مال روڈ جو لاہور کی دلہن تھی
لاہور کی سب سے بڑی سڑک مال روڈ کو سرکاری طور پر تو شاہراہ قائداعظم کہا گیا مگر یہ طول طویل نام چل نہ سکا۔
لاہور کی سب سے بڑی سڑک مال روڈ کو سرکاری طور پر تو شاہراہ قائداعظم کہا گیا مگر یہ طول طویل نام چل نہ سکا۔ کئی دوسری سڑکوں کو بھی ایسے ہی بھاری بھر کم ناموں سے موسوم کیا گیا جیسے ایمپریس روڈ کو سر آغا خان دوئم روڈ سے موسوم کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن انگریزوں کے دور کی مال روڈ اور ایمپریس روڈ پرانے سامراجی ناموں سے ہی معروف رہیں۔ انگریزوں کے سنگا پور میں بھی کئی سڑکوں کے انگریزی نام بدلنے کی کوشش کی گئی مگر اس نئے دور کے خوبصورت جزیرے کے بانی مسٹر لی نے کہا کہ یہ پرانے نام تو اس شہر کی تاریخ ہیں اسے بدلا نہیں جا سکتا اگر نئے نام پسند ہیں تو نئی سڑکیں بھی بناؤ اور انھیں اپنے پسندیدہ ناموں سے موسوم کر دو۔ لاہور کی مال روڈ جس کی آرائش اور مضبوطی گورنر سر ریواز اور سر گنگارام نے لاہور کی گرم دوپہروں کو اس سڑک کے ایک ایک انچ کو دیکھ کر طے کی اور یہ فیصلہ کیا کہ کس کس جگہ درخت لگیں گے اور کون سے درخت جیسے وہ کسی دلہن کو سجا رہے ہوں۔ یہ سڑک جو لاہور کے آر پار چلتی ہے اس شہر کو عملاً دو حصوں میں بانٹ دیتی ہے حال ہی میں اس سڑک کو کئی روز تک نرسوں کی بھاری تعداد نے اپنے مطالبات کی تکمیل کے لیے بند کیے رکھا۔
زنانہ پولیس کی لاٹھی چارج دیکھی گئی اور اس لاٹھی والی پولیس پر نرسوں کے جوابی حملے بھی دیکھے گئے اور دونوں کے ایک دوسرے کے بال کھینچتے اور مروڑتے ہوئے بھی ٹی وی نے دکھائے۔ سڑک کی اس بندش کی وجہ سے پورا شہر بھی گھنٹوں بند رہا۔ آدھا لاہور مال روڈ کے ایک طرف دوسرا لاہور دوسری طرف۔ یہ شہر مختصر وقفوں کے لیے حکمرانوں کی آمدورفت کے موقع پر بھی بند کر دیا جاتا ہے اور اس دوران لاہور کے شہری نہ جانے کیا کچھ بڑبڑاتے ہوئے سڑکوں کے کناروں پر کھڑے ہو کر ٹریفک کھلنے کا انتظار کرتے ہیں۔ حکمرانوں کے لیے سڑکیں بند کر دینے کا سلسلہ خاصا پرانا ہے، ایک بار لکھا تھا کہ لوگوں کو اتنا تنگ نہ کیا کریں کہ وہ کسی دن سڑکوں کے کناروں کو چھوڑ کر سڑک کے بیچ میں نہ آ جائیں اور اپنی جگہ حکمرانوں کے راستے بند کر دیں۔ لیکن سیکیورٹی میں حکمرانوں کی زندگی کا راز ہے۔ خدا سیکیورٹی والوں کو سلامت رکھے تاکہ ہمارے حکمران بھی سلامت رہیں اور رعایا کی بہبود کا کچھ سوچ سکیں۔ لاہور میں ان دنوں یوں بھی ٹریفک کا رش رہتا ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ وہ ناکے ہیں جو پولیس وغیرہ نے سڑکوں پر جا بہ جا لگا رکھے ہیں۔ معلوم نہیں ان ناکوں پر کبھی کوئی پکڑا بھی گیا ہے یا نہیں کیونکہ دہشت گرد اتنے احمق نہیں کہ ان ناکوں میں پھنس جائیں لیکن یہ ناکے چلتی ٹریفک کو روک کر چلتی سڑکیں عملاً بند کر دیتے ہیں۔
لاہور کی مال روڈ پر جیسا کہ عرض کیا ہے ہماری نرسوں کے قبضے میں رہی ہے اور چونکہ پنجاب اسمبلی اس سڑک کے وسط میں واقع ہے اور کئی سڑکوں کے سنگھم پر بھی ہے ہر جلسہ جلوس جو مال روڈ پر آتا ہے وہ اسی اسمبلی کے پاس جا کر رکتا ہے یا پھر تھوڑا آگے چل کر گورنر ہاؤس کے سامنے یوں مال روڈ کا کاروبار زیادہ وقت بند ہی رہتا ہے۔ میں نے اس سڑک پر شریفانہ جلوس بھی دیکھے ہیں جو دکانوں کے قریب بھی نہیں پھٹکتے تھے یہ سیاسی جلوس تھے جو بالعموم مال روڈ پر واقع مسجد نیلا گنبد کے سامنے جمع ہوتے اور پھر یہاں سے چند قدم کے فاصلے پر واقعہ مال روڈ پر رواں ہو جاتے۔ ایسا ہی ایک جلوس تھا جو اسمبلی ہال کے سامنے جا کر ختم ہوا اور یہاں سے بکھر کر اس کے شرکاء واپس جانے لگے تو کچھ لوگ خواجہ محمد رفیق کے ہمراہ اسمبلی ہال کے عقب میں واپس جانے لگے تو مخالف پارٹی کے کارکنوں نے ان پر حملہ کر دیا جس میں خواجہ صاحب جیسا پر امن اور ثقہ سیاسی کارکن اور لیڈر شہید ہو گیا۔ میں اس وقت جلوس کی رپورٹنگ کے لیے قریب ہی واقع اپنے دفتر جا رہا تھا کہ کسی نے کہا کہ خواجہ صاحب پر حملہ کر دیا گیا ہے لیکن میرے وہاں پہنچنے تک لوگ خواجہ صاحب کو لے گئے اور اس حادثے کی تصدیق بعد میں ہو سکی۔
اسی سڑک پر ایک جلوس میں نے ائر مارشل اصغر خان کا دیکھا جو ایک جلوس کے آگے اکیلے ہو کر چل رہے تھے تاکہ ہجوم میں ان کو ختم نہ کیا جا سکے اور کوئی بہانہ نہ بن سکے کہ ہجوم میں ہنگامہ ہو گیا تھا جس میں ائر مارشل کو نقصان ہوا۔ اسی سڑک پر میں نے نوابزادہ نصراللہ خان میاں ممتاز دولتانہ مفتی محمود اور نہ جانے کتنے لیڈروں کو پر امن جلوس کی قیادت کرتے دیکھا۔ جماعت اسلامی کا ایک جلوس جو بیڈن روڈ سے گزر کر مال روڈ کی طرف آ رہا تھا یہ اعلان کر رہا تھا کہ دکاندار بے فکر رہیں اور دکانیں بے شک کھلی رکھیں۔ ایسے ہی ایک جلوس کے اختتام پر جب لیڈر تقریریں کر رہے تھے تو میں ایک گاڑی میں بیٹھا تھا۔ پولیس نے آنسو گیس پھینکنی شروع کر دی۔ ایک گولہ موٹر کے اندر میرے قدموں میں آ کر گرا اور اس کے دھوئیں سے گاڑی بھر گئی میری آنکھوں میں گیس سیدھی لگی کہ گولہ میرے پاؤں میں پھٹا تھا۔ اس کے بعد میری آنکھیں بیمار ہو گئیں اور اب تک احتیاط کرتا ہوں۔ تیز روشنی مجھے تنگ کرتی ہے۔ خان ولی خان نے ایک بار کہا کہ وہ بھی تیز روشنی کو برداشت نہیں کر سکتے اور لندن میں ان کے ڈاکٹر نے انھیں کالے چشمے کا مشورہ دیا ہے۔ تم بھی کالا چشمہ اپنے اوپر لازم کر لو۔ اسے بھی آپ مال روڈ کے جلوس کا نتیجہ سمجھ لیں۔
لاہور کی یہ مال روڈ صرف جلسوں جلوسوں کے لیے نہیں یہ اس شہر کی بہت بڑی مقبول عام سیر گاہ تھی جس پر میں نے بڑے بڑے لوگوں کو ٹہلتے دیکھا ہے۔ گورنمنٹ کالج کے پروفیسر سراج اپنی بیگم کے ساتھ روزانہ سیر کو آتے تھے۔ جناب مجید نظامی بھی۔ ادبی دنیا کے مولانا صلاح الدین جن کا دفتر بھی اسی سڑک پر تھا دفتر سے نکل کر یہیں سیر کرتے تھے۔ حفیظ جالندھری جب کبھی لاہور شہر آتے تو ایک آدھ چکر اس سڑک کا بھی لگا لیتے۔ لاہور کی اپر مڈل کلاس کی مرغوب سیر گاہ اس سڑک کا فٹ پاتھ تھا۔ یہ سب پرامن اور خوش و خرم لاہور کی باتیں ہیں۔ جب اس شہر کے فٹ پاتھ بھی قہقہوں اور بے فکرے لوگوں کی سیر گاہ تھے۔ اب تو یہ سڑک ایک بڑا بازار ہے اور جلسے جلوسوں کی گزر گاہ اگرچہ حکومت نے یہاں جلسوں جلوسوں پر پابندی لگا رکھی ہے مگر اس 144 کی کون پروا کرتا ہے، میں نے یہاں نرسوں کے جلوس کے ہاتھوں زنانہ پولیس کو جس طرح پٹتے اور بال کھنچواتے دیکھا ہے، ان کے سامنے حکومتی پابندیاں کیا ہیں۔ اب آپ مال روڈ کے فٹ پاتھ کی سیر گاہ کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ زمانہ بالکل ہی بدل گیا ہے اور مال روڈ اپنی ثقافت سے محروم ایک کاروباری مرکز ہے۔ ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ گرمیوں میں رات کو چار پائی باہر ڈال کر سو جاتے تھے اور صبح بخیر و عافیت اٹھ کر اندر گھر میں آ جاتے تھے مگر اب کہاں۔ اب تو ہماری یہی دہشت زدہ زندگی ہے۔