جمود شکن تحریک ایم کیو ایم

تقسیم ہند کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والا ہمارا وطن اپنے قیام کے بعد سے ہی ایسے طالع آزماؤں کے ہاتھوں...


Wasay Jalil March 17, 2014

KARACHI: تقسیم ہند کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والا ہمارا وطن اپنے قیام کے بعد سے ہی ایسے طالع آزماؤں کے ہاتھوں میں چلا گیا جو نہ صرف عوام کے حقوق سے کھیلتے رہے بلکہ 'تقسیم کرو اور حکومت کرو' کے فارمولے پر انتہائی تیزی کے ساتھ عمل کرتے رہے اور اس طرح کا ماحول پیدا کردیا کہ وطن عزیز پر ایک جمود سا طاری ہوگیا اور یوں اس ملک پر چند سو خاندانوں کی حکومت کا طلسم قائم ہوگیا۔ عوام اسی میں اپنی عافیت سمجھ رہے تھے کہ وہ زندہ رہیں اور سانسیں لیتے رہیں۔ حقوق کا مطالبہ اور زندہ رہنے کا حق مانگنا جرم بنادیا گیا۔ پاکستان کے عوام ایک جمود کا شکار ہو گئے۔ کوئی بھی نظریہ اور کوشش اس لیے کارگر ہوتی نظر نہ آتی تھی کہ یا تو اس تحریک کو چلانے والے نیتوں میں صاف نہ تھے یا پھر انھیں استعماری طاقتوں نے راستے سے ہٹا دیا۔ ملک میں طالع آزماؤں کی حکومتیں مضبوط سے مضبوط ہوتی چلی گئیں اور عوام کا نظریاتی تشخص ابھی بننے بھی نہ پایا تھا کہ بکھر گیا اور یہ قوم کئی نسلوں، کئی لسان اور کئی فرقوں اور مذاہب میں تقسیم ہوگئی۔

اجتماعی طور پر بنیادی حقوق کا تصور مٹ گیا۔ اس جمود زدہ معاشرے کے ٹھہرے ہوئے پانی میں 18 مارچ 1984 کو قائد تحریک الطاف حسین نے ایم کیو ایم کی بنیاد ڈال کر پہلا پتھر مارا۔ وہ نظریہ جس نے کراچی کی مادر علمی میں جنم لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے شہر کراچی، صوبہ سندھ اور پاکستان کے طول و عرض میں پھیلنے لگا۔ آج گلگت، بلتستان اور کشمیر سمیت سندھ کے ساحلوں سے لے کر خیبر پختونخوا کی پہاڑی وادیوں تک یہ نظریہ اپنی آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے۔ یہ اس حقیقت کی زندہ دلیل ہے کہ سچائی اور عملیت پسندی کے تقاضوں پر پورا اترنے والا نظریہ تمام تر مشکلات، مصائب اور تکالیف کے باوجود فروغ پاتا ہے۔ کوئی بھی قوت لاکھ پہرے لگائے لیکن یہ انسانوں کے ذہنوں کو منور کرتا ہے اور ایسے قائد کو دلوں کا حکمراں بنادیتا ہے۔ ایسا ہی کچھ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے ساتھ ہوا۔ ان کے ہزاروں کارکنان نے اپنی جانیں نچھاور کیں۔ سیکڑوں جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ اسیری، تشدد ایم کیو ایم کے کارکنان کا مقدر بنا دیا گیا۔ اس کے باوجود یہ سفر نہ رک سکا۔ یہ استقامت صرف اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ عوام کے حقوق اور زندہ رہنے کے لیے ضروریات کا حصول اس نظریے کے تحت آنے والے نظام میں نظر آتا ہے۔ اسی لیے الطاف حسین کے نظریہ سیاست نے اس تبدیلی کو ممکن کر دکھایا جسے ہم جمود میں رہتے ہوئے شناخت نہیں کر پا رہے تھے۔

یوں قائد تحریک الطاف حسین کی شخصیت اور ایم کیو ایم تبدیلی کی علامت بنے اور سرزمین پاکستان کے نظام پر قائم جمود کو توڑنے کا ذریعہ بنے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ آج پورے ملک میں عوامی نمایندوں کا احتساب ان کی کارکردگی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ گو کہ آج بھی موروثی نظام ، جاگیرداریت، وڈیرہ شاہی اور سرداریت بدستور قائم ہے، لیکن اس حقیقت میں دو رائے نہیں کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی محنت نے اس مضبوط نظام میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔ اب یہ ہم سب کی اجتماعی ذمے داری ہے کہ ملک کو حقیقی جمہوری راستے پر ڈالنے کے لیے اپنی جدوجہد تیز کریں اور اگر ملک کے نظام اور جغرافیہ کے خلاف کوئی قوت اٹھتی ہے تو اس کے خلاف ہر ممکن طاقت کو استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے لیے اگر فوج کو آگے آنا پڑے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ پاکستان میں ایم کیوا یم کے قائد الطاف حسین کی آواز ان ظالموں کے خلاف 2001 میں ہی بلند ہو گئی تھی اور وہ مسلسل اس قوت کو پاکستان کی سا لمیت کے لیے خطرہ سمجھتے تھے اورمسلسل آگاہ کر رہے تھے لیکن پاکستان کے عاقبت نااندیش سیاسی اکابرین اور حکمران ان کا تمسخر اڑاتے رہے لیکن وقت نے ثابت کیا کہ آج وہی عناصر ریاست پاکستان کی تباہی کے خواہاں ہیں۔

اسی سلسلے میں ایم کیو ایم کے زیر اہتمام پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں صوفیائے کرام کانفرنس منعقد کی گئی جو اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب رہی۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ملک کے اندر ایک روشن خیال جمہوری نظام کے لیے سب کو مل جل کر کام کرنا ہوگا۔ تمام سیاسی جماعتیں ایک صف میں کھڑی ہو کر ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا بیڑہ اٹھائیں تو اس کے بعد ممکن ہے کہ افواج پاکستان بھی وطن عزیز کے جغرافیے کی حفاظت کا فریضہ بھی حوصلے سے سرانجام دیں گی اور انھیں اس بات کا یقین ہوگا کہ قوم ان کی پشت پر ہے۔ یہ اس سیاسی جماعت کی تاریخ اور کارکردگی ہے جس کے منتخب نمایندوں نے کراچی، حیدر آباد، میر پورخاص، نواب شاہ اور سکھر میں بلدیاتی نظام کے ذریعے ایسی مثالیں قائم کیں جنھیں دیکھ کر ملک کے دیگر حصوں کے عوام نے بھی اپنے منتخب سیاسی نمایندوں سے نہ صرف سوال کیے بلکہ ان کا احتساب بھی کارکردگی کی بنیاد پر کیا اور یہ الطاف حسین کے نظریے کی سچائی اور کامیابی ہے کہ اب ملک میں رائج جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ، وڈیرانہ نظام کے خلاف آواز بلند ہو رہی ہے۔ اس سے انکار نہیں کہ اس نظام کے خونی پنجوں نے ریاست پاکستان کو اپنے شکنجے میں لے رکھا ہے اور اسی سبب 16 دسمبر 1971 کو وطن عزیز دولخت ہوگیا۔

آج ضرورت امر کی ہے کہ ہم بانیان پاکستان بالخصوص قائداعظم محمد علی جناح کے نظریات اور تصورات کے مطابق پاکستان کی تشکیل نو کریں اور ان تحفظات کو ختم کریں جو پاکستانی قوم کی تشکیل کی راہ میں حائل ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے معاشی وسائل کی تقسیم منصفانہ ہو۔ اٹھارہویں ترمیم کے تحت جو معاملات صوبوں کو منتقل ہوئے ہیں، وہ اختیارات خواہ وہ مالی ہوں یا انتظامی، اسی جذبے کے ساتھ ضلع اور ڈویژنز کو منتقل کیے جائیں تاکہ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کیے جائیں۔ ماضی کی طرح آج بھی ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اور ایم کیو ایم تنقید کی زد پر ہے۔ یہ بات ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ گزشتہ 35 برسوں میں جتنی تنقید ایم کیو ایم اور الطاف حسین پر کی گئی، اس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی لیکن وقت نے یہ ثابت کیا کہ ہر تنقید اور الزام بے بنیاد اور جھوٹا ثابت ہوا۔ آج کے اس مشکل ترین دور میں بھی ایم کیو ایم کے کارکنان اپنے قائد الطاف حسین کی قیادت میں نہ صر ف متحد ہیں بلکہ ان کا یہ عزم صمیم ہے کہ وہ ان کی قیادت میں اپنی منزل مقصود پر ضرور پہنچیں گے اور ملک سے جبر کا نظام ختم کرکے انصاف کا نظام قائم کریں گے، وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائیں گے اور اقتدار کی طاقت سے عوام کو ان کے حقوق دلا کر انھیں بااختیار بنائیں گے۔ آج کا دن تجدید عہد کا دن بھی ہے۔ اس عہد کی تجدید کا دن جسے ہم نے تحریک میں شمولیت کے وقت اختیار کیا۔ آج کا دن ہم کارکنان کے لیے انفرادی احتساب کا بھی دن ہے کہ آیا ہم اپنے فرائض منصبی احساسِ ذمے داری کے ساتھ انجام دے رہے ہیں یا نہیں۔ اس یقین کے ساتھ کہ پاکستان میں رائج جمود جو اب شکستہ ہورہا ہے، وہ ختم ہوگا اور وطن عزیز اس عظیم ریاست کی شکل اختیار کرے گا جس کے لیے برصغیر کے مسلمانوں نے عظیم جدوجہد کی، لاکھوں جانوں کا نذرانہ دیا اور تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت بھی اسی تقسیم کی بنیاد پر برپا ہوئی۔ ہم سب مل کر نہ صرف ان قربانیوں کا تحفظ کریں گے بلکہ ان کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کریں گے۔

(نوٹ: ایم کیو ایم کے تیسویں یوم تاسیس کی مناسبت سے تحریر کیا گیا خصوصی مضمون )

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں