مہنگائی پر قابو پایا جائے
آئی ایم ایف سے قرض کا حصول کوئی کامیابی نہیں، ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہوگا
وزیراعظم شہباز شریف نے بجلی کے بلوں میں 300یونٹس تک فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ چارجز ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے 75 فی صد صارفین کو فائدہ ہوگا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم عوام پر بوجھ ڈالیں لیکن پی ٹی آئی نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں ملکی معیشت کا بیڑا غرق کر دیا۔
آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے پاکستان دیوالیہ ہونے سے بچ گیا ہے، آئی ایم ایف سے قرض کا حصول کوئی کامیابی نہیں، ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہوگا۔ حکومت نے دس ہزار میگا واٹ سولر بجلی کے منصوبوں کی منظوری بھی دی ہے۔ دوسری جانب ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں گزشتہ ماہ (اگست) کے دوران مہنگائی کی شرح سالانہ بنیادوں پر 2.4 فی صد اضافے کے ساتھ 27.3 فی صد کی بلند سطح پر پہنچ گئی اور اس طرح ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی نے 47 سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے۔
بلاشبہ موجودہ حکومت ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کی سر توڑ کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے اوراپنی بہتر حکمت عملی کی بنا پر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے میں کامیاب ہوچکی ہے۔ دو روز قبل آئی ایم ایف کی جانب سے قرض کی قسط موصول ہونے سے ملکی معیشت کو استحکام حاصل ہوگا اور بہتری کے آثار نمایاں ہونگے ، لیکن اس بار نجلی کمپنیوں نے صارفین کو فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر جو بھاری بل بھیجے ہیں وہ عوام ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
کراچی جیسے میگا سٹی میں اس سلسلے میں شدید عوامی احتجاج دیکھنے میں آیا ہے ، جس سے امن و امان کی صورتحال بھی ابتر ہوئی ، بہرحال وزیراعظم کا یہ احسن اقدام ہے کہ انھوں نے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ چارجز واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی نہ ہونے کی وجہ سے مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے۔
دوسری جانب ملک میں سیلاب کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ زمین زیر آب آنے سے کھڑی فصلیں برباد ہوگئی ہیں۔ غذائی اجناس کی قلت ہونے سے ان کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ کھیتوں میں کام کرنے والے لاکھوں کسان سیلاب کی وجہ سے بے روزگار ہوگئے ہیں۔
سیلاب زدگان کی ایک بڑی تعداد محفوظ مقامات اور بالخصوص بڑے شہروں کی جانب نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوچکی ہے ، پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے ،اس کی زراعت کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے، غذائی اجناس کی قلت بھی راتوں ،رات مہنگائی کی شرح میں اضافے کا سبب بنی ہے، اس سے ملک میں معاشی بحران مزید بڑھے گا۔
مہنگائی ایک ہمہ جہتی بحران ہے کیونکہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ صرف عوام کی جیبوں پر ہی گراں نہیں گزرتا بلکہ بہت سے سفید پوش خاندانوں کے لیے اپنی سفید پوشی کا بھرم برقرار رکھنا بھی ممکن نہیں رہتا، یوں یہ ایک ایسا بحران ہے جو معاشرتی ساخت کے لیے کسی طور پر مفید نہیں۔ اس حقیقت سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں کہ دو روز قبل بھی پٹرول کے نرخوں میں اضافہ کر دیا گیا جس سے عوام کو حقیقی ریلیف ملنے کے امکانات یکسر معدوم ہو گئے ہیں، جب کہ پٹرولیم مصنوعات میں مزید اضافہ بھی پریشان کن ہے ، حالانکہ عالمی منڈی میںتیل کی قیمتوں میں نمایاں کمی واقع ہوچکی ہے لیکن ہم آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کی مجبوری کے تحت پٹرول کی قیمت کم کرنے سے قاصر ہیں بلکہ الٹا لیوی ٹیکس میں اضافہ کیا جارہا ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے گرانی کی نئی اور شدید ترین لہر پیدا ہونے کے امکانات نمایاں طور پر بڑھ گئے ہیں۔ امید ہے کہ حکومت عوام کی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے اس حوالے سے فی الفور اقدامات کرے گی تاکہ عوام کو حقیقی ریلیف پہنچایا جاسکے۔ جملہ زبان زد عام ہے کہ مہنگائی اپنی تمام حدیں پار کر چکی ہے۔
نجی محفل ہو یا اجتماعی مجلس ہر جگہ یہی موضوع زیر بحث رہتا ہے کہ اشیائے خورو نوش اور دیگر مصنوعات کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ متعدد ترقی پذیر ممالک میں ہوش ربا مہنگائی ہے، لیکن پاکستان میں صورت حال کچھ زیادہ ہی ابتر ہے۔ یہاں مہنگائی کو قابو کرنے کا نہ کوئی معیار ہے اور نہ ہی کوئی ایسا موثر طریقہ، جس سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کو لگام دی جائے اور مہنگائی کے جن کو واپس بوتل میں بند کیا جائے۔ اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی وجوہات مندرجہ ذیل ہو سکتی ہیں: افراط زر یعنی کرنسی کی قدر میں کمی کا آ جانا۔ یہ مسئلہ بھی اپنے لوازمات کے ساتھ ہماری معیشت کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے اور ہماری کرنسی دن بدن اپنی قدر کھو تی جارہی ہے۔
پروڈکشن پراسس میں کاسٹ کو Manage نہ کرنا بھی اشیا کی قیمتوں میں گرانی کا سبب بن سکتا ہے، کیونکہ اگر اسے Manageنہ کیا جائے تو اخراجات بڑھ جاتے ہیں، جس کے نتیجے میںقیمتوں میں اضافہ بزنس مین کی مجبوری بن جاتا ہے۔ سودی ذرایع سے مالی ضروریات پوری کرنا بھی قیمتوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ مثال کے طور پر سود پر قرضہ لیا جائے اور اس کی مدد سے پھر کاروبار کیا جائے تو کاروبار میں فائدہ ہو یا نقصان، سود کی مد میں پیسہ بہرحال واپس کرنا ہے اور یہ اضافی بوجھ کسٹمر کی جیب برداشت کرتی ہے۔
ہر حکومت کی طرف سے بجٹ کے موقعے پر ایسے بیانات سننے کو ملتے ہیں کہ عوام پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا، بجٹ عوام دوست ہے، اس سے مسائل پر قابو پانے میں مدد ملے گی وغیرہ وغیرہ۔ اس کے مقابلے میں حزبِ اختلاف کی پارلیمان کے اندر اور باہر موجود جماعتیں ہر بار یہی شور مچاتی ہیں کہ بجٹ سے مہنگائی کا طوفان آجائے گا، بجٹ عوام دشمن ہے، اس سے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ ہماری سیاسی قیادت نے یہ بیانات رٹے ہوئے ہیں اور ہر مرتبہ انھیں دہرا کر عوام کی ہمدردی سمیٹنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
عوام بھی تقریباً نصف صدی سے یہ بیانات اتنی بار پڑھ اور سن چکے ہیں کہ انھیں یہ سب باتیں اب یاد ہوچکی ہیں۔ نامناسب نفع بھی مہنگائی کی شرح میں اضافے کا ایک اہم سبب ہے، بڑی گاڑیوں کے ٹیکس میں اضافہ، نان فائلرز کی حوصلہ شکنی کے لیے کیے جانے والے اقدامات، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کے فروغ کے لیے کی جانے والی کوششیں اور بجٹ تقریر میں خوش نما بنا کر پیش کیے جانے والے دیگر تمام اقدامات حکومت کے عوام کے لیے احساس کے حقیقی ترجمان تبھی بنیں گے جب عوام کو یہ نظر آئے گا کہ ان کو حقیقی ریلیف فراہم کرنے کے لیے قیمتوں میں کتنی کمی ہوئی ہے اور بے روزگاری پر کس حد تک قابو پایا گیا ہے۔
عوام موٹی موٹی اصطلاحات سے نہ تو واقف ہیں اور نہ ہی وہ انھیں جاننے میں کوئی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کا اصل مسئلہ مہنگائی اور بے روزگاری ہے جس کا بڑا سبب حکومت کا غیر ملکی اداروں اور دوسرے ممالک کا دست نگر ہونا ہے۔ حکومت نے سرکاری ملازمین اور کابینہ کے ارکان کو دیے جانے والے پٹرول میں چالیس فیصد کٹوتی تو کی ہے اور غیر ضروری دوروں پر بھی پابندی لگائی ہے لیکن اتنے بڑے ملک کے مسائل پر قابو پانے کے لیے یہ اقدامات ناکافی ہیں۔ کاروباری طبقے، امیر ترین، جاگیرداروں اور اشرافیہ میں شامل دیگر طبقات کو دی جانے والی مراعات اصل مسئلہ ہیں جن سے متعلق سخت فیصلے کر کے حکومت عوام کو حقیقی ریلیف فراہم کرسکتی ہے۔
موجودہ اتحادی حکومت کے خلاف ایک پروپیگنڈا مہم چلائی گئی کہ ملک دیوالیہ ہونے جارہا ہے اور پاکستان کا حال بھی سری لنکا جیسے ہوگا، لیکن شاباش ہے وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ اور ان کی ٹیم کو وہ ملک دیوالیہ ہونے سے بچانے میں کامیاب ہوگئے اور آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پوری کرکے قرض پروگرام بھی بحال کروا لیا۔ یقیناً اب حکومت کی معاشی ٹیم کو حوصلہ ملے گا اور وہ مزید محنت اور تندہی سے کام کرے گی ، معیشت کو بہتر بنانے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی کے جن کو قابو کرنا ہے ، کیونکہ عام آدمی کی زندگی میں مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔
امید ہے کہ حکومت کے اکنامک منیجرز اس حوالے سے واضح حکمتِ عملی تشکیل دیں گے تاکہ مہنگائی پر قابو پایا جاسکے۔
آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے پاکستان دیوالیہ ہونے سے بچ گیا ہے، آئی ایم ایف سے قرض کا حصول کوئی کامیابی نہیں، ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہوگا۔ حکومت نے دس ہزار میگا واٹ سولر بجلی کے منصوبوں کی منظوری بھی دی ہے۔ دوسری جانب ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں گزشتہ ماہ (اگست) کے دوران مہنگائی کی شرح سالانہ بنیادوں پر 2.4 فی صد اضافے کے ساتھ 27.3 فی صد کی بلند سطح پر پہنچ گئی اور اس طرح ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی نے 47 سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے۔
بلاشبہ موجودہ حکومت ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کی سر توڑ کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے اوراپنی بہتر حکمت عملی کی بنا پر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے میں کامیاب ہوچکی ہے۔ دو روز قبل آئی ایم ایف کی جانب سے قرض کی قسط موصول ہونے سے ملکی معیشت کو استحکام حاصل ہوگا اور بہتری کے آثار نمایاں ہونگے ، لیکن اس بار نجلی کمپنیوں نے صارفین کو فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر جو بھاری بل بھیجے ہیں وہ عوام ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
کراچی جیسے میگا سٹی میں اس سلسلے میں شدید عوامی احتجاج دیکھنے میں آیا ہے ، جس سے امن و امان کی صورتحال بھی ابتر ہوئی ، بہرحال وزیراعظم کا یہ احسن اقدام ہے کہ انھوں نے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ چارجز واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی نہ ہونے کی وجہ سے مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے۔
دوسری جانب ملک میں سیلاب کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ زمین زیر آب آنے سے کھڑی فصلیں برباد ہوگئی ہیں۔ غذائی اجناس کی قلت ہونے سے ان کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ کھیتوں میں کام کرنے والے لاکھوں کسان سیلاب کی وجہ سے بے روزگار ہوگئے ہیں۔
سیلاب زدگان کی ایک بڑی تعداد محفوظ مقامات اور بالخصوص بڑے شہروں کی جانب نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوچکی ہے ، پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے ،اس کی زراعت کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے، غذائی اجناس کی قلت بھی راتوں ،رات مہنگائی کی شرح میں اضافے کا سبب بنی ہے، اس سے ملک میں معاشی بحران مزید بڑھے گا۔
مہنگائی ایک ہمہ جہتی بحران ہے کیونکہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ صرف عوام کی جیبوں پر ہی گراں نہیں گزرتا بلکہ بہت سے سفید پوش خاندانوں کے لیے اپنی سفید پوشی کا بھرم برقرار رکھنا بھی ممکن نہیں رہتا، یوں یہ ایک ایسا بحران ہے جو معاشرتی ساخت کے لیے کسی طور پر مفید نہیں۔ اس حقیقت سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں کہ دو روز قبل بھی پٹرول کے نرخوں میں اضافہ کر دیا گیا جس سے عوام کو حقیقی ریلیف ملنے کے امکانات یکسر معدوم ہو گئے ہیں، جب کہ پٹرولیم مصنوعات میں مزید اضافہ بھی پریشان کن ہے ، حالانکہ عالمی منڈی میںتیل کی قیمتوں میں نمایاں کمی واقع ہوچکی ہے لیکن ہم آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کی مجبوری کے تحت پٹرول کی قیمت کم کرنے سے قاصر ہیں بلکہ الٹا لیوی ٹیکس میں اضافہ کیا جارہا ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے گرانی کی نئی اور شدید ترین لہر پیدا ہونے کے امکانات نمایاں طور پر بڑھ گئے ہیں۔ امید ہے کہ حکومت عوام کی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے اس حوالے سے فی الفور اقدامات کرے گی تاکہ عوام کو حقیقی ریلیف پہنچایا جاسکے۔ جملہ زبان زد عام ہے کہ مہنگائی اپنی تمام حدیں پار کر چکی ہے۔
نجی محفل ہو یا اجتماعی مجلس ہر جگہ یہی موضوع زیر بحث رہتا ہے کہ اشیائے خورو نوش اور دیگر مصنوعات کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ متعدد ترقی پذیر ممالک میں ہوش ربا مہنگائی ہے، لیکن پاکستان میں صورت حال کچھ زیادہ ہی ابتر ہے۔ یہاں مہنگائی کو قابو کرنے کا نہ کوئی معیار ہے اور نہ ہی کوئی ایسا موثر طریقہ، جس سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کو لگام دی جائے اور مہنگائی کے جن کو واپس بوتل میں بند کیا جائے۔ اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی وجوہات مندرجہ ذیل ہو سکتی ہیں: افراط زر یعنی کرنسی کی قدر میں کمی کا آ جانا۔ یہ مسئلہ بھی اپنے لوازمات کے ساتھ ہماری معیشت کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے اور ہماری کرنسی دن بدن اپنی قدر کھو تی جارہی ہے۔
پروڈکشن پراسس میں کاسٹ کو Manage نہ کرنا بھی اشیا کی قیمتوں میں گرانی کا سبب بن سکتا ہے، کیونکہ اگر اسے Manageنہ کیا جائے تو اخراجات بڑھ جاتے ہیں، جس کے نتیجے میںقیمتوں میں اضافہ بزنس مین کی مجبوری بن جاتا ہے۔ سودی ذرایع سے مالی ضروریات پوری کرنا بھی قیمتوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ مثال کے طور پر سود پر قرضہ لیا جائے اور اس کی مدد سے پھر کاروبار کیا جائے تو کاروبار میں فائدہ ہو یا نقصان، سود کی مد میں پیسہ بہرحال واپس کرنا ہے اور یہ اضافی بوجھ کسٹمر کی جیب برداشت کرتی ہے۔
ہر حکومت کی طرف سے بجٹ کے موقعے پر ایسے بیانات سننے کو ملتے ہیں کہ عوام پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا، بجٹ عوام دوست ہے، اس سے مسائل پر قابو پانے میں مدد ملے گی وغیرہ وغیرہ۔ اس کے مقابلے میں حزبِ اختلاف کی پارلیمان کے اندر اور باہر موجود جماعتیں ہر بار یہی شور مچاتی ہیں کہ بجٹ سے مہنگائی کا طوفان آجائے گا، بجٹ عوام دشمن ہے، اس سے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ ہماری سیاسی قیادت نے یہ بیانات رٹے ہوئے ہیں اور ہر مرتبہ انھیں دہرا کر عوام کی ہمدردی سمیٹنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
عوام بھی تقریباً نصف صدی سے یہ بیانات اتنی بار پڑھ اور سن چکے ہیں کہ انھیں یہ سب باتیں اب یاد ہوچکی ہیں۔ نامناسب نفع بھی مہنگائی کی شرح میں اضافے کا ایک اہم سبب ہے، بڑی گاڑیوں کے ٹیکس میں اضافہ، نان فائلرز کی حوصلہ شکنی کے لیے کیے جانے والے اقدامات، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کے فروغ کے لیے کی جانے والی کوششیں اور بجٹ تقریر میں خوش نما بنا کر پیش کیے جانے والے دیگر تمام اقدامات حکومت کے عوام کے لیے احساس کے حقیقی ترجمان تبھی بنیں گے جب عوام کو یہ نظر آئے گا کہ ان کو حقیقی ریلیف فراہم کرنے کے لیے قیمتوں میں کتنی کمی ہوئی ہے اور بے روزگاری پر کس حد تک قابو پایا گیا ہے۔
عوام موٹی موٹی اصطلاحات سے نہ تو واقف ہیں اور نہ ہی وہ انھیں جاننے میں کوئی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کا اصل مسئلہ مہنگائی اور بے روزگاری ہے جس کا بڑا سبب حکومت کا غیر ملکی اداروں اور دوسرے ممالک کا دست نگر ہونا ہے۔ حکومت نے سرکاری ملازمین اور کابینہ کے ارکان کو دیے جانے والے پٹرول میں چالیس فیصد کٹوتی تو کی ہے اور غیر ضروری دوروں پر بھی پابندی لگائی ہے لیکن اتنے بڑے ملک کے مسائل پر قابو پانے کے لیے یہ اقدامات ناکافی ہیں۔ کاروباری طبقے، امیر ترین، جاگیرداروں اور اشرافیہ میں شامل دیگر طبقات کو دی جانے والی مراعات اصل مسئلہ ہیں جن سے متعلق سخت فیصلے کر کے حکومت عوام کو حقیقی ریلیف فراہم کرسکتی ہے۔
موجودہ اتحادی حکومت کے خلاف ایک پروپیگنڈا مہم چلائی گئی کہ ملک دیوالیہ ہونے جارہا ہے اور پاکستان کا حال بھی سری لنکا جیسے ہوگا، لیکن شاباش ہے وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ اور ان کی ٹیم کو وہ ملک دیوالیہ ہونے سے بچانے میں کامیاب ہوگئے اور آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پوری کرکے قرض پروگرام بھی بحال کروا لیا۔ یقیناً اب حکومت کی معاشی ٹیم کو حوصلہ ملے گا اور وہ مزید محنت اور تندہی سے کام کرے گی ، معیشت کو بہتر بنانے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی کے جن کو قابو کرنا ہے ، کیونکہ عام آدمی کی زندگی میں مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔
امید ہے کہ حکومت کے اکنامک منیجرز اس حوالے سے واضح حکمتِ عملی تشکیل دیں گے تاکہ مہنگائی پر قابو پایا جاسکے۔