منفی سوچوں کی حوصلہ افزائی
منفی سوشل میڈیا مہم میں ملوث178 اکاؤنٹس کا تعلق پی ٹی آئی سے نکلا ہے
پاک فوج کے ہیلی کاپٹر حادثے سے قبل ہی منفی سوچوں کے حامل بعض سیاسی کارکنوں نے سوشل میڈیا پر گمراہ کن مہم شروع کر رکھی تھی ، جس میں عمران خان سے متاثر بعض وی لاگرز بھی شامل تھے جن کے سدباب پر توجہ نہیں دی گئی جس کے نتیجے میں منفی سوچ بڑھانے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی رہی اور انھوں نے ہیلی کاپٹر حادثے پر ملک دشمن، منفی سیاست کے فروغ اور غیر ذمے داری کی انتہا کردی۔
جس کے بعد حکومت کو ہوش آیا اور ان گمراہ نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو انھوں نے ٹی وی پر آ کر اپنی غلطیوں کا اعتراف، منفی سوچوں کی وجوہات بتا کر معافیاں مانگنا شروع کر دیں۔ پانی سر سے اونچا ہونے تک ملک کے وہ ادارے خاموش رہے جن کے اقدامات اور فیصلوں سے ہی یہ نوبت آئی مگر گمراہ کن پروپیگنڈے پر قابو پانے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔
گمراہ ہونے والے نوجوانوں نے پکڑ میں آنے کے بعد بتا دیا ہے کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا اور ذمے دار کون ہے۔ ذمے دار کے خلاف بھی اب حکومتی اور عدالتی کارروائیاں عمل میں آچکی ہیں، جس کے نتائج سامنے آئیں گے مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ کیوں شروع ہوا ۔ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ منفی سوشل میڈیا مہم میں ملوث178 اکاؤنٹس کا تعلق پی ٹی آئی سے نکلا ہے۔ کل 1580 میڈیا اکاؤنٹس سے 2350 پوسٹیں کی گئیں جن میں 18 بھارتی اکاؤنٹس بھی شامل ہیں۔ بھارت پاک فوج کے خلاف اس شرم ناک مہم پر بہت خوش ہے۔
ایک بھارتی عہدیدار کے مطابق جو کام بھارت اربوں روپے خرچ کرکے نہیں کرسکا تھا وہ پی ٹی آئی سے منسلک افراد نے کر دکھایا ہے مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین نے اپنی ٹیم کو ایسا کرنے سے منع کیا نہ اس کی مذمت کی بلکہ منفی مہم چلانے والوں کو پنجاب و کے پی کے حکومتوں میں اہم عہدے دلا دیے ہیں جن پر ماہانہ کروڑوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔
یہ بھی درست ہے کہ ایسی منفی مہم چلانے والوں کے پاس یہ جواز موجود ہے کہ متعلقہ اداروں نے اپنے غلط فیصلوں سے انھیں ایسا کرنے کا موقعہ خود دیا ہے مگر وہ اس بات سے بھی بہ خوبی واقف ہیں کہ آئینی طور پر پاک فوج اور عدلیہ کے خلاف خبریں دی جاسکتی ہیں نہ ان پر غیر قانونی تنقید کی جاسکتی ہے۔
عمران خان کے حامی اب جو کچھ کہہ رہے ہیں، اگر اسے تھوڑی دیر کے لیے سچ بھی مان لیا جائے تو کیا ان سے یہ سوال نہیں پوچھا جانا چاہیے کہ آپ کی اپنی سوچ اور نظریات کیا ہیں، کیا کسی کے کہنے پر کسی کے خلاف باتیں کرنا اور اس حد تک چلے جانا کہ قانون کو حرکت میں آنا پڑ گیا، جائز ہے۔
عمران خان کی حکومت میں جن لوگوں کا طرز زندگی شاہانہ ہوا، ان کے پاس باڈی گارڈز آگئے ، مہنگے اور پوش علاقوں میں بنگلے بن گئے ، کیا انھیں یہ سوچنا نہیں چاہیے تھا کہ ان مراعات کی قیمت بھی ادا کرنی ہے ، جتنی بھاری مراعات اتنی بڑی قیمت۔
عمران خان نے اپنے جلسوں میں میں جو کچھ کہہ رہے ہیں، اس کی وجوہات سب کو معلوم ہیں، اسٹیبلشمنٹ سیاست سے لاتعلق ہونے کا اعلان کرکے نیوٹرل ہوگئی تو عمران خان نے جانور، میر جعفر اور میر صادق کی اصطلاحات استعمال کرنا شروع کردیں۔ عمران خان اب بھی نہ صرف ان پر تنقید کر رہے ہیں بلکہ ان پر زور دے رہے ہیں کہ وہ ان کی حمایت میں نیوٹرل نہ رہیں اور انھیں دوبارہ اقتدار دلائیں۔
سابق حکمرانوں کی کرپشن کی فائلیں دکھانے والے چونکہ خود بھی ملک میں جاری سیاسی کرپشن کے خلاف تھے، اسی لیے انھوں نے ایمان داری کے دعوے دار اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرف سے صادق و امین ہونے کے سند یافتہ عمران خان سیتبدیلی اور ترقی کی توقعات وابستہ کرلی ہوں گی مگر نتیجہ ماضی کے حکمرانوں کی پالیسوں سے بھی برا نکلا۔ ب عمران خان نے اپنی حکومت میں سابق مبینہ کرپٹ حکمرانوں کی حکومتوں کا حصہ رہنے والے سیاستدانوں کو ہی اہم عہدے دے دیے تھے اور اپنی حکومت اپنے تمام دوستوں سے بھر دی تھی۔
شہزاد اکبر پر اعتبار کیا گیا کہ وہ کرپشن کرنے والوں کو سزا دلائیں گے لیکن ان کی کارکردگی یہ ہے کہ وہ کسی کو سزا نہیں دلوا سکے بلکہ اب تو وہ ملک سے ہی بھاگ گئے ہیں۔ کیونکہ عمران خان نے اپنی حکومت میں کرپشن کرنے والوں کے عہدے تبدیل کیے مگر سزائیں نہ دیں۔
فواد چوہدری کے بقول الیکشن کمیشن کے 8فیصلوں پر پی ٹی آئی کو ریلیف دیا گیا ۔ وفاقی وزیر احسن اقبال کے مطابق ہمارے رہنماؤں کا طویل ریمانڈ دے دیا جاتا تھا، مہینوں جیلوں میں رکھا جاتا مگر اب پی ٹی آئی اپنے ایک رہنما کے دو روزہ ریمانڈ پر چیخ وپکار کررہی ہے اور عمران خان ریمانڈ دینے والے خاتون جج کو بھرے جلسے میں دھمکا رہے ہیں، نتیجے میں منفی سرگرمیوں میں ملوث افراد کی حوصلہ افزائی ہوئی اور ایسی حوصلہ افزائی کرنے والوں سے مخالف سیاستدان ہی نہیں بلکہ نہ فوج محفوظ ہے نہ عدلیہ۔اب عمران خان توہین عدالت کے کیس میں پیشی بھگت رہے ہیں۔