سرکاری ہیلی کاپٹر پر پی ٹی آئی رہنماؤں کے سفری اخراجات کی تفصیل فراہمی کا حکم
پی ٹی آئی کے آزاد کشمیر کے وزارت عظمی کے امیدواروں کو ہیلی کاپٹر پر عمران خان سے انٹرویو کے لیے لایا گیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سرکاری ہیلی کاپٹر پر پی ٹی آئی رہنماؤں کے سفری اخراجات کی تفصیل شہری کو فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔
ہائی کورٹ میں سرکاری ہیلی کاپٹر پر پی ٹی آئی آزاد کشمیر کی وزارت عظمی کے امیدواروں کو اسلام آباد لانے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
عدالت نے حکومت کو حکم دیا کہ سرکاری ہیلی کاپٹر کے استعمال سے متعلق اخراجات کی تفصیل شہری کو فراہم کی جائے۔ عدالت نے انفارمیشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے وفاق کی اپیل خارج کردی۔
پی ٹی آئی کے وزارت عظمی کے امیدواروں کو ہیلی کاپٹر پر اس وقت کے وزیراعظم عمران خان سے انٹرویو کے لیے لایا گیا تھا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ شہری جاننا چاہتا ہے کہ وزیراعظم کا ہیلی کاپٹر کہاں کہاں استعمال ہوا تھا۔
حیران کن طور پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے موجودہ حکومت کی جانب سے سابق حکومت کے ہیلی کاپٹر کے استعمال کا دفاع کیا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد محمود کیانی نے کہا کہ یہ معلومات ڈیفنس سے متعلقہ ہے ، لہذا یہ معلومات نہیں دے سکتے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جو معلومات مانگی جا رہی ہیں یہ ڈیفینس سے متعلقہ نہیں ہے ، پبلک فنڈ سے متعلق معلومات ایک شہری مانگ رہا ہے اس کا حق ہے ، قانون میں ہے کہ شہری پبلک فنڈ اخراجات سے متعلق معلومات مانگ سکتا ہے ،اگر ڈیفنس کا ہیلی کاپٹر ہے اگر کسی اور مقصد کے لیے استعمال ہوا ہے تو معلومات جاننا شہری کا حق ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر میں ہیلی کاپٹر استعمال کر رہا ہوں تو وہ کیسے ڈیفنس سے متعلقہ ہو سکتا ہے؟ شہری کو جاننے کا حق ہے کہ اس کے پیسے کہاں لگ رہے ہیں؟ شہری ڈیفنس فورسز سے متعلق معلومات نہیں مانگ رہا بلکہ وزیر اعظم سیکرٹریٹ سے متعلق مانگی ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ شہری نے جو معلومات مانگی ہیں اس کا حق ہے اور یہ احتساب کا بہت موثر ذریعہ ہے، ہیلی کاپٹر جس کا بھی ہو ؟ اگر وہ کسی کی فیملی ممبر کے لیے بھیج رہے ہیں تو یہ اس کا ناجائز استعمال ہے، اگر ڈیفنس منسٹری کا ہیلی کاپٹر اگر دفاع کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے استعمال ہوتا ہے تو یہ اختیار کا غلط استعمال ہے ۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 19 اے میں شہری کا حق ہے کہ اس کے پیسے کہاں لگ رہے ہیں ، اگر ہیلی کاپٹر مس یوز ہوا ہے تو ذمہ داران عوام کو جواب دہ ہیں، یہ پبلک آفس کا موثر احتساب ہے ، حکومت ایسی پٹیشنز عدالت کے سامنے نا لائے آپ عوام کو جواب دہ ہیں۔
ہائی کورٹ میں سرکاری ہیلی کاپٹر پر پی ٹی آئی آزاد کشمیر کی وزارت عظمی کے امیدواروں کو اسلام آباد لانے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
عدالت نے حکومت کو حکم دیا کہ سرکاری ہیلی کاپٹر کے استعمال سے متعلق اخراجات کی تفصیل شہری کو فراہم کی جائے۔ عدالت نے انفارمیشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے وفاق کی اپیل خارج کردی۔
پی ٹی آئی کے وزارت عظمی کے امیدواروں کو ہیلی کاپٹر پر اس وقت کے وزیراعظم عمران خان سے انٹرویو کے لیے لایا گیا تھا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ شہری جاننا چاہتا ہے کہ وزیراعظم کا ہیلی کاپٹر کہاں کہاں استعمال ہوا تھا۔
حیران کن طور پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے موجودہ حکومت کی جانب سے سابق حکومت کے ہیلی کاپٹر کے استعمال کا دفاع کیا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد محمود کیانی نے کہا کہ یہ معلومات ڈیفنس سے متعلقہ ہے ، لہذا یہ معلومات نہیں دے سکتے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جو معلومات مانگی جا رہی ہیں یہ ڈیفینس سے متعلقہ نہیں ہے ، پبلک فنڈ سے متعلق معلومات ایک شہری مانگ رہا ہے اس کا حق ہے ، قانون میں ہے کہ شہری پبلک فنڈ اخراجات سے متعلق معلومات مانگ سکتا ہے ،اگر ڈیفنس کا ہیلی کاپٹر ہے اگر کسی اور مقصد کے لیے استعمال ہوا ہے تو معلومات جاننا شہری کا حق ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر میں ہیلی کاپٹر استعمال کر رہا ہوں تو وہ کیسے ڈیفنس سے متعلقہ ہو سکتا ہے؟ شہری کو جاننے کا حق ہے کہ اس کے پیسے کہاں لگ رہے ہیں؟ شہری ڈیفنس فورسز سے متعلق معلومات نہیں مانگ رہا بلکہ وزیر اعظم سیکرٹریٹ سے متعلق مانگی ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ شہری نے جو معلومات مانگی ہیں اس کا حق ہے اور یہ احتساب کا بہت موثر ذریعہ ہے، ہیلی کاپٹر جس کا بھی ہو ؟ اگر وہ کسی کی فیملی ممبر کے لیے بھیج رہے ہیں تو یہ اس کا ناجائز استعمال ہے، اگر ڈیفنس منسٹری کا ہیلی کاپٹر اگر دفاع کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے استعمال ہوتا ہے تو یہ اختیار کا غلط استعمال ہے ۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 19 اے میں شہری کا حق ہے کہ اس کے پیسے کہاں لگ رہے ہیں ، اگر ہیلی کاپٹر مس یوز ہوا ہے تو ذمہ داران عوام کو جواب دہ ہیں، یہ پبلک آفس کا موثر احتساب ہے ، حکومت ایسی پٹیشنز عدالت کے سامنے نا لائے آپ عوام کو جواب دہ ہیں۔