سُر خدا کا گفٹ ہے اچھی غزل کا فقدان ہے غلام عباس خان

پٹیالہ گھرانے کے کلاسیکل گائیک اور طبلہ نواز استاد غلام عباس خان کا انٹرویو

اگر میں فنکار ہوں تو مجھے دوسروں کی بھی عزت کرنی چاہیے، فوٹو؛فائل

شام چوراسی اورپٹیالہ گھرانے کی کلاسیکی موسیقی کے حوالے سے گراں قدر خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں جنہوں نے موسیقی کو ایسے نامور گائیک دئیے کہ جن کے فن کی ایک دنیا معترف ہے۔

استاد غلام عباس خان بھی ان میں سے ہیں، وہ پٹیالہ گھرانے کے چشم وچراغ ہیں اور ان کے والد استاد غلام حسن خان بھی اپنے دور کے نامور طبلہ نواز تھے جنہوں نے پنجاب گھرانے کے استاد میاں قادر بخش سے باقاعدہ طبلہ سیکھا۔استاد غلام عباس خان نے بھی اپنے آباؤ اجداد کے اس فن کو اپناتے ہوئے چھوٹی سی عمر میں ہی شام چوراسی کے معروف گائیک استاد سلامت علی خان اور استاد نزاکت علی خان کے ساتھ طبلہ پر سنگت شروع کر دی۔ اتنی چھوٹی عمر میں طبلہ پر استاد سلامت علی خان اور استاد نزاکت علی خان کے ساتھ سُر اور لَے کا ایسا تال میل کرتے کہ دیکھنے اور سننے والے داد دینے پر مجبور ہو جاتے۔



استاد غلام عباس خان معروف طبلہ نواز استاد اللہ رکھا خان سے بے حد متاثر تھے اور وہ انہیں روحانی استاد مانتے تھے۔ لندن استاد سلامت علی خان کے ساتھ ایک نجی محفل میں پرفارم کرنے گئے جہاں پر ان کے روحانی استاد اللہ رکھا اور ان کے بیٹے استاد ذاکر حسین بھی آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے جب استاد سلامت علی خان کے ساتھ طبلہ پر سنگت کی تو استاد اللہ رکھا نے اس بچے (استاد غلام عباس خان) کی پرفارمنس پر بھرپور داد دی۔ روحانی استاد کی حوصلہ افزائی نے ان کے اندر مزید آگے بڑھنے کا جذبہ اور جنون پیدا کیا۔ استاد اللہ رکھا انہیں شاگرد بنائے بغیر ہی طبلہ، سُر اور لَے کا سبق دینے لگے جس پر استاد غلام عباس خان ان کے باقاعدہ گنڈا بندھ شاگرد ہوگئے اور پھر وہ استاد کے آخری سانس تک ان سے فیض یاب ہوتے رہے۔

اس حوالے سے استاد غلام عباس خان نے بتایا کہ روحانی استاد کا باقاعدہ شاگرد ہونا ہی میری زندگی کی سب سے بڑی کامیابی تھی، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میری عمر اس وقت تیرہ برس تھی۔انہیں جب پروگرام میں دیکھا تو ایک لمحے کے لئے سوچنے لگا کہ جو میرے آئیڈیل ہیں ان کے سامنے میں کیسے پرفارم کرسکوں گا، پھر اللہ کا نام لے کر شروع ہوگیا ۔ بس پھر کیا تھا کہ استاد اللہ رکھا نے جب میرے کام کی تعریف کی تو خوشی سے پھولے نہیں سمایا،سب سے زیادہ خوشی اور حیرانگی اس بات سے ہوئی کہ انہوں نے مجھے گھر بلایا اور استادی شاگردی کے بغیر ہی بتانے لگے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان کا بڑا پن اور پیار تھا کہ میرے سر پر دست شفقت رکھا۔استاد غلام عبا س خان نے کہا کہ سُر خدا کا گفٹ ہے جو انسانیت سے پیار کا درس دیتا ہے، ہمیں اس کو دوسروں تک پھیلانے میں بخل سے کام نہیں لینا چاہیئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں فنکار ہوں تو مجھے دوسروں کی بھی عزت کرنی چاہیے، اس طرح کرنے سے میری عزت کم نہیں بلکہ بڑھے گی ۔




علم تو چیز ہی ایسی ہے کہ ایسا جتنا پھیلایا جائے اتنا ہی بڑھتا ہے۔ راک، پاپ ، فوک سمیت جو بھی گایا جارہا ہے اگر لوگوں کو پسند آرہا ہے تو پھراس میں اعتراض والی کوئی بات نہیں ہے۔ہمیں خود پسند ہونے کے بجائے حقیقت پسند ہونے کی ضرورت ہے۔ایک سوال کے جواب میں استاد غلام عباس خان نے کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے گھرانوں پر بھی کمرشل ازم چھا گیا ہے ہر کوئی چاہتا ہے کہ اس کا گانا فلم میں آجائے۔

شناخت بنانا ہر آدمی کا حق ہے مگر اس کے ساتھ انہیں خدا نے جو عطا کیا ہے وہ دوسروں کو بھی دے اس میں برکت پڑ جائیگی۔نئے لوگوں کا یہ اعتراض کسی حد تک درست ہے کہ انہیں موسیقی کے گھرانے سکھانا ہی نہیں چاہتے ،مگر اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ سیکھنے والے میں اگر تشنگی ہوگی تو وہ ضرور کچھ لے کر جائیگا۔انہوں نے بتایا کہ ابھی تک پاکستان ، امریکہ ، کینیڈا ، انگلینڈ اور بھارت سمیت تقریبا سبھی ممالک میں پرفارم کر چکا ہوں مگر بھارتی میوزک سے محبت کرنیوالے ہیں وہاں پر استاد سلامت علی خان کے ساتھ ممبئی ، آگرہ ، بھوپال اور دہلی جاچکا ہوں ۔



ان دنوں ہری ہرن کے بارے نہیں جانتا تھا کہ یہ لڑکا گاتا بھی ہے کیونکہ ہم جب بھی وہاں گئے تو اس لڑکے نے دن رات خدمت کی، پھر جب میں نے اسے سنا تو حیران رہ گیا وہ اس دور کا بہترین غزل گائیک ہے ۔ہری ہرن میرے چچا استاد حسین بخش گلو کا بہت بڑا پرستار ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میں پچھلے اٹھارہ سال سے امریکا میں مقیم ہوں مگر ہر سال دو تین ماہ کے لئے دوست احباب سے ملنے کے لئے آتا ہوں ، اس بار ماہ دسمبر میں کراچی آرٹس کونسل کی دعوت پر پاکستان آیا تھا جہاں سے لاہور آگیا۔اس وقت اچھی غزل کا فقدان ہے اسی لئے مرزا غالب کی غزلوں کے البم پر کام کر رہا ہوں ۔مرزا غالب کی ہر غزل کے معنی کو سمجھتے ہوئے کمپوزیشن تیار کر رہا ہوں جو سننے والوں کو پسند آئیگی۔استاد غلام عباس نے کہا کہ فنکار پھول کی مانند ہوتے ہیں اور ہر پھول کی خوشبو کا الگ الگ مزہ لینا چاہیے۔ لاہور میں اپنے قیام کے دوران اسی البم کی ریکارڈنگ کروانے کے ساتھ مختلف تقاریب میں شرکت کی، ماہ رواں کی 21تاریخ کو امریکا واپس چلا جاؤں گا اور پھر ان شاء اللہ ماہ اکتوبر میں دوبارہ آؤں گا ۔ میں پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج آرٹ اینڈ کلچر کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر صغریٰ صدف کا بھی بے حد مشکور ہوں کہ جنہوں نے بہت محبت اور عزت دی ہے ، وہ حقیقی معنوں میں کلچر کی پروموٹ کرنے کے لئے کام کر رہی ہیں۔
Load Next Story