علم پر مبنی معیشت اور قومی زبان کا کردار
موجودہ نظام تعلیم ایسا ہے جس سے حصول تعلیم کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے
ایک دن ڈاکٹر عطا الرحمن صاحب سے گفتگو ہورہی تھی، میں نے ان سے پوچھا کہ ''آپ نے جو پی ایچ ڈی پروگرام شروع کررکھا ہے، اس سے ملک کو کیا فائدہ ہوگا؟'' انھوں نے کہا کہ'' آیندہ معاشی ترقی کا مستقبل ''نالج بیسڈ اکونومی '' کا ہے یعنی علم پر مبنی معیشت۔ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ علم نے ہمیشہ ہی معیشت کو سہارا دیا ہے اس لیے ہم ان شعبوں میں لوگوں کو پی ایچ ڈی کرنے کے لیے بھیج رہے ہیں، جن کا مستقبل کی معیشت میں اہم کردار ہوگا، لیکن لگتا ایسا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی ساری محنت اکارت گئی یہ پروگرام بھی کرپشن کی نذر ہوگیا ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے لیے ''علم پر مبنی معیشت''کی ضرورت بدستور موجود ہے۔
معیشت اور علم اور معلومات کا تعلق ہمیشہ سے معاش کے ساتھ رہا ہے۔تعلیم یافتہ اور ہنرمند شخص ہمیشہ ان پڑھ اورغیر ہنر مند کی بہ نسبت زیادہ کماتا ہے۔دور جدید میں تعلیمی اور تحقیقی ادارے تجارتی اور صنعتی اداروں کے ساتھ مل کر ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے منصوبے بناتے ہیں تاکہ ان کی مصنوعات زیادہ سے زیادہ فروخت ہوسکیں اور انھیں پہلے کی بہ نسبت زیادہ معیاری بنایا جاسکے۔موجودہ دور میں ان شعبوں کوبرقیاتی تجارت یا الیکٹرانک کامرس یا مختصر زبان میں ای کامرس کہا جاتا ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں آج کل تجارت کی ترقی کے لیے مختلف اقسام کے سوفٹ وئرز پر کام ہورہا ہے جس سے تجارتی عمل میں زیادہ تیزی اور آسانی میسر آرہی ہے۔
کیا پاکستان میں اس سلسلے میں کچھ ہورہا ہے؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کچھ بھی نہیں، جس کام کا آغاز ڈاکٹر عطاء الرحمٰن نے کیا تھا یوں لگتا ہے کہ چند لوگوں کے وہ ذاتی اور سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔پاکستان کا موجودہ نظام تعلیم صرف سند یافتہ جہلا کی تعداد میں اضافہ کررہا ہے۔پاکستان کی صنعتی اور معاشی ضروریات کیا ہیں؟ پاکستان میں کون کون سی صنعتیں لگ سکتی ہیں؟ کن کن شعبوں اور صنعتوں کے لیے تربیت یافتہ اورتعلیم یافتہ افرادی قوت کی کہاں کہاں ضرورت ہے؟
کن علاقوں میں کون سے تعلیم اور تربیتی ادارے قائم کیے جائیں،تاکہ ان علاقوں میں موجود وسائل کی پیداواری گنجائش سے فائدہ اٹھایا جاسکے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ ایسی کوئی منصوبہ بندی موجود نہیں ہے۔ایسے کوئی تعلیمی اور تربیتی ادارے موجود نہیں۔پاکستان میں یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے فارغ ہونے والے مزید اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک جاتے ہیں اوروہیں کے ہوکر رہ جاتے ہیں۔بہت کم لوگ پاکستان واپس آتے ہیں اگر کوئی واپس آبھی جاتا ہے تو پاکستان میں اپنی ناقدری دیکھ ان میں سے اکثر واپس چلے جاتے ہیں۔
برین ڈرین یعنی ''ذہانت کا انخلاء''برسوں سے جاری ہے۔ ذہانت کے اس انخلاء کی بنیادی وجوہات یہ ہیں کہ نظام تعلیم میں ذریعہ تعلیم غیر ملکی زبان ہے، ہمارا موجودہ نصاب تعلیم پاکستان کی معاشرت اور معاشی ضروریات کے مطابق ہی نہیں بنایا گیاہے۔ پاکستان کی علاقائی زبانوں کے ساتھ اگر کسی زبان کا رشتہ ہے تو صرف اور صرف اردو کا ہے،جب کہ انگریزی زبان کو سیکھنے میں عمر بیت جاتی ہے، طالب علم نفس مضمون میں مہارت کیسے اور کس وقت حاصل کرے؟پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا یعنی ''برقیاتی ذرایع ابلاغ '' نے قومی زبان کی معاشی اہمیت کو ثابت کردیا ہے۔
برقیاتی ذرایع ابلاغ پر کیسی زبان بولی جاتی ہے، یہ موضوع بحث نہیں ہے لیکن یہاں ہم صرف یہ کہیں گے کہ یہ کمزور اردو زبان ہمارے ناقص نظام تعلیم کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ بھی علمی معاشیات کی ایک مثال ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن یہاں زراعتی تعلیم کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جس کی ضرورت ہے۔آبی وسائل کو منظم کرنے اور سیلاب سے نمٹنے کا علم نہیں پڑھایا جاتا۔پاکستان میں آبی انجینئرنگ کی تعلیم کی ضرورت ہے،کیونکہ پاکستان کو آبی انجینئرنگ کی ضرورت ہے۔
بلوچستان اور ان علاقوں میں جو معدنی وسائل سے مالامال ہیں وہاں ارضیاتی علوم کے ماہرین اورٹیکنیشین افراد کی ضرورت ہے۔ اس کام کے لیے ہمارے نظام تعلیم میں انقلابی تبدیلیاں لانا ہوں گی تاکہ ہم '' علمی معاشیات ''(نالج بیسڈ اکنامی) کی طرف بڑھ سکیں۔یہ وہ معیشت ہے جس کا انحصار تعلیم یافتہ افرادی قوت یا افرادی سرمائے پر ہوتا ہے۔اب ہمیں پاکستان میں تعلیم کے نظام کو تبدیل کرنا ہوگا، پہلے ہمیں اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا کہ ہمیں صنعت اور ٹیکنالوجی کے کن کن شعبوں میں افرادی قوت کی ضرورت ہے تاکہ ہم ان شعبوں میں اپنی پیداواری صلاحیتوں کو بڑھا سکیں۔
کسی ملک کے علمی معیشت میں مکمل طور پر حصہ لینے کے قابل ہونے کے لیے چار اہم تقاضے ہیں۔(1)تعلیم اور تربیت:علم کی تخلیق، اشتراک اور استعمال کے لیے ایک تعلیم یافتہ اور ہنر مند آبادی کی ضرورت ہے،یعنی ایسے لوگ ہوں جو متعلقہ شعبے میں جدید ترین تحقیق کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔(2)انفارمیشن انفرااسٹرکچر: ایک متحرک معلوماتی ڈھانچہ ریڈیو سے لے کر انٹرنیٹ تک - معلومات کے موثر مواصلات، پھیلانے اور پروسیسنگ میں سہولت فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے۔(3) اقتصادی ترغیب اور ادارہ جاتی نظام:ایک ریگولیٹری اور معاشی ماحول جو علم کے آزادانہ بہاؤ کو قابل بناتا ہے، انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کی حمایت کرتا ہے، اور علمی معیشت کے لیے انٹرپرنیورشپ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔(4) ایجاداتی نظام (انوویشن سسٹمز):تحقیقاتی مراکز، یونیورسٹی، تھنک ٹینکس، نجی اداروں اور کمیونٹی گروپس کا ایک نیٹ ورک علم کے بڑھتے ہوئے عالمی ذخیرے سے فائدہ اٹھانے، اسے مقامی ضروریات کے مطابق ڈھالنے اور ڈھالنے کے لیے ضروری ہے،تاکہ نئی معلومات حاصل ہوں۔
یہ بنیادی اصول پاکستان کے لیے مجوزہ نئے نظام تعلیم کی اساس ثابت ہوسکتے ہیں۔اس وقت پاکستان میں جو نظام ہائے تعلیم رائج ہیں ان میں سے کوئی بھی پاکستان کے نظام معیشت کے ساتھ ربط نہیں رکھتا۔پاکستان میں معمولی کلرک کے لیے بھی گریجویشن اور ماسٹرز کی شرط رکھ دی گئی ہے۔33فیصد نمبر حاصل کرنے والا کامیاب قرار دیا جاتا ہے لیکن تعلیمی اداروں میں داخلے کی شرط 45 فیصداور 50فیصد رکھی جاتی ہے44اعشاریہ 5 فیصد والا کیا کرے؟
موجودہ نظام تعلیم ایسا ہے جس سے حصول تعلیم کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔دراصل پاکستان میں 80 فیصد سے زائد طالب علم تعلیم صرف روزگار کے لیے حاصل کرتے ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں علمی معاشیات پر مبنی نظام تعلیم کو رائج کیا جائے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ اس نظام تعلیم کا ذریعہ تعلیم قومی زبان ہو تاکہ طالب علم کا وقت بھی ضایع نہ ہواور پاکستان سے ذہانت کا انخلاء (برین ڈرین) بھی نہ ہو۔
معیشت اور علم اور معلومات کا تعلق ہمیشہ سے معاش کے ساتھ رہا ہے۔تعلیم یافتہ اور ہنرمند شخص ہمیشہ ان پڑھ اورغیر ہنر مند کی بہ نسبت زیادہ کماتا ہے۔دور جدید میں تعلیمی اور تحقیقی ادارے تجارتی اور صنعتی اداروں کے ساتھ مل کر ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے منصوبے بناتے ہیں تاکہ ان کی مصنوعات زیادہ سے زیادہ فروخت ہوسکیں اور انھیں پہلے کی بہ نسبت زیادہ معیاری بنایا جاسکے۔موجودہ دور میں ان شعبوں کوبرقیاتی تجارت یا الیکٹرانک کامرس یا مختصر زبان میں ای کامرس کہا جاتا ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں آج کل تجارت کی ترقی کے لیے مختلف اقسام کے سوفٹ وئرز پر کام ہورہا ہے جس سے تجارتی عمل میں زیادہ تیزی اور آسانی میسر آرہی ہے۔
کیا پاکستان میں اس سلسلے میں کچھ ہورہا ہے؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کچھ بھی نہیں، جس کام کا آغاز ڈاکٹر عطاء الرحمٰن نے کیا تھا یوں لگتا ہے کہ چند لوگوں کے وہ ذاتی اور سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔پاکستان کا موجودہ نظام تعلیم صرف سند یافتہ جہلا کی تعداد میں اضافہ کررہا ہے۔پاکستان کی صنعتی اور معاشی ضروریات کیا ہیں؟ پاکستان میں کون کون سی صنعتیں لگ سکتی ہیں؟ کن کن شعبوں اور صنعتوں کے لیے تربیت یافتہ اورتعلیم یافتہ افرادی قوت کی کہاں کہاں ضرورت ہے؟
کن علاقوں میں کون سے تعلیم اور تربیتی ادارے قائم کیے جائیں،تاکہ ان علاقوں میں موجود وسائل کی پیداواری گنجائش سے فائدہ اٹھایا جاسکے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ ایسی کوئی منصوبہ بندی موجود نہیں ہے۔ایسے کوئی تعلیمی اور تربیتی ادارے موجود نہیں۔پاکستان میں یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے فارغ ہونے والے مزید اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک جاتے ہیں اوروہیں کے ہوکر رہ جاتے ہیں۔بہت کم لوگ پاکستان واپس آتے ہیں اگر کوئی واپس آبھی جاتا ہے تو پاکستان میں اپنی ناقدری دیکھ ان میں سے اکثر واپس چلے جاتے ہیں۔
برین ڈرین یعنی ''ذہانت کا انخلاء''برسوں سے جاری ہے۔ ذہانت کے اس انخلاء کی بنیادی وجوہات یہ ہیں کہ نظام تعلیم میں ذریعہ تعلیم غیر ملکی زبان ہے، ہمارا موجودہ نصاب تعلیم پاکستان کی معاشرت اور معاشی ضروریات کے مطابق ہی نہیں بنایا گیاہے۔ پاکستان کی علاقائی زبانوں کے ساتھ اگر کسی زبان کا رشتہ ہے تو صرف اور صرف اردو کا ہے،جب کہ انگریزی زبان کو سیکھنے میں عمر بیت جاتی ہے، طالب علم نفس مضمون میں مہارت کیسے اور کس وقت حاصل کرے؟پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا یعنی ''برقیاتی ذرایع ابلاغ '' نے قومی زبان کی معاشی اہمیت کو ثابت کردیا ہے۔
برقیاتی ذرایع ابلاغ پر کیسی زبان بولی جاتی ہے، یہ موضوع بحث نہیں ہے لیکن یہاں ہم صرف یہ کہیں گے کہ یہ کمزور اردو زبان ہمارے ناقص نظام تعلیم کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ بھی علمی معاشیات کی ایک مثال ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن یہاں زراعتی تعلیم کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جس کی ضرورت ہے۔آبی وسائل کو منظم کرنے اور سیلاب سے نمٹنے کا علم نہیں پڑھایا جاتا۔پاکستان میں آبی انجینئرنگ کی تعلیم کی ضرورت ہے،کیونکہ پاکستان کو آبی انجینئرنگ کی ضرورت ہے۔
بلوچستان اور ان علاقوں میں جو معدنی وسائل سے مالامال ہیں وہاں ارضیاتی علوم کے ماہرین اورٹیکنیشین افراد کی ضرورت ہے۔ اس کام کے لیے ہمارے نظام تعلیم میں انقلابی تبدیلیاں لانا ہوں گی تاکہ ہم '' علمی معاشیات ''(نالج بیسڈ اکنامی) کی طرف بڑھ سکیں۔یہ وہ معیشت ہے جس کا انحصار تعلیم یافتہ افرادی قوت یا افرادی سرمائے پر ہوتا ہے۔اب ہمیں پاکستان میں تعلیم کے نظام کو تبدیل کرنا ہوگا، پہلے ہمیں اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا کہ ہمیں صنعت اور ٹیکنالوجی کے کن کن شعبوں میں افرادی قوت کی ضرورت ہے تاکہ ہم ان شعبوں میں اپنی پیداواری صلاحیتوں کو بڑھا سکیں۔
کسی ملک کے علمی معیشت میں مکمل طور پر حصہ لینے کے قابل ہونے کے لیے چار اہم تقاضے ہیں۔(1)تعلیم اور تربیت:علم کی تخلیق، اشتراک اور استعمال کے لیے ایک تعلیم یافتہ اور ہنر مند آبادی کی ضرورت ہے،یعنی ایسے لوگ ہوں جو متعلقہ شعبے میں جدید ترین تحقیق کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔(2)انفارمیشن انفرااسٹرکچر: ایک متحرک معلوماتی ڈھانچہ ریڈیو سے لے کر انٹرنیٹ تک - معلومات کے موثر مواصلات، پھیلانے اور پروسیسنگ میں سہولت فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے۔(3) اقتصادی ترغیب اور ادارہ جاتی نظام:ایک ریگولیٹری اور معاشی ماحول جو علم کے آزادانہ بہاؤ کو قابل بناتا ہے، انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کی حمایت کرتا ہے، اور علمی معیشت کے لیے انٹرپرنیورشپ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔(4) ایجاداتی نظام (انوویشن سسٹمز):تحقیقاتی مراکز، یونیورسٹی، تھنک ٹینکس، نجی اداروں اور کمیونٹی گروپس کا ایک نیٹ ورک علم کے بڑھتے ہوئے عالمی ذخیرے سے فائدہ اٹھانے، اسے مقامی ضروریات کے مطابق ڈھالنے اور ڈھالنے کے لیے ضروری ہے،تاکہ نئی معلومات حاصل ہوں۔
یہ بنیادی اصول پاکستان کے لیے مجوزہ نئے نظام تعلیم کی اساس ثابت ہوسکتے ہیں۔اس وقت پاکستان میں جو نظام ہائے تعلیم رائج ہیں ان میں سے کوئی بھی پاکستان کے نظام معیشت کے ساتھ ربط نہیں رکھتا۔پاکستان میں معمولی کلرک کے لیے بھی گریجویشن اور ماسٹرز کی شرط رکھ دی گئی ہے۔33فیصد نمبر حاصل کرنے والا کامیاب قرار دیا جاتا ہے لیکن تعلیمی اداروں میں داخلے کی شرط 45 فیصداور 50فیصد رکھی جاتی ہے44اعشاریہ 5 فیصد والا کیا کرے؟
موجودہ نظام تعلیم ایسا ہے جس سے حصول تعلیم کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔دراصل پاکستان میں 80 فیصد سے زائد طالب علم تعلیم صرف روزگار کے لیے حاصل کرتے ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں علمی معاشیات پر مبنی نظام تعلیم کو رائج کیا جائے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ اس نظام تعلیم کا ذریعہ تعلیم قومی زبان ہو تاکہ طالب علم کا وقت بھی ضایع نہ ہواور پاکستان سے ذہانت کا انخلاء (برین ڈرین) بھی نہ ہو۔