سید علی گیلانی آج بھی زندہ ہیں
سید علی گیلانی 1972، 1977 اور 1987 میں جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے
سید علی گیلانی نے ساری زندگی تحریک آزادی کشمیر کے لیے وقف کر دی تھی۔ انھوں نے زندگی کا ایک بڑا حصہ قید و بند میں گزارا لیکن بھارت کے مظالم ان کی ہمت، حوصلے اور تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ محبت کو کمزور نہیں کر سکے۔ آج جب انھیں دنیا چھوڑے ایک برس ہو گیا ہے لیکن آج بھی سید علی گیلانی کی آواز کشمیر کی وادیوں میں گونجتی سنائی دیتی ہے۔
وہ تحریک آزادی کشمیر کو وہ سمت اور جذبہ دے گئے ہیں جو آج بھی مقبوضہ کشمیر میں پوری آب وتاب سے موجود ہیں۔ سید علی گیلانی کہتے تھے کہ حق کی ہمیشہ جیت ہوتی ہے، باطل چاہے کتنا ہی غالب رہے، آخر کار اسے شکست ہوتی ہے، ان کی یہ بات آج بھی ہر کشمیری کے لیے مشعل راہ ہے۔
سید علی گیلانی 29 ستمبر 1929 کو مقبوضہ کشمیر کے ضلع بارہ مو لہ کی تحصیل بانڈی پورہ کے گاؤں زوریمنج میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم سوپور میں حاصل کی اور پھر اورینٹل کالج لاہور (پاکستان) میں تعلیم حاصل کی۔
ان کی زندگی کا بیشتر حصہ جماعت اسلامی جموں و کشمیر سے وابستہ رہا۔ بعدازاں جدوجہد آزادی کی ضروریات کے پیش نظر انھوں نے اپنی پارٹی تحریک حریت جموں و کشمیر کی بنیاد رکھی جو بعد میں آل پارٹیز حریت کانفرنس (اے پی ایچ سی) کی سرکردہ تنظیم بن گئی۔سید علی گیلانی 1972، 1977 اور 1987 میں جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔جہاں انھوں نے دلیری، بے باکی اور جرات کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے سیاسی، منصفانہ حل اور عوام کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔
سید علی گیلانی نے تادم مرگ کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ پوری شدت سے بلند رکھا۔ بھارت میں بیٹھ کر وہ جتنی قوت سے کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ لگاتے تھے وہ آج بھی ہر کشمیر اورپاکستانی کے دل میں موجزن ہے۔ ان سے جب بھی پوچھا گیا کہ کشمیر کا ان کے نزدیک کیا حل ہے تو ان کا جواب ہوتا، کشمیر کا ایک ہی حل ہے، کشمیر بنے گا پاکستان۔ وہ کہتے تھے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت جب بھی کشمیریوں کو حق رائے دہی ملے گا کشمیری پاکستان کے حق میں رائے دیں گے۔ علی گیلانی نے جس طرح کشمیر بنے گا پاکستان کا پرچم مقبوضہ کشمیر میں اٹھائے رکھا، سب پاکستانی ان کے نہ صرف مقروض ہیں بلکہ وہ صرف کشمیر کے ہی نہیں بلکہ ہمارے بھی قومی ہیرو ہیں۔
سید علی گیلانی نے ہمیشہ تحریک آزادی کشمیر میں جان دینے والے نوجوانوں کو شہید کہہ کر پکارا۔ وہ کشمیر کے نوجوانوں کے دلوں کی دھڑ کن تھے۔آج انھیں ہم سے بچھڑے ایک سال ہو گیا ہے، وہ دونوں اطراف کے کشمیری نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن ہیں۔ ان کی تقاریر اور ان کی تصانیف ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ انھوں نے کشمیر کی تحریک کو وہ سمت دی ہے کہ آج کوئی کوشش کر کے بھی تحریک آزادی کشمیر کی سمت کو تبدیل نہیں کر سکتا۔
بابائے حریت (سید علی گیلانی) کو قربانی کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔ انھوں نے کشمیری عوام کی دینی اور اخلاقی تربیت کا خصوصی انتظام کیا۔ انھوں نے بھارتی حکومت کے تمام منفی پروپیگنڈے کو ناکام کیا۔سید علی شاہ گیلانی ساری زندگی پاکستان کے علمبردار کے طور پر کھڑے رہے۔ انھوں نے حق خود ارادیت کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ الحاق کی بات کی اور کہا کہ ہم اسلام کی بنیاد پر پاکستانی ہیں ''ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے'' سید علی گیلانی کے مشہور نعروں میں سے ایک ہے۔ یہاں تک کہ انھوں نے کشمیر کو پاکستان کا قدرتی حصہ قرار دیا اور کشمیر کو تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا قرار دیا۔
بھارت نے سید علی گیلانی کو پہلے قید و بند سے توڑنے کی کوشش کی لیکن جب کئی سال بعد بھارت کو احساس ہوا کہ علی گیلانی ٹوٹنے والے نہیں ہیں تو نئی دہلی کے بہت سے نمایندوں نے ان سے بار ہا رابطہ کیا اور ان سے کہا کہ وہ اپنے موقف میں لچک لائیں، لیکن وہ اس بات کا اعادہ کرتے رہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہے۔ بھارت کی حکومت نے بہت سے لالچ بھی دیے لیکن انھوں نے ہر پیشکش ٹھکر ادی۔ وہ ثابت قدمی کی وہ مثال ہیں جنھیں جتنا بھی خر اج تحسین پیش کیا جائے کم ہے۔
سید علی شاہ گیلانی کا خیال تھا کہ دنیا کے کسی بھی ملک کی عملی حمایت تحریک مزاحمت کو میسر نہیں، اس لیے عوامی مزاحمت کو مضبوط بنایا جانا چاہیے تاکہ دنیا کو اس تحریک کے بارے میں باور کرایا جا سکے کہ جموں و کشمیر ایک متنازعہ ریاست ہے۔ جو بھارت کے فوجی قبضے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ اسی لیے انھوں نے عوامی جدو جہد میں کشمیر میں بھارتی تسلط کے خلاف ہڑتالوں اور انتہائی موثر احتجاجی مظاہروں، ریلیوں،مظاہروں کا آغاز کیا۔ان کی عوامی جدو جہد میں کشمیریوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ان کی ایک آواز پر کشمیر میں ہڑتال ہو جاتی ۔ ان کی عوامی جدو جہد نے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر زندہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
بھارتی حکومت نے ان کا پاسپورٹ 1981 میں ضبط کر لیا تھا۔ انھیں 2006 میں حج کے سواکبھی بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔2006 میں انھیں گردے کے کینسر کا مرض لاحق ہوا۔ ڈاکٹروں نے بیرون ملک سے ان کا علاج تجویز کیا تو بھارتی حکام نے سید علی گیلانی کا پاسپورٹ ان کے بیٹے کو واپس کر دیا۔ 2007 میں ان کی حالت خراب ہونے پر ڈاکٹروں نے سرجری کا مشورہ دیا جو صرف برطانیہ یا امریکا میں ہی ممکن تھا لیکن اس وقت امریکی حکومت نے ان کی ویزا کی درخواست مسترد کر دی تھی۔تاہم بھارتی حکومت انھیں پاکستان آنے کی اجازت نہیں دی۔
سید علی گیلانی کو 2010 میں ایک بار پھر بھارتی حکومت نے حراست میں لے لیا تھا۔ 6 مارچ 2014 کو انھیں سینے میں شدید انفیکشن ہوا۔ مئی 2015 میں اس نے سعودی عرب میں اپنی بیٹی سے ملنے کے لیے پاسپورٹ کے لیے درخواست دی، لیکن نریندر مودی کی قیادت میں فاشسٹ بھارتی حکومت نے انھیں پاسپورٹ جاری کرنے سے انکار کر دیا۔
2014 میں جب نریندر مودی نے اقتدار سنبھالا تو کشمیر کے حوالے سے رویہ سخت ترین ہو گیا۔ اے پی ایچ سی نے محسوس کیا کہ بھارت صرف بات چیت کے ذریعے وقت حاصل کرنا چاہتا ہے، لہٰذا تحریک آزادی کشمیر کے تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول میر واعظ عمر فاروق، یاسین ملک اور سید علی شاہ گیلانی بھارتی حکومت کی سازشوں کے خلاف ایک پیج پر آگئے۔مودی حکومت نے گیلانی کی حیدر پورہ رہائش گاہ کو سب جیل قرار دے دیا اور ان کی آزادانہ نقل و حرکت، تقریر پر مکمل پابندیاں عائد کر دیں جو ان کی موت تک نافذ رہی۔
دنیا نے دیکھا کہ بھارت کی نام نہاد جمہوریت نے ایک 92 سالہ شخص کو جو کئی دائمی اور جان لیوا امراض کا مریض تھا، قیدرکھا، اور اسے آخری سانس تک قید رکھا گیا۔ اسی لیے وہ تحریک آزادی کشمیر کے سب سے بڑے شہید ہیں۔ سید علی گیلانی نے مقبوضہ کشمیر میں بے مثال سیاسی کردار ادا کیا۔ انھوں نے ہمیشہ انسانیت کا احترام کرنے کا درس دیا ہے۔
ان کی میت کو پاکستانی پرچم میں لپیٹا گیا اور جنازے میں جانے والوں نے آزادی اور پاکستان کے حق میں نعرے لگائے تو بھارتی فورسز نے آدھی رات کو رہائش گاہ پر دھاوا بولا، اہل خانہ کو تشدد کا نشانہ بنایا اور لاش کو زبردستی چھین لیا۔ ان کے اپنے خاندان کو بھی ان کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔
سید علی گیلانی کی جبری تدفین کے بعد سری نگر کے علاقے نواں بازار میں کشمیری نوجوانوں اور بھارتی فورسز کے اہلکاروں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔ مودی کی زیرقیادت فاشسٹ حکومت کی جانب سے لوگوں کو اپنے محبوب رہنما کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہ دینے کے بعد بڑی تعداد میں سڑکوں پر بھارتی فوجیوں اور پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں۔ تجزیہ کاروں نے کہا کہ اگر بھارت بندوق کی نوک پر لوگوں کو گھروں کے اندر رہنے پر مجبور نہ کرتا تو یہ جموں و کشمیر کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ ہوتا۔علی گیلانی اپنی بے مثال جد وجہد کی وجہ سے آج بھی زندہ ہیں۔وہ ہم سب کے ہیرو ہیں۔