جمہوریت کا پرچم
ہم سیاسی اختلافات کی وجہ سے آج تک کالا باغ ڈیم نہ بنا سکے، جس کی وجہ سے یہ غریب لوگ سیلابوں کا مقابلہ کرتے رہیں گے
پورا وطن سیلاب کی زد میں ہے، سیاست دان عجیب بیانات دے رہے ہیں، لوگوں کی مشکلات پر نظر نہیں ڈالی جا رہی، اس غریب وطن میں آنے والے سیلاب کو اٹلی کے شہر سے ملایا جا رہا ہے، سیاست جوں کی توں آباد ہے، لوگوں کے مسائل پہاڑوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں، شاید ہمارے کرتا دھرتاؤں کو معلوم ہی نہیں، سیلاب میں بہے انسانوں کی تکالیف کا، ڈوبتی، آہ و بکا کرتے عوام پر بھی پوائنٹ اسکورنگ کی جاری ہیں۔ ادھر مال، مویشی، کنبہ، قبیلہ غرض سب پانی کی نذر ہوا جاتا ہے۔
ہمیں ان سیلاب زدگان کے دکھ کو بہت گہری نگاہ سے دیکھنا ہوگا۔ ہم اپنے بچپن سے سن رہے ہیں کہ ڈیم بنائے جائیں مگر اس طوفانی سیاست نے ڈیموں کا راستہ روکے رکھا، آج اہل مراعات تو نہیں، ہاں غریب ان سیلابوں کی وجہ سے لاچار اور مفلسی کی چادر اوڑھے سو رہا ہے، لکھنے والے اپنی ذمے داری محسوس کرتے ہیں مگر جنھیں ذمے داری محسوس کرنی ہے وہ غیر ذمے داری کا ثبوت دے رہے ہیں، اتنے مسائل ہیں کہ اب تو چراغوں میں تیل نہیں رہا اس پر روشنی ڈالنے کے لیے۔کے الیکٹرک کے حوالے سے روز خبریں انٹرنیٹ پر آ رہی ہیں، اخبارات الگ لکھتے ہیں، کچھ علاقوں میں کے الیکٹرک کے حوالے سے ناخوشگوار واقعات نے بھی جنم لیا ہے، لوگ مشتعل ہیں، K الیکٹرک عوامی مسائل پر خصوصی توجہ دے کہ:
دیا جلائے رکھنا ہے گھر تو آخر اپنا ہے
معزز سیاسی شخصیات جو وزارت پر براجمان ہیں ، انھیں ان مسائل پر خصوصی توجہ دینی چاہیے، روز کسی نہ کسی آفس کے سامنے مظاہرہ ہوتا ہے۔ اس مسئلے کو وزیر اعظم خصوصی توجہ دے کر اسے قومی امنگوں کے مطابق ڈھالا جائے اور کراچی میں مختلف کمپنیوں کو بجلی کی سپلائی کے لیے سنجیدگی سے دعوت دی جائے اس سے بڑا فرق پڑے گا عوام جس سے چاہیئیں بجلی خریدیں، مقابلے کی دوڑ ہوگی تو بجلی بھی سستی ہوگی اور یہ روز روز کے جھگڑے فساد کا سلسلہ بھی ختم ہوگا۔
ایک مسئلہ ہو تو روشنی ڈالی جائے مگر کیا کریں مسائل پر روشنی ڈالتے ڈالتے اب تو قلم کے چراغوں کا تیل بھی ختم ہو رہا ہے، گزشتہ دنوں وزیر توانائی فرما رہے تھے کہ 200 یونٹ استعمال کرنے والوں پر فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں صارفین کو بہت سہولت حاصل ہوگی۔
محترم وزیر صاحب 200 یونٹ میں کچی آبادی میں رہنے والے گھر کی صرف پانی کی موٹر 2 پنکھے اور ایک بلب ہی جل سکتا ہے، اس پر نظر ثانی کی جائے۔ تفصیلی روشن ڈالی تو ہمارے وزرا ناراض ہو جاتے ہیں، بس اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ کیا ہمارے وزرا بھی 200 یونٹ ماہانہ استعمال کرتے ہیں؟ بس اتنی سی بات ہے، آگے تفصیل میں جانا وقت کا ضیاع ہے۔
جب تک ہمارے سیاست دان ذمے داری اور سادگی نہیں اپناتے حالات اسی طرح رہیں گے اور ایسا نہ ہو کہ مزید50 سال بھی اسی طرح گزر جائیں، 1987 کے بعد تو سیاست ہی بدل گئی، راقم 1977 میں کالج کا طالب علم تھا، نوجوان نسل کے لیے تحریرکر رہا ہوں کہ ماضی میں سیاست میں کتنی سادگی تھی، راقم کو لکھنے لکھانے کا نوجوانی سے شوق تھا، ماضی کے معروف صحافی زیڈ اے سلہری کراچی آئے ، ان سے یاد محبت بھی تھی، انھوں نے ایک انٹرویو1977 میں ایم این اے بننے والے جماعت اسلامی کے منور حسن کا کیا تھا، اب سیاست کی پاکیزگی دیکھیں اور آج کی سیاست دیکھیں تو عقل پر حیرانی کے پہاڑ گرتے ہیں۔
1977 کے الیکشن میں پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے وہ ممبر قومی اسمبلی بنے اور ان کی اہلیہ بھی ممبر قومی اسمبلی رہیں، اس وقت تمام ایم این ایز کو ہدایت دی گئی کہ اپنے اثاثے ظاہر کریں، انھوں نے جو اثاثے ظاہر کیے انھیں دیکھ کر آج کے ماحول کے مطابق تو ذہن سوچ میں مبتلا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟
ایک سو گز کے مکان میں رہتے تھے وہ مکان بھی اہلیہ کا تھا، جو خود ایم این اے منتخب ہوئی تھیں، استعمال کے لیے گاڑی نہیں تھی، آفس کے کام کے لیے جماعت اسلامی کی گاڑی استعمال کرتے، ذاتی کام عوامی ٹرانسپورٹ پر کرتے، 100 گز کا مکان ڈیفنس کے 1000 گز کے بنگلے میں منتقل نہ ہو سکا جب انھوں نے بیٹے کی شادی کی تو اس وقت جماعت اسلامی کے امیر تھے مگر ولیمے میں سموسے پکوڑے اور چائے پیش کی جب کہ اس شادی میں وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ، گورنر اور بیوروکریٹس بھی شریک ہوئے تھے جب کہ صاحبزادی کی شادی میں بے شمار قیمتی تحائف سونے کے زیورات ملے تو سب جماعت اسلامی کے بیت المال میں یہ کہہ کر جمع کرا دیے کہ یہ میری بیٹی کو یا مجھے ذاتی حیثیت میں نہیں بلکہ امیر جماعت اسلامی پاکستان ہونے کی وجہ سے ملے ہیں، ان تحائف پر جماعت اسلامی کا حق ہے۔
جب راقم نے صحافت میں قدم رکھا تو منور حسن سے ملاقات ہوئی، ان سے ملاقات کے بعد میں نے انھیں نیک سیرت انسان پایا، سفید سوٹ، ویسٹ کوٹ اور اس کی حالت یہ تھی کہ دھلوا دھلوا کر رنگت تک اتر گئی تھی، اب تو یہ باتیں صرف پڑھنے اور سنانے کی حد تک رہ گئی ہیں، آج سیاست کا یہ رنگ کس طرح ابھر کے سامنے آیا ہے۔
یاد رکھیں! تباہی اور حالات خراب ایک دن میں نہیں ہوتے، کچھ عرصہ لگتا ہے، مگر ہماری سیاست اور جمہوریت نے بہت خوب صورت ترقی کی ہے۔ کوئی پرسان حال نہیں مانا کہ سیلاب نے بہت تباہی مچائی ہے، فصلیں تباہ ہوئی ہیں، جو بچ گئی تھیں ان کا بھی جائزہ لے لیتے ہیں۔
سبزی منڈی پہلے قریب تھی تو وہ لوگ جن کی فیملی میں زیادہ افراد ہوتے تھے وہ سبزی منڈی چلے جاتے تھے، اب تو 25 فیصد لوگ سبزی منڈی جاتے ہیں، دور ہونے کے باعث ان کے مطابق شہر میں سبزیوں کی خودساختہ آگ لگا دی گئی ہے یعنی کہ جو قیمتیں لکھی جا رہی ہیں وہ اتنی مہنگی ہیں کہ عقل حیران ہے کوئی پرسان حال نہیں، پرائس کنٹرول والے بھی اپنی ذمے داری محسوس کرتے نظر نہیں آتے، سبزی منڈی میں ریٹ اتنے نہیں ہیں جتنے یہ سبزی فروش قوم سے وصول رہے ہیں، عقل دنگ ہے کہ انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔
یاد رہے کہ میں یہ لکھ رہا ہوں حالات ٹھیک بھی ہوگئے تو یہ ریٹ صرف 50 فیصد کم ہوں گے کیونکہ جب کوئی پرسان حال نہ ہو تو خودساختہ مہنگائی کرنیوالے خود سر ہو جاتے ہیں۔ صرف ایک جملہ یہ کہہ کر ٹھیلے والا اور دکان دار بات ختم کردیتا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے سبزی آ نہیں رہی ہے کوئی انھیں پوچھنے والا ہے؟ پیاز 350 روپے کلو، ٹماٹر300 روپے کلو، ہری مرچ 600 روپے کلو جب کہ ہرا دھنیا900 روپے کلو، ایک چھوٹی سی گڈی 40 روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ ماضی میں شاید 2005 کی بات ہے جب زلزلہ آیا تھا تو کفن مہنگے کردیے گئے تھے، پھر پوچھتے ہیں کہ ہم پر یہ عذاب کیوں آتے ہیں؟ جب تک اس ملک میں نئے ڈیم نہیں بنیں گے، سیلاب کی صورت حال اسی طرح اس قوم کو لاوارث کرتی رہے گی۔ سابق صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان مرحوم کو ان سیاستدانوں نے کبھی قبول نہیں کیا، حالانکہ انھوں نے جو اس ملک کی خدمت کی انھیں خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے۔
ہم سیاسی اختلافات کی وجہ سے آج تک کالا باغ ڈیم نہ بنا سکے، جس کی وجہ سے یہ غریب لوگ سیلابوں کا مقابلہ کرتے رہیں گے پاکستان میں سابق صدر ایوب خان نے جو ڈیم تعمیر کیے ان میں وارسک ڈیم 1960، منگلا ڈیم1961، سملی ڈیم 1962، حب ڈیم 1963، تربیلا ڈیم 1968، خان پور ڈیم 1969 اور پھر اس کے بعد قوم نے جمہوریت کا پرچم بلند کردیا جو آج بھی آب و تاب سے لہرا رہا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ جب بھی فوج آئی ملک میں بہتری کی فضا قائم ہوئی، آج تک اور حال میں بھی کسی سیاستدان نے نئے ڈیم بنانے کی بات نہیں کی۔ کیا یہ مجبور اور بے کس قوم اسی طرح سیلابوں کا مقابلہ کرتی رہے گی؟ یہ سوچنے والی بہت گہری بات ہے۔
ہمیں ان سیلاب زدگان کے دکھ کو بہت گہری نگاہ سے دیکھنا ہوگا۔ ہم اپنے بچپن سے سن رہے ہیں کہ ڈیم بنائے جائیں مگر اس طوفانی سیاست نے ڈیموں کا راستہ روکے رکھا، آج اہل مراعات تو نہیں، ہاں غریب ان سیلابوں کی وجہ سے لاچار اور مفلسی کی چادر اوڑھے سو رہا ہے، لکھنے والے اپنی ذمے داری محسوس کرتے ہیں مگر جنھیں ذمے داری محسوس کرنی ہے وہ غیر ذمے داری کا ثبوت دے رہے ہیں، اتنے مسائل ہیں کہ اب تو چراغوں میں تیل نہیں رہا اس پر روشنی ڈالنے کے لیے۔کے الیکٹرک کے حوالے سے روز خبریں انٹرنیٹ پر آ رہی ہیں، اخبارات الگ لکھتے ہیں، کچھ علاقوں میں کے الیکٹرک کے حوالے سے ناخوشگوار واقعات نے بھی جنم لیا ہے، لوگ مشتعل ہیں، K الیکٹرک عوامی مسائل پر خصوصی توجہ دے کہ:
دیا جلائے رکھنا ہے گھر تو آخر اپنا ہے
معزز سیاسی شخصیات جو وزارت پر براجمان ہیں ، انھیں ان مسائل پر خصوصی توجہ دینی چاہیے، روز کسی نہ کسی آفس کے سامنے مظاہرہ ہوتا ہے۔ اس مسئلے کو وزیر اعظم خصوصی توجہ دے کر اسے قومی امنگوں کے مطابق ڈھالا جائے اور کراچی میں مختلف کمپنیوں کو بجلی کی سپلائی کے لیے سنجیدگی سے دعوت دی جائے اس سے بڑا فرق پڑے گا عوام جس سے چاہیئیں بجلی خریدیں، مقابلے کی دوڑ ہوگی تو بجلی بھی سستی ہوگی اور یہ روز روز کے جھگڑے فساد کا سلسلہ بھی ختم ہوگا۔
ایک مسئلہ ہو تو روشنی ڈالی جائے مگر کیا کریں مسائل پر روشنی ڈالتے ڈالتے اب تو قلم کے چراغوں کا تیل بھی ختم ہو رہا ہے، گزشتہ دنوں وزیر توانائی فرما رہے تھے کہ 200 یونٹ استعمال کرنے والوں پر فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں صارفین کو بہت سہولت حاصل ہوگی۔
محترم وزیر صاحب 200 یونٹ میں کچی آبادی میں رہنے والے گھر کی صرف پانی کی موٹر 2 پنکھے اور ایک بلب ہی جل سکتا ہے، اس پر نظر ثانی کی جائے۔ تفصیلی روشن ڈالی تو ہمارے وزرا ناراض ہو جاتے ہیں، بس اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ کیا ہمارے وزرا بھی 200 یونٹ ماہانہ استعمال کرتے ہیں؟ بس اتنی سی بات ہے، آگے تفصیل میں جانا وقت کا ضیاع ہے۔
جب تک ہمارے سیاست دان ذمے داری اور سادگی نہیں اپناتے حالات اسی طرح رہیں گے اور ایسا نہ ہو کہ مزید50 سال بھی اسی طرح گزر جائیں، 1987 کے بعد تو سیاست ہی بدل گئی، راقم 1977 میں کالج کا طالب علم تھا، نوجوان نسل کے لیے تحریرکر رہا ہوں کہ ماضی میں سیاست میں کتنی سادگی تھی، راقم کو لکھنے لکھانے کا نوجوانی سے شوق تھا، ماضی کے معروف صحافی زیڈ اے سلہری کراچی آئے ، ان سے یاد محبت بھی تھی، انھوں نے ایک انٹرویو1977 میں ایم این اے بننے والے جماعت اسلامی کے منور حسن کا کیا تھا، اب سیاست کی پاکیزگی دیکھیں اور آج کی سیاست دیکھیں تو عقل پر حیرانی کے پہاڑ گرتے ہیں۔
1977 کے الیکشن میں پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے وہ ممبر قومی اسمبلی بنے اور ان کی اہلیہ بھی ممبر قومی اسمبلی رہیں، اس وقت تمام ایم این ایز کو ہدایت دی گئی کہ اپنے اثاثے ظاہر کریں، انھوں نے جو اثاثے ظاہر کیے انھیں دیکھ کر آج کے ماحول کے مطابق تو ذہن سوچ میں مبتلا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟
ایک سو گز کے مکان میں رہتے تھے وہ مکان بھی اہلیہ کا تھا، جو خود ایم این اے منتخب ہوئی تھیں، استعمال کے لیے گاڑی نہیں تھی، آفس کے کام کے لیے جماعت اسلامی کی گاڑی استعمال کرتے، ذاتی کام عوامی ٹرانسپورٹ پر کرتے، 100 گز کا مکان ڈیفنس کے 1000 گز کے بنگلے میں منتقل نہ ہو سکا جب انھوں نے بیٹے کی شادی کی تو اس وقت جماعت اسلامی کے امیر تھے مگر ولیمے میں سموسے پکوڑے اور چائے پیش کی جب کہ اس شادی میں وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ، گورنر اور بیوروکریٹس بھی شریک ہوئے تھے جب کہ صاحبزادی کی شادی میں بے شمار قیمتی تحائف سونے کے زیورات ملے تو سب جماعت اسلامی کے بیت المال میں یہ کہہ کر جمع کرا دیے کہ یہ میری بیٹی کو یا مجھے ذاتی حیثیت میں نہیں بلکہ امیر جماعت اسلامی پاکستان ہونے کی وجہ سے ملے ہیں، ان تحائف پر جماعت اسلامی کا حق ہے۔
جب راقم نے صحافت میں قدم رکھا تو منور حسن سے ملاقات ہوئی، ان سے ملاقات کے بعد میں نے انھیں نیک سیرت انسان پایا، سفید سوٹ، ویسٹ کوٹ اور اس کی حالت یہ تھی کہ دھلوا دھلوا کر رنگت تک اتر گئی تھی، اب تو یہ باتیں صرف پڑھنے اور سنانے کی حد تک رہ گئی ہیں، آج سیاست کا یہ رنگ کس طرح ابھر کے سامنے آیا ہے۔
یاد رکھیں! تباہی اور حالات خراب ایک دن میں نہیں ہوتے، کچھ عرصہ لگتا ہے، مگر ہماری سیاست اور جمہوریت نے بہت خوب صورت ترقی کی ہے۔ کوئی پرسان حال نہیں مانا کہ سیلاب نے بہت تباہی مچائی ہے، فصلیں تباہ ہوئی ہیں، جو بچ گئی تھیں ان کا بھی جائزہ لے لیتے ہیں۔
سبزی منڈی پہلے قریب تھی تو وہ لوگ جن کی فیملی میں زیادہ افراد ہوتے تھے وہ سبزی منڈی چلے جاتے تھے، اب تو 25 فیصد لوگ سبزی منڈی جاتے ہیں، دور ہونے کے باعث ان کے مطابق شہر میں سبزیوں کی خودساختہ آگ لگا دی گئی ہے یعنی کہ جو قیمتیں لکھی جا رہی ہیں وہ اتنی مہنگی ہیں کہ عقل حیران ہے کوئی پرسان حال نہیں، پرائس کنٹرول والے بھی اپنی ذمے داری محسوس کرتے نظر نہیں آتے، سبزی منڈی میں ریٹ اتنے نہیں ہیں جتنے یہ سبزی فروش قوم سے وصول رہے ہیں، عقل دنگ ہے کہ انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔
یاد رہے کہ میں یہ لکھ رہا ہوں حالات ٹھیک بھی ہوگئے تو یہ ریٹ صرف 50 فیصد کم ہوں گے کیونکہ جب کوئی پرسان حال نہ ہو تو خودساختہ مہنگائی کرنیوالے خود سر ہو جاتے ہیں۔ صرف ایک جملہ یہ کہہ کر ٹھیلے والا اور دکان دار بات ختم کردیتا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے سبزی آ نہیں رہی ہے کوئی انھیں پوچھنے والا ہے؟ پیاز 350 روپے کلو، ٹماٹر300 روپے کلو، ہری مرچ 600 روپے کلو جب کہ ہرا دھنیا900 روپے کلو، ایک چھوٹی سی گڈی 40 روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ ماضی میں شاید 2005 کی بات ہے جب زلزلہ آیا تھا تو کفن مہنگے کردیے گئے تھے، پھر پوچھتے ہیں کہ ہم پر یہ عذاب کیوں آتے ہیں؟ جب تک اس ملک میں نئے ڈیم نہیں بنیں گے، سیلاب کی صورت حال اسی طرح اس قوم کو لاوارث کرتی رہے گی۔ سابق صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان مرحوم کو ان سیاستدانوں نے کبھی قبول نہیں کیا، حالانکہ انھوں نے جو اس ملک کی خدمت کی انھیں خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے۔
ہم سیاسی اختلافات کی وجہ سے آج تک کالا باغ ڈیم نہ بنا سکے، جس کی وجہ سے یہ غریب لوگ سیلابوں کا مقابلہ کرتے رہیں گے پاکستان میں سابق صدر ایوب خان نے جو ڈیم تعمیر کیے ان میں وارسک ڈیم 1960، منگلا ڈیم1961، سملی ڈیم 1962، حب ڈیم 1963، تربیلا ڈیم 1968، خان پور ڈیم 1969 اور پھر اس کے بعد قوم نے جمہوریت کا پرچم بلند کردیا جو آج بھی آب و تاب سے لہرا رہا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ جب بھی فوج آئی ملک میں بہتری کی فضا قائم ہوئی، آج تک اور حال میں بھی کسی سیاستدان نے نئے ڈیم بنانے کی بات نہیں کی۔ کیا یہ مجبور اور بے کس قوم اسی طرح سیلابوں کا مقابلہ کرتی رہے گی؟ یہ سوچنے والی بہت گہری بات ہے۔