سیلاب زدگان دربدر جائیں تو کہاں جائیں
سرکاری اسکولوں میں عارضی مقیم سیلاب متاثرین کو فوری طور پر ریسکیو ریلیف کی ضرورت ہے
سندھ سے بڑی تعداد میں سیلاب زدگان نے کراچی کا رخ کرلیا ہے اور اس وقت اپنی مدد آپ کے تحت مختلف سرکاری اسکولوں میں رہائش اختیار کرلی ہے۔ صرف ڈسٹرکٹ ایسٹ میں اس وقت پندرہ مختلف سرکاری اسکولوں میں ہزاروں کی تعداد میں سیلاب زدگان موجود ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ یہاں پڑھنے والے بچے غیر معینہ مدت تک اسکول نہیں جائیں گے؟
مگر سوال آخر یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد کب تک بے یارو مدد گار اس طرح یہاں موجود رہے گی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔
پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے لاکھوں کی تعداد میں بچے اور خواتین اس سیلاب سے متاثر ہیں جن کےلیے فوری طور پر ریسکیو ریلیف کی ضرورت ہے۔
صحافی غلام مرتضیٰ کیریو جو اس وقت اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر سچل گوٹھ میں موجود سیلاب زدگان کی دیکھ بھال کررہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ سمجھ میں نہیں آرہا ان اسکولوں میں پڑھنے والے طلبا کا مستقبل کیا ہوگا۔ کیونکہ ابھی اتنی بڑی تعداد میں یہ لوگ یہاں موجود ہیں اور حکومت کی جانب سے ان کےلیے کسی قسم کا کوئی بندوبست بھی نہیں کیا گیا ہے۔ کھانا تو مختلف این جی اوز دے ہی رہی ہیں لیکن مسائل بہت زیادہ ہیں۔ یہاں بڑی تعداد میں بچے، حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی مائیں موجود ہیں، جن کےلیے نہ ہی دوائیں موجود ہیں اور نہ ہی پینے اور استعمال کا پانی موجود ہے۔
اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے) کے مطابق سیلاب زدہ علاقوں میں تقریباً چھ لاکھ حاملہ خواتین ہیں، جبکہ سیلاب زدہ علاقوں میں اندازے کے مطابق 73 ہزار خواتین کے ہاں بچوں کی پیدائش متوقع ہے۔
سیلاب میں تقریباً 10 لاکھ مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سڑکوں اور پلوں کو پہنچنے والے نقصان نے سیلاب متاثرین تک رسائی کو مشکل بنادیا، جن میں لڑکیوں اور خواتین کی صحت کی سہولیات تک رسائی بھی متاثر ہوئی ہے۔ یو این ایف پی اے پاکستان کے قائم مقام نمائندے ڈاکٹر بختیار قادروف نے کہا ہے ادارہ اس بات کو یقینی بنائے کہ حاملہ خواتین اور نئی ماؤں کو انتہائی مشکل حالات میں بھی زندگی بچانے والی خدمات ملیں۔
سچل گوٹھ کے مختلف اسکولوں میں گندے فرش پر میلی رلی بچھائے عورتیں اپنے معصوم بیمار بچوں کے ساتھ بیٹھی ہیں۔ لاڑکانہ سے آئی نورین نے بتایا کہ ہمیں یہاں آئے ہوئے تین چار دن ہوگئے ہیں، میری چھ مہینے کی بچی ہے جس کو بخار اور دست ہورہے ہیں۔ یہاں ہمارے پاس کوئی دوا نہیں ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے اور دوسرا عورتیں کو بیت الخلا جانے کا بڑا مسئلہ ہے۔
گندگی اور تعفن میں کمرے میں موجود مردوں کے سامنے بچوں کو دودھ پلانے پر مجبور عورتوں کا کہنا ہے کہ ہمارے لیے یہاں کوئی پردہ ہی نہیں ہے۔ ایک ایک کمرے میں بیس بیس تیس تیس لوگ موجود ہیں۔ رات کو بجلی نہیں ہوتی۔ ہم اندھیرے اور گرمی کے خوف سے باہر کھلے آسمان کے نیچے سونے پر مجبور ہیں۔
قمبر شہداد کوٹ کی بشیراں، جو اپنے پانچ بچوں کے ساتھ اس عارضی کیمپ میں موجود ہیں، ان کا کہنا ہے کہ میرے سب بچے شدید بیمار ہیں۔ کسی کو بخار ہے تو کسی کو دست لگے ہیں۔ رات بھر بچے روتے رہتے ہیں۔ ہم بہت پریشان ہیں۔
گوٹھ قاسم علی محراب پور کے جیون علی نے شکوہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہمیں پانی کبھی ملتا ہے کبھی نہیں۔ جگہ کی کمی ہے۔ نہ ہی صفائی ستھرائی ہے، نہ ہی ڈاکٹر اور نہ ہی دوا۔ بچے بیمار ہوں گے تو کیا ہوگا۔ کوئی پوچھ نہیں رہا ہے۔
ان عارضی کیمپوں میں بچے پھٹے پرانے کپڑوں میں ننگے پیر ادھر ادھر بھاگتے پھررہے ہیں۔ کئی بچوں کے پیروں، ہاتھوں اور سر میں پھوڑے، زخم اور چھالے نظر آئے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا ان بچوں کو جلدی انفیکشن ہورہے ہیں۔ جبکہ بہت سارے مرد اور عورتیں بھی جلدی امراض سے متاثر نظر آرہی تھیں۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے اسکن اسپیشلسٹ ڈاکٹر روبی کا کہنا ہے کہ ان بارشوں کی وجہ سے جلدی بیماریوں میں اضافہ ہوا ہے۔ جلدی بیماریوں میں جو سب سے زیادہ انفیکشن دیکھنے میں آرہے ہیں وہ فنگل انفیکشن اور دوسرا بیکٹیریل انفیکشن ہیں۔
جلدی بیماریوں کے پھلینے کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس وقت جو ریلیف کیمپس ہیں وہاں بہت زیادہ رش ہے۔ کئی کئی لوگ ایک ہی جگہ پر موجود ہیں، ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔ اس صورتحال میں اگر کسی کو کوئی جلدی انفیکشن ہوا ہے تو اس کی وجہ سے وہ پھیل رہا ہے۔ یہ فنگل انفیکشن داد کہلاتے ہیں جو بہت زیادہ ہورہے ہیں۔ اس کی وجہ کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ یہ گیلے پن کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ جسم کے حصے گیلے رہیں یا نم رہیں تو اس کی وجہ سے انفیکشن ہوتے ہیں۔ جن لوگوں میں پہلے سے ایگزیما موجود ہے، ان کا ایگزیما بگڑنے کا اندیشہ ہے، جبکہ اسی طرح اگر کسی ایک کو بھی خارش کی بیماری ہے تو وہ دوسروں کو بھی لگ جائے گی۔
اس گندے پانی میں مچھر بھی نشوونما پاتے ہیں اور ان کے کاٹنے سے ڈینگی ملیریا کا خطرہ اپنی جگہ لیکن مچھر کے کاٹنے سے بھی جلد پر نشان بنتے ہیں اور بعد میں اس کی وجہ سے بھی جلدی انفیکشن ہوسکتا ہے۔
کم عمر لڑکیوں اور خواتین کو سینٹری پیڈز کے استعمال کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس کےلیے ان کی کاؤنسلنگ کی اشد ضرورت ہے۔ انہیں صفائی سے متعلق آگاہی دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ کسی اندرونی انفیکشن کا شکار نہ ہوں۔ ڈاکٹرز کی تجویز کردہ جلدی بیماریوں کےلیے کیمپس میں دوائیں لازمی موجود ہونی چاہئیں۔
واٹرایڈ پاکستان کے کنٹری ڈائریکٹر عارف جبار خان کا کہنا ہے کہ مختلف متاثرہ خاندانوں کی صورتحال ابتر ہے اور آئندہ مہینوں میں یہ مزید سنگین ہونے کا خدشہ ہے۔ کئی افراد اپنے پیاروں سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر اور اثاثے بھی کھو چکے ہیں۔ لوگ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ گندے پانی کا ایک گلاس پینے سے بھی کئی بیماریاں جنم لے سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو کھانے پینے کی اشیا اور محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں صابن، تولیے اور جیری کین فراہم کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی صفائی، ستھرائی کا خیال رکھ سکیں اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے بچ سکیں۔ پانی کے وسائل کو بحال کرنے اور انہیں بیت الخلا کی مناسب سہولیات فراہم کرنا اشد ضروری ہے۔
صورتحال پر بات کرتے ہوئے کراچی کے جنرل فزیشن ڈاکٹر فرحان راشد کا کہنا تھا کہ سیلاب متاثرین کے کیمپوں میں بیماریاں جیسے گیسٹرو، ملیریا بخار، ڈینگی اور جلدی بیماریاں پھیل رہی ہیں، جس کی بڑی وجوہ صحت اور صفائی کا ناقص انتظام اور دوسرا پینے کے صاف پانی کا نہ ہونا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بہت ضروری ہے کہ سیلاب متاثرین کیپمس میں میڈیکل ٹیمز کو موجود ہونا چاہیے تاکہ مریضوں کا طبی معائنہ کیا جائے جبکہ زچگی کے معاملات کا جائزہ لیا جائے، اس سے متعلق دوائیں اور سہولیات فراہم کی جائیں۔ آئرن کی کمی کی شکار خواتین کو آئرن اور فولک ایسڈ سپلیمنٹس فراہم کیے جائیں۔ سیلاب زدگان اس وقت سانس کی بیماریوں، بخار، ڈائیریا اور خارش کی شکایت کررہے ہیں۔ اس کےلیے ان کو صحت کی مناسب سہولتیں مہیا کی جائیں۔
سیلاب زدگان کے متاثرہ بچوں اور عورتوں کو خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ ہرسطح پر کوشش کی جانی چاہیے کہ بچوں اور عورتوں کو ہرممکن امداد فراہم کی جاسکے تاکہ جانی نقصان کم سے کم ہو۔ دوسری جانب سندھ حکومت اور کراچی کی شہری انتظامیہ کو بھی سیلاب زدگان کےلیے قائم ان ریلیف کیمپوں میں صفائی، پینے اور استعمال کے پانی کا خاطر خواہ انتظام کرنا ہوگا۔ ورنہ سیلاب سے بچنے والے یہ متاثرین بیماریوں سے مرجائیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مگر سوال آخر یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد کب تک بے یارو مدد گار اس طرح یہاں موجود رہے گی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔
پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے لاکھوں کی تعداد میں بچے اور خواتین اس سیلاب سے متاثر ہیں جن کےلیے فوری طور پر ریسکیو ریلیف کی ضرورت ہے۔
صحافی غلام مرتضیٰ کیریو جو اس وقت اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر سچل گوٹھ میں موجود سیلاب زدگان کی دیکھ بھال کررہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ سمجھ میں نہیں آرہا ان اسکولوں میں پڑھنے والے طلبا کا مستقبل کیا ہوگا۔ کیونکہ ابھی اتنی بڑی تعداد میں یہ لوگ یہاں موجود ہیں اور حکومت کی جانب سے ان کےلیے کسی قسم کا کوئی بندوبست بھی نہیں کیا گیا ہے۔ کھانا تو مختلف این جی اوز دے ہی رہی ہیں لیکن مسائل بہت زیادہ ہیں۔ یہاں بڑی تعداد میں بچے، حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی مائیں موجود ہیں، جن کےلیے نہ ہی دوائیں موجود ہیں اور نہ ہی پینے اور استعمال کا پانی موجود ہے۔
اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے) کے مطابق سیلاب زدہ علاقوں میں تقریباً چھ لاکھ حاملہ خواتین ہیں، جبکہ سیلاب زدہ علاقوں میں اندازے کے مطابق 73 ہزار خواتین کے ہاں بچوں کی پیدائش متوقع ہے۔
سیلاب میں تقریباً 10 لاکھ مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سڑکوں اور پلوں کو پہنچنے والے نقصان نے سیلاب متاثرین تک رسائی کو مشکل بنادیا، جن میں لڑکیوں اور خواتین کی صحت کی سہولیات تک رسائی بھی متاثر ہوئی ہے۔ یو این ایف پی اے پاکستان کے قائم مقام نمائندے ڈاکٹر بختیار قادروف نے کہا ہے ادارہ اس بات کو یقینی بنائے کہ حاملہ خواتین اور نئی ماؤں کو انتہائی مشکل حالات میں بھی زندگی بچانے والی خدمات ملیں۔
سچل گوٹھ کے مختلف اسکولوں میں گندے فرش پر میلی رلی بچھائے عورتیں اپنے معصوم بیمار بچوں کے ساتھ بیٹھی ہیں۔ لاڑکانہ سے آئی نورین نے بتایا کہ ہمیں یہاں آئے ہوئے تین چار دن ہوگئے ہیں، میری چھ مہینے کی بچی ہے جس کو بخار اور دست ہورہے ہیں۔ یہاں ہمارے پاس کوئی دوا نہیں ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے اور دوسرا عورتیں کو بیت الخلا جانے کا بڑا مسئلہ ہے۔
گندگی اور تعفن میں کمرے میں موجود مردوں کے سامنے بچوں کو دودھ پلانے پر مجبور عورتوں کا کہنا ہے کہ ہمارے لیے یہاں کوئی پردہ ہی نہیں ہے۔ ایک ایک کمرے میں بیس بیس تیس تیس لوگ موجود ہیں۔ رات کو بجلی نہیں ہوتی۔ ہم اندھیرے اور گرمی کے خوف سے باہر کھلے آسمان کے نیچے سونے پر مجبور ہیں۔
قمبر شہداد کوٹ کی بشیراں، جو اپنے پانچ بچوں کے ساتھ اس عارضی کیمپ میں موجود ہیں، ان کا کہنا ہے کہ میرے سب بچے شدید بیمار ہیں۔ کسی کو بخار ہے تو کسی کو دست لگے ہیں۔ رات بھر بچے روتے رہتے ہیں۔ ہم بہت پریشان ہیں۔
گوٹھ قاسم علی محراب پور کے جیون علی نے شکوہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہمیں پانی کبھی ملتا ہے کبھی نہیں۔ جگہ کی کمی ہے۔ نہ ہی صفائی ستھرائی ہے، نہ ہی ڈاکٹر اور نہ ہی دوا۔ بچے بیمار ہوں گے تو کیا ہوگا۔ کوئی پوچھ نہیں رہا ہے۔
ان عارضی کیمپوں میں بچے پھٹے پرانے کپڑوں میں ننگے پیر ادھر ادھر بھاگتے پھررہے ہیں۔ کئی بچوں کے پیروں، ہاتھوں اور سر میں پھوڑے، زخم اور چھالے نظر آئے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا ان بچوں کو جلدی انفیکشن ہورہے ہیں۔ جبکہ بہت سارے مرد اور عورتیں بھی جلدی امراض سے متاثر نظر آرہی تھیں۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے اسکن اسپیشلسٹ ڈاکٹر روبی کا کہنا ہے کہ ان بارشوں کی وجہ سے جلدی بیماریوں میں اضافہ ہوا ہے۔ جلدی بیماریوں میں جو سب سے زیادہ انفیکشن دیکھنے میں آرہے ہیں وہ فنگل انفیکشن اور دوسرا بیکٹیریل انفیکشن ہیں۔
جلدی بیماریوں کے پھلینے کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس وقت جو ریلیف کیمپس ہیں وہاں بہت زیادہ رش ہے۔ کئی کئی لوگ ایک ہی جگہ پر موجود ہیں، ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔ اس صورتحال میں اگر کسی کو کوئی جلدی انفیکشن ہوا ہے تو اس کی وجہ سے وہ پھیل رہا ہے۔ یہ فنگل انفیکشن داد کہلاتے ہیں جو بہت زیادہ ہورہے ہیں۔ اس کی وجہ کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ یہ گیلے پن کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ جسم کے حصے گیلے رہیں یا نم رہیں تو اس کی وجہ سے انفیکشن ہوتے ہیں۔ جن لوگوں میں پہلے سے ایگزیما موجود ہے، ان کا ایگزیما بگڑنے کا اندیشہ ہے، جبکہ اسی طرح اگر کسی ایک کو بھی خارش کی بیماری ہے تو وہ دوسروں کو بھی لگ جائے گی۔
اس گندے پانی میں مچھر بھی نشوونما پاتے ہیں اور ان کے کاٹنے سے ڈینگی ملیریا کا خطرہ اپنی جگہ لیکن مچھر کے کاٹنے سے بھی جلد پر نشان بنتے ہیں اور بعد میں اس کی وجہ سے بھی جلدی انفیکشن ہوسکتا ہے۔
کم عمر لڑکیوں اور خواتین کو سینٹری پیڈز کے استعمال کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس کےلیے ان کی کاؤنسلنگ کی اشد ضرورت ہے۔ انہیں صفائی سے متعلق آگاہی دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ کسی اندرونی انفیکشن کا شکار نہ ہوں۔ ڈاکٹرز کی تجویز کردہ جلدی بیماریوں کےلیے کیمپس میں دوائیں لازمی موجود ہونی چاہئیں۔
واٹرایڈ پاکستان کے کنٹری ڈائریکٹر عارف جبار خان کا کہنا ہے کہ مختلف متاثرہ خاندانوں کی صورتحال ابتر ہے اور آئندہ مہینوں میں یہ مزید سنگین ہونے کا خدشہ ہے۔ کئی افراد اپنے پیاروں سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر اور اثاثے بھی کھو چکے ہیں۔ لوگ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ گندے پانی کا ایک گلاس پینے سے بھی کئی بیماریاں جنم لے سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو کھانے پینے کی اشیا اور محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں صابن، تولیے اور جیری کین فراہم کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی صفائی، ستھرائی کا خیال رکھ سکیں اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے بچ سکیں۔ پانی کے وسائل کو بحال کرنے اور انہیں بیت الخلا کی مناسب سہولیات فراہم کرنا اشد ضروری ہے۔
صورتحال پر بات کرتے ہوئے کراچی کے جنرل فزیشن ڈاکٹر فرحان راشد کا کہنا تھا کہ سیلاب متاثرین کے کیمپوں میں بیماریاں جیسے گیسٹرو، ملیریا بخار، ڈینگی اور جلدی بیماریاں پھیل رہی ہیں، جس کی بڑی وجوہ صحت اور صفائی کا ناقص انتظام اور دوسرا پینے کے صاف پانی کا نہ ہونا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بہت ضروری ہے کہ سیلاب متاثرین کیپمس میں میڈیکل ٹیمز کو موجود ہونا چاہیے تاکہ مریضوں کا طبی معائنہ کیا جائے جبکہ زچگی کے معاملات کا جائزہ لیا جائے، اس سے متعلق دوائیں اور سہولیات فراہم کی جائیں۔ آئرن کی کمی کی شکار خواتین کو آئرن اور فولک ایسڈ سپلیمنٹس فراہم کیے جائیں۔ سیلاب زدگان اس وقت سانس کی بیماریوں، بخار، ڈائیریا اور خارش کی شکایت کررہے ہیں۔ اس کےلیے ان کو صحت کی مناسب سہولتیں مہیا کی جائیں۔
سیلاب زدگان کے متاثرہ بچوں اور عورتوں کو خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ ہرسطح پر کوشش کی جانی چاہیے کہ بچوں اور عورتوں کو ہرممکن امداد فراہم کی جاسکے تاکہ جانی نقصان کم سے کم ہو۔ دوسری جانب سندھ حکومت اور کراچی کی شہری انتظامیہ کو بھی سیلاب زدگان کےلیے قائم ان ریلیف کیمپوں میں صفائی، پینے اور استعمال کے پانی کا خاطر خواہ انتظام کرنا ہوگا۔ ورنہ سیلاب سے بچنے والے یہ متاثرین بیماریوں سے مرجائیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔