غیرذمے دارانہ سیاست
آزادی اظہار رائے کا غلط استعمال ہمیں روکنا ہوگا
پاکستان کی سیاست اس وقت جس قسم کے تضادات اور تقسیم کا شکار ہے ، اس میں لوگوں کے اندر ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف رائے دشمنی میں تبدیل ہو چکا ہے۔ صرف اور صرف اقتدار اور مفادات حاصل کرنا ہی مقصد رہ گیا ہے، گالم گلوچ اور بد تمیزی معمول بن گیا ہے ۔ سیاست کی کوئی اخلاقیات رہیں اور نہ ہی نظریات و احساسات ، معیشت و معاشرت کا برا حال ہے۔
پاک فوج پاک وطن کا منظم اور قابل فخر ادارہ ہے جسے ساری دنیا میں مانا اور جانا جاتا ہے۔ صد افسوس کہ ہم اپنے سب سے اہم و متحرک ادارے کو متنازعہ بنانے کے درپے ہیں ، سوچنا یہ ہے کہ ہمارا مستقبل کیا ہو گا؟ ہماری فوج کی کامرانیوں اور قربانیوں کے چرچے تو دنیا بھر میں ہیں۔ صاحبان سیاست بار بار اپنی فوج کو سیاسی معاملات میں ملوث کرتے ہیں اور پھر تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ '' فیصل آباد میں ایک سیاسی جلسے کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے پاک فوج کی سینیئر قیادت کے بارے میں توہین آمیز اور غیر ضروری بیان پر پاک فوج میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔'' آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ '' ایک ایسے وقت میں پاکستان فوج کی اعلیٰ قیادت کو بد نام اورکمزورکرنے کی کوشش کی گئی ہے جب ادارہ پاکستان کے عوام کے تحفظ اور سلامتی کے لیے روزانہ قربانیاں دے رہا ہے۔'' بیان کے مطابق آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے طریقہ کار آئین میں واضح طور پر درج ہے اور سینئر سیاست دان اس کے بارے میں تنازعے بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، جو افسوسناک ہے۔''
اس وقت ہمارے ملک کو بہت سے مسائل درپیش ہیں۔ ہمارا دشمن ہمیں کمزور کرنے کے لیے سازشوں میں مصروف ہے۔ ایسے میں نفرتوں کا ماحول ملک و قوم کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل اور بھارتی آبی جارحیت روکنے کے لیے ہمیں باہمی اتحاد کی ضرورت ہے۔ ہماری مسلح افواج دشمنوں کا مقابلہ کرنے اور ناکوں چنے چبوانے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ مسلح افواج کے خلاف پروپیگنڈا کے ذریعے دشمن ہمیں کمزور کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان فوج کے حوالے سے جو باتیں عوامی جلسوں میں کررہے ہیں ، تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ سوچ سمجھ کر کسی منصوبہ بندی کے تحت بول رہے ہیں اور کوئی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
اس قبل بھی پی ٹی آئی کے ترجمان ایک نجی ٹی وی چینل پر پاک فوج کے خلاف انتہائی زہریلا بیان دے چکے ہیں۔کیا عمران خان کے موجودہ بیان کو اسی بیان کا پارٹ ٹو تصورکیا جائے؟ عمران خان کو آئین پاکستان میں درج طریقہ کار کے تحت پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے ہٹایا گیا، جمہوریت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ تسلیم کرلیتے کہ قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت نے ان پر عدم اعتماد کردیا لیکن وہ اس سارے عمل کو غیرملکی ''سازش '' قرار دینے کی پالیسی پر کاربند ہیں۔ اگر کوئی سیاسی لیڈر عوام میں مقبول ہوجائے ، تو کیا مقبول ہونے کا مطلب آئین اور قانون سے ماورا ہونا ہے۔ یہ سوچ منفی اور ملکی سلامتی کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔
پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا پر فوج مخالف مہم دیکھ کر ملک دشمن عناصر خوشی سے شادیانے بجا رہے ہیں، را کے ایجنٹ کہہ رہے ہیں کہ جو کام ہم لاکھوں ڈالرز لگا کر بھی نہیں کر سکے۔ پاکستانی لیڈرز وہ مفت میں کر رہے ہیں جو قوم کو فوج کے خلاف بیانیہ بنا کر دے رہے ہیں۔ بعض بھارتی تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ پاکستانی سیاستدانوں کے فوج مخالف پروپیگنڈوں سے فوج اور عوام میں دوریاں پیدا ہوںگی یہ ان کی بہت بڑی غلط فہمی ہے کیونکہ پاکستان کے محب وطن عوام کا اپنی پاک بہادر فوج کے ساتھ پیار وفا اور تکریم و احترام والا بہت ہی جذباتی رشتہ و تعلق ہے جو چٹان کی مانند مضبوط ہے اور اس کا ٹوٹنا ناممکن بھی ہے۔
انتہا پسندی کسی بھی سماج کے لیے زہرِ قاتل کا درجہ رکھتی ہے۔ رواداری ، برداشت اور اعتدال پسندی ہی صحت مند رویوں کو جنم دیتی ہے۔ جس سماج میں عدم برداشت پیدا ہو جائے وہ سماج تنزلی کا شکار ہو جاتا ہے اور انتشار، بدامنی میں مبتلا ہو کر اپنی جڑیں کھوکھلی کر لیتا ہے۔
سیاست میں یہ رویہ اور بھی خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی قیادتوں کے ایک دوسرے کے خلاف الزامات میں شدت کے نتیجے میں ان جماعتوں کے جوشیلے کارکنوں کے درمیان میں بھی دشمنی کی فضا پروان چڑھتی رہی ہے ، جس نے بعض افراد کی جانیں بھی لے لیں 'جس ملک میں لوگ ایک دوسرے کے خلاف غصے اور اختلاف کا اظہار ماں ، بہن ، بیٹی کو گالی دے کر کرتے ہوں، وہاں سیاسی حلقوں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر ان کی کردار کشی اسی معاشرتی بیماری کی عکاسی ہے۔ یہ رویہ سیاسی جلسوں اور ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے ٹاک شوز میں بھی دیکھنے میں آتا ہے۔
جہاں سیاسی مباحثوں میں تنقید کے نام پر ایک دوسرے کی نا صرف عزت اچھالی جاتی ہے بلکہ ایک طوفان بد تمیزی برپا ہوتا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں، جہاں ایک طرف تو سیاست ویسے ہی بدنام ہے ، وہیں دوسری طرف اس طرح کے رویے خواتین کی سیاست میں شمولیت کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
اس سارے سیاسی منظر نامے کا بغور مشاہدہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف سیاست میں ہی اصلاحات کی ضرورت نہیں بلکہ سیاسی رہنماؤں اور نمایندگان کی اخلاقی تربیت کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ان کے ورکرز اور عام عوام بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک سیاسی شعور اور بہتر اخلاقی کردار کا مظاہرہ کریں۔ معاشرے میں نہ صرف گھریلو خواتین بلکہ گھر سے باہر نکل کر کام کرنے والی اور سیاست میں آنے والی خواتین کے احترام اور تحفظ کو بھی یقینی بنایا جائے ورنہ یہ معاشرہ اپنی پسماندگی اور اخلاقی اقدار کی گراؤٹ کا خود ہی ذمے دار ہو گا۔
پاکستان کی موجودہ سیاست کو دیکھا جائے تو ان دنوں سیاسی درجہ حرارت میں بہت اضافہ ہو چکا ہے اور سیاسی مخاصمت بہت بڑھ گئی ہے۔ اس ماحول میں باہمی رودار کا فروغ وقت کی اہم ضرورت اور قومی مفاد کا تقاضا ہے۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی سیاسی عدم رواداری پر کئی حلقے تشویش کا شکار ہیں۔ ان کو خدشہ ہے کہ اگر سیاستدانوں نے بروقت مداخلت کر کے اپنے کارکنان کی تربیت نہیں کی تو ملک میں سیاسی عدم رواداری اپنے عروج پر پہنچ جائے گی۔
یاد رکھیں اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہوتا ہے لیکن اختلاف رائے کی آڑ میں اخلاقیات کا دامن ہمیں نہیں چھوڑنا چاہیے۔ بحیثیت مسلمان ، ہمارا دین بھی ہمیں باہمی روا داری اور صبر و تحمل کا درس دیتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ ایک رہنما اپنے پیروکاروں کے لیے باپ کی سی اہمیت رکھتا ہے۔ وہ کون سا باپ ہو گا جو اولاد کو اس کے حقوق تو بتاتا ہے لیکن اسے اس کے فرائض نہیں بتاتا۔ حقوق کا مطالبہ تب ہی کیا جا سکتا ہے جب فرائض پورے کیے ہوں۔ ان کارکنان کی تربیت سیاسی قائدین کے ذمے ہوتی ہے، وقت کی اہم ضرورت ہے کہ سیاسی قائدین یہ سمجھ لیں۔ ورنہ مخالفین تو جو نقصان پہنچائیں گے پہنچائیں گے ہی یہ کارکن ہی انھیں لے ڈوبیں گے۔
آزادی اظہار رائے کا غلط استعمال ہمیں روکنا ہوگا ، اس سلسلے میں پاکستان کی قومی اسمبلی کو باقاعدہ اجلاس منعقد کرکے قانون سازی کرنی ہوگی۔ پاکستانی قوم نے ہر مشکل وقت کا بڑی پامردی سے مقابلہ کیا ہے اور آج بھی دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سیسہ پلائی دیوار کی طرح متحد ہیں، ضرورت ہے تو بس سیاسی زعماء کے مابین رواداری کے فروغ کی، سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے کے لیے معتدل مزاج سیاستدان آگے بڑھیں اور ماحول کو مزید پراگندہ ہونے سے روکیں۔ اکٹھا بٹھانے کی کوشش کریں ، یہ ملک وقوم کی بہت بڑی خدمت ہو گی اور پاکستان کا وقار دنیا میں بلند ہو گا۔
پاک فوج پاک وطن کا منظم اور قابل فخر ادارہ ہے جسے ساری دنیا میں مانا اور جانا جاتا ہے۔ صد افسوس کہ ہم اپنے سب سے اہم و متحرک ادارے کو متنازعہ بنانے کے درپے ہیں ، سوچنا یہ ہے کہ ہمارا مستقبل کیا ہو گا؟ ہماری فوج کی کامرانیوں اور قربانیوں کے چرچے تو دنیا بھر میں ہیں۔ صاحبان سیاست بار بار اپنی فوج کو سیاسی معاملات میں ملوث کرتے ہیں اور پھر تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ '' فیصل آباد میں ایک سیاسی جلسے کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے پاک فوج کی سینیئر قیادت کے بارے میں توہین آمیز اور غیر ضروری بیان پر پاک فوج میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔'' آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ '' ایک ایسے وقت میں پاکستان فوج کی اعلیٰ قیادت کو بد نام اورکمزورکرنے کی کوشش کی گئی ہے جب ادارہ پاکستان کے عوام کے تحفظ اور سلامتی کے لیے روزانہ قربانیاں دے رہا ہے۔'' بیان کے مطابق آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے طریقہ کار آئین میں واضح طور پر درج ہے اور سینئر سیاست دان اس کے بارے میں تنازعے بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، جو افسوسناک ہے۔''
اس وقت ہمارے ملک کو بہت سے مسائل درپیش ہیں۔ ہمارا دشمن ہمیں کمزور کرنے کے لیے سازشوں میں مصروف ہے۔ ایسے میں نفرتوں کا ماحول ملک و قوم کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل اور بھارتی آبی جارحیت روکنے کے لیے ہمیں باہمی اتحاد کی ضرورت ہے۔ ہماری مسلح افواج دشمنوں کا مقابلہ کرنے اور ناکوں چنے چبوانے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ مسلح افواج کے خلاف پروپیگنڈا کے ذریعے دشمن ہمیں کمزور کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان فوج کے حوالے سے جو باتیں عوامی جلسوں میں کررہے ہیں ، تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ سوچ سمجھ کر کسی منصوبہ بندی کے تحت بول رہے ہیں اور کوئی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
اس قبل بھی پی ٹی آئی کے ترجمان ایک نجی ٹی وی چینل پر پاک فوج کے خلاف انتہائی زہریلا بیان دے چکے ہیں۔کیا عمران خان کے موجودہ بیان کو اسی بیان کا پارٹ ٹو تصورکیا جائے؟ عمران خان کو آئین پاکستان میں درج طریقہ کار کے تحت پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے ہٹایا گیا، جمہوریت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ تسلیم کرلیتے کہ قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت نے ان پر عدم اعتماد کردیا لیکن وہ اس سارے عمل کو غیرملکی ''سازش '' قرار دینے کی پالیسی پر کاربند ہیں۔ اگر کوئی سیاسی لیڈر عوام میں مقبول ہوجائے ، تو کیا مقبول ہونے کا مطلب آئین اور قانون سے ماورا ہونا ہے۔ یہ سوچ منفی اور ملکی سلامتی کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔
پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا پر فوج مخالف مہم دیکھ کر ملک دشمن عناصر خوشی سے شادیانے بجا رہے ہیں، را کے ایجنٹ کہہ رہے ہیں کہ جو کام ہم لاکھوں ڈالرز لگا کر بھی نہیں کر سکے۔ پاکستانی لیڈرز وہ مفت میں کر رہے ہیں جو قوم کو فوج کے خلاف بیانیہ بنا کر دے رہے ہیں۔ بعض بھارتی تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ پاکستانی سیاستدانوں کے فوج مخالف پروپیگنڈوں سے فوج اور عوام میں دوریاں پیدا ہوںگی یہ ان کی بہت بڑی غلط فہمی ہے کیونکہ پاکستان کے محب وطن عوام کا اپنی پاک بہادر فوج کے ساتھ پیار وفا اور تکریم و احترام والا بہت ہی جذباتی رشتہ و تعلق ہے جو چٹان کی مانند مضبوط ہے اور اس کا ٹوٹنا ناممکن بھی ہے۔
انتہا پسندی کسی بھی سماج کے لیے زہرِ قاتل کا درجہ رکھتی ہے۔ رواداری ، برداشت اور اعتدال پسندی ہی صحت مند رویوں کو جنم دیتی ہے۔ جس سماج میں عدم برداشت پیدا ہو جائے وہ سماج تنزلی کا شکار ہو جاتا ہے اور انتشار، بدامنی میں مبتلا ہو کر اپنی جڑیں کھوکھلی کر لیتا ہے۔
سیاست میں یہ رویہ اور بھی خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی قیادتوں کے ایک دوسرے کے خلاف الزامات میں شدت کے نتیجے میں ان جماعتوں کے جوشیلے کارکنوں کے درمیان میں بھی دشمنی کی فضا پروان چڑھتی رہی ہے ، جس نے بعض افراد کی جانیں بھی لے لیں 'جس ملک میں لوگ ایک دوسرے کے خلاف غصے اور اختلاف کا اظہار ماں ، بہن ، بیٹی کو گالی دے کر کرتے ہوں، وہاں سیاسی حلقوں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر ان کی کردار کشی اسی معاشرتی بیماری کی عکاسی ہے۔ یہ رویہ سیاسی جلسوں اور ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے ٹاک شوز میں بھی دیکھنے میں آتا ہے۔
جہاں سیاسی مباحثوں میں تنقید کے نام پر ایک دوسرے کی نا صرف عزت اچھالی جاتی ہے بلکہ ایک طوفان بد تمیزی برپا ہوتا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں، جہاں ایک طرف تو سیاست ویسے ہی بدنام ہے ، وہیں دوسری طرف اس طرح کے رویے خواتین کی سیاست میں شمولیت کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
اس سارے سیاسی منظر نامے کا بغور مشاہدہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف سیاست میں ہی اصلاحات کی ضرورت نہیں بلکہ سیاسی رہنماؤں اور نمایندگان کی اخلاقی تربیت کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ان کے ورکرز اور عام عوام بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک سیاسی شعور اور بہتر اخلاقی کردار کا مظاہرہ کریں۔ معاشرے میں نہ صرف گھریلو خواتین بلکہ گھر سے باہر نکل کر کام کرنے والی اور سیاست میں آنے والی خواتین کے احترام اور تحفظ کو بھی یقینی بنایا جائے ورنہ یہ معاشرہ اپنی پسماندگی اور اخلاقی اقدار کی گراؤٹ کا خود ہی ذمے دار ہو گا۔
پاکستان کی موجودہ سیاست کو دیکھا جائے تو ان دنوں سیاسی درجہ حرارت میں بہت اضافہ ہو چکا ہے اور سیاسی مخاصمت بہت بڑھ گئی ہے۔ اس ماحول میں باہمی رودار کا فروغ وقت کی اہم ضرورت اور قومی مفاد کا تقاضا ہے۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی سیاسی عدم رواداری پر کئی حلقے تشویش کا شکار ہیں۔ ان کو خدشہ ہے کہ اگر سیاستدانوں نے بروقت مداخلت کر کے اپنے کارکنان کی تربیت نہیں کی تو ملک میں سیاسی عدم رواداری اپنے عروج پر پہنچ جائے گی۔
یاد رکھیں اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہوتا ہے لیکن اختلاف رائے کی آڑ میں اخلاقیات کا دامن ہمیں نہیں چھوڑنا چاہیے۔ بحیثیت مسلمان ، ہمارا دین بھی ہمیں باہمی روا داری اور صبر و تحمل کا درس دیتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ ایک رہنما اپنے پیروکاروں کے لیے باپ کی سی اہمیت رکھتا ہے۔ وہ کون سا باپ ہو گا جو اولاد کو اس کے حقوق تو بتاتا ہے لیکن اسے اس کے فرائض نہیں بتاتا۔ حقوق کا مطالبہ تب ہی کیا جا سکتا ہے جب فرائض پورے کیے ہوں۔ ان کارکنان کی تربیت سیاسی قائدین کے ذمے ہوتی ہے، وقت کی اہم ضرورت ہے کہ سیاسی قائدین یہ سمجھ لیں۔ ورنہ مخالفین تو جو نقصان پہنچائیں گے پہنچائیں گے ہی یہ کارکن ہی انھیں لے ڈوبیں گے۔
آزادی اظہار رائے کا غلط استعمال ہمیں روکنا ہوگا ، اس سلسلے میں پاکستان کی قومی اسمبلی کو باقاعدہ اجلاس منعقد کرکے قانون سازی کرنی ہوگی۔ پاکستانی قوم نے ہر مشکل وقت کا بڑی پامردی سے مقابلہ کیا ہے اور آج بھی دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سیسہ پلائی دیوار کی طرح متحد ہیں، ضرورت ہے تو بس سیاسی زعماء کے مابین رواداری کے فروغ کی، سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے کے لیے معتدل مزاج سیاستدان آگے بڑھیں اور ماحول کو مزید پراگندہ ہونے سے روکیں۔ اکٹھا بٹھانے کی کوشش کریں ، یہ ملک وقوم کی بہت بڑی خدمت ہو گی اور پاکستان کا وقار دنیا میں بلند ہو گا۔