گورنس اور موسمیاتی تبدیلیاں
معاشی بحران کے بعد ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے ایک بڑا چیلنج بن سکتے ہیں
حالیہ سیلاب پاکستان اور قوم کے لیے ایک بہت بڑی آزمائش بن چکا ہے۔ سندھ، بلوچستان، جنوبی پنجاب اور خیبرپختونخوا میں سیلاب سے ہونے والی تباہی نے 1947 کی ہجرت کے دردناک مناظر کو دہرا دیا۔ اس وقت سیلاب اور بارشوں سے 80 فیصد ملک مکمل طور پر ڈوب چکا ہے۔ اب تک ملک بھر میں کم از کم 1350 افراد جان کی بازی ہار گئے جب کہ زخمی ہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ملک بھر میں 50 لاکھ گھر مکمل طور پر تباہ ہوئے جس سے کم از کم 3 کروڑ 50 لاکھ افراد براہ راست متاثر ہوئے اور 10 لاکھ جانور سیلاب میں بہہ گئے۔ حالیہ سیلاب سے اب تک ہونی والی تباہی کا ابتدائی تخمینہ 10 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔
سب سے زیادہ تباہی بلوچستان میں ہوئی جہاں کئی دیہات صفحہ ہستی سے ہی مٹ گئے۔ بلوچستان میں غربت اور وسائل کی کمی کی وجہ سے آبادی کی اکثریت کے پاس مٹی اور گارے سے بنے ہوئے کچے گھر تھے جو بارشوں اور سیلابی ریلے میں مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ اس وقت بلوچستان کا پاکستان سے بذریعہ ریل اور زمینی رابطہ مکمل طور پر کٹ چکا ہے۔
بلوچستان کے بعد سب سے زیادہ تباہی سندھ میں ہوئی جہاں ابھی تک قریباً 20 اضلاع میں کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہوا ہے۔ تباہی کا درست تخمینہ تو شائید لگانا ممکن نہ ہو لیکن صرف سندھ میں 90 فیصد فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔ پنجاب میں سب سے زیادہ تباہی جنوبی پنجاب کے اضلاع ڈی جی خان، لیہ، میانوالی اور راجن پور میں ہوئی۔
اس وقت پاکستان کو دہرے عذاب کا سامنا ہے ایک طرف تو 3 کروڑ 50 لاکھ سیلاب متاثرین کے لیے ریلیف اور آباد کاری دوسری طرف زرعی رقبے اور فصلوں کی تباہی سے آنے والے دنوں میں بڑے پیمانے پر خوراک کے بحران کا بھی سامنا۔ حالیہ سیلاب کی شدت اور تباہی 2010 کے سیلاب سے بہت زیادہ تھی۔
اس مرتبہ سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ 2010 کا سیلاب دریاؤں اور ڈیمز میں زیادہ پانی آنے کی وجہ سے آیا۔ 2010 کے سیلاب کا رخ بھی دریاؤں کے گرد آباد بستیاں اور شہر تھے لیکن اس مرتبہ بلوچستان اور خاص طور پر جنوبی پنجاب میں آنے والے سیلاب کی بڑی وجہ غیر معمولی بارشیں اور فلیش فلڈنگ تھی۔ 2010 میں بالائی علاقوں سے زیریں علاقوں تک سیلابی ریلے پہنچنے میں 12 سے 15 روز لگے، جس سے نہ صرف بروقت پیشگی اقدامات کرنے کا موقع مل گیا بلکہ پیشگی وارننگ کی وجہ سے دریاؤں کے گرد موجود بہت ساری آبادیوں کے بروقت انخلا سے بہت بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان سے بچت ہو گئی۔ حالیہ سیلاب کا پیٹرن 2010 سے بالکل مختلف ہے۔ اس مرتبہ معمول کے پیٹرن سے باکل ہٹ کر بلوچستان میں اتنی زیادہ بارش ہوئی جس نے ماضی کے سارے ریکارڈ تو دیے۔
ماحولیاتی ماہرین کے مطابق بلوچستان میں سیلاب غیر معمولی بارشوں، فلیش اور اربن فلڈنگ کی وجہ سے آیا۔ اسی طرح ماضی کے برعکس سندھ میں بھی صرف دو روز کے اندر 1300 ملی میٹر بارش نے ہر طرف تباہی پھیر دی۔ خیبر پختونخوا کے اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان، چارسدہ اور نوشہرہ میں دریائے کابل اور دریائے سوات کے بپھرنے سے تباہی ہوئی جب کہ جنوبی پنجاب کے اضلاع میں کوہ سلیمان کے پہاڑوں سے آنے والے سیلابی ریلوں نے تباہی مچائی۔ اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی سے نمٹنا صوبوں کے لیے تو دور کی بات مرکزی حکومت کے بس میں بھی نہیں۔ پاکستان کو ایمرجنسی بنیادوں پر بین الاقوامی برادری کی مدد کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری نے صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے عالمی برادری سے پاکستان کے لیے ہنگامی طور پر مدد کی اپیل کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قوم کے لیے بہت مشکل گھڑی ہے لیکن 2005 کا زلزلہ ہو یا 2010 کا سیلاب ہماری قوم نے ہمیشہ ایثار اور قربانیوں کی وہ داستانیں رقم کی ہیں جنکی مثال کہیں نہیں ملتی۔ اس مرتبہ پھر ہماری قوم کسی نہ کسی طرح مصائب اور مشکلات کا سامنا کر کے پاؤں پر کھڑی ہونے میں کامیاب ہو جائے گی۔سب سے تشویشناک پہلو جس کی طرف شاید بہت کم لوگوں کا دھیان ہے وہ موسمیاتی تبدیلی ہے جو ایک خون آشام عفریت کے مانند منہ کھولے بہت تیزی سے ہماری طرف بڑھ رہی ہے۔ حالیہ غیر متوقع بارشوں اور سیلاب کی اصل وجہ بھی موسمیاتی تبدیلی ہی ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلی سے شدید طور پر متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں 8 واں نمبر ہے۔ سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس ماحولیاتی بدلاؤ اور گلوبل وارمنگ کی وجہ بننے والے عوامل میں پاکستان کا کردار ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
یعنی دنیا کے 5 بڑے صنعتی ممالک جو مل کر دنیا بھر میں کاربن کا 90 فیصد حصہ پیدا کرتے ہی جو اوزون کی پرتوں کی تباہی کا باعث بن رہا ہے جس سے سورج کی الٹرا وائلٹ شعاعیں براہ راست زمین پر پڑتی ہیں جو عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ بنتا ہے جس کی وجہ سے گلیشئیر تیزی سے پگھلتے ہیں۔ ان پگھلے ہوئے گلیشیئرز کا پانی سیلاب بن کر تباہی مچاتا ہوا پاکستان کے شمالی علاقہ جات سے نکلتا ہے اور بربادی کی داستانیں رقم کرتا کوٹری بیراج سے بحیرہ عرب میں جاگرتا ہے، یعنی ترقی یافتہ صنعتی ممالک کی ماحول سے چھیڑ چھاڑ کا نتیجہ پاکستان جیسے تھرڈ ورلڈ ممالک سب سے زیادہ بھگت رہے ہیں۔
ہماری سیاسی قیادت کو اگر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور سیاسی لڑائی سے فرصت ملے تو ذرا عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کر بیدار کرنے کی کوشش کریں کہ بھیا آخر ہمارا کیا قصور تھا جو غربت اور افلاس سے ماری قوم کی ننگی کمر پر سیلابی پانی کے تھپیڑے بھی برسا دیے؟ عالمی ضمیر کو جگانے کے لیے ہمارے پاس لے دے کر 2015 میں ہوا پیرس معاہدہ ہے جس پر دنیا بھر کے 196 ممالک کے دستخط ہیں۔ پیرس معاہدے کی رو سے 2100 کے آغاز تک عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری کمی لائی جائے گی اور 2050 تک کاربن کا اخراج صفر پر لایا جائے گا۔
سوال یہ ہے کیا ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سیلاب اور آفتوں کا سامنا کرنے والے پاکستان جیسے ممالک کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھے رہیں کہ کب بڑے کاربن کا اخراج کرنے والے بڑے صنعتی ممالک اپنی صنعتوں کو گرین انرجی پر منتقل کریں اور اس مصیبت سے ہماری جان چھوٹے؟ اس مرتبہ حکومت نے عقلمندی کا مظاہرہ کیا اور بروقت خوراک کے ممکنہ بحران کو بھانپتے ہوئے سفارتی بحران کے باوجود ہنگامی طور پر سبزیاں درآمد کرنے کا فیصلہ کیا، اگر خطے کے ممالک کو صرف ماحولیاتی تبدیلی کے ایک نکاتی ایجنڈے پر یکجا کر کے سارک کو بحال کیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہ ہو گا۔
یہ کہنا غلط نہیں کہ اس وقت معاشی بحران کے بعد ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے ایک بڑا چیلنج بن سکتے ہیں اور یہ قومی سلامتی کا وہ غیر روایتی چیلنج ہے جس کا سامنا ہم تن تنہا کسی صورت نہیں کر سکتے۔
سب سے زیادہ تباہی بلوچستان میں ہوئی جہاں کئی دیہات صفحہ ہستی سے ہی مٹ گئے۔ بلوچستان میں غربت اور وسائل کی کمی کی وجہ سے آبادی کی اکثریت کے پاس مٹی اور گارے سے بنے ہوئے کچے گھر تھے جو بارشوں اور سیلابی ریلے میں مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ اس وقت بلوچستان کا پاکستان سے بذریعہ ریل اور زمینی رابطہ مکمل طور پر کٹ چکا ہے۔
بلوچستان کے بعد سب سے زیادہ تباہی سندھ میں ہوئی جہاں ابھی تک قریباً 20 اضلاع میں کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہوا ہے۔ تباہی کا درست تخمینہ تو شائید لگانا ممکن نہ ہو لیکن صرف سندھ میں 90 فیصد فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔ پنجاب میں سب سے زیادہ تباہی جنوبی پنجاب کے اضلاع ڈی جی خان، لیہ، میانوالی اور راجن پور میں ہوئی۔
اس وقت پاکستان کو دہرے عذاب کا سامنا ہے ایک طرف تو 3 کروڑ 50 لاکھ سیلاب متاثرین کے لیے ریلیف اور آباد کاری دوسری طرف زرعی رقبے اور فصلوں کی تباہی سے آنے والے دنوں میں بڑے پیمانے پر خوراک کے بحران کا بھی سامنا۔ حالیہ سیلاب کی شدت اور تباہی 2010 کے سیلاب سے بہت زیادہ تھی۔
اس مرتبہ سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ 2010 کا سیلاب دریاؤں اور ڈیمز میں زیادہ پانی آنے کی وجہ سے آیا۔ 2010 کے سیلاب کا رخ بھی دریاؤں کے گرد آباد بستیاں اور شہر تھے لیکن اس مرتبہ بلوچستان اور خاص طور پر جنوبی پنجاب میں آنے والے سیلاب کی بڑی وجہ غیر معمولی بارشیں اور فلیش فلڈنگ تھی۔ 2010 میں بالائی علاقوں سے زیریں علاقوں تک سیلابی ریلے پہنچنے میں 12 سے 15 روز لگے، جس سے نہ صرف بروقت پیشگی اقدامات کرنے کا موقع مل گیا بلکہ پیشگی وارننگ کی وجہ سے دریاؤں کے گرد موجود بہت ساری آبادیوں کے بروقت انخلا سے بہت بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان سے بچت ہو گئی۔ حالیہ سیلاب کا پیٹرن 2010 سے بالکل مختلف ہے۔ اس مرتبہ معمول کے پیٹرن سے باکل ہٹ کر بلوچستان میں اتنی زیادہ بارش ہوئی جس نے ماضی کے سارے ریکارڈ تو دیے۔
ماحولیاتی ماہرین کے مطابق بلوچستان میں سیلاب غیر معمولی بارشوں، فلیش اور اربن فلڈنگ کی وجہ سے آیا۔ اسی طرح ماضی کے برعکس سندھ میں بھی صرف دو روز کے اندر 1300 ملی میٹر بارش نے ہر طرف تباہی پھیر دی۔ خیبر پختونخوا کے اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان، چارسدہ اور نوشہرہ میں دریائے کابل اور دریائے سوات کے بپھرنے سے تباہی ہوئی جب کہ جنوبی پنجاب کے اضلاع میں کوہ سلیمان کے پہاڑوں سے آنے والے سیلابی ریلوں نے تباہی مچائی۔ اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی سے نمٹنا صوبوں کے لیے تو دور کی بات مرکزی حکومت کے بس میں بھی نہیں۔ پاکستان کو ایمرجنسی بنیادوں پر بین الاقوامی برادری کی مدد کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری نے صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے عالمی برادری سے پاکستان کے لیے ہنگامی طور پر مدد کی اپیل کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قوم کے لیے بہت مشکل گھڑی ہے لیکن 2005 کا زلزلہ ہو یا 2010 کا سیلاب ہماری قوم نے ہمیشہ ایثار اور قربانیوں کی وہ داستانیں رقم کی ہیں جنکی مثال کہیں نہیں ملتی۔ اس مرتبہ پھر ہماری قوم کسی نہ کسی طرح مصائب اور مشکلات کا سامنا کر کے پاؤں پر کھڑی ہونے میں کامیاب ہو جائے گی۔سب سے تشویشناک پہلو جس کی طرف شاید بہت کم لوگوں کا دھیان ہے وہ موسمیاتی تبدیلی ہے جو ایک خون آشام عفریت کے مانند منہ کھولے بہت تیزی سے ہماری طرف بڑھ رہی ہے۔ حالیہ غیر متوقع بارشوں اور سیلاب کی اصل وجہ بھی موسمیاتی تبدیلی ہی ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلی سے شدید طور پر متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں 8 واں نمبر ہے۔ سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس ماحولیاتی بدلاؤ اور گلوبل وارمنگ کی وجہ بننے والے عوامل میں پاکستان کا کردار ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
یعنی دنیا کے 5 بڑے صنعتی ممالک جو مل کر دنیا بھر میں کاربن کا 90 فیصد حصہ پیدا کرتے ہی جو اوزون کی پرتوں کی تباہی کا باعث بن رہا ہے جس سے سورج کی الٹرا وائلٹ شعاعیں براہ راست زمین پر پڑتی ہیں جو عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ بنتا ہے جس کی وجہ سے گلیشئیر تیزی سے پگھلتے ہیں۔ ان پگھلے ہوئے گلیشیئرز کا پانی سیلاب بن کر تباہی مچاتا ہوا پاکستان کے شمالی علاقہ جات سے نکلتا ہے اور بربادی کی داستانیں رقم کرتا کوٹری بیراج سے بحیرہ عرب میں جاگرتا ہے، یعنی ترقی یافتہ صنعتی ممالک کی ماحول سے چھیڑ چھاڑ کا نتیجہ پاکستان جیسے تھرڈ ورلڈ ممالک سب سے زیادہ بھگت رہے ہیں۔
ہماری سیاسی قیادت کو اگر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور سیاسی لڑائی سے فرصت ملے تو ذرا عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کر بیدار کرنے کی کوشش کریں کہ بھیا آخر ہمارا کیا قصور تھا جو غربت اور افلاس سے ماری قوم کی ننگی کمر پر سیلابی پانی کے تھپیڑے بھی برسا دیے؟ عالمی ضمیر کو جگانے کے لیے ہمارے پاس لے دے کر 2015 میں ہوا پیرس معاہدہ ہے جس پر دنیا بھر کے 196 ممالک کے دستخط ہیں۔ پیرس معاہدے کی رو سے 2100 کے آغاز تک عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری کمی لائی جائے گی اور 2050 تک کاربن کا اخراج صفر پر لایا جائے گا۔
سوال یہ ہے کیا ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سیلاب اور آفتوں کا سامنا کرنے والے پاکستان جیسے ممالک کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھے رہیں کہ کب بڑے کاربن کا اخراج کرنے والے بڑے صنعتی ممالک اپنی صنعتوں کو گرین انرجی پر منتقل کریں اور اس مصیبت سے ہماری جان چھوٹے؟ اس مرتبہ حکومت نے عقلمندی کا مظاہرہ کیا اور بروقت خوراک کے ممکنہ بحران کو بھانپتے ہوئے سفارتی بحران کے باوجود ہنگامی طور پر سبزیاں درآمد کرنے کا فیصلہ کیا، اگر خطے کے ممالک کو صرف ماحولیاتی تبدیلی کے ایک نکاتی ایجنڈے پر یکجا کر کے سارک کو بحال کیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہ ہو گا۔
یہ کہنا غلط نہیں کہ اس وقت معاشی بحران کے بعد ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے ایک بڑا چیلنج بن سکتے ہیں اور یہ قومی سلامتی کا وہ غیر روایتی چیلنج ہے جس کا سامنا ہم تن تنہا کسی صورت نہیں کر سکتے۔