منفی سیاسی روئیے
بڑا اورآبادی میں سب سے چھوٹے غریب صوبے بلوچستان کو عمران خان نے اہمیت ہی نہیں دی کیونکہ وہاں ان کی حکومت نہیں
حافظ آباد سے تعلق رکھنے والی پی ٹی آئی کی رہنما نے کہا ہے کہ'' اگر ہمارے چیئرمین کو گرفتار کیا گیا تو ہم پاکستان کو آگ لگا دیں گے'' اپنے چیئرمین کی محبت میں گرفتار ان محترمہ جن کے بڑوں کا قیام پاکستان کی جدوجہد میں کوئی کردار ہوتا یا ان کے بڑوں نے اس ملک کے لیے کوئی قربانی دی ہوتی تو وہ یہ وڈیو کبھی نہ بنواتیں جس پر بعد میں انھیں احساس ہوا یا عوامی تنقید کے بعد انھیں اپنا بیان بدلنا پڑا۔
اپنے ملک پاکستان سے زیادہ انھیں اپنے چیئرمین سے محبت ہے کہ جن کو ابھی کچھ نہیں ہوا مگر ان کی خاتون کارکن نے جو کچھ کہہ دیا اس پر مشتعل ہو کر اپنے ملک سے محبت کرنے والے بھی جذبات میں آسکتے ہیں مگر مجموعی طور پر ہمیں اپنے ملک سے زیادہ سیاست عزیز ہے انھیں یہ فکر نہیں کہ خدا نخواستہ یہ ملک نہ رہا تو وہ سیاست کہاں جاکر کریں گے؟
کیا پاکستان کے ازلی دشمن بھارت میں آج تک کسی نے اپنے ملک کو آگ لگانے کی بات کی ہے؟ کیا بھارت کی کسی ریاست نے کہا ہے کہ وہ دہلی کا گھیراؤ کرنے کے لیے اس پر حملہ کریں گے۔ اقتدار میں آٹھ سال سے محروم کانگریس کے سربراہ نے کہا ہے کہ ہماری آخری کال پر عوام کا سمندر چاروں طرف سے دہلی آئے گا کیونکہ بھارت میں آٹھ سالوں سے چور، ڈاکوؤں کی حکومت ہے جنھیں ہٹانے کے لیے ہم دہلی کو گھیر لیں گے۔
دہلی پر بی جے پی کی حکومت نہیں ہے جو بھارت کا دارالحکومت ہے۔ دہلی کی طرح اسلام آباد پر بھی پنجاب، کے پی کی طرح پی ٹی آئی کی حکومت نہیں ہے اور دونوں صوبائی حکومتوں میں گھرے اسلام آباد پر قبضے کی کھلے عام دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کو پتا ہے کہ اتحادیوں کی حکومت اسلام آباد کے 25 کلو میٹر رقبے پر ہے ۔ ملک کے تمام صوبے آئینی طور پر وفاق کے ماتحت اور وفاق کی مالی معاونت کے حصول کے محتاج ہیں اور وفاق غیر آئینی اقدام پر کسی بھی صوبے میں ضرورت پڑنے پر گورنر راج لگانے کا اختیار رکھتا ہے جب کہ صوبوں کے پاس یہ اختیارات نہیں ہیں۔
حالیہ تباہ کن بارشوں سے ملک کی اکثریتی آبادی اور رقبہ بری طرح متاثر، فصلیں تباہ، سڑکیں، پل، مواصلاتی نظام تباہ، ریلوے سفر بند، شہر، کھیت ، سڑکیں سب کچھ زیر آب ہے مگر کوئی ملک کو آگ لگانے کے بیانات دے رہا ہے تو کسی ایک بڑے سیاسی رہنما کو ملک میں عام انتخابات کی بہت جلدی ہے۔
ملک کی تباہ حال معیشت پہلے ہی بدحال تھیں اور حالیہ بارشوں اور سیلاب نے ملک کو مزید ڈبو دیا ہے اور لاکھوں متاثرین کی فاقوں کی نوبت آگئی ہے جنھیں رہنے کے لیے خیمے میسر ہیں نہ خوراک اور نہ ہی کھلے آسمان تلے رہنے کے لیے خشک جگہ میسر ہے۔ ملک بھر میں فصلیں تباہ ہوئی ہیں اس کے نتیجے میں آنے والے دنوں میں ملک میں خوراک کی قلت کا جو شدید بحران آئے گا اس کی منفی سیاست کرنے والوں کو فکر نہیں۔ ملک کو آگ لگے یا ملک پانی میں ڈوبے انھیں ملک سے زیادہ اپنے چیئرمین اور چیئرمین کو دوبارہ اقتدار کے حصول کی زیادہ فکر ہے اور عوام کی بدترین حالت زار کی فکر نہیں۔
سیاست اور خصوصاً وفاقی حکومت اور عمران خان نے ملک میں آئے ہوئے سیلاب کو سیاست کی نذر کر رکھا ہے۔ اس سے پہلے میڈیا میں شہباز گل اہم اور بارشیں غیر اہم تھیں۔ صورت حال انتہائی تشویش ناک ہوجانے، ملک میں سیکڑوں جانوں، لاکھوں جانوروں کی ہلاکت، تقریباً 25 لاکھ گھر منہدم اور متاثر ہونے کے بعد پتا چلا کہ آنے والے مہینوں میں آٹے، چاول کی شدید قلت اور سبزیاں اور دالیں نایاب ہوجائیں گی تو لوگ کھائیں گے کیا کیونکہ فصلیں تباہ ہو چکیں جس کے اثرات آنے والے دنوں میں ظاہر ہونے لگیں گے۔
ملک میں واحد مضبوط ادارہ پاک فوج ہے جو ملک بھر میں عوام کو ریلیف فراہم کر رہا ہے۔ ہیلی کاپٹر حادثے سمیت ملک میں دہشت گردی کی وارداتوں میں پاک فوج کا بڑا جانی نقصان ہو چکا اور ان کی شہادتوں کا سلسلہ مسلسل جاری ہے مگر پی ٹی آئی کا میڈیا سیل پاک فوج کی قربانیوں کو نظرانداز کرکے اس کے خلاف پروپیگنڈے میں مصروف ہے ۔ عمران خان کو سیلاب سے زیادہ موجودہ حکمرانوں کا اقتدار طویل ہوجانے کی زیادہ فکر ہے۔
سندھ کا وزیر اعلیٰ ہر ضلع میں جاچکا مگر پنجاب اور کے پی کے وزرائے اعلیٰ سیاسی مخالفین کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات بنوانے میں لگے ہوئے ہیں تاکہ عمران خان پر مقدمات کا جواب دیا جاسکے۔ ملک کے رقبے میں بڑا اورآبادی میں سب سے چھوٹے غریب صوبے بلوچستان کو عمران خان نے اہمیت ہی نہیں دی کیونکہ وہاں ان کی حکومت نہیں۔
سیلاب سے سب سے زیادہ نقصان ان غریبوں کا ہوا جنھیں صرف ووٹ لینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے وہی غریب ووٹر متاثر ہوئے ہیں اور ان سے ووٹ لینے والوں کے پاس متاثرین کے لیے صرف صبر کی تلقین ہے جو اپنی تجوریاں ان کے لیے کھولنے کے لیے تیار نہیں۔