یہ انداز خسروی کیا ہے
تھر کے سانحے سے متعلق اُس گندم کے بارے میں بہت سے لوگوں کی زبانی بہت کچھ کہا گیا جو حکومت سندھ نے...
تھر کے سانحے سے متعلق اُس گندم کے بارے میں بہت سے لوگوں کی زبانی بہت کچھ کہا گیا جو حکومت سندھ نے وہاں کے قحط زدہ لوگوں میں تقسیم کے لیے بھیجی تھی مگر جو مقامی متعلقہ ذمے داروں کی غفلت کی وجہ سے متاثرہ لوگوں میں تقسیم نہ کی جاسکی۔ مجھے تعجب ہے کہ کسی نے بھی اس بارے میں یہ کیوں نہیں سوال اٹھایا کہ وہاں گندم کیوں بھیجی گئی؟ پسی ہوئی گندم یعنی آٹا کیوں نہیں بھیجا گیا؟ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے، گندم، چاول کی طرح ابال کر نہیں کھائی جاتی، اس بات کا علم حکومت سندھ کے محکمہ خوراک کے حکام کو بھی ہوگا اور انھیں اس بات کا بھی ادراک ہوگا کہ تھر کے لوگ جنھیں زندگی کی بہت سی سہولتیں حاصل نہیں، جنھیں پینے کے لیے صاف پانی، سر چھپانے کے لیے محفوظ چھت، بجلی اور گیس میسر نہیں، انھیں گندم پسوانے کی سہولت بھی حاصل نہیں ہوگی۔
ایسی جگہ اور ایسے لوگوں کو گندم بھجوانا کیا سراسر زیادتی نہیں؟ یہ الگ ستم ظریفی ہے کہ یہ گندم بھی بروقت تقسیم نہیں کی جاسکی۔ اس بارے میں بات کرنے والے عام لوگوں سے لے کر مرکزی حکمرانوں نے بھی یہ سوال کیوں نہیں کیا کہ ایسے عالم میں جب قحط سالی کی وجہ سے بچے، بڑے اور مال مویشی مر رہے ہیں سالم گندم بھجوانے کی آخر کیا تک تھی؟ صوبائی وزارت خوراک کے ذمے داروں نے تو یہ کہہ کر گویا اپنی صفائی پیش کردی کہ ہماری ذمے داری اناج کی ترسیل تھی، ان کی تقسیم نہیں۔ جب کہ مقامی حکام نے یہ کہہ کر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی کہ ہمارے پاس متاثرہ لوگوں تک جاکر تقسیم کرنے کی سہولت نہیں تھی، وسائل نہیں تھے۔ دونوں جانب سے جو صفائیاں پیش کی گئی ہیں کیا ان سے یہ بات سامنے نہیں آتی کہ سرکاری خزانے سے بڑی بڑی تنخواہیں اور مراعات حاصل کرنے والے یہ لوگ کس قدر غیر ذمے دار ہیں، ان کی کارکردگی کس قدر ناقص ہے، جو اپنی ذمے داریاں احسن طریقے پر پوری کرنے کے بجائے محض بے گار سمجھ کر نبھاتے ہیں۔
ہمیں آزاد ہوئے نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا مگر ہمارے حکمرانوں کو اب تک حکمرانی کا موثر طریقہ سمجھ میں نہیں آیا۔ حکومت کی جانب سے بہت سے اقدام بظاہر عوامی بہبود کے لیے کیے جاتے ہیں مگر یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کتنے فیصد ان کا فائدہ متاثرہ لوگوں کو پہنچتا ہے؟ تھر کے سانحے پر صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی جانب سے مرنے والے بچوں کے والدین کو جو لاکھوں روپے کا معاوضہ دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ذرا اس کے بارے میں غور و فکر کیجیے۔ وہ لوگ جو جھونپڑیوں میں رہتے ہیں جن کے پاس نہ مضبوط تجوریاں ہیں نہ الماریاں، جن کے پاس کوئی قیمتی سامان ہی نہیں ہوتا کہ وہ ان کے تحفظ کے لیے کوئی بندوبست کریں۔ نہ ہی ان کے علاقے میں کوئی بینک ہے، نہ ہی ان لوگوں کا شہر میں کسی بینک میں اکاؤنٹ ہے۔ انھیں لاکھوں روپے اگر ملیں گے تو وہ انھیں کہاں رکھیں گے؟ ان کی حفاظت کیسے کریں گے؟ کیا اس بات کا امکان نہیں کہ وہ ڈاکو جو سخت سیکیورٹی انتظام کے باوجود شہر کے بینکوں کو لوٹ لیتے ہیں۔ تھر کے ریگزاروں میں بے سروسامانی کی حالت میں زندگی بسر کرنے والوں کو اپنا شکار نہیں بنالیں گے؟ ان کے فوت ہونے والے بچوں کے معاوضوں کی وجہ سے ان کی اپنی زندگی داؤ پر نہیں لگ جائے گی؟ یہ اور بات ہے کہ اگر یہ اعلان محض اعلان تک ہی محدود ہو، جس طرح اکثر ہوتا ہے کہ بیشتر لواحقین زندگی بھر اس رقم کا انتظار ہی کرتے رہ جاتے ہیں جو ان کے پیاروں کی جان کے معاوضوں کے طور پر انھیں دینے کا اعلان کیا جاتا ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے جو معاوضوں کا اعلان کیا گیا ہے، ان کی ادائیگی کا بہتر طریقہ تو میرے خیال میں یہ ہے کہ متاثرہ لوگوں کی بہبود کے لیے کوئی ٹھوس اور دوررس بندوبست کیا جائے۔ ان کے لیے مستحکم بنیادوں پر رہائش کا انتظام کیا جائے۔ ان کے پینے کے صاف اور صحت بخش پانی کا بندوبست کیا جائے۔ ان کے علاقے میں اسپتال اور میٹرنٹی ہوم قائم کیا جائے، اسکول اور یوٹیلٹی اسٹور قائم کیے جائیں۔ یہ جو وزیراعظم صاحب نے وفاق کی طرف سے ایک ارب روپے گرانڈ کا اعلان کیا ہے، اس کا بھی اس قحط زدہ علاقے کے لوگوں کو فائدہ اسی صورت میں ہوگا جب اس کا استعمال نہایت دیانتدارانہ طریقے پر ہوگا۔ اگر اس گندم کی طرح نہیں ہوگا جو اپنے حلقے کے جیالوں میں تقسیم کیا گیا، جس سے اپنے ووٹروں کو نوازا گیا، اس کا صحیح طریقہ یہ ہوگا کہ یہ خطیر رقم اس علاقے سے مستقل بنیادوں پر قحط سالی ختم کرنے کے اقدامات پر صرف کی جائے۔ وہاں کی زمین کو سیراب کرنے، مال مویشی کے پینے اور لوگوں کے استعمال کے لیے پانی کی فراہمی کا دائمی اور ٹھوس بندوبست کیا جائے تاکہ قحط سالی کی نوبت ہی نہ آئے۔ بالکل ہی بے آب و گیاہ اور تپتے ہوئے علاقوں میں انسانی رہائش کو ممنوع قرار دیا جائے۔ بس ان ہی علاقوں اور خطوں میں جہاں انسانی ضرورتوں کی فراہمی میں سخت دشواری پیش نہ ہو، رہائشی زون قرار دیا جائے اور ان کی ترقی و ترویج کا کام کیا جائے۔
اسپتال، اسکول، یوٹیلٹی اسٹورز کی زیادہ سے زیادہ بہتر سہولتیں فراہم کی جائیں۔ بہتر تو یہ ہوگا کہ وفاق یہ رقم حکومت سندھ کے حوالے نہ کرے۔ وفاقی حکومت اپنے طور پر اپنے اعتماد کے لوگوں اور اداروں کے ذریعے اس رقم کو حقیقی فلاح و بہبود کے لیے استعمال میں لائے۔ صوبائی حکومت کو اگر یہ ٹاسک سونپا گیا تو خدشہ اس بات کا ہے کہ کم ازکم آدھی رقم متعلقہ حکام کے مرغ و ماہی کی ضرورتوں میں خرچ ہوجائے گی۔ اس بات پر کسی کو برا ماننے کی ضرورت نہیں۔ جب معصوم بچے، بڑے بوڑھے اور مال مویشی بھوک اور بیماریوں سے مر رہے تھے تو میڈیا کے شور مچانے پر صوبائی کابینہ کے جو اکابرین ان کی دادرسی کے لیے پہنچے، انھوں نے وہاں اس طرح اپنی بھوک پیاس مٹائی جیسے وہ کسی شاہانہ تقریب میں شرکت کے لیے آئے ہوں۔ ایسے لوگوں سے کسی شفافیت کی توقع کسی کو کیسے مل سکتی ہے؟ ہمارے ہاں ایسی ہی ناانصافیاں ہوتی رہی ہیں۔ اگر ہمارے حکام مخلص ہوتے تو تھر کے علاقے میں قحط سالی ہر سال ڈیرہ کیوں ڈالتی؟ اس کا ازالہ بہت پہلے کرلینا چاہیے تھا۔ مگر جب اپنی پارٹی کو عوامی اور اپنی حکومت کو جمہوری قرار دینے کے دعوے دار سب سے پہلے اپنے پیٹ پوجا اور اپنے اللے تللے کو اہمیت دینے کے عادی ہوں تو ملک اور معاشرے کا بگاڑ کیسے دور ہوسکتا ہے؟ طرفہ تماشا یہ کہ اپنی غلطیوں کو تسلیم نہ کیا جائے۔ اپنی حرکتوں کو جائز قرار دینے کے لیے اوندھے سیدھے جواز پیش کیے جائیں۔
ہم اس ضمن میں مزید کیا کہیں، کیا لکھیں، تم ہی بتاؤ... یہ انداز خسروی کیا ہے؟
ایسی جگہ اور ایسے لوگوں کو گندم بھجوانا کیا سراسر زیادتی نہیں؟ یہ الگ ستم ظریفی ہے کہ یہ گندم بھی بروقت تقسیم نہیں کی جاسکی۔ اس بارے میں بات کرنے والے عام لوگوں سے لے کر مرکزی حکمرانوں نے بھی یہ سوال کیوں نہیں کیا کہ ایسے عالم میں جب قحط سالی کی وجہ سے بچے، بڑے اور مال مویشی مر رہے ہیں سالم گندم بھجوانے کی آخر کیا تک تھی؟ صوبائی وزارت خوراک کے ذمے داروں نے تو یہ کہہ کر گویا اپنی صفائی پیش کردی کہ ہماری ذمے داری اناج کی ترسیل تھی، ان کی تقسیم نہیں۔ جب کہ مقامی حکام نے یہ کہہ کر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی کہ ہمارے پاس متاثرہ لوگوں تک جاکر تقسیم کرنے کی سہولت نہیں تھی، وسائل نہیں تھے۔ دونوں جانب سے جو صفائیاں پیش کی گئی ہیں کیا ان سے یہ بات سامنے نہیں آتی کہ سرکاری خزانے سے بڑی بڑی تنخواہیں اور مراعات حاصل کرنے والے یہ لوگ کس قدر غیر ذمے دار ہیں، ان کی کارکردگی کس قدر ناقص ہے، جو اپنی ذمے داریاں احسن طریقے پر پوری کرنے کے بجائے محض بے گار سمجھ کر نبھاتے ہیں۔
ہمیں آزاد ہوئے نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا مگر ہمارے حکمرانوں کو اب تک حکمرانی کا موثر طریقہ سمجھ میں نہیں آیا۔ حکومت کی جانب سے بہت سے اقدام بظاہر عوامی بہبود کے لیے کیے جاتے ہیں مگر یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کتنے فیصد ان کا فائدہ متاثرہ لوگوں کو پہنچتا ہے؟ تھر کے سانحے پر صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی جانب سے مرنے والے بچوں کے والدین کو جو لاکھوں روپے کا معاوضہ دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ذرا اس کے بارے میں غور و فکر کیجیے۔ وہ لوگ جو جھونپڑیوں میں رہتے ہیں جن کے پاس نہ مضبوط تجوریاں ہیں نہ الماریاں، جن کے پاس کوئی قیمتی سامان ہی نہیں ہوتا کہ وہ ان کے تحفظ کے لیے کوئی بندوبست کریں۔ نہ ہی ان کے علاقے میں کوئی بینک ہے، نہ ہی ان لوگوں کا شہر میں کسی بینک میں اکاؤنٹ ہے۔ انھیں لاکھوں روپے اگر ملیں گے تو وہ انھیں کہاں رکھیں گے؟ ان کی حفاظت کیسے کریں گے؟ کیا اس بات کا امکان نہیں کہ وہ ڈاکو جو سخت سیکیورٹی انتظام کے باوجود شہر کے بینکوں کو لوٹ لیتے ہیں۔ تھر کے ریگزاروں میں بے سروسامانی کی حالت میں زندگی بسر کرنے والوں کو اپنا شکار نہیں بنالیں گے؟ ان کے فوت ہونے والے بچوں کے معاوضوں کی وجہ سے ان کی اپنی زندگی داؤ پر نہیں لگ جائے گی؟ یہ اور بات ہے کہ اگر یہ اعلان محض اعلان تک ہی محدود ہو، جس طرح اکثر ہوتا ہے کہ بیشتر لواحقین زندگی بھر اس رقم کا انتظار ہی کرتے رہ جاتے ہیں جو ان کے پیاروں کی جان کے معاوضوں کے طور پر انھیں دینے کا اعلان کیا جاتا ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے جو معاوضوں کا اعلان کیا گیا ہے، ان کی ادائیگی کا بہتر طریقہ تو میرے خیال میں یہ ہے کہ متاثرہ لوگوں کی بہبود کے لیے کوئی ٹھوس اور دوررس بندوبست کیا جائے۔ ان کے لیے مستحکم بنیادوں پر رہائش کا انتظام کیا جائے۔ ان کے پینے کے صاف اور صحت بخش پانی کا بندوبست کیا جائے۔ ان کے علاقے میں اسپتال اور میٹرنٹی ہوم قائم کیا جائے، اسکول اور یوٹیلٹی اسٹور قائم کیے جائیں۔ یہ جو وزیراعظم صاحب نے وفاق کی طرف سے ایک ارب روپے گرانڈ کا اعلان کیا ہے، اس کا بھی اس قحط زدہ علاقے کے لوگوں کو فائدہ اسی صورت میں ہوگا جب اس کا استعمال نہایت دیانتدارانہ طریقے پر ہوگا۔ اگر اس گندم کی طرح نہیں ہوگا جو اپنے حلقے کے جیالوں میں تقسیم کیا گیا، جس سے اپنے ووٹروں کو نوازا گیا، اس کا صحیح طریقہ یہ ہوگا کہ یہ خطیر رقم اس علاقے سے مستقل بنیادوں پر قحط سالی ختم کرنے کے اقدامات پر صرف کی جائے۔ وہاں کی زمین کو سیراب کرنے، مال مویشی کے پینے اور لوگوں کے استعمال کے لیے پانی کی فراہمی کا دائمی اور ٹھوس بندوبست کیا جائے تاکہ قحط سالی کی نوبت ہی نہ آئے۔ بالکل ہی بے آب و گیاہ اور تپتے ہوئے علاقوں میں انسانی رہائش کو ممنوع قرار دیا جائے۔ بس ان ہی علاقوں اور خطوں میں جہاں انسانی ضرورتوں کی فراہمی میں سخت دشواری پیش نہ ہو، رہائشی زون قرار دیا جائے اور ان کی ترقی و ترویج کا کام کیا جائے۔
اسپتال، اسکول، یوٹیلٹی اسٹورز کی زیادہ سے زیادہ بہتر سہولتیں فراہم کی جائیں۔ بہتر تو یہ ہوگا کہ وفاق یہ رقم حکومت سندھ کے حوالے نہ کرے۔ وفاقی حکومت اپنے طور پر اپنے اعتماد کے لوگوں اور اداروں کے ذریعے اس رقم کو حقیقی فلاح و بہبود کے لیے استعمال میں لائے۔ صوبائی حکومت کو اگر یہ ٹاسک سونپا گیا تو خدشہ اس بات کا ہے کہ کم ازکم آدھی رقم متعلقہ حکام کے مرغ و ماہی کی ضرورتوں میں خرچ ہوجائے گی۔ اس بات پر کسی کو برا ماننے کی ضرورت نہیں۔ جب معصوم بچے، بڑے بوڑھے اور مال مویشی بھوک اور بیماریوں سے مر رہے تھے تو میڈیا کے شور مچانے پر صوبائی کابینہ کے جو اکابرین ان کی دادرسی کے لیے پہنچے، انھوں نے وہاں اس طرح اپنی بھوک پیاس مٹائی جیسے وہ کسی شاہانہ تقریب میں شرکت کے لیے آئے ہوں۔ ایسے لوگوں سے کسی شفافیت کی توقع کسی کو کیسے مل سکتی ہے؟ ہمارے ہاں ایسی ہی ناانصافیاں ہوتی رہی ہیں۔ اگر ہمارے حکام مخلص ہوتے تو تھر کے علاقے میں قحط سالی ہر سال ڈیرہ کیوں ڈالتی؟ اس کا ازالہ بہت پہلے کرلینا چاہیے تھا۔ مگر جب اپنی پارٹی کو عوامی اور اپنی حکومت کو جمہوری قرار دینے کے دعوے دار سب سے پہلے اپنے پیٹ پوجا اور اپنے اللے تللے کو اہمیت دینے کے عادی ہوں تو ملک اور معاشرے کا بگاڑ کیسے دور ہوسکتا ہے؟ طرفہ تماشا یہ کہ اپنی غلطیوں کو تسلیم نہ کیا جائے۔ اپنی حرکتوں کو جائز قرار دینے کے لیے اوندھے سیدھے جواز پیش کیے جائیں۔
ہم اس ضمن میں مزید کیا کہیں، کیا لکھیں، تم ہی بتاؤ... یہ انداز خسروی کیا ہے؟