کیچڑ میں لتھڑا جسم
صحرائے تھر میں متاثرین کی بحالی اور کام کی نگرانی کے لیے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کا دورہ تھر اس لحاظ سے...
صحرائے تھر میں متاثرین کی بحالی اور کام کی نگرانی کے لیے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کا دورہ تھر اس لحاظ سے منفرد اور انسانیت کے دامن پر ایک گہرا طنزیہ داغ ہے کہ قحط زدہ علاقے میں انواع و اقسام کی دعوت شیراز کا منظر اپنے اندر ایک گہری معنویت لیے ہوئے ہے ایک طرف بھوک سے مرنے والوں کی آہ و بکا دوسری طرف مختلف کھانوں کی نہ گنی جانے والی تعداد کو دیکھ کر ہر صاحب دل انسان لرز اٹھا ہے مگر ان کی جانب سے چوری اور سینہ زوری کی یہ کیفیت میرے لیے نئی نہیں ہے۔ 2012 کی شدید بارشوں کے بعد سندھ نہایت ابتر حالت میں تھا، بارش کے پانی کو اپنی فصلوں سے نکاسی کا راستہ دینے اور اپنے محلوں کو بچانے کے لیے کہیں عارضی بند باندھ دیے گئے تو کہیں ان سیاسی بازیگروں نے کئی بند توڑ دیے کہ ہماری فصلیں ہمارے گھر بچ جائیں، جس کے نتیجے میں پورا سندھ پانی میں ڈوب گیا تھا، چاروں طرف پانی ہی پانی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ صحرائے تھر میں مٹھی، عمرکوٹ وغیرہ میں پانی آجانے کی وجہ سے دور افتادہ گاؤں دیہات بھی متاثر ہوئے۔ ان ہی دنوں سینیٹرز کا ایک گروپ اندرون سندھ بارش سے متاثرہ لوگوں کی صورت حال کا جائزہ لینے حیدرآباد، میرپورخاص، ٹنڈوالہ یار سے ہوتا ہوا مٹھی گیا۔ اس وفد میں ہم بھی شامل تھے، ہم فیڈریشن چیمبر آف کامرس کی نمایندگی کر رہے تھے۔
ایسا اندوہناک منظر کہیں نظر نہیں آیا تھا، مٹی کے اونچے نیچے ٹیلوں پر انسانی جسم صرف سانس کی ڈوری سے بندھے ہوئے تھے، نہ تن پر کپڑا، نہ سر پر چھت، کپڑے بھی چیتھڑوں کی شکل میں تھے، پیٹ پر منڈھی ہوئی کھال فاقوں کا پتہ دے رہی تھی مگر افسوس ہے کہ ہر جگہ ہماری خاطر مدارات مختلف النوع کی قیمتی چیزوں سے ہوتی رہی، تحائف تقسیم ہوتے رہے، کاجو، بادام سے لے کر ہر نعمت دسترخوان کی زینت دیکھ کر ہمارا تو یہ حال تھا کہ جائے نہ رفتن۔ خیر جی عمرکوٹ کے ڈی سی ہاؤس میں رہائش کا بندوبست تھا، رات کا کھانا دیکھ کر ہماری تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، ہرن کے گوشت کے کباب اور کڑاہی سے لے کر چرغہ، روسٹ بروسٹ غرض یہ کہ کوئی 20/25 کھانے میز کی رونق بڑھا رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ ہم متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے نہیں آئے بلکہ کسی خوشی کی تقریب کے مہمان ہیں، رات جس طرح گزری، گزاری۔ صبح ہوتے ہی ہم نے چیئرمین سے معذرت کی کہ ہم مزید ان کے ساتھ یہ رسمی کام نہیں کرسکتے اور وزٹ منسوخ کرکے واپس آگئے۔ اس کے بعد اپنے ادارے کی طرف سے گئے اور مہینوں رہ کر لوگوں کے لیے کام کیا، آج جب مختلف چینلز پر تھر کے مناظر دیکھتی ہوں تو مجھے وہ دعوت شیراز یاد آگئی مگر ہمارے حکمرانوں کی سوچ نہیں بدلی، بچوں کے مرنے، عورتوں کے تڑپنے کے مناظر بھی وہی ہیں اور حکمرانوں کی حکمرانی کے انداز بھی وہی ۔ صحرا پھر پیاسا ہے، بارش کی کمی اور وسائل کی عدم دستیابی نے سیکڑوں جانوروں اور معصوم بچوں کو موت کی نیند سلا دیا ہے، وہ معصوم بچے جنھوں نے ابھی تو آنکھ کھولی تھی، ابھی تو ماں کی گود کے لمس سے آشنا ہوئے تھے کہ قبر کے اندھیروں میں جاکر سوگئے۔
گندم کی بھری بوریاں گوداموں میں سڑتی رہیں اور غریب ماؤں کی گود اجڑتی رہی مگر ملوں کے دیے روشن تھے روشن ہی رہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ یہ تباہی ایک دم نہیں آئی، آہستہ آہستہ اس نے جڑ پکڑی ہے، اس جرم میں تھر کے قومی صوبائی نمایندے ڈپٹی کمشنر سندھ اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ تھر کی مقامی این جی اوز بھی برابر کی شریک ہیں، کیونکہ کیا وہ اس افتاد کے بڑھنے کا انتظار کر رہی تھیں تاکہ امداد کے نام پر اپنی دکان داری کو چمکایا جا سکے؟
ایکسپریس نیوز اگر تھر کا حال بیان نہ کرتا تو آج بھی سب چین کی نیند سوتے رہتے، اب بھی وقت ہے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے مخیر حضرات اور وفاق کے دیے ہوئے پیسوں کا درست استعمال کیا جائے، اس پیسے کو کرپشن کے ہاتھوں برباد نہ کیا جائے۔ پانی کی کمی کو دور کرنے کے لیے کنوئیں اور ہینڈ پمپ لگوائے جائیں، بنیادی صحت کے منصوبے شروع کیے جائیں، اسپتال بنوائے جائیں، زچہ و بچہ کی صحت سے آگاہی کے لیے پروگرامز شروع کیے جائیں، معقول مشاہیروں پر قابل اور تربیت یافتہ ڈاکٹروں کو تعینات کیا جائے، سڑکوں کو بناکر دوسرے شہروں سے منسلک کیا جائے۔ غضب خدا کا ہیلتھ ورکروں کے استعمال میں ہونے والی گاڑیاں زنگ کا ڈھیر ہوگئیں، یہ غفلت یا نااہلی نہیں قومی جرم ہے۔ ایسے لوگوں کو جنھوں نے یہ جرائم کیے ہیں بلاتفریق سخت سزائیں دی جائیں، جب تک سزائیں نہیں ملیں گی لوگ عبرت نہیں پکڑیں گے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ انسانی جانوں کے ضیاع پر بھی سیاست کھیلی جا رہی ہے۔ ایک دوسرے کی طرف کیچڑ اچھالی جا رہی ہے، یہ جانے بغیر کہ ان کے ہاتھ کیا، پورا جسم کیچڑ میں لتھڑا ہوا ہے۔
ایسا اندوہناک منظر کہیں نظر نہیں آیا تھا، مٹی کے اونچے نیچے ٹیلوں پر انسانی جسم صرف سانس کی ڈوری سے بندھے ہوئے تھے، نہ تن پر کپڑا، نہ سر پر چھت، کپڑے بھی چیتھڑوں کی شکل میں تھے، پیٹ پر منڈھی ہوئی کھال فاقوں کا پتہ دے رہی تھی مگر افسوس ہے کہ ہر جگہ ہماری خاطر مدارات مختلف النوع کی قیمتی چیزوں سے ہوتی رہی، تحائف تقسیم ہوتے رہے، کاجو، بادام سے لے کر ہر نعمت دسترخوان کی زینت دیکھ کر ہمارا تو یہ حال تھا کہ جائے نہ رفتن۔ خیر جی عمرکوٹ کے ڈی سی ہاؤس میں رہائش کا بندوبست تھا، رات کا کھانا دیکھ کر ہماری تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، ہرن کے گوشت کے کباب اور کڑاہی سے لے کر چرغہ، روسٹ بروسٹ غرض یہ کہ کوئی 20/25 کھانے میز کی رونق بڑھا رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ ہم متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے نہیں آئے بلکہ کسی خوشی کی تقریب کے مہمان ہیں، رات جس طرح گزری، گزاری۔ صبح ہوتے ہی ہم نے چیئرمین سے معذرت کی کہ ہم مزید ان کے ساتھ یہ رسمی کام نہیں کرسکتے اور وزٹ منسوخ کرکے واپس آگئے۔ اس کے بعد اپنے ادارے کی طرف سے گئے اور مہینوں رہ کر لوگوں کے لیے کام کیا، آج جب مختلف چینلز پر تھر کے مناظر دیکھتی ہوں تو مجھے وہ دعوت شیراز یاد آگئی مگر ہمارے حکمرانوں کی سوچ نہیں بدلی، بچوں کے مرنے، عورتوں کے تڑپنے کے مناظر بھی وہی ہیں اور حکمرانوں کی حکمرانی کے انداز بھی وہی ۔ صحرا پھر پیاسا ہے، بارش کی کمی اور وسائل کی عدم دستیابی نے سیکڑوں جانوروں اور معصوم بچوں کو موت کی نیند سلا دیا ہے، وہ معصوم بچے جنھوں نے ابھی تو آنکھ کھولی تھی، ابھی تو ماں کی گود کے لمس سے آشنا ہوئے تھے کہ قبر کے اندھیروں میں جاکر سوگئے۔
گندم کی بھری بوریاں گوداموں میں سڑتی رہیں اور غریب ماؤں کی گود اجڑتی رہی مگر ملوں کے دیے روشن تھے روشن ہی رہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ یہ تباہی ایک دم نہیں آئی، آہستہ آہستہ اس نے جڑ پکڑی ہے، اس جرم میں تھر کے قومی صوبائی نمایندے ڈپٹی کمشنر سندھ اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ تھر کی مقامی این جی اوز بھی برابر کی شریک ہیں، کیونکہ کیا وہ اس افتاد کے بڑھنے کا انتظار کر رہی تھیں تاکہ امداد کے نام پر اپنی دکان داری کو چمکایا جا سکے؟
ایکسپریس نیوز اگر تھر کا حال بیان نہ کرتا تو آج بھی سب چین کی نیند سوتے رہتے، اب بھی وقت ہے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے مخیر حضرات اور وفاق کے دیے ہوئے پیسوں کا درست استعمال کیا جائے، اس پیسے کو کرپشن کے ہاتھوں برباد نہ کیا جائے۔ پانی کی کمی کو دور کرنے کے لیے کنوئیں اور ہینڈ پمپ لگوائے جائیں، بنیادی صحت کے منصوبے شروع کیے جائیں، اسپتال بنوائے جائیں، زچہ و بچہ کی صحت سے آگاہی کے لیے پروگرامز شروع کیے جائیں، معقول مشاہیروں پر قابل اور تربیت یافتہ ڈاکٹروں کو تعینات کیا جائے، سڑکوں کو بناکر دوسرے شہروں سے منسلک کیا جائے۔ غضب خدا کا ہیلتھ ورکروں کے استعمال میں ہونے والی گاڑیاں زنگ کا ڈھیر ہوگئیں، یہ غفلت یا نااہلی نہیں قومی جرم ہے۔ ایسے لوگوں کو جنھوں نے یہ جرائم کیے ہیں بلاتفریق سخت سزائیں دی جائیں، جب تک سزائیں نہیں ملیں گی لوگ عبرت نہیں پکڑیں گے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ انسانی جانوں کے ضیاع پر بھی سیاست کھیلی جا رہی ہے۔ ایک دوسرے کی طرف کیچڑ اچھالی جا رہی ہے، یہ جانے بغیر کہ ان کے ہاتھ کیا، پورا جسم کیچڑ میں لتھڑا ہوا ہے۔