وزیر یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کا سال سندھ کی جامعات اورامتحانی بورڈز میں کچھ نہیں بدلا
ایک برس کے عرصے میں ان کی وزارت سندھ میں جامعات اوربورڈزمیں ایڈہاک ازم ختم کرنے میں بظاہر ناکام نظر آئی ہے
سندھ کے وزیربرائے یونیورسٹیز اینڈ بورڈزاسماعیل راہوکووزارت سے منسلک ہوئے ایک سال پورا ہوگیا ہے تاہم اس ایک برس کے عرصے میں ان کی وزارت سندھ میں جامعات اوربورڈزمیں ایڈہاک ازم ختم کرنے میں بظاہر ناکام نظر آئی ہے سندھ کی بیشتر جامعات اورتقریباًتمام ہی تعلیمی بورڈز اپنے مستقل سربراہوں سے محروم ہیں اور وزارت برائے یونیورسٹیز اینڈ بورڈز سندھ کی سرکاری جامعات اورتعلیمی بورڈزکی بہتری و ترقی کے لیے اقدامات کرنے سے قاصر رہی ہے.
سندھ میں سال 2021 کے پوزیشن ہولڈرز اور اے ون گریڈ کے حامل میٹرک اور انٹر کے طلبہ کو وعدے کے باوجود فی کش 25 ہزار روپے کی انعامی رقم تک ادا نہیں کی گئی تمام تعلیمی بورڈز سے ایک طویل مشق کرانے کے بعد ڈیٹا جمع کرلیا گیا تاہم ایک سال گزرنے کے باوجود یہ طلبہ اپنی انعامی رقم سے محروم ہیں میٹرک کے طلبہ اب انٹر اور انٹر کے جامعات میں جاچکے ہیں.
تاہم یہ ان طلبہ کے لیے بھی کچھ کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی اور وزارت سندھ کے تعلیمی افق پر مثبت اثرات چھوڑنے میں بظاہرناکام نظرآتی ہے اس ناکامی کی وجہ وزیربرائے یونیورسٹیزاینڈبورڈزاسماعیل راہواورسیکریٹری یونیورسٹیزاینڈبورڈمرید راہیموکے مابین مختلف امورپر اختلافات بھی بتائے جارہے اوراکثرانتظامی فیصلوں میں سیکریٹری یونیورسٹیزاینڈبورڈزمذکورہ وزیر پر حاوی رہتے ہیں اس صورتحال کے سبب سندھ کی 9سرکاری جامعات ایسی ہیں جہاں مستقل وائس چانسلرنہیں ہیں اوران میں سے بعض اعلیٰ تعلیمی ادارے گزشتہ 2سال یااس سے بھی زائدعرصے سے مستقل سربراہ کے بغیرہی کام کررہے ہیں.
اسی طرح سندھ کے 5تعلیمی بورڈزایسے ہیں جہاں مستقل چیئرمینزتوموجودنہیں ہیں مزید براں یہ کہ ان 5تعلیمی بورڈزسمیت کل 8تعلیمی بورڈزایسے ہیں جہاں ناظمین امتحانات اورسیکریٹریزبھی مستقل نہیں ہیں اورپوراکاپوراانتظامی ڈھانچہ ایڈہاک بنیادوں پر ہی چلایاجارہاہے جامعات اور بورڈز تعلیم کے حوالے سے پالیسی سازی کے بجائے محض روز مرہ کے امور نمٹارہے رہے ہیں یا پھر اوپر سے ڈی جانے والی پالیسیز پر عملدرآمد کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ سندھ کے وزیربرائےیونیورسٹیزاینڈبورڈزگزشتہ برس سال 2021میں اگست کی 5تاریخ کوایک نوٹیفیکیشن کے تحت اس وزارت سے منسلک ہوئے تھے تاہم وزارت کاقلمدان سنبھالنے کے بعد سے تاحال ان کے ماتحت کام کرنے والے اداروں میں کچھ نہیں بدلا اس حوالے سے ''ایکسپریس' کو حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اٹھارویں ترمیم کے نتیجے میں وفاق سے لیے گئے تعلیمی ادارے دائود انجینیئرنگ یونیورسٹی اورپیپلز پارٹی کے گڑلیاری میں قائم شہید بینظیربھٹویونیورسٹی لیاری میں کوئی مستقبل وائس چانسلرموجود نہیں ہے۔
لیاری یونیورسٹی کے وائس چانسلرکورواں سال فروری میں نازیبابرقی تصویر بھیجنے کے الزام میں جبری رخصت پر بھیجاگیاتھااوراب انھیں فارغ کرنے کی تیاری کی جارہی ہے جبکہ محکمے نے جناح سندھ یونیورسٹی کے ایک نان پی ایچ ڈی وائس چانسلرکواس یونیورسٹی کاچارج دے رکھاہے جوہفتے میں بمشکل ایک روز لیاری یونیورسٹی آتے ہیں اوریونیورسٹی اپنے قیام کے بعد سے ایک بدترین دورسے گزررہی ہے۔
اسی طرح اول الذکردائود انجینیئرنگ یونیورسٹی کے وائس چانسلرڈاکٹرفیض اللہ عباسی اپنے عہدے کی دوسری مدت بھی تقریباًسواسال قبل پوری کرچکے ہیں گزشتہ تلاش کمیٹی وہاں مستقل وائس چانسلرکی تقرری کے لیے تین ناموں کی سمری تقریباًایک سال قبل بھیج چکی ہے تاہم اب اس یونیورسٹی کے وائس چانسلرکے عہدے کے لیے نیااشتہاردینے کی بات کی جارہی ہے کراچی سے آگے چلیں توجامشورومیں قائم لیاقت میڈیکل یونیورسٹی اورمہران انجینیئرنگ یونیورسٹی کوبھی اسی صورتحال کاسامنا ہے۔
لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلربیکارام کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد سے وہاں قائم مقام کاچارج ڈاکٹراکرام الدین اجن کے پاس ہے اورمہران یونیورسٹی میں میں کئی ماہ سے ڈاکٹرطحہ حسین قائم مقام کے طورپرکام کررہے ہیں جامشوروکی ہی ایک اورجامعہ شہید اللہ بخش سومرویونیورسٹی آف آرٹ،ڈیزائن اینڈ ہیریٹیج میں ڈاکٹربھائی خان شرستمبر2020سے قائم مقام وائس چانسلرچلے آرہے ہیںاسی طرح اسکول اساتذہ اورصدرمدرسین کی بھرتیوں کے لیے تحریری ٹیسٹ لینے والے ادارے آئی بی اے سکھرخود گزشتہ سوا 2سال سے مستقل سربراہ سے محروم ہے۔
اس ادارے کے سابق سربراہ نثارصدیقی جون2020میں انتقال کرگئے تھے جس کے بعد سے تاحال آئی بی اے سکھر کے ایکٹ کی تبدیلی کے نام پر وہاں مستقل وائس چانسلرکی تقرری نہیں کی گئ کیونکہ وہاں یہ اختیارحکومت سندھ کے بجائے ادارے کی سینیٹ کے پاس ہے لہذا اس وقت س آج تک ڈاکٹرمیرمحمد وہاں کے قائم مقام سربراہ ہیں علاوہ ازیںبیگم نصرت بھٹویونیورسٹی سکھربرائے خواتین میں شہزادنسیم نامی ایک جونیئرشخص قائم مقام وائس چانسلر ہے۔
اروڑیونیورسٹی آف آرٹ اینڈآرکیٹکچرڈیزائن سکھر میں قائم مقام وائس چانسلرکاچارج سکھر یونیورسٹی برائے خواتین کی سابق وائس چانسلرڈاکٹرثمرین حسین کے پاس ہے یادرہے کہ شہید اللہ بخش یویونیورسٹی جامشورو،اروڑیونیورسٹی اورسکھروومن یونیورسٹی ان جامعات میں شامل ہیں جن کے بارے میں حکومت سندھ یہ دعوے کرتی ہے کہ سندھ میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے نئی جامعات قائم کی گئی ہیں
تاہم یہ نئی جامعات اپنے قیام سے ہی مستقل سربراہوں سے محروم اورایڈہاک ازم کاشکار ہیں علاوہ ازیں بیظیربھٹویونیورسٹی آف ٹیکنالوجی اینڈ اسکلزڈویلپمنٹ خیرپورکے وائس چانسلرمددعلی شاہ کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد سے وہاں بھی کسی مستقل سربراہ کی تقرری نہیں کی گئی
''ایکسپریس''نے اس معاملے اوروزیرموصوف کی کارکردگی کے حوالے سے ان کاموقف جاننے کے لیے انھیں کئی بار فون کیاانھیں ووٹس ایپ اورایس ایم ایس کے ذریعے پیغام بھیجے تاہم وہ رابطے سے گریزاں رہے۔
سندھ کی سرکاری جامعات اور تعلیمی بورڈز میں ایڈہاک ازم کے معاملے پر جب "ایکسپریس" نے فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن( فپواسا) سندھ چیپٹر کے صدر پروفیسر شاہ علی القدر سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ " ہم پہلے روز سے کہہ رہے ہیں کہ جامعات میں مستقل وائس چانسلرز کا تقرر کریں اس ایڈہاک ازم کو ختم کیا جائے تاہم اب یہ دنوں یا مہینوں کی نہیں برسوں کی بات ہوگئی ہے کہ سندھ کی جامعات اور بورڈز میں مستقل سربراہ ہی نہیں ہیں کیونکہ ایڈہاک ازم انھیں بہتر لگتا ہے ایڈہاک ازم میں متعلقہ حکام اپنے حساب سے اداروں کو چلا سکتے ہیں لہذا اب ہمیں اس معاملے پر مذمت کا لفظ چھوٹا محسوس ہوتا ہے ایک سوال پر پروفیسر شاہ علی القدر کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز اور منسٹر دونوں ہی کو تبدیل ہونا چاہیے ایک ایسا وزیر جو سیکریٹری سے اپنی بات نہ منوا سکے وزیر اعلی کو چاہیے کہ ان سے وزارت ہی لے لیں"۔
دوسری جانب سندھ میں سوائے لاڑکانہ بورڈ، انٹربورڈ کراچی اورمیٹرک بورڈکراچی کے کسی بھی تعلیمی بورڈمیں مستقل سربراہ موجود نہیں جبکہ مذکورہ دونوں تعلیمی بورڈزمیں کئی سال سے کنٹرولرآف ایکزامینینشن اورسیکریٹری بھی غیرمستقل ہیں اسی طرح سکھرتعلیمی بورڈمیںپیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کے بھائی مجتبیٰ شاہ ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے چیئرمین ہیں ان کی مدت ملازمت ختم ہوچکی ہے
انہیں کچھ ماہ قبل موجودہ وزیرنے کچھ روز کے لیے عہدے سے ہٹایالیکن یہ فیصلہ ا ن کے لیے ''بیک فائر''ثابت ہوااورفوراًہی انھیں دوبارہ اس عہدے پر لگادیاگیامزیدبراں میرپورخاص بورڈ،حیدرآبادبورڈاورنوابشاہ بورڈمیں بھی صورتحال کچھ اسی طرح ہے پروفیسربرکات حیدری کے پاس میرپورخاص اورحیدرآباد بورڈ کاجبکہ ڈاکٹرفاروق حسن کے پاس نوابشاہ بورڈ کاچارج ہے سندھ بورڈآف ٹیکنیکل ایجوکیشن کے چیئرمین بھی نہ صرف ریٹائربلکہ اب اپنے عہدے کی معیاربھی پوری کرچکے ہیں یادرہے کہ موجودہ وزیربرائے یونیورسٹیزاینڈبورڈکے اسی ایک سالہ دورمیں گزشتہ تلاش کمیٹی نے مذکورہ بورڈزمیں سربراہوں کے تقررکے لیے انٹرویوکے بعد جونام شارٹ لسٹ کرکے تقرری کے لیے وزیربرائے یونیورسٹیزاینڈبورڈزکوبھجوائے تھے ذرائع بتاتے ہیں کہ چونکہ اس میں ان کی مرضی یاسفارش کردہ نام شامل نہیں تھے لہذاپہلے توکئی ماہ تک یہ سمری اس وقت کے سیکریٹری اورازاں بعد مذکورہ وزیرکے پاس پڑی رہی اس اثنا میں ایک کورٹ کیس کاجواز پیش کرتے ہوئے اس سمری کوہی سرد خانے کی نذرکردیاگیااس سمری میں قاضی عارف،رفعیہ بانو،فضیلت مہدی،نعمان احسن اورعلمدارحسین کے نام متعلقہ بورڈزکے لیے نمایاں تھے۔
سندھ میں سال 2021 کے پوزیشن ہولڈرز اور اے ون گریڈ کے حامل میٹرک اور انٹر کے طلبہ کو وعدے کے باوجود فی کش 25 ہزار روپے کی انعامی رقم تک ادا نہیں کی گئی تمام تعلیمی بورڈز سے ایک طویل مشق کرانے کے بعد ڈیٹا جمع کرلیا گیا تاہم ایک سال گزرنے کے باوجود یہ طلبہ اپنی انعامی رقم سے محروم ہیں میٹرک کے طلبہ اب انٹر اور انٹر کے جامعات میں جاچکے ہیں.
تاہم یہ ان طلبہ کے لیے بھی کچھ کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی اور وزارت سندھ کے تعلیمی افق پر مثبت اثرات چھوڑنے میں بظاہرناکام نظرآتی ہے اس ناکامی کی وجہ وزیربرائے یونیورسٹیزاینڈبورڈزاسماعیل راہواورسیکریٹری یونیورسٹیزاینڈبورڈمرید راہیموکے مابین مختلف امورپر اختلافات بھی بتائے جارہے اوراکثرانتظامی فیصلوں میں سیکریٹری یونیورسٹیزاینڈبورڈزمذکورہ وزیر پر حاوی رہتے ہیں اس صورتحال کے سبب سندھ کی 9سرکاری جامعات ایسی ہیں جہاں مستقل وائس چانسلرنہیں ہیں اوران میں سے بعض اعلیٰ تعلیمی ادارے گزشتہ 2سال یااس سے بھی زائدعرصے سے مستقل سربراہ کے بغیرہی کام کررہے ہیں.
اسی طرح سندھ کے 5تعلیمی بورڈزایسے ہیں جہاں مستقل چیئرمینزتوموجودنہیں ہیں مزید براں یہ کہ ان 5تعلیمی بورڈزسمیت کل 8تعلیمی بورڈزایسے ہیں جہاں ناظمین امتحانات اورسیکریٹریزبھی مستقل نہیں ہیں اورپوراکاپوراانتظامی ڈھانچہ ایڈہاک بنیادوں پر ہی چلایاجارہاہے جامعات اور بورڈز تعلیم کے حوالے سے پالیسی سازی کے بجائے محض روز مرہ کے امور نمٹارہے رہے ہیں یا پھر اوپر سے ڈی جانے والی پالیسیز پر عملدرآمد کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ سندھ کے وزیربرائےیونیورسٹیزاینڈبورڈزگزشتہ برس سال 2021میں اگست کی 5تاریخ کوایک نوٹیفیکیشن کے تحت اس وزارت سے منسلک ہوئے تھے تاہم وزارت کاقلمدان سنبھالنے کے بعد سے تاحال ان کے ماتحت کام کرنے والے اداروں میں کچھ نہیں بدلا اس حوالے سے ''ایکسپریس' کو حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اٹھارویں ترمیم کے نتیجے میں وفاق سے لیے گئے تعلیمی ادارے دائود انجینیئرنگ یونیورسٹی اورپیپلز پارٹی کے گڑلیاری میں قائم شہید بینظیربھٹویونیورسٹی لیاری میں کوئی مستقبل وائس چانسلرموجود نہیں ہے۔
لیاری یونیورسٹی کے وائس چانسلرکورواں سال فروری میں نازیبابرقی تصویر بھیجنے کے الزام میں جبری رخصت پر بھیجاگیاتھااوراب انھیں فارغ کرنے کی تیاری کی جارہی ہے جبکہ محکمے نے جناح سندھ یونیورسٹی کے ایک نان پی ایچ ڈی وائس چانسلرکواس یونیورسٹی کاچارج دے رکھاہے جوہفتے میں بمشکل ایک روز لیاری یونیورسٹی آتے ہیں اوریونیورسٹی اپنے قیام کے بعد سے ایک بدترین دورسے گزررہی ہے۔
اسی طرح اول الذکردائود انجینیئرنگ یونیورسٹی کے وائس چانسلرڈاکٹرفیض اللہ عباسی اپنے عہدے کی دوسری مدت بھی تقریباًسواسال قبل پوری کرچکے ہیں گزشتہ تلاش کمیٹی وہاں مستقل وائس چانسلرکی تقرری کے لیے تین ناموں کی سمری تقریباًایک سال قبل بھیج چکی ہے تاہم اب اس یونیورسٹی کے وائس چانسلرکے عہدے کے لیے نیااشتہاردینے کی بات کی جارہی ہے کراچی سے آگے چلیں توجامشورومیں قائم لیاقت میڈیکل یونیورسٹی اورمہران انجینیئرنگ یونیورسٹی کوبھی اسی صورتحال کاسامنا ہے۔
لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلربیکارام کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد سے وہاں قائم مقام کاچارج ڈاکٹراکرام الدین اجن کے پاس ہے اورمہران یونیورسٹی میں میں کئی ماہ سے ڈاکٹرطحہ حسین قائم مقام کے طورپرکام کررہے ہیں جامشوروکی ہی ایک اورجامعہ شہید اللہ بخش سومرویونیورسٹی آف آرٹ،ڈیزائن اینڈ ہیریٹیج میں ڈاکٹربھائی خان شرستمبر2020سے قائم مقام وائس چانسلرچلے آرہے ہیںاسی طرح اسکول اساتذہ اورصدرمدرسین کی بھرتیوں کے لیے تحریری ٹیسٹ لینے والے ادارے آئی بی اے سکھرخود گزشتہ سوا 2سال سے مستقل سربراہ سے محروم ہے۔
اس ادارے کے سابق سربراہ نثارصدیقی جون2020میں انتقال کرگئے تھے جس کے بعد سے تاحال آئی بی اے سکھر کے ایکٹ کی تبدیلی کے نام پر وہاں مستقل وائس چانسلرکی تقرری نہیں کی گئ کیونکہ وہاں یہ اختیارحکومت سندھ کے بجائے ادارے کی سینیٹ کے پاس ہے لہذا اس وقت س آج تک ڈاکٹرمیرمحمد وہاں کے قائم مقام سربراہ ہیں علاوہ ازیںبیگم نصرت بھٹویونیورسٹی سکھربرائے خواتین میں شہزادنسیم نامی ایک جونیئرشخص قائم مقام وائس چانسلر ہے۔
اروڑیونیورسٹی آف آرٹ اینڈآرکیٹکچرڈیزائن سکھر میں قائم مقام وائس چانسلرکاچارج سکھر یونیورسٹی برائے خواتین کی سابق وائس چانسلرڈاکٹرثمرین حسین کے پاس ہے یادرہے کہ شہید اللہ بخش یویونیورسٹی جامشورو،اروڑیونیورسٹی اورسکھروومن یونیورسٹی ان جامعات میں شامل ہیں جن کے بارے میں حکومت سندھ یہ دعوے کرتی ہے کہ سندھ میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے نئی جامعات قائم کی گئی ہیں
تاہم یہ نئی جامعات اپنے قیام سے ہی مستقل سربراہوں سے محروم اورایڈہاک ازم کاشکار ہیں علاوہ ازیں بیظیربھٹویونیورسٹی آف ٹیکنالوجی اینڈ اسکلزڈویلپمنٹ خیرپورکے وائس چانسلرمددعلی شاہ کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد سے وہاں بھی کسی مستقل سربراہ کی تقرری نہیں کی گئی
''ایکسپریس''نے اس معاملے اوروزیرموصوف کی کارکردگی کے حوالے سے ان کاموقف جاننے کے لیے انھیں کئی بار فون کیاانھیں ووٹس ایپ اورایس ایم ایس کے ذریعے پیغام بھیجے تاہم وہ رابطے سے گریزاں رہے۔
سندھ کی سرکاری جامعات اور تعلیمی بورڈز میں ایڈہاک ازم کے معاملے پر جب "ایکسپریس" نے فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن( فپواسا) سندھ چیپٹر کے صدر پروفیسر شاہ علی القدر سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ " ہم پہلے روز سے کہہ رہے ہیں کہ جامعات میں مستقل وائس چانسلرز کا تقرر کریں اس ایڈہاک ازم کو ختم کیا جائے تاہم اب یہ دنوں یا مہینوں کی نہیں برسوں کی بات ہوگئی ہے کہ سندھ کی جامعات اور بورڈز میں مستقل سربراہ ہی نہیں ہیں کیونکہ ایڈہاک ازم انھیں بہتر لگتا ہے ایڈہاک ازم میں متعلقہ حکام اپنے حساب سے اداروں کو چلا سکتے ہیں لہذا اب ہمیں اس معاملے پر مذمت کا لفظ چھوٹا محسوس ہوتا ہے ایک سوال پر پروفیسر شاہ علی القدر کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز اور منسٹر دونوں ہی کو تبدیل ہونا چاہیے ایک ایسا وزیر جو سیکریٹری سے اپنی بات نہ منوا سکے وزیر اعلی کو چاہیے کہ ان سے وزارت ہی لے لیں"۔
دوسری جانب سندھ میں سوائے لاڑکانہ بورڈ، انٹربورڈ کراچی اورمیٹرک بورڈکراچی کے کسی بھی تعلیمی بورڈمیں مستقل سربراہ موجود نہیں جبکہ مذکورہ دونوں تعلیمی بورڈزمیں کئی سال سے کنٹرولرآف ایکزامینینشن اورسیکریٹری بھی غیرمستقل ہیں اسی طرح سکھرتعلیمی بورڈمیںپیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کے بھائی مجتبیٰ شاہ ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے چیئرمین ہیں ان کی مدت ملازمت ختم ہوچکی ہے
انہیں کچھ ماہ قبل موجودہ وزیرنے کچھ روز کے لیے عہدے سے ہٹایالیکن یہ فیصلہ ا ن کے لیے ''بیک فائر''ثابت ہوااورفوراًہی انھیں دوبارہ اس عہدے پر لگادیاگیامزیدبراں میرپورخاص بورڈ،حیدرآبادبورڈاورنوابشاہ بورڈمیں بھی صورتحال کچھ اسی طرح ہے پروفیسربرکات حیدری کے پاس میرپورخاص اورحیدرآباد بورڈ کاجبکہ ڈاکٹرفاروق حسن کے پاس نوابشاہ بورڈ کاچارج ہے سندھ بورڈآف ٹیکنیکل ایجوکیشن کے چیئرمین بھی نہ صرف ریٹائربلکہ اب اپنے عہدے کی معیاربھی پوری کرچکے ہیں یادرہے کہ موجودہ وزیربرائے یونیورسٹیزاینڈبورڈکے اسی ایک سالہ دورمیں گزشتہ تلاش کمیٹی نے مذکورہ بورڈزمیں سربراہوں کے تقررکے لیے انٹرویوکے بعد جونام شارٹ لسٹ کرکے تقرری کے لیے وزیربرائے یونیورسٹیزاینڈبورڈزکوبھجوائے تھے ذرائع بتاتے ہیں کہ چونکہ اس میں ان کی مرضی یاسفارش کردہ نام شامل نہیں تھے لہذاپہلے توکئی ماہ تک یہ سمری اس وقت کے سیکریٹری اورازاں بعد مذکورہ وزیرکے پاس پڑی رہی اس اثنا میں ایک کورٹ کیس کاجواز پیش کرتے ہوئے اس سمری کوہی سرد خانے کی نذرکردیاگیااس سمری میں قاضی عارف،رفعیہ بانو،فضیلت مہدی،نعمان احسن اورعلمدارحسین کے نام متعلقہ بورڈزکے لیے نمایاں تھے۔