سیلاب و سیاست کی تباہ کاریاں
آخر کب تک اس ملک کو ایمرجنسی کے مریض کی طرح فوری امداد کی چالبازیوں سے زندہ رکھنے کی کوشش کی جاتی رہے گی
محتاط اندازے کے مطابق ملک کے 65 فیصد رقبے پر حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں نے جہاں سماجی اور شدید معاشی مسائل میں عوام کو گرفتار کیا ہے،وہیں یہ سیلاب 75 برس سے قائم غیر سول یا سول حکومتوں کی ناقص پالیسیوں اور جھوٹی تسلیوں کو بھی بہا کر لے گیا ہے۔
سیلاب کی تباہ کاریوں میں مبتلا عوام کے سامنے شہری اور دیہی ناقص انتظامی امور سامنے آنے اور بروقت امدادی سہولیات کی عدم فراہمی نے سول ،غیر سول حکمرانوں کی 75 برس کی خراب پلاننگ کے ساتھ ساتھ وڈیروں، جاگیرداروں، اور سرمایہ داروں کی لوٹ کھسوٹ کا پردہ بھی چاک کر دیا ہے۔
نا قابل بیان اور افسوس ناک صورتحال ہے کہ انتظامی طور پر ہر ضلع میں ہیلی کاپٹر کی فراہمی کو یقینی بنانے والی حکومتیں 75 برس میں کوئی ایسا منظم ادارہ قائم نہ کر سکی ہیں جو صوبائی یا ضلع سطح پر حادثات اور ناگہانی آفت میں انتظامی مشینری کو بروقت تماتر حادثاتی سامان فراہم کر سکے تاکہ فوری نوعیت کے حادثات سے نمٹ کر عوام اور ان کے مال مویشی اور کھڑی فصلوں کو بچایا جا سکے،ضلع سطح پر منظم انفرااسٹرکچر نہ ہونے کے سبب دفاعی طاقتور ادارے کی خدمات لینی پڑتی ہیں۔
سیلاب کی حالیہ تباہ کاریوں میں ہر جانب سے ''مدد''کی ہا ہا کار یا امدادی اشیا پہنچانے میں دشواری از خود حکومتی انتظامیہ پر ایک بھرپور طمانچہ ہے،جب کہ مخیر حضرات سے مدد کی اپیل بھی حکومت کے کمزور انتظامی امور کا پردہ چاک کرنے کے لیے کافی ہے،اس مرحلے پر یہ سوال اپنی جگہ مضبوطی سے کھڑا تمام کی تمام انتظامی مشینری اور عہدیداروں کا منہ چڑا رہا ہے کہ شہروں اور قصبوں کے حکومتی ترقیاتی فنڈز کہاں خرچ ہوتے ہیں یا اسمبلی کے اراکین کو دیے جانے والے ترقیاتی اخراجات عوام کے لیے اب تک کیا سہولیات پہنچا پائے ہیں۔
سوائے اس کے کہ بااثر وڈیرے اور اسمبلی کے اراکین اپنی زمینیں بچانے کے لیے شہر اور قصبے بے رحم سیلاب کی نذر کردیں اور اپنی نوازی گئی لوٹ کھسوٹ کی زمینوں کو محفوظ کرکے عوام کی زندگیوں کو داؤ پر لگادیں۔
آخر کب تک اس ملک کو ایمرجنسی کے مریض کی طرح فوری امداد کی چالبازیوں سے زندہ رکھنے کی کوشش کی جاتی رہے گی،یہ بات کم از کم ملک کی چوتھی نسل سمجھنے سے بالکل قاصر ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ طلبہ کی سیاسی نس بندی اب نئی نسل میں اضطراب پیدا کرکے انھیں تہذیب،شائستگی اور برداشت کے سیاسی رویوں سے دور کرکے انھیں ہٹ دھرمی،شخصی عقیدہ پرستی اور ہیرو ور شپ کی جاہلانہ و منفی تبدیلی کی جانب لے جا رہی ہے جس کا لازمی نتیجہ سماج کی سیاسی،تہذیبی اور معاشی تباہی کے ساتھ اقربا پروری اور ذاتی مفاد پرستی کی صورت میں سامنے آرہا ہے،جسے ریاستی یکجہتی کے کھوکھلے نعرے بہت زیادہ دیر تک سماج کے اس شکست و ریخت ہونے والے عمل کو سلامت نہیں رکھ پائیں گے،یہ سنجیدہ افراد سے لے کر بے سمت سیاستدانوں اور طاقتور ریاستی افراد کے لیے سماج کی وہ چتاونی ہے جس کو ہاتھ ملتے رہنے سے پہلے سمجھنا ضروری ہے۔
تاریخی اعتبار سے مسلسل سیاسی عدم استحکام جہاں سماج سے دوری پیدا کرنے کا عمل ہوتا ہے وہیں سیاسی عدم استحکام قانون و انصاف کی دھجیاں اڑانے کے ساتھ ساتھ تمام اداروں کی تباہی اور بربادی کا سبب بھی ہوتا ہے،جب کہ ایسی شکستہ صورتحال میں طاقتوروں کے مفاداتی تجربات جہاں ملک میں اضطراب اور گو مگو کی کیفیت لاتے ہیں وہیں عالمی طاقتیں اپنے ہرکاروں کی مدد سے ملک کی اقتصادیات سے لے کر اپنی مرضی کی سیاست کو فروغ دینے کی خاموش کوشش کرکے اپنی پسند اور مفادات کے سیاسی مہرے عوام کے ہمدرد بنا کر لاتے ہیں جو دراصل عوامی روپ میں عالمی کھیل کا وہ خطرناک رجحان ہوتے ہیں جو ملک کی نسل کو گمراہ کرکے خوش کن نعروں کا عادی بنا کر عوام کو عقیدے کا کفن پہنا دیتے ہیں اور در پردہ عالمی مقاصد کو پورا کرکے ملک یا خطے میں اپنی مفاداتی تبدیلی لانے کا سبب ہوتے ہیں۔
ملک کی موجودہ ہنگامہ خیز سیاسی صورتحال میں جہاں سیلاب کی تباہ کاریوں نے دکھ کی چادر تان رکھی ہے وہیں دوسری جانب میدان سیاست میں عمران خان کے متعلق عدالتی رعایتوں کی گردش بھی زبان زد عام ہے،سوال یہ نہیں کہ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے آئی ایم ایف کی عبوری امداد رکوانے کی کوشش کی اور ناکام رہے،نہ ہی یہ اہم بات ہے کہ کس نے شوکت ترین کی آڈیو ریکارڈ کی، کیونکہ تحریک انصاف کے سربراہ تو انٹرویو میں خود کہہ چکے ہیں کہ ملکی سلامتی کو بچانے کے لیے ریکارڈنگ کرنا ریاست کی ذمے داری ہے،سو اس مرحلے پر شوکت ترین ریکارڈنگ کیوں کی گئی کے سوال سے پہلے اپنے محبوب چیئرمین سے معلوم کر لیں کہ کیا ریکارڈنگ کا عمل درست ہے یا نہیں،کیونکہ عمران خان نے ابھی تک اس ریکارڈنگ کی اخلاقیات پر سوال نہیں اٹھایا البتہ چند تجزیہ کار اس سوال کو معاشی سازشی عمل سے زیادہ اہم سمجھ رہے ہیں۔
سو بہتر ہے کہ یہ مسئلہ عمران خان خود حل کر دیں تاکہ ریکارڈنگ کی اخلاقیات کا ابہام دور ہو سکے،جہاں تک رہا سوال کہ ہمارا عدالتی نظام لاڈلے کو رعایت دے رہا ہے یا پال رہا ہے تو حضور ہماری عدالتی تاریخ کبھی اتنی درخشاں نہیں رہی کہ اس سے مکمل قانون کے نتیجے میں انصاف کی امید کی جائے۔ تجزیاتی نکتہ نظر سے ملک کی سلامتی عمران اور شوکت ترین کے معاملات سے آگے ہے،موجودہ سیاسی حالات میں جمائمہ گولڈ اسمتھ کا ایکٹو ہو کر پہلے دو صوبوں کے لیے سیلاب فنڈ جمع کرنے کی اپیل کرنا اور دوسرے مرحلے میں جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم الخدمت کی داد و تحسین اور خدمات کا اعتراف کم از کم مستقبل کے جماعت اور عمران خان کے اتحاد کو سمجھنے کا ایک قابل فہم اشارہ ضرور ہے۔
غالب امکان ہے کہ طاقت کے مسٹرF کی کوشش رہے گی کہ مذکورہ اتحادی اکائی بنا کر طے شدہ مقاصد حاصل کیے جائیں کیونکہ اب قوم کو دھوکا دہی کا یہود و نصاری کا سبق پڑھانے والے اپنے پرانے درس سے دور ہوکر جدید دور کی سوچ کے ساتھ الٹرا ماڈرن اور الٹرا مذہبی اتحاد کی جانب بڑھ رہے ہیں،تاکہ مستقبل میں طالبان کو ماڈرن بنا کر خطے کو عالمی ایجنڈے کا حصہ کیا جا سکے،یہ ہماری سیاست میں وہ خاموش مگر سفاکانہ عمل ہونے کا گمان ہے جس سے اس نازک وقت میں باخبر رہنا تمام نظریاتی سیاست کی نہ صرف ضرورت ہے بلکہ اس کے تدارک کی سبیل کے لیے نظریاتی منڈلی بنانے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔
سیلاب کی تباہ کاریوں میں مبتلا عوام کے سامنے شہری اور دیہی ناقص انتظامی امور سامنے آنے اور بروقت امدادی سہولیات کی عدم فراہمی نے سول ،غیر سول حکمرانوں کی 75 برس کی خراب پلاننگ کے ساتھ ساتھ وڈیروں، جاگیرداروں، اور سرمایہ داروں کی لوٹ کھسوٹ کا پردہ بھی چاک کر دیا ہے۔
نا قابل بیان اور افسوس ناک صورتحال ہے کہ انتظامی طور پر ہر ضلع میں ہیلی کاپٹر کی فراہمی کو یقینی بنانے والی حکومتیں 75 برس میں کوئی ایسا منظم ادارہ قائم نہ کر سکی ہیں جو صوبائی یا ضلع سطح پر حادثات اور ناگہانی آفت میں انتظامی مشینری کو بروقت تماتر حادثاتی سامان فراہم کر سکے تاکہ فوری نوعیت کے حادثات سے نمٹ کر عوام اور ان کے مال مویشی اور کھڑی فصلوں کو بچایا جا سکے،ضلع سطح پر منظم انفرااسٹرکچر نہ ہونے کے سبب دفاعی طاقتور ادارے کی خدمات لینی پڑتی ہیں۔
سیلاب کی حالیہ تباہ کاریوں میں ہر جانب سے ''مدد''کی ہا ہا کار یا امدادی اشیا پہنچانے میں دشواری از خود حکومتی انتظامیہ پر ایک بھرپور طمانچہ ہے،جب کہ مخیر حضرات سے مدد کی اپیل بھی حکومت کے کمزور انتظامی امور کا پردہ چاک کرنے کے لیے کافی ہے،اس مرحلے پر یہ سوال اپنی جگہ مضبوطی سے کھڑا تمام کی تمام انتظامی مشینری اور عہدیداروں کا منہ چڑا رہا ہے کہ شہروں اور قصبوں کے حکومتی ترقیاتی فنڈز کہاں خرچ ہوتے ہیں یا اسمبلی کے اراکین کو دیے جانے والے ترقیاتی اخراجات عوام کے لیے اب تک کیا سہولیات پہنچا پائے ہیں۔
سوائے اس کے کہ بااثر وڈیرے اور اسمبلی کے اراکین اپنی زمینیں بچانے کے لیے شہر اور قصبے بے رحم سیلاب کی نذر کردیں اور اپنی نوازی گئی لوٹ کھسوٹ کی زمینوں کو محفوظ کرکے عوام کی زندگیوں کو داؤ پر لگادیں۔
آخر کب تک اس ملک کو ایمرجنسی کے مریض کی طرح فوری امداد کی چالبازیوں سے زندہ رکھنے کی کوشش کی جاتی رہے گی،یہ بات کم از کم ملک کی چوتھی نسل سمجھنے سے بالکل قاصر ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ طلبہ کی سیاسی نس بندی اب نئی نسل میں اضطراب پیدا کرکے انھیں تہذیب،شائستگی اور برداشت کے سیاسی رویوں سے دور کرکے انھیں ہٹ دھرمی،شخصی عقیدہ پرستی اور ہیرو ور شپ کی جاہلانہ و منفی تبدیلی کی جانب لے جا رہی ہے جس کا لازمی نتیجہ سماج کی سیاسی،تہذیبی اور معاشی تباہی کے ساتھ اقربا پروری اور ذاتی مفاد پرستی کی صورت میں سامنے آرہا ہے،جسے ریاستی یکجہتی کے کھوکھلے نعرے بہت زیادہ دیر تک سماج کے اس شکست و ریخت ہونے والے عمل کو سلامت نہیں رکھ پائیں گے،یہ سنجیدہ افراد سے لے کر بے سمت سیاستدانوں اور طاقتور ریاستی افراد کے لیے سماج کی وہ چتاونی ہے جس کو ہاتھ ملتے رہنے سے پہلے سمجھنا ضروری ہے۔
تاریخی اعتبار سے مسلسل سیاسی عدم استحکام جہاں سماج سے دوری پیدا کرنے کا عمل ہوتا ہے وہیں سیاسی عدم استحکام قانون و انصاف کی دھجیاں اڑانے کے ساتھ ساتھ تمام اداروں کی تباہی اور بربادی کا سبب بھی ہوتا ہے،جب کہ ایسی شکستہ صورتحال میں طاقتوروں کے مفاداتی تجربات جہاں ملک میں اضطراب اور گو مگو کی کیفیت لاتے ہیں وہیں عالمی طاقتیں اپنے ہرکاروں کی مدد سے ملک کی اقتصادیات سے لے کر اپنی مرضی کی سیاست کو فروغ دینے کی خاموش کوشش کرکے اپنی پسند اور مفادات کے سیاسی مہرے عوام کے ہمدرد بنا کر لاتے ہیں جو دراصل عوامی روپ میں عالمی کھیل کا وہ خطرناک رجحان ہوتے ہیں جو ملک کی نسل کو گمراہ کرکے خوش کن نعروں کا عادی بنا کر عوام کو عقیدے کا کفن پہنا دیتے ہیں اور در پردہ عالمی مقاصد کو پورا کرکے ملک یا خطے میں اپنی مفاداتی تبدیلی لانے کا سبب ہوتے ہیں۔
ملک کی موجودہ ہنگامہ خیز سیاسی صورتحال میں جہاں سیلاب کی تباہ کاریوں نے دکھ کی چادر تان رکھی ہے وہیں دوسری جانب میدان سیاست میں عمران خان کے متعلق عدالتی رعایتوں کی گردش بھی زبان زد عام ہے،سوال یہ نہیں کہ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے آئی ایم ایف کی عبوری امداد رکوانے کی کوشش کی اور ناکام رہے،نہ ہی یہ اہم بات ہے کہ کس نے شوکت ترین کی آڈیو ریکارڈ کی، کیونکہ تحریک انصاف کے سربراہ تو انٹرویو میں خود کہہ چکے ہیں کہ ملکی سلامتی کو بچانے کے لیے ریکارڈنگ کرنا ریاست کی ذمے داری ہے،سو اس مرحلے پر شوکت ترین ریکارڈنگ کیوں کی گئی کے سوال سے پہلے اپنے محبوب چیئرمین سے معلوم کر لیں کہ کیا ریکارڈنگ کا عمل درست ہے یا نہیں،کیونکہ عمران خان نے ابھی تک اس ریکارڈنگ کی اخلاقیات پر سوال نہیں اٹھایا البتہ چند تجزیہ کار اس سوال کو معاشی سازشی عمل سے زیادہ اہم سمجھ رہے ہیں۔
سو بہتر ہے کہ یہ مسئلہ عمران خان خود حل کر دیں تاکہ ریکارڈنگ کی اخلاقیات کا ابہام دور ہو سکے،جہاں تک رہا سوال کہ ہمارا عدالتی نظام لاڈلے کو رعایت دے رہا ہے یا پال رہا ہے تو حضور ہماری عدالتی تاریخ کبھی اتنی درخشاں نہیں رہی کہ اس سے مکمل قانون کے نتیجے میں انصاف کی امید کی جائے۔ تجزیاتی نکتہ نظر سے ملک کی سلامتی عمران اور شوکت ترین کے معاملات سے آگے ہے،موجودہ سیاسی حالات میں جمائمہ گولڈ اسمتھ کا ایکٹو ہو کر پہلے دو صوبوں کے لیے سیلاب فنڈ جمع کرنے کی اپیل کرنا اور دوسرے مرحلے میں جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم الخدمت کی داد و تحسین اور خدمات کا اعتراف کم از کم مستقبل کے جماعت اور عمران خان کے اتحاد کو سمجھنے کا ایک قابل فہم اشارہ ضرور ہے۔
غالب امکان ہے کہ طاقت کے مسٹرF کی کوشش رہے گی کہ مذکورہ اتحادی اکائی بنا کر طے شدہ مقاصد حاصل کیے جائیں کیونکہ اب قوم کو دھوکا دہی کا یہود و نصاری کا سبق پڑھانے والے اپنے پرانے درس سے دور ہوکر جدید دور کی سوچ کے ساتھ الٹرا ماڈرن اور الٹرا مذہبی اتحاد کی جانب بڑھ رہے ہیں،تاکہ مستقبل میں طالبان کو ماڈرن بنا کر خطے کو عالمی ایجنڈے کا حصہ کیا جا سکے،یہ ہماری سیاست میں وہ خاموش مگر سفاکانہ عمل ہونے کا گمان ہے جس سے اس نازک وقت میں باخبر رہنا تمام نظریاتی سیاست کی نہ صرف ضرورت ہے بلکہ اس کے تدارک کی سبیل کے لیے نظریاتی منڈلی بنانے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔