لیاری کا نوحہ
ہمارے گھر کی صفائی ستھرائی کرنے والی ملازمہ بہت محنتی ہے۔ وقت کی پابندی اس کے خون اور ضمیر میں شامل ہے۔
ہمارے گھر کی صفائی ستھرائی کرنے والی ملازمہ بہت محنتی ہے۔ وقت کی پابندی اس کے خون اور ضمیر میں شامل ہے۔ آندھی چلے یا مینہ برسے کام پر آہی جاتی ہے۔ مگر گزشتہ جمعرات کو جب وہ ہمارے گھر نہ پہنچی تو ہمارا ماتھا ٹھنکا۔ سب سے پہلے ہمارا دھیان اس کے جواں سال بیٹے کی جانب گیا جو علیل ہے۔اس کا یہ بیٹا اس کے متاع حیات ہے۔ ویسے بھی ہر بیٹا اپنی ماں کی آنکھ کا تارا ہوتا ہے ۔ دوپہر گئے ہمارے دروازے کی گھنٹی بجی۔ ہم نے دروازہ کھولا تو وہ دروازے کے باہر کھڑی ہوئی ہانپ اور کانپ رہی تھی اور ایک عجیب طرح کی وحشت اس کے چہرے پر ٹپک رہی تھی۔''خیر تو ہے بہن؟'' ہم نے انتہائی تشویش کے عالم میں سوال کیا۔ اس سے پہلے کہ وہ ہمیں کوئی جواب دیتی ہم نے بے چینی اور بے صبری سے دوسرا سوال داغ دیا۔''تمہارا بیٹا تو خیرت سے ہے؟''''جی ہاں بھائی صاحب اﷲ کا شکر ہے، اسے اب آرام ہے'' اگرچہ ہماری ملازمہ مذہباً ہندو ہے لیکن بات بات پر شکر ادا کرنا اور مصیبت اور پریشانی کی کیفیت میں اﷲ کو یاد کرنا اور اس سے مدد مانگنا اس کے خمیر میں شامل ہے۔''تو پھر آج آنے میں دیر کیوں ہوگئی اور اتنی گھبرائی سی اور پریشان کیوں ہو؟'' ہم نے بے اختیار اگلا سوال کر ڈالا۔''بھائی صاحب کیا بتاؤں ہماری لیاری کا بہت برا حال ہے۔ بس جان پر کھیل کر یہاں تک پہنچی ہوں'' پھر اس کے بعد اس نے لیاری کی جو بپتا سنائی اسے سن کر دل کی تاریخی بپتا یاد آگئی مگر اس بپتا میں اور اس بپتا میں تو زمین و آسمان کا فرق ہے۔ دل کی بپتا کے ذمے دار تو فرنگی تھے جو ظالم اور ستم گر تو تھے ہی مگر سراسر اغیار بھی تھے۔ لیاری کی بپتا کے ذمے داروں کی سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے یہاں اپنے ہی اپنوں کے خون کے پیاسے ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ:ملازمہ کا کہناتھا کہ اس کی گنہگار آنکھوں نے لیاری کے جو خونیں منظر دیکھے ہیں انھیں لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ گویا بہ قول شاعر
آنکھوں جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
خود ہماری آنکھوں نے آزادی کے وقت دلی کے 1947 کے مسلم کش فسادات میں جو روح فرسا اور انسانیت سوز مناظر دیکھے تھے انھیں الفاظ کی صورت میں بیان کرنا ہمارے بس سے باہر ہے مگر خون کی ہولی کھیلنے والے وہ بلوائی تو سب کے سب غیر مذہب سے تعلق رکھتے جب کہ یہاں تو سب کے سب ہم مذہب اور ہم نسل و ہم نشیں ہیں جن میں کچھ پردہ نشین بھی شامل ہیں ۔
'' بہن ایسے حالات میں جان جوکھم میں ڈال کر آنے کی بھلا کیا ضرورت تھی؟'' ہم نے شدید گلہ کرتے ہوئے کہا۔
''آپ ٹھیک بولتے ہو بھائی صاحب مگر دوسروں کا کیا کروں جو ایک دن کی چھٹی پر بھی ناراض ہوجاتے ہیں۔ اگر کمائیں گے نہیں تو بھلا کھائیں گے کہاں سے؟''
ملازمہ کا کہنا حرف بہ حرف بجا تھا۔ تشدد اور لا قانونیت سے نڈھال لیاری بلکہ مجموعی طورپر پورے کراچی کا بہت برا حال ہے۔ اصل مسئلہ عوام کی اس غالب اکثریت کا ہے جو ان محرومی کا شکار لوگوں پر مشتمل ہے جنھیں پانی پینے کے لیے ہر روز ایک نیا کنواں کھودنا پڑتا ہے۔ یہ لوگ ریڑھی لگاتے ہیں، خوانچے لگاتے ہیں اور اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے محنت مزدوری کرتے ہیں، ان میں ہر علاقے، ہر نسل اور ہر زبان بولنے والے محنت کش شامل ہیں جنھیں اگر دن بھر کی مزدوری میسر نہ آئے تو رات کو ان کے چولہے ٹھنڈے پڑے رہ جاتے ہیں یہ بات محض سنی سنائی نہیں ہے بلکہ آئے روز کی آنکھوں دیکھی ہے۔ ہم کراچی کے جس پرانے اور مرکزی علاقے میں رہتے ہیں اس کے ایک بڑے اور مشہور و معروف چوک کے ایک موڑ پر صبح سویرے محنت کشوں کا ایک میلہ لگتاہے اور مزدوری تلاش کرنے والوں کا ایک بازار سجتاہے۔ راج مزدوروں اور بڑھیوں اور ترکھانوں پر مشتمل ان طرح طرح کے کاریگروں کے ساتھ ان میں وہ لوگ بھی بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں جنھیں معاشیات کی اصطلاح میں غیر ہنر مند یا Unskilled مزدور کہا جاتا ہے۔ ان میں بعض کے آگے کدالیں اور پھاؤڑے پڑے ہوئے ہوتے ہیں جب کہ بعضوں کے کندھوں پر بیلچے کھے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ بے چارے صبح سویرے اﷲ بھروسے اپنے اپنے ٹھکانوں پر آکر بیٹھ جاتے ہیں اور ہر آنے جانے والے شخص کو متلاشی نظروں سے تکتے رہتے ہیں گویا دل ہی دل میں کہہ رہے ہوں کہ :
آجا اب تو آجا
مری قسمت کے خریدار
یہ تو صرف روزگار کے ایک ٹھکانے کی بات ہوئی، شہر بھر میں نہ جانے ایسے کتنے اور ٹھکانے ہوں گے جہاں روزی کی تلاش میں آنے والے محنت کش اپنے اپنے گھروں کو چھوڑ کر ڈیرے ڈالتے ہوں گے سیدھی اور صاف سی بات یہ ہے کہ اگر شہر میں امن و امان ہی نہ ہوگا تو پھر روزگار کے مواقعے کہاں سے میسر آئیںگے۔
یوں تو پورے شہر میں لاقانونیت کا راج ہے جسے اگر Rule of Lawlessness کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا لیکن لیاری تو جیسے ایک رستا ہوا ناسور بن چکا ہے، فائرنگ کی گونج کا سنائی دینا اس علاقے کا معمول بن گیا ہے۔ حکومت اور انتظامیہ کی اس ایریا میں عملاً کوئی رٹ نہیں ہے بس رٹ کی محض رٹ ہی باقی رہ گئی ہے، اس گردشی حالات پر رہ رہ کر رونا آتاہے۔ ایک دور وہ بھی تھا جب اس غریب پرور بستی میں محفلیں سجا کرتی تھیں اور رات گئے تک بے نیاز لوگوں کے قہقہے گونجا کرتے تھے اس کے گلی کوچے برقی قمقموں کی روشنیوں سے منور ہوا کرتے تھے کیسے کیسے نام ور کھلاڑی اس عظیم بستی نے پیدا کیے جنھوں نے پوری دنیا میں اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کیا۔ لیاری کے ہیروز کی یہ فہرست اتنی طویل ہے کہ یہ کالم ان کے نام گنوانے کا بھی متحمل نہیں ہوسکتا، ہمارے قلب و ذہن کو اس منحوس خبر سے شدید جھٹکا لگا کہ ایک زور دار بم دھماکے سے بین الاقوامی شہرت کے حامل پاکستان فٹ بال ٹیم کے سابق کپتان مولابخش گوٹائی کا گھر بھی اس بری طرح سے متاثر ہوا کہ اس کی دیواریں گر گئیں۔ یکے بعد دیگرے جنازوں پر جنازے اٹھنے پر ہر طرف کہرام مچ گیا۔
ناگہانی لقمہ اجل بننے والوں میں پاک کالونی گولیماری کی رہائشی پانچویں جماعت کی وہ بد نصیب طالبہ بھی شامل ہے جو اپنی ماں کے ساتھ سینڈل خریدنے کے لیے جھٹ پٹ مارکیٹ آئی ہوئی تھی۔ بد سے بد تر ہوتے ہوئے حالات کے نتیجے میں لوگوں کی بڑی تعداد نقل مکانی پر مجبور ہوگئی ہے جس کے باعث سیکڑوں گھروں کو تالے لگ گئے ہیں۔ متحارب گروہوں کے درمیان عرصہ دراز سے جاری قبضے کی جنگ نے اس نہتے بستے بارونق علاقے کو میدان کار زار بنادیا ہے اور گینگ وار کا مسلسل نشانہ بنا ہوا زندہ دلوں کا مسکن لیاری تباہی و بربادی کے حوالے سے اس وقت بیروت کا منظر پیش کررہا ہے۔ دوسری جانب حکومتی بیانات اور بار بار یقین دہانیوں کا سلسلہ ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ابھی تک اس صورت حال پر قابو پانے میں کامیاب نظر نہیں آرہے اور علاقے کے جرائم پیشہ ڈان بے لگام نظر آرہے ہیں۔ خوف و ہراس کی فضا نے نہ صرف عوام کو بے حوصلہ کردیا ہے بلکہ کاروبار زندگی کو بھی ٹھپ کرکے رکھ دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ حکومت اور انتظامیہ کی بے بسی کب تک یوں ہی جاری رہے گی اور اس کی رٹ کب قائم ہوگی؟کیا گینگسٹرز میں ہونے والی صلح حقیقی ہے یا پھر لیاری کا مقدر لہو لہان ہونا ہے؟
آنکھوں جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
خود ہماری آنکھوں نے آزادی کے وقت دلی کے 1947 کے مسلم کش فسادات میں جو روح فرسا اور انسانیت سوز مناظر دیکھے تھے انھیں الفاظ کی صورت میں بیان کرنا ہمارے بس سے باہر ہے مگر خون کی ہولی کھیلنے والے وہ بلوائی تو سب کے سب غیر مذہب سے تعلق رکھتے جب کہ یہاں تو سب کے سب ہم مذہب اور ہم نسل و ہم نشیں ہیں جن میں کچھ پردہ نشین بھی شامل ہیں ۔
'' بہن ایسے حالات میں جان جوکھم میں ڈال کر آنے کی بھلا کیا ضرورت تھی؟'' ہم نے شدید گلہ کرتے ہوئے کہا۔
''آپ ٹھیک بولتے ہو بھائی صاحب مگر دوسروں کا کیا کروں جو ایک دن کی چھٹی پر بھی ناراض ہوجاتے ہیں۔ اگر کمائیں گے نہیں تو بھلا کھائیں گے کہاں سے؟''
ملازمہ کا کہنا حرف بہ حرف بجا تھا۔ تشدد اور لا قانونیت سے نڈھال لیاری بلکہ مجموعی طورپر پورے کراچی کا بہت برا حال ہے۔ اصل مسئلہ عوام کی اس غالب اکثریت کا ہے جو ان محرومی کا شکار لوگوں پر مشتمل ہے جنھیں پانی پینے کے لیے ہر روز ایک نیا کنواں کھودنا پڑتا ہے۔ یہ لوگ ریڑھی لگاتے ہیں، خوانچے لگاتے ہیں اور اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے محنت مزدوری کرتے ہیں، ان میں ہر علاقے، ہر نسل اور ہر زبان بولنے والے محنت کش شامل ہیں جنھیں اگر دن بھر کی مزدوری میسر نہ آئے تو رات کو ان کے چولہے ٹھنڈے پڑے رہ جاتے ہیں یہ بات محض سنی سنائی نہیں ہے بلکہ آئے روز کی آنکھوں دیکھی ہے۔ ہم کراچی کے جس پرانے اور مرکزی علاقے میں رہتے ہیں اس کے ایک بڑے اور مشہور و معروف چوک کے ایک موڑ پر صبح سویرے محنت کشوں کا ایک میلہ لگتاہے اور مزدوری تلاش کرنے والوں کا ایک بازار سجتاہے۔ راج مزدوروں اور بڑھیوں اور ترکھانوں پر مشتمل ان طرح طرح کے کاریگروں کے ساتھ ان میں وہ لوگ بھی بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں جنھیں معاشیات کی اصطلاح میں غیر ہنر مند یا Unskilled مزدور کہا جاتا ہے۔ ان میں بعض کے آگے کدالیں اور پھاؤڑے پڑے ہوئے ہوتے ہیں جب کہ بعضوں کے کندھوں پر بیلچے کھے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ بے چارے صبح سویرے اﷲ بھروسے اپنے اپنے ٹھکانوں پر آکر بیٹھ جاتے ہیں اور ہر آنے جانے والے شخص کو متلاشی نظروں سے تکتے رہتے ہیں گویا دل ہی دل میں کہہ رہے ہوں کہ :
آجا اب تو آجا
مری قسمت کے خریدار
یہ تو صرف روزگار کے ایک ٹھکانے کی بات ہوئی، شہر بھر میں نہ جانے ایسے کتنے اور ٹھکانے ہوں گے جہاں روزی کی تلاش میں آنے والے محنت کش اپنے اپنے گھروں کو چھوڑ کر ڈیرے ڈالتے ہوں گے سیدھی اور صاف سی بات یہ ہے کہ اگر شہر میں امن و امان ہی نہ ہوگا تو پھر روزگار کے مواقعے کہاں سے میسر آئیںگے۔
یوں تو پورے شہر میں لاقانونیت کا راج ہے جسے اگر Rule of Lawlessness کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا لیکن لیاری تو جیسے ایک رستا ہوا ناسور بن چکا ہے، فائرنگ کی گونج کا سنائی دینا اس علاقے کا معمول بن گیا ہے۔ حکومت اور انتظامیہ کی اس ایریا میں عملاً کوئی رٹ نہیں ہے بس رٹ کی محض رٹ ہی باقی رہ گئی ہے، اس گردشی حالات پر رہ رہ کر رونا آتاہے۔ ایک دور وہ بھی تھا جب اس غریب پرور بستی میں محفلیں سجا کرتی تھیں اور رات گئے تک بے نیاز لوگوں کے قہقہے گونجا کرتے تھے اس کے گلی کوچے برقی قمقموں کی روشنیوں سے منور ہوا کرتے تھے کیسے کیسے نام ور کھلاڑی اس عظیم بستی نے پیدا کیے جنھوں نے پوری دنیا میں اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کیا۔ لیاری کے ہیروز کی یہ فہرست اتنی طویل ہے کہ یہ کالم ان کے نام گنوانے کا بھی متحمل نہیں ہوسکتا، ہمارے قلب و ذہن کو اس منحوس خبر سے شدید جھٹکا لگا کہ ایک زور دار بم دھماکے سے بین الاقوامی شہرت کے حامل پاکستان فٹ بال ٹیم کے سابق کپتان مولابخش گوٹائی کا گھر بھی اس بری طرح سے متاثر ہوا کہ اس کی دیواریں گر گئیں۔ یکے بعد دیگرے جنازوں پر جنازے اٹھنے پر ہر طرف کہرام مچ گیا۔
ناگہانی لقمہ اجل بننے والوں میں پاک کالونی گولیماری کی رہائشی پانچویں جماعت کی وہ بد نصیب طالبہ بھی شامل ہے جو اپنی ماں کے ساتھ سینڈل خریدنے کے لیے جھٹ پٹ مارکیٹ آئی ہوئی تھی۔ بد سے بد تر ہوتے ہوئے حالات کے نتیجے میں لوگوں کی بڑی تعداد نقل مکانی پر مجبور ہوگئی ہے جس کے باعث سیکڑوں گھروں کو تالے لگ گئے ہیں۔ متحارب گروہوں کے درمیان عرصہ دراز سے جاری قبضے کی جنگ نے اس نہتے بستے بارونق علاقے کو میدان کار زار بنادیا ہے اور گینگ وار کا مسلسل نشانہ بنا ہوا زندہ دلوں کا مسکن لیاری تباہی و بربادی کے حوالے سے اس وقت بیروت کا منظر پیش کررہا ہے۔ دوسری جانب حکومتی بیانات اور بار بار یقین دہانیوں کا سلسلہ ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ابھی تک اس صورت حال پر قابو پانے میں کامیاب نظر نہیں آرہے اور علاقے کے جرائم پیشہ ڈان بے لگام نظر آرہے ہیں۔ خوف و ہراس کی فضا نے نہ صرف عوام کو بے حوصلہ کردیا ہے بلکہ کاروبار زندگی کو بھی ٹھپ کرکے رکھ دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ حکومت اور انتظامیہ کی بے بسی کب تک یوں ہی جاری رہے گی اور اس کی رٹ کب قائم ہوگی؟کیا گینگسٹرز میں ہونے والی صلح حقیقی ہے یا پھر لیاری کا مقدر لہو لہان ہونا ہے؟