کے بعد ملائشین وزیراعظم نجیب رزاق نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کے 3 سمندر چھان مارے لیکن طیارے کا کچھ پتہ نہیں چلا، سیٹلائٹ سے طیارے کا آخری رابطہ کس وقت ہوا اس جگہ کا بھی تعین نہیں ہو سکا، لہذا یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ طیارے کے ٹرانسپونڈر کو جان بوجھ کر بند کیا گیا ہے۔

یہاں یہ بات یاد رہے کہ جہاز میں موجود بلیک باکس بم پروف ہوتا ہے اور جہاز کے تباہ ہونے کے بعد بھی 30 روز تک ریڈار کو سگنل فراہم کرتا رہتا ہے جس کی مدد سے طیارے کا با آسانی پتہ چلایا جا سکتا ہے لیکن بد قسمت ملائیشین طیارے کا تو شاید بلیک باکس تھا ہی نہیں ورنہ امریکی اور چین ماہرین ابھی تک طیارے کو ڈھونڈ چکے ہوتے۔ طیارے کو ہائی جیک کرنے کی خبریں بھی منظر عام پر آنے لگیں جن میں کہا گیا کہ ریڈار سے رابطہ منقطع ہونے کے بعد بھی طیارہ 4 سے 5 گھنٹے تک فضا میں اڑتا رہا۔ جبکہ امریکی وال اسٹریٹ جرنل نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ طیارے نے 2200 میل کا سفر طے کیا اور یہ فاصلہ پاکستان یا پھر منگولیا تک بنتا ہے، اگر کچھ دیر کے لئے اس خبر کو سچ مان بھی لیا جائے تو اغوا کرنے کے بعد طیارے کو پاکستان کے کسی کونے میں تو اتارا گیا ہو گا یا پھر ہو سکتا ہے کہ پاکستان کے ماہر ہائی جیکرز نے خلائی مخلوق کے ساتھ مل کر طیارے کو اغوا کر کے ان کے ساتھ ہی بھیج دیا ہو۔


پھر یہ بات بھی سامنے آئی کہ طیارے کے پائلٹ نے خود کشی کرلی ہوگی، اگر پائلٹ نے خود کشی کرلی ہے تو طیارے کے ٹکڑے تو ملنے چاہیئے تھے لیکن اس بار بھی طیارہ شاید دنیا کے کسی ایسے حصے میں گرایا گیا جہاں ریڈار کام کرتا اور نہ ہی کوئی سیٹلائٹ سسٹم ہے۔ اور اگر پائلٹ نے طیارے کو کسی سمندر میں غرق کر دیا تھا تو شاید دیو ہیکل وہیل اور شارک مچھلیاں اسے گوشت سمجھ کر کھا گئی ہوں گی۔



بالکل ایسا ہی ایک واقعہ 25 اگست 1989 کو پاکستان میں بھی پیش آیا جب گلگت سے اسلام آباد جانے والا فوکر طیارہ اے پی۔ بی بی ایف 5 اسٹاف ممبران اور 49 مسافروں سمیت لاپتہ ہوگیا اور اس کے بارے میں بھی بہت سی چے مگوئیاں کی گئیں، کبھی کہا گیا کہ طیارہ ہمالیہ سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا اور کبھی کوئی منطق پیش کی گئی لیکن آج تک اس طیارے کا پتہ نہیں چل سکا ہے، پاکستان کے لاپتہ جہاز کے بارے میں تو یہاں تک قصے گڑھے گئے کہ طیارہ کوہ ہمالیہ سے ٹکرانے کے بعد تباہ ہو گیا اور پھر اس کے ٹکرے آسمان سے آکر جنات اپنے ساتھ آسمان پر لے گئے۔

اگر جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی طیارے اسی طرح لاپتہ ہوتے رہے تو پوری دنیا کی سیکیورٹی خطرے میں پڑ جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ اگلا لاپتہ ہونے والا طیارہ امریکی صدر براک اوباما یا اسرائیلی وزیراعظم بنجیمن نیتن یاہو کا ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[poll id="204"]

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story