ماحولیاتی تبدیلی کیا ہے دوسرا حصہ
خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پانی کی کمی لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کر دے گی
سوال یہ ہے کہ لوگ کیا کر سکتے ہیں؟ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ لوگ مندرجہ ذیل اقدام کر سکتے ہیں: سفر کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ یا سائیکل کا استعمال کر کے گاڑیوں پر انحصار کو کم کریں۔ اپنے گھروں کو انسولیٹ کریں۔ہوائی سفر کم کریں۔ گوشت اور دودھ کے استعمال میں کمی کریں۔شدید گرمی انسانی زندگی اور فطرت کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہے اور عمارتوں، سڑکوں اور بجلی کے نظام کو خراب کر سکتی ہے۔
50 سیلسیس درجہ حرارت بنیادی طور پر مشرق وسطی اور خلیجی خطے کے علاقوں میں دیکھا گیا ہے اور رواں برس موسم گرما میں اٹلی اور کینیڈا میں 50 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت کے ریکارڈ بننے کے بعد سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوسل فیول کے استعمال میں کمی نہ آئی تو 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ درجہ حرارت والے دن بڑھ سکتے ہیں۔ماحولیاتی محقق کہتے ہیں ہمیں تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جتنی تیزی سے زہریلی گیسوں کے اخراج کو کم کریں گے، ہم سب کے لیے اتنا ہی بہتر ہو گا۔
اربوں ڈالر کے وہ دیو ہیکل گلیشیئر جو پگھلے جا رہے ہیں۔گلیشیئرز قائم رکھنے کے لیے جس ماحولیاتی توازن کی ضرورت ہوتی ہے وہ کچھ عرصے سے خراب ہے۔ وہ نہ صرف کم ہوتے جا رہے ہیں۔ بلکہ ان کے ختم ہونے کی رفتار بھی تیز ہوتی جا رہی ہے۔گلیشیئرز کا یوں تیزی سے پگھلنا ان ملکوں کی معیشتوں کو تباہ کر سکتا ہے۔ جو کہ ان گلیشیئرز پر منحصر ہیں۔گلیشیئرز کے جمنے، ان کی موٹائی، ان پر برف کی موجودگی کا ڈیٹا لے کر صنعت، زراعت، ماحول اور انسانی آبادی کی ضروریات کا مقابلہ کر کے اٹریخٹ یونیورسٹی کے ماہرِ جغرافیہ آرتھر لٹز اور ان کے ساتھی مصنفین نے ایک گلیشیئر ولنرابلیٹی انڈیکس بنائی ہے جس میں 78 واٹر ٹاورز شامل کیے گئے ہیں۔
واٹر ٹاور میں متعدد گلیشیئر، پہاڑی سلسلے اور دریا ہر وقت ہی سرک رہے ہوتے ہیں، کچھ سینٹی میٹر یہاں تک کہ کبھی کبھی تو ایک وقت میں ہی کچھ میٹر۔ مگر ان کے حجم کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ کتنی برف پگھل کر دریا میں گئی اور کتنی برف اوپر سے پڑی۔ جب یہ دونوں تعداد میں برابر ہوں تو گلیشیئر مستحکم ہوتا ہے کہ جتنی برف گئی اتنی آ بھی گئی اور اس کا حجم برقرار رہتا ہے۔ مگر درجہ حرارت میں تھوڑے سے بھی اضافے سے زیادہ پگھلنے یا برف کم پڑنے سے گلیشیئر پگھلنا شروع ہو جاتا ہے۔گلیشئیر اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ کسی ایک سال کی زیادہ گرمی یا سردی سے انھیں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ بلکہ گلیشیئر کے حجم میں اضافے یا کمی سے طویل المدتی موسمیاتی تبدیلی کی واصخ تصویر سامنے آتی ہے۔ ڈیویز کہتے ہیں ہم جو دیکھ رہے ہیں وہ واضح طور پر ان کا حجم سکڑنا ہے جو کہ انسانی کی وجہ سے آنے والی موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہے۔
2000 اور 2019 کے درمیان عالمی سطح پر گلیشیئرز نے مجموعی طور پر ہر سال 267 گیگا ٹن پانی کھویا اور یہ شرح گرین لینڈ اور انٹارٹیکا کی آئیس شیٹز میں کمی سے زیادہ تیز ہو رہی ہے۔ انٹارٹیکا کی آئس شیٹ زمین کا 8.3 فیصد جب کہ گرین لینڈ 1.2 فیصد حصہ ڈھکے ہوئے ہے جب کہ گلیشیئرز نے زمین کا صرف 0.5 فیصد ڈھکا ہوا ہے۔ وہ زمین کا چھوٹا سا حصہ ڈھکے ہوئے ہیں مگر وہ تیزی سے غائب ہو رہے ہیں۔
اگر اسی ریٹ پر گلیشیئر غائب ہوتے رہے تو ہم کیا کھو سکتے ہیں لندن کے کنگز کالج کی سائنسدان تمسن ایڈورڈز اور ان کے ساتھیوں نے گلیشیئرز کے پگھلنے کا ایک ماڈل بنایا ہے کہ اس کا سمندر کی سطح پر کیا اثر پڑے گا۔ 2100 تک اگر گلوبل وارمنگ کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کیا جائے تو سمندر کی سطح 12 سینٹی میٹر بڑھ جائے گی۔ دوسری جانب اگر ہمارے سیارے کا درجہ حرارت اتنی تیزی سے ہی بڑھتا رہے جتنی تیزی سے ابھی بڑھ رہا ہے تو سطح سمندر 25 سینٹی میٹر بڑھ جائے گی اور زیادہ پریشان کن صورتحال میں یہ 42 سینٹی گریڈ تک بھی بڑھ سکتا ہے۔ اس میں تقریباً نصف حصہ گلیشیئرز کے پانی کا ہوگا۔
واشنگٹن ڈی سی کے تھنک ٹینک ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ (ڈبلیو آر آئی)کے مطابق پاکستان سمیت دنیا میں ایسے تقریباً 400 علاقے ہیں جہاں کے رہنے والے شدید آبی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔
دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آبادی، گوشت خوری میں اضافہ اور بڑھتی ہوئی اقتصادی سرگرمیوں نے دنیا کے پانی کے ذخائر پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پانی کی کمی لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کر دے گی اور اس کی وجہ سے کشیدگی اور سیاسی عدم استحکام پیدا ہو گا۔ (جاری ہے)
50 سیلسیس درجہ حرارت بنیادی طور پر مشرق وسطی اور خلیجی خطے کے علاقوں میں دیکھا گیا ہے اور رواں برس موسم گرما میں اٹلی اور کینیڈا میں 50 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت کے ریکارڈ بننے کے بعد سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوسل فیول کے استعمال میں کمی نہ آئی تو 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ درجہ حرارت والے دن بڑھ سکتے ہیں۔ماحولیاتی محقق کہتے ہیں ہمیں تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جتنی تیزی سے زہریلی گیسوں کے اخراج کو کم کریں گے، ہم سب کے لیے اتنا ہی بہتر ہو گا۔
اربوں ڈالر کے وہ دیو ہیکل گلیشیئر جو پگھلے جا رہے ہیں۔گلیشیئرز قائم رکھنے کے لیے جس ماحولیاتی توازن کی ضرورت ہوتی ہے وہ کچھ عرصے سے خراب ہے۔ وہ نہ صرف کم ہوتے جا رہے ہیں۔ بلکہ ان کے ختم ہونے کی رفتار بھی تیز ہوتی جا رہی ہے۔گلیشیئرز کا یوں تیزی سے پگھلنا ان ملکوں کی معیشتوں کو تباہ کر سکتا ہے۔ جو کہ ان گلیشیئرز پر منحصر ہیں۔گلیشیئرز کے جمنے، ان کی موٹائی، ان پر برف کی موجودگی کا ڈیٹا لے کر صنعت، زراعت، ماحول اور انسانی آبادی کی ضروریات کا مقابلہ کر کے اٹریخٹ یونیورسٹی کے ماہرِ جغرافیہ آرتھر لٹز اور ان کے ساتھی مصنفین نے ایک گلیشیئر ولنرابلیٹی انڈیکس بنائی ہے جس میں 78 واٹر ٹاورز شامل کیے گئے ہیں۔
واٹر ٹاور میں متعدد گلیشیئر، پہاڑی سلسلے اور دریا ہر وقت ہی سرک رہے ہوتے ہیں، کچھ سینٹی میٹر یہاں تک کہ کبھی کبھی تو ایک وقت میں ہی کچھ میٹر۔ مگر ان کے حجم کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ کتنی برف پگھل کر دریا میں گئی اور کتنی برف اوپر سے پڑی۔ جب یہ دونوں تعداد میں برابر ہوں تو گلیشیئر مستحکم ہوتا ہے کہ جتنی برف گئی اتنی آ بھی گئی اور اس کا حجم برقرار رہتا ہے۔ مگر درجہ حرارت میں تھوڑے سے بھی اضافے سے زیادہ پگھلنے یا برف کم پڑنے سے گلیشیئر پگھلنا شروع ہو جاتا ہے۔گلیشئیر اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ کسی ایک سال کی زیادہ گرمی یا سردی سے انھیں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ بلکہ گلیشیئر کے حجم میں اضافے یا کمی سے طویل المدتی موسمیاتی تبدیلی کی واصخ تصویر سامنے آتی ہے۔ ڈیویز کہتے ہیں ہم جو دیکھ رہے ہیں وہ واضح طور پر ان کا حجم سکڑنا ہے جو کہ انسانی کی وجہ سے آنے والی موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہے۔
2000 اور 2019 کے درمیان عالمی سطح پر گلیشیئرز نے مجموعی طور پر ہر سال 267 گیگا ٹن پانی کھویا اور یہ شرح گرین لینڈ اور انٹارٹیکا کی آئیس شیٹز میں کمی سے زیادہ تیز ہو رہی ہے۔ انٹارٹیکا کی آئس شیٹ زمین کا 8.3 فیصد جب کہ گرین لینڈ 1.2 فیصد حصہ ڈھکے ہوئے ہے جب کہ گلیشیئرز نے زمین کا صرف 0.5 فیصد ڈھکا ہوا ہے۔ وہ زمین کا چھوٹا سا حصہ ڈھکے ہوئے ہیں مگر وہ تیزی سے غائب ہو رہے ہیں۔
اگر اسی ریٹ پر گلیشیئر غائب ہوتے رہے تو ہم کیا کھو سکتے ہیں لندن کے کنگز کالج کی سائنسدان تمسن ایڈورڈز اور ان کے ساتھیوں نے گلیشیئرز کے پگھلنے کا ایک ماڈل بنایا ہے کہ اس کا سمندر کی سطح پر کیا اثر پڑے گا۔ 2100 تک اگر گلوبل وارمنگ کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کیا جائے تو سمندر کی سطح 12 سینٹی میٹر بڑھ جائے گی۔ دوسری جانب اگر ہمارے سیارے کا درجہ حرارت اتنی تیزی سے ہی بڑھتا رہے جتنی تیزی سے ابھی بڑھ رہا ہے تو سطح سمندر 25 سینٹی میٹر بڑھ جائے گی اور زیادہ پریشان کن صورتحال میں یہ 42 سینٹی گریڈ تک بھی بڑھ سکتا ہے۔ اس میں تقریباً نصف حصہ گلیشیئرز کے پانی کا ہوگا۔
واشنگٹن ڈی سی کے تھنک ٹینک ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ (ڈبلیو آر آئی)کے مطابق پاکستان سمیت دنیا میں ایسے تقریباً 400 علاقے ہیں جہاں کے رہنے والے شدید آبی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔
دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آبادی، گوشت خوری میں اضافہ اور بڑھتی ہوئی اقتصادی سرگرمیوں نے دنیا کے پانی کے ذخائر پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پانی کی کمی لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کر دے گی اور اس کی وجہ سے کشیدگی اور سیاسی عدم استحکام پیدا ہو گا۔ (جاری ہے)