اعتراف کمال ادبی ایوارڈ کی یادگار تقریب
ان کے گیت دلوں پر دستک دیتے ہیں اور آج بھی ان کے گیتوں کی گونج سنائی دیتی ہے
اردو منزل کو اگر دوسرے الفاظ میں اردو ادب کا گہوارا کہا جائے تو اسے ایک حقیقت کہا جاسکتا ہے۔ اردو منزل میں آئے دن اردو ادب کی نامور شخصیات بطور مہمان مدعو کی جاتی ہیں اور پھر ان کے انٹرویوز اور ان کے ساتھ خوب صورت ملاقاتوں کو سوشل میڈیا کی زینت بنایا جاتا ہے۔
نامور شاعرہ صبیحہ صبا اور ان کے شوہر، شاعر انجینئر سعید صغیر جعفری اردو منزل کے روح رواں ہیں اور اردو منزل کو ایک طویل عرصے سے اپنا خون جگر دے رہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے یہ دونوں شخصیات عرب امارات اور خاص طور پر دبئی میں رہائش پذیر تھیں اور تقریباً تیس چالیس سال متواتر ان کا وہاں قیام رہا تھا۔ اس دوران ان کی شعری اور ادبی محفلوں کے چرچے نہ صرف پاکستان بلکہ ہندوستان میں بھی تھے اور ان کا بیشتر وقت شعر و ادب کے فروغ میں گزرتا تھا۔
دبئی میں ان ادبی محفلوں میں شرکت کے لیے نہ صرف پاکستان کی ادبی شخصیات جاتی تھیں بلکہ ہندوستان کی نامور شخصیات بھی جوق در جوق شریک ہوتی تھیں اور اسی زمانے میں سید صغیر جعفری اور صبیحہ صبا صاحبہ نے ادب کی اعلیٰ خدمات کے لیے اعتراف کے طور پر بڑے پیمانے پر اعتراف کمال ایوارڈ کا اجرا کیا تھا جو معروف ادبی شخصیات اور شاعروں کو ان کی خدمات پر دیا جاتا تھا اور ایوارڈ کا یہ سلسلہ پابندی کے ساتھ کافی عرصے تک قائم رہا تھا۔
پھر اس ایوارڈ کو ایک یادگار حیثیت حاصل ہوگئی تھی، دبئی کی شان دار ادبی محفلوں میں جن نامور شخصیات کو اعتراف کمال ایوارڈ سے نوازا گیا ان میں احمد ندیم قاسمی، کیفی اعظمی، احمد فراز، اسلم فرخی، شمیم جے پوری، راغب مراد آبادی، مشتاق احمد یوسفی، دلاور فگار اور صوفیہ کمال نے بہ نفس نفیس یہ ایوارڈ وصول کیا تھا۔ اس ایوارڈ کے پیچھے صبیحہ صبا اور سید صغیر جعفری کی خدمات کو کسی صورت میں بھی کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اس اعتراف کمال ایوارڈ کے ساتھ شبانہ روز کی بے مثال جدوجہد کو ادبی حلقوں نے بھی بڑا سراہا ہے پھر صبیحہ صبا اپنے شوہر سید صغیر جعفری کے ساتھ پاکستان آگئیں اور شاعر و انجینئر صغیر جعفری نے بھی وہاں کی ملازمت سے ریٹائرمنٹ لے لی تھی اور پھر کراچی میں اردو منزل کے نام سے ادبی سرگرمیوں کا شد و مد کے ساتھ آغاز کردیا گیا اور شعر و ادب کی شخصیات اردو منزل میں آ کر اپنے لیے ایک اعزاز حاصل کرتے ہیں۔ اردو منزل کے ادبی پروگراموں کو سوشل میڈیا میں بھی بڑی پذیرائی حاصل ہوتی ہے۔
اب تک بے شمار ادبی شخصیات اردو منزل کے پروگراموں کی زینت بنتی رہی ہیں۔ بیرون ملک سے جب بھی کوئی ادبی شخصیت کراچی آتی ہے وہ ایک بار اردو منزل کی مہمان ضرور ہوتی ہے اور مجھے بھی دو بار یہ اعزاز حاصل ہو چکا تھا۔ اس بار جب میں دو ماہ کے لیے امریکا سے پاکستان پہنچا اور میں نے سید صغیر جعفری اور صبیحہ صبا سے فون پر رابطہ کیا تو انھوں نے اسی ہفتے مجھے اردو منزل کا مہمان بنایا اور یہ عندیہ بھی دیا کہ صبیحہ صبا اور میں نے اب دبئی میں شروع کیا جانے والا اعتراف کمال ادبی ایوارڈ کے اجرا کا اب پاکستان میں بھی فیصلہ کیا ہے اور اس کی تیاری کا آغاز کردیا گیا ہے۔
صغیر جعفری نے کہا میں نے اور صبیحہ نے پاکستان میں اعتراف کمال ایوارڈ آپ کے خوبصورت مشہور فلمی نغمات اور آپ کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر اب کراچی میں یہ پہلا ایوارڈ آپ کو دیا جائے، یہ فیصلہ کیا جاچکا ہے۔ مجھے یہ خبر سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ مجھے بھی نامور ادبی شخصیات کے ساتھ اس ایوارڈ کے لیے اردو منزل نے منتخب کیا ہے۔
یہ میرے لیے بڑے اعزاز کی بات تھی اور پھر ایک ہفتے کے بعد اردو منزل میں اعتراف کمال ایوارڈ کی شان دار تقریب کا اہتمام کیا گیا جب کہ اس ہفتے مسلسل مون سون نے بارشوں کی زیادتی کی وجہ سے سارے شہر کراچی کو جل تھل کیا ہوا تھا، اور کراچی میں ادبی، ثقافتی اور سیاسی تقریبات بھی کافی حد تک متاثر ہو رہی تھیں، بیشتر تقریبات ملتوی کی جاچکی تھیں، مگر صبیحہ صبا اور سید صغیر جعفری اپنے پروگرام کے ساتھ ڈٹے ہوئے تھے کہ لوگ موسم کی خرابی کی وجہ سے کم ہوں یا زیادہ یہ ایوارڈ کی تقریب ہر صورت میں ہوگی، پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ گزشتہ تین دنوں سے تیز رفتار بارشوں کا جو سلسلہ تھا وہ ایوارڈ والی تقریب کے دن کمزور پڑ گیا تھا اور اس دن مطلع بالکل صاف تھا۔
تقریب کا وقت شام 5 بجے رکھا گیاتھا اور شام چھ بجے تک کافی ادبی شخصیات جمع ہوچکی تھیں۔ اس تقریب کی نظامت کے فرائض مشہور نیوز کاسٹر علی حسن ساجد نے ادا کیے جو وہاں سب سے پہلے موجود تھے۔ اس تقریب کی صدارت محترمہ صبیحہ صبا نے کی، جب کہ تقریب کے مہمان خصوصی نامور شاعر و ادیب فیروز ناطق خسرو تھے اور راقم مہمان اعزازی تھا، جسے آج کی تقریب میں اعتراف کمال ایوارڈ دیا جا رہا تھا۔ تقریب کا آغاز سید صغیر جعفری کی حمد و نعت سے ہوا۔
صبیحہ صبا نے کہا کہ اعتراف کمال ادبی ایوارڈ کو پھر سے جاری کیا جا رہا ہے اور پھر اس تقریب میں راقم کو اس ایوارڈ سے نوازا گیا اور پاکستان میں یہ پہلا ایوارڈ تھا جو مجھے دیا گیا اور یہ ایوارڈ دیتے ہوئے صبیحہ صبا نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا معروف فلمی نغمہ نگار، شاعر اور کالم نگار یونس ہمدم اس ایوارڈ کے بلاشبہ حق دار ہیں، ان کی ادبی خدمات پاکستان میں اور بیرون ملک امریکا و کینیڈا میں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں جو یہ دور دیس کی اردو بستیوں میں اردو زبان و ادب کے فروغ میں پیش پیش ہیں۔ علی حسن ساجد نے راقم کے بارے میں اپنے دیرینہ تعلقات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے اب تک چھ شعری مجموعے اور چھ نثری کتابیں منظر عام پر آ کر پذیرائی حاصل کرچکی ہیں۔
ریڈیو پاکستان سے ان کے بے شمار فلمی گیتوں کے میں پروگرام بھی کرتا رہا ہوں، فرمائشی گیتوں کے پروگرام میں ان کے فلمی گیت سننے کے لیے بے شمار خطوط آتے تھے اور ہم ان کے گیتوں کو فرمائشی پروگراموں کی زینت بناتے تھے۔ ان کے گیتوں میں ادبی دلکشی، نغمگی اور ایک مٹھاس ہے جو کانوں میں رس گھولتی ہے اور ان کے گیت دلوں پر دستک دیتے ہیں اور آج بھی ان کے گیتوں کی گونج سنائی دیتی ہے۔ انھوں نے فلموں کے علاوہ، ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے بھی بہت کچھ لکھا ہے بہت سے ڈراموں کے تھیم سانگ لکھے ہیں۔ فلمی دنیا کے بارے میں اپنی سنہری یادوں کو بھی فلم بند کیا ہے اور پاکستان فلم انڈسٹری کی تاریخ ان کے تذکرے کے بغیر ہمیشہ ادھوری رہے گی۔
نامور شاعر فیروز ناطق خسرو نے بھی اپنی گفتگو میں کہا کہ میں ان کی ادبی خدمات اور فلمی گیتوں سے تو بہت پہلے سے واقف تھا مگر ان سے ملاقات آج ہوئی ہے۔ ان کا ایک اعزاز یہ بھی ہے کہ انھوں نے لاہور کی فلم انڈسٹری میں قتیل شفائی، کلیم عثمانی، حمایت علی شاعر، تسلیم فاضلی، خواجہ پرویز اور مسرور انور کے درمیان اپنی ایک واضح پہچان پیدا کی اور اپنے لیے ایک جداگانہ مقام بنایا۔ آخر میں راقم نے کچھ اپنی فلمی دنیا کی یادیں شیئر کیں اور اپنا کلام بھی سنایا۔ اس تقریب میں نامور صحافی صابر علی، نوجوان قلم کار اطہر اقبال، براڈ کاسٹر اقبال سہوانی، حامد علی سید اور اوسط جعفری نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور مختصر سی شعری نشست بھی ہوئی جس کے بعد شاندار عشائیے کا بھی اہتمام تھا اور اس طرح یہ یادگار تقریب اختتام پذیر ہوئی۔
نامور شاعرہ صبیحہ صبا اور ان کے شوہر، شاعر انجینئر سعید صغیر جعفری اردو منزل کے روح رواں ہیں اور اردو منزل کو ایک طویل عرصے سے اپنا خون جگر دے رہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے یہ دونوں شخصیات عرب امارات اور خاص طور پر دبئی میں رہائش پذیر تھیں اور تقریباً تیس چالیس سال متواتر ان کا وہاں قیام رہا تھا۔ اس دوران ان کی شعری اور ادبی محفلوں کے چرچے نہ صرف پاکستان بلکہ ہندوستان میں بھی تھے اور ان کا بیشتر وقت شعر و ادب کے فروغ میں گزرتا تھا۔
دبئی میں ان ادبی محفلوں میں شرکت کے لیے نہ صرف پاکستان کی ادبی شخصیات جاتی تھیں بلکہ ہندوستان کی نامور شخصیات بھی جوق در جوق شریک ہوتی تھیں اور اسی زمانے میں سید صغیر جعفری اور صبیحہ صبا صاحبہ نے ادب کی اعلیٰ خدمات کے لیے اعتراف کے طور پر بڑے پیمانے پر اعتراف کمال ایوارڈ کا اجرا کیا تھا جو معروف ادبی شخصیات اور شاعروں کو ان کی خدمات پر دیا جاتا تھا اور ایوارڈ کا یہ سلسلہ پابندی کے ساتھ کافی عرصے تک قائم رہا تھا۔
پھر اس ایوارڈ کو ایک یادگار حیثیت حاصل ہوگئی تھی، دبئی کی شان دار ادبی محفلوں میں جن نامور شخصیات کو اعتراف کمال ایوارڈ سے نوازا گیا ان میں احمد ندیم قاسمی، کیفی اعظمی، احمد فراز، اسلم فرخی، شمیم جے پوری، راغب مراد آبادی، مشتاق احمد یوسفی، دلاور فگار اور صوفیہ کمال نے بہ نفس نفیس یہ ایوارڈ وصول کیا تھا۔ اس ایوارڈ کے پیچھے صبیحہ صبا اور سید صغیر جعفری کی خدمات کو کسی صورت میں بھی کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اس اعتراف کمال ایوارڈ کے ساتھ شبانہ روز کی بے مثال جدوجہد کو ادبی حلقوں نے بھی بڑا سراہا ہے پھر صبیحہ صبا اپنے شوہر سید صغیر جعفری کے ساتھ پاکستان آگئیں اور شاعر و انجینئر صغیر جعفری نے بھی وہاں کی ملازمت سے ریٹائرمنٹ لے لی تھی اور پھر کراچی میں اردو منزل کے نام سے ادبی سرگرمیوں کا شد و مد کے ساتھ آغاز کردیا گیا اور شعر و ادب کی شخصیات اردو منزل میں آ کر اپنے لیے ایک اعزاز حاصل کرتے ہیں۔ اردو منزل کے ادبی پروگراموں کو سوشل میڈیا میں بھی بڑی پذیرائی حاصل ہوتی ہے۔
اب تک بے شمار ادبی شخصیات اردو منزل کے پروگراموں کی زینت بنتی رہی ہیں۔ بیرون ملک سے جب بھی کوئی ادبی شخصیت کراچی آتی ہے وہ ایک بار اردو منزل کی مہمان ضرور ہوتی ہے اور مجھے بھی دو بار یہ اعزاز حاصل ہو چکا تھا۔ اس بار جب میں دو ماہ کے لیے امریکا سے پاکستان پہنچا اور میں نے سید صغیر جعفری اور صبیحہ صبا سے فون پر رابطہ کیا تو انھوں نے اسی ہفتے مجھے اردو منزل کا مہمان بنایا اور یہ عندیہ بھی دیا کہ صبیحہ صبا اور میں نے اب دبئی میں شروع کیا جانے والا اعتراف کمال ادبی ایوارڈ کے اجرا کا اب پاکستان میں بھی فیصلہ کیا ہے اور اس کی تیاری کا آغاز کردیا گیا ہے۔
صغیر جعفری نے کہا میں نے اور صبیحہ نے پاکستان میں اعتراف کمال ایوارڈ آپ کے خوبصورت مشہور فلمی نغمات اور آپ کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر اب کراچی میں یہ پہلا ایوارڈ آپ کو دیا جائے، یہ فیصلہ کیا جاچکا ہے۔ مجھے یہ خبر سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ مجھے بھی نامور ادبی شخصیات کے ساتھ اس ایوارڈ کے لیے اردو منزل نے منتخب کیا ہے۔
یہ میرے لیے بڑے اعزاز کی بات تھی اور پھر ایک ہفتے کے بعد اردو منزل میں اعتراف کمال ایوارڈ کی شان دار تقریب کا اہتمام کیا گیا جب کہ اس ہفتے مسلسل مون سون نے بارشوں کی زیادتی کی وجہ سے سارے شہر کراچی کو جل تھل کیا ہوا تھا، اور کراچی میں ادبی، ثقافتی اور سیاسی تقریبات بھی کافی حد تک متاثر ہو رہی تھیں، بیشتر تقریبات ملتوی کی جاچکی تھیں، مگر صبیحہ صبا اور سید صغیر جعفری اپنے پروگرام کے ساتھ ڈٹے ہوئے تھے کہ لوگ موسم کی خرابی کی وجہ سے کم ہوں یا زیادہ یہ ایوارڈ کی تقریب ہر صورت میں ہوگی، پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ گزشتہ تین دنوں سے تیز رفتار بارشوں کا جو سلسلہ تھا وہ ایوارڈ والی تقریب کے دن کمزور پڑ گیا تھا اور اس دن مطلع بالکل صاف تھا۔
تقریب کا وقت شام 5 بجے رکھا گیاتھا اور شام چھ بجے تک کافی ادبی شخصیات جمع ہوچکی تھیں۔ اس تقریب کی نظامت کے فرائض مشہور نیوز کاسٹر علی حسن ساجد نے ادا کیے جو وہاں سب سے پہلے موجود تھے۔ اس تقریب کی صدارت محترمہ صبیحہ صبا نے کی، جب کہ تقریب کے مہمان خصوصی نامور شاعر و ادیب فیروز ناطق خسرو تھے اور راقم مہمان اعزازی تھا، جسے آج کی تقریب میں اعتراف کمال ایوارڈ دیا جا رہا تھا۔ تقریب کا آغاز سید صغیر جعفری کی حمد و نعت سے ہوا۔
صبیحہ صبا نے کہا کہ اعتراف کمال ادبی ایوارڈ کو پھر سے جاری کیا جا رہا ہے اور پھر اس تقریب میں راقم کو اس ایوارڈ سے نوازا گیا اور پاکستان میں یہ پہلا ایوارڈ تھا جو مجھے دیا گیا اور یہ ایوارڈ دیتے ہوئے صبیحہ صبا نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا معروف فلمی نغمہ نگار، شاعر اور کالم نگار یونس ہمدم اس ایوارڈ کے بلاشبہ حق دار ہیں، ان کی ادبی خدمات پاکستان میں اور بیرون ملک امریکا و کینیڈا میں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں جو یہ دور دیس کی اردو بستیوں میں اردو زبان و ادب کے فروغ میں پیش پیش ہیں۔ علی حسن ساجد نے راقم کے بارے میں اپنے دیرینہ تعلقات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے اب تک چھ شعری مجموعے اور چھ نثری کتابیں منظر عام پر آ کر پذیرائی حاصل کرچکی ہیں۔
ریڈیو پاکستان سے ان کے بے شمار فلمی گیتوں کے میں پروگرام بھی کرتا رہا ہوں، فرمائشی گیتوں کے پروگرام میں ان کے فلمی گیت سننے کے لیے بے شمار خطوط آتے تھے اور ہم ان کے گیتوں کو فرمائشی پروگراموں کی زینت بناتے تھے۔ ان کے گیتوں میں ادبی دلکشی، نغمگی اور ایک مٹھاس ہے جو کانوں میں رس گھولتی ہے اور ان کے گیت دلوں پر دستک دیتے ہیں اور آج بھی ان کے گیتوں کی گونج سنائی دیتی ہے۔ انھوں نے فلموں کے علاوہ، ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے بھی بہت کچھ لکھا ہے بہت سے ڈراموں کے تھیم سانگ لکھے ہیں۔ فلمی دنیا کے بارے میں اپنی سنہری یادوں کو بھی فلم بند کیا ہے اور پاکستان فلم انڈسٹری کی تاریخ ان کے تذکرے کے بغیر ہمیشہ ادھوری رہے گی۔
نامور شاعر فیروز ناطق خسرو نے بھی اپنی گفتگو میں کہا کہ میں ان کی ادبی خدمات اور فلمی گیتوں سے تو بہت پہلے سے واقف تھا مگر ان سے ملاقات آج ہوئی ہے۔ ان کا ایک اعزاز یہ بھی ہے کہ انھوں نے لاہور کی فلم انڈسٹری میں قتیل شفائی، کلیم عثمانی، حمایت علی شاعر، تسلیم فاضلی، خواجہ پرویز اور مسرور انور کے درمیان اپنی ایک واضح پہچان پیدا کی اور اپنے لیے ایک جداگانہ مقام بنایا۔ آخر میں راقم نے کچھ اپنی فلمی دنیا کی یادیں شیئر کیں اور اپنا کلام بھی سنایا۔ اس تقریب میں نامور صحافی صابر علی، نوجوان قلم کار اطہر اقبال، براڈ کاسٹر اقبال سہوانی، حامد علی سید اور اوسط جعفری نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور مختصر سی شعری نشست بھی ہوئی جس کے بعد شاندار عشائیے کا بھی اہتمام تھا اور اس طرح یہ یادگار تقریب اختتام پذیر ہوئی۔