بھارت کی پاکستانی منڈیوں تک بلا متیاز رسائی کیخلاف کسانوں کا31مارچ سے واہگہ بارڈر پر دھرنے کا اعلان

انڈیا ہمارادشمن، پانی پر قابض، اب زراعت پر قبضہ کرنا چاہتا ہے، سوتی دھاگے کی درآمد بھی بند کی جائے، پی سی جی اے


Numainda Express March 18, 2014
این ڈی ایم اے کا درجہ دینے کے فیصلے کی واپسی یا پاکستانی اشیا کی بھارتی مارکیٹوں تک رسائی کو یقینی بنانے تک مخالفت جاری رہے گی،خالد محمودکھوکھر، پریس کانفرنس فوٹو : محمد ثاقب/ ایکسپریس / فائل

حکومت کی جانب سے بھارت کو بلا امتیاز مارکیٹ تک رسائی (این ڈی ایم اے)کے منصوبے کے خلاف پاکستان بھر سے ایک لاکھ سے زائد کسان 31 مارچ سے واہگہ بارڈر پر غیر معینہ مدت کیلیے دھرنا دیں گے۔

اس بات کا اعلان پاکستان کسان اتحاد کے صدر خالد محمود کھوکھر نے پیر کو مقامی ہوٹل میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں کیا۔ اس موقع پر کسان اتحاد سے یکجہتی کیلیے کاٹن جنرز ایسوسی ایشن، فارمرز ایسوسی ایشن آف پاکستان اور رائس ملز ایسوسی ایشن کے نمائندے بھی موجود تھے۔انہوں نے کہا کہ ملک بھر سے روزانہ کسانوں، چھوٹے کاروباری اداروں اور مختلف ایسوسی ایشنوں کی طرف سے کالز آرہی ہیں اور وہ 31 مارچ کو واہگہ پر دھرنے میں شامل ہوکر کسانوں کو سپورٹ کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ دھرنے کا آغاز 31 مارچ کو ہوگا جو اس وقت تک ختم نہیں کیا جائے گا جب تک حکومت بھارت کو این ڈی ایم اے کا درجہ دینے کے فیصلے کی واپسی کا اعلان نہیں کرتی۔خالد محمود نے تمام محب وطن شہریوں سے اپیل کی کہ وہ کسانوں کے اس دھرنے میں شامل ہوں کیونکہ این ڈی ایم اے کے تحت بھارت کو تجارت کی پیش کش سے پاکستان کی زراعت ختم ہوجائے گی۔ بھارت ہمارا دشمن ہے جو پہلے ہی پاکستان کے پانی پر قابض ہے اور اب وہ زراعت پر بھی قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کے کسان اس تجارت کو کبھی منظور نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے اکانومی سروے 2010-11 کے مطابق پانی کی قلت کے باعث چاول کی فی ہیکٹر پیداوار 2,387 کلوگرام فی ہیکٹر سے کم ہوکر 2,039 کلوگرام فی ہیکٹر ہوگئی ہے۔

اسی طرح گنے کی بوائی کا رقبہ پانی کی عدم دستیابی سے 1,029,000 ہیکٹر سے کم ہوکر 943,000 ہیکٹر رہ گیا ہے۔اسی طرح گندم کی فصل بھی کمی کا شکار تھی جبکہ ایک اندازے کے مطابق اگر یہ صورت حال جاری رہی تو پاکستان کو 2025 میں قحط جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان کو بھی بھارت کی طرح امپورٹ ٹیرف کا اطلاق کرنا چاہیے۔ امریکا جیسے ملک میں بھی ایگری کلچر کی امپورٹ کیلیے فری ٹریڈ پالیسی نہیں بنائی گئی۔فارمرز ایسوسی ایشن پاکستان(ایف اے پی) کے صدر اور شریک چیئرپرسن، ایگری کلچر ٹاسک فورس، پی آئی جے بی ایف، طارق بچہ نے کہا کہ اس سلسلے میں ایک خط وفاقی وزیر تجارت کو بھی بھیجا گیا تھا جس میں زرعی شعبے کی طرف توجہ دلائی گئی تھی جو ملک میں سب سے زیادہ روزگار مہیا کرتاہے اور واضح کیا گیا تھا کہ زرعی شعبہ بھارت کو این ڈی ایم اے؍ایم ایف این کا درجہ دینے کا اُس وقت تک مخالف ہے جب تک بھارتی سبسڈی کے خلاف ہماری زراعت کے تحفظ کی تیاری مکمل نہیں کرلی جاتی اور پاکستانی اشیا کی بھارتی مارکیٹوں تک رسائی کو یقینی نہیں بنالیا جاتا تاکہ پاکستان کو بھی تجارت میں یکساں مواقع مل سکیں جیسا کہ 29 فروری 2012 کو کیبنٹ کے فیصلے کی شرائط میں کہا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کم از کم سپورٹ پرائس 2012-13 کے جائزے سے یہ عیاں ہے کہ بھارت پاکستان کے مقابلے میں اپنے کسانوں کو زیادہ سپورٹ پرائس دیتا ہے۔ اسی طرح معیشت میں زراعت کے کردار کے موازنے سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اس تجارت میں سراسر نقصان کس ملک کا ہوگا۔ پاکستان میں سال 2012-13 میں زراعت کا جی ڈی پی میں حصہ 21.4 فیصد (5474 ارب روپے) تھا جبکہ ملک میں روزگار کا 45 فیصد زراعت سے وابستہ تھا (جو 60 فیصد دیہی آبادی کو سپورٹ کرتا ہے) اور زرعی مصنوعات کی برآمد 250 ارب روپے تھی۔سال 2012-13ء میں بھارت کی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 14.1 فیصد (24,431 ارب روپے) تھا۔ زرعی شعبے سے 58 فیصد روزگار مہیا کیا جاتا ہے(بھارت کا زرعی شعبہ پاکستان سے پانچ گنا بڑا ہے) اور بھارت کی زرعی مصنوعات کی برآمدات 3665 ارب روپے سے زائد تھیں۔ انہوں نے کہاحکومت کی جانب سے واہگہ بارڈر کھولنے میں بلاوجہ کی جلد بازی، 137 سے زائد اشیا کی تجارت کی اجازت اور ہر قسم کے ٹیرف اور نان ٹیرف میں کمی سے ہم تجارتی بات چیت میں اپنا مقام کھورہے ہیں۔

جب تک غیرجانبدارانہ اور آزاد تحقیق کے ذریعے ایک جداگانہ باہمی ایگری ٹریڈ ایگریمنٹ پر بات چیت نہیں کرلی جاتی جس میں فارمرز ایسوسی ایشن آف پاکستان سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز شامل ہوں اور اس کو حتمی شکل دے کر دستخط نہیں کردیے جاتے، اُس وقت تک واہگہ کے راستے کو زرعی مصنوعات اور اشیا کی تجارت کیلیے مزید نہیں کھولا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ زرعی مصنوعات کی تجارت کیلیے ڈبلیو ٹی او کی موجودہ پیچیدگیوں کی وجہ سے سافٹا مکمل طور پر نافذ نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ یہ 15 صفحات کا معاہدہ ہے جو نامکمل ہے اور اس میں مزید وضاحت، ترامیم اور تبدیلیاں اور اسٹیک ہولڈرز کی منظوری ہونا باقی ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت میں کسانوں کو تقریباً مفت بجلی فراہم کی جاتی ہے اور ڈیزل پر بھی سبسڈی دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بھارت میں کسانوں کیلیے فنڈز بھی مختص کیے جاتے ہیں تاکہ وہ جدید زرعی مشینری خرید سکیں جبکہ پاکستان اس معاملے میں بھارت سے بہت پیچھے ہے۔

اس کے برعکس پاکستان میں کسانوں کی حالت دگرگوں ہے۔ انہیں مہنگی بجلی، بلیک مارکیٹ اور زیادہ قیمت پر یوریا ملتا ہے۔ مہنگے بیج، غیر معیاری زرعی مشینری اور اس پر جنرل سیلز ٹیکس بھی دینا ہوتا ہے جو پاکستان میں اپنی نوعیت کی واحد مثال ہے ۔ دنیا میں کسی بھی ملک میں ایگری کلچر سیکٹر پر ٹیکس عائد نہیں کیا جاتا۔ پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے چیئر مین مختار احمد بلوچ نے کہا کہ حکومت فوری طور پر روئی اور دھاگے کی انڈیا سے درآمد پر پابندی عائد کرے تاکہ جنرز اور کاشتکاروں کو مکمل تباہی سے بچایا جا سکے۔ ملک بھر میں تقریباً 80 سے 90 ارب روپے کا روئی اور دھاگا ہر سال درآمدکیا جاتا ہے۔ درآمد پر آنیوالے اخراجات کاشتکاروں اور دیگر زرعی صنعتوں کو سبسڈی دے کر ایگریکلچرل انفراسٹرکچر کو مضبوط اور بہتر کرنے پر خرچ کیے جائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں