کیا سندھ کروٹ بدل رہا ہے
پیپلزپارٹی کو شہروں کی ترقی کے جدید اور نچلی سطح کے نظام کو پورے سندھ میں نافذ کرنا چاہیے
کیا سندھ کروٹ بدل رہا ہے یا سندھ کے عوام کا بھی ریاست پر سے اعتماد ختم ہو چلا ہے؟ حالیہ سیلاب کی تباہ کاری کے دوران سندھ کے مختلف شہروں اور گاؤں میں عوام ناقص انتظامات پر احتجاج کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف اپنے نوجوان وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ سیلاب کا جائزہ لینے کے لیے جب سکھر شہر گئے تو کئی سو افراد نے انتظامیہ کی نااہلی اور امدادی سامان کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف ایک بھرپور مظاہرہ کیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی سکھر آمد پر ہائی سیکیورٹی الرٹ ڈیکلیئر کیا گیا تھا، یوں متعلقہ پولیس افسران نے اپنے فرائض منصبی کو بخوبی ادا کیا۔
مظاہرین پر لاٹھیاں برسائی گئیں اور بہت سے افراد کو گرفتار کیا گیا۔ پولیس حکام نے مزید اپنی کارکردگی کے اظہار کے لیے 100 افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز پر جب مظاہرین کے خلاف انسداد دہشت گردی کے مقدمات کا چرچا ہوا تو وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اس مقدمہ کو ختم کرنے کے لیے ہدایات جاری کیں۔
صوبائی مشیر برائے زراعت منظور وسان خواب دیکھنے اور پیشگوئی کرنے میں شہرت رکھتے ہیں۔ وہ گزشتہ ہفتہ اپنے گاؤں جارہے تھے کہ مظاہرین نے گھیر لیا۔ کئی گھنٹے تک اس مظاہرہ کی بناء پر نیشنل ہائی وے بند رہی۔ ان مظاہرین کا کہنا تھا کہ میر واہ کنال میں کٹ لگا کر فیض گنج کو تباہ کیا گیا، جس کے نتیجہ میں ہزاروں افراد بے گھر ہوئے۔
ان مظاہرین نے بتایا کہ کوٹ ڈیجی کا پانی میر واہ کنال میں ڈال دیا گیا۔ وہ پانی فیض گنج میں اوور فلو ہوا جس سے تحصیل فیض گنج میں بڑی تباہی آئی۔ بتایا گیا ہے کہ منظور وسان جب کرونڈی کے بعد فیض گنج پہنچے تو مظاہرین نے ان کا راستہ روک لیا اور زبردست نعرہ بازی کی۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کیا، یوں وسان صاحب اپنے گھر پہنچ پائے۔ اسی طرح عمر کوٹ میں متاثرین کے لیے قائم کی جانے والی خیمہ بستی مکینوں کے لیے عمر کوٹ مونو ٹیکنیکل کالج میں قائم کی گئی۔
اس خیمہ بستی میں پناہ لینے والے افراد کا کہنا ہے کہ ضلع انتظامیہ نے متاثرین کو کھانے کو کچھ نہیں دیا۔ ہمیں دو وقت ایک باؤل چاول ملتے ہیں، چائے کو دیکھے ہوئے عرصہ ہوا۔ عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے یہ بستی قائم کی گئی ہے۔ اخبارات میں شایع ہونے والی رپورٹ میں تحریر کیا گیا ہے کہ وزیر اعلیٰ نے مظاہرین کی باتوں پر کوئی توجہ نہ دی اور اپنی باتیں کر کے چلے جائیں۔ بتایا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ کو بھی خیرپور میں مظاہرہ کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت چاروں صوبے سیلاب اور بارشوں کی لپیٹ میں ہیں۔ فریال تالپور کے شوہر منور تالپور کی متاثرین سیلاب میں 50 روپے فی کس تقسیم کرنے کی وڈیو پورے ملک میں موضوع بحث رہی ہے۔
پنجاب کا جنوبی حصہ سیلاب سے متاثر ہوا ہے مگر وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی نے لاہور کے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں اجلاسوں کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ خیبرپختون خوا میں مسلسل تباہی سے سوات سے اٹک تک پانی ہی پانی ہے۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختون خواہ محمود خان اپنے قائد عمران خان کے ساتھ ہیلی کوپٹر کی سیر میں مصروف ہیں۔ ٰ بیرسٹر سیف جن کی پہلے ڈیوٹی ایم کیو ایم کے ساتھ تھی ، اب کے پی میں مشیر ہیں۔ انھوں نے واضح کیا کہ وزیر اعلیٰ کا ہیلی کوپٹر امدادی سرگرمیوں کے لیے نہیں ہے بلکہ صرف سفر کے لیے ہے۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو وزیر اعظم کے ہمراہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سیلاب زدگان کے کیمپوں میں نظر آتے ہیں مگر ان کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ واحد وزیر اعلیٰ ہیں جو گزشتہ ایک ماہ سے پہلے کراچی کی سڑکوں پر سندھ کے مختلف شہروں اور گوٹھوں میں مصروف نظر آتے ہیں مگر سندھ میں عوام کے اس احتجاج کا پس منظر جاننا ضروری ہے۔
پیپلز پارٹی 1967میں لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پر ایک کنونشن میں قائم ہوئی۔ پیپلز پارٹی نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا اور پنجاب میں معاہدہ تاشقند کے خلاف بھارت مخالف جذبات کو استعمال کیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھی زبان کو سندھ کی سرکاری زبان بنانے کا قانون نافذ کیا۔ زرعی اصلاحات ، لیبر پالیسی اور تعلیمی اصلاحات سے سندھ میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔
اندرون سندھ کے لوگوں کو کراچی اور اسلام آباد میں ملازمتوں کے مواقعے مہیا آئے۔ بھٹو حکومت نے سندھ میں انجینئرنگ یونیورسٹی بنائی اور کئی میڈیکل کالج قائم ہوئے۔ جب جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی تو پورے سندھ میں آگ لگ گئی۔ ایم آر ڈی کی تحریک میں سندھ میں ہزاروں افراد جیلوں میں گئے اور سیکڑوں کو کوڑوں کی سزا دی گئی۔
1988میں پیپلز پارٹی سندھ کی قومی اسمبلی کی 80 فیصد نشستوں پر کامیاب ہوئی۔ بے نظیر بھٹو حکومت کے دونوں ادوار میں سندھیوں کو ملازمتیں ملیں۔ سندھ سے پروفیشنل باہر جانے لگے۔ بے نظیر بھٹو کی تینوں حکومتوں کو اپنی آئینی میعاد پوری کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ آنے والی حکومتوں نے پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں ملازمت پانے والے ہزاروں افراد کو برطرف کیا۔
2007میں بے نظیر بھٹو کی شہادت سے سندھ میں اسی طرح ہمدردی کی لہر پیدا ہوئی جیسے بھٹو صاحب کی شہادت کے وقت ہوئی تھی۔ پیپلز پارٹی 14 سال سے سندھ پر مسلسل حکومت کررہی ہے۔ آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کے بعد صوبہ کی آمدنی بڑھ گئی ہے مگر صوبہ انتہائی بدانتظامی اور کرپشن کی صورتحال کا شکار ہے۔ صوبے کے شہر اور گاؤں کھنڈر بن گئے ہیں۔ حکومت نے شہروں اور گاؤں میں سیوریج کے نظام کو بہتر بنانے پر توجہ نہیں دی۔ ملازمتوں کے فروخت ہونے کے کلچر نے مایوسی میں اضافہ کیا ہے۔
پیپلزپارٹی کو شہروں کی ترقی کے جدید اور نچلی سطح کے نظام کو پورے سندھ میں نافذ کرنا چاہیے۔ کرپشن کے بارے میں صفر برداشت کی پالیسی اختیار کرنا وقت کی ضرورت ہے ، ورنہ پیپلز پارٹی نئے چیلنجز کا مقابلہ نہیں کر پائے گی۔