لاہور کا شاہی قلعہ اکبر حمام بحالی کے بعد سیاحوں کیلئے کھولنے کا فیصلہ
اکبری حمام کے آثار 2019 میں سامنے آئے یہاں محکمہ آثارقدیمہ پنجاب کے ملازمین کے کوارٹرہیں اورقریب ہی کوڑے کے ڈھیرتھے
لاہورکے شاہی قلعہ کی قدیم ترین یادگاروں میں سے ایک اکبری حمام بحالی اور آرائش وتزئین کے بعد سیاحوں کے لیے کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
کئی ایکڑ پر محیط لاہور کے شاہی قلعہ میں کم وبیش 20 ایسی یادگاریں ہیں جو لگ بھگ گذشتہ 500 برس میں اس کو مسکن بنانے والے بادشاہوں اور ان کے ادوار کی نشانیاں ہیں، شاہی قلعہ میں زیادہ تر یادگاریں تین مغل بادشاہوں جہانگیر، شاہ جہاں اور اورنگزیب عالمگیر سے منسوب ہیں جبکہ سکھوں اورپھربرطانوی عہد میں بھی یہاں کئی تعمیرات اور تبدیلیاں کی گئیں
اکبری حمام کے آثار سن دوہزار انیس میں سامنے آئے تھے، یہاں محکمہ آثارقدیمہ پنجاب کے ملازمین کے کوارٹرہیں اورقریب ہی کوڑے کے ڈھیرتھے۔ سن دوہزار اکیس میں ان کی بحالی کا کام شروع ہوا اوراب انہیں سیاحوں کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ شاہی قلعہ کی سیرکے لئے آنیوالی ایک خاتون نمرہ امین نے کہتی ہیں شاہی قلعہ میں ویسے توبہت سے یادگاریں ہیں لیکن والڈسٹی آف لاہور اتھارٹی نے جس طرح یہ حمام دریافت کیے اوراب ان کی بحالی کی ہے یہ ایک بہت احسن اقدام ہے، یہ قلعہ مغلوں کی صرف ایک یادگارنہیں ہے بلکہ یہ ہماری تاریخ کا ایک جیتاجاگتا ثبوت ہے۔ یہ ہمارا ورثہ ہے۔ ایک اورخاتون خذیمہ زارا کاکہنا تھا شاہی قلعہ ایک تفریح مقام سے بڑھ کے آرکیالوجی اورتاریخ کے طالب علموں کے سیکھنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے ، ان درودیواراوران پربنے نقش ونگارمیں پانچ سوسال کی تاریخ جڑی ہے، ہمیں مختلف ادروار کے طرزتعمیراورثقافت کوسمجھنے کاموقع ملتا ہے.
والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کے ماہرین کا دعوی ہے کہ یہ حمام قلعہ کی قدیم تعمیرات میں سے ایک ہیں جو شہنشاہ اکبر کے دور میں بنائے گئے۔ حمام کی دیواروں کے درمیان بھاپ اور دھواں باہر نکالنے کے لیے چیمبر بنے ہیں۔ مرکزی ہال میں دو جانب بند طاق ہیں جبکہ فرش پر پانی کے نکاس کی نالیاں موجود ہیں۔ حمام میں گرم اور ٹھنڈے پانی کے حوض بھی موجود تھے۔جبکہ یہاں سوئمنگ پول کے بھی آثارہیں۔ ان تمام آثار کو کافی حد تک بحال کردیا گیا ہے۔
والڈسٹی آف لاہور اتھارٹی کے ڈائریکٹرکنزرویشن وپلاننگ نجم الثاقب کہتے ہیں '' اس زیرزمین حمام کا طرزتعمیر دہلی دروازے کے شاہی حمام سے مختلف ہے، شاہی حمام بڑے ہیں اوران کی تعمیرمیں فراسکوپینٹنگ کے ساتھ ساتھ مختلف ڈیزائن نظرآتے ہیں جبکہ یہ حمام چھوٹے ہیں ،ان کی تعمیرمیں ڈاٹ سسٹم اورجیومیٹری کے اصولوں کااستعمال کیا گیا ہے۔اس طرح کی تعمیرات جلال الدین محمد اکبر کے دورمیں کیا گیا۔ ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ جس طرح یہ حمام زیرزمین تعمیر کئے گئے تھے ممکن ہے یہاں زیرزمین مزید تعمیرات بھی ہوں تاہم اس حصے میں اب ملازمین کے کوارٹربنے ہیں ۔ شاہی قلعہ کے یہ حصہ جلال الدین اکبرکے عہد سے منسوب ہے۔ برطانوی دور میں قلعہ کی تعمیرات میں تبدیلیاں کرکے گیراج بھی بنایاگیا۔ نجم الثاقب کہتے ہیں برطانوی دورکی بجائے سکھ عہد میں قلعہ میں زیادہ تبدیلیاں کی گئیں جس کے آثاراب بھی نظرآتے ہیں.
انہوں نے مزید بتایا کہ وقت کے ساتھ ساتھ قلعہ کے ساتھ بہت زیادہ چھیڑخانی ہوتی رہی ہے لیکن پھر بھی اسے اس قدرنقصان نہیں پہنچاجتنا دہلی کے لال قلعے اورآگرہ کے قلعے کوپہنچا ہے ، یہاں ہم نے پھربھی بہت سے آثار کو آنے والے کئی برسوں کے لئے محفوظ کرلیا ۔انہوں نے کہا آج بھی شاہی قلعہ کے دامن اورتہہ خانوں میں ناجانے کتنے آثارچھپے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ دریافت ہوتے رہیں گے.
کئی ایکڑ پر محیط لاہور کے شاہی قلعہ میں کم وبیش 20 ایسی یادگاریں ہیں جو لگ بھگ گذشتہ 500 برس میں اس کو مسکن بنانے والے بادشاہوں اور ان کے ادوار کی نشانیاں ہیں، شاہی قلعہ میں زیادہ تر یادگاریں تین مغل بادشاہوں جہانگیر، شاہ جہاں اور اورنگزیب عالمگیر سے منسوب ہیں جبکہ سکھوں اورپھربرطانوی عہد میں بھی یہاں کئی تعمیرات اور تبدیلیاں کی گئیں
اکبری حمام کے آثار سن دوہزار انیس میں سامنے آئے تھے، یہاں محکمہ آثارقدیمہ پنجاب کے ملازمین کے کوارٹرہیں اورقریب ہی کوڑے کے ڈھیرتھے۔ سن دوہزار اکیس میں ان کی بحالی کا کام شروع ہوا اوراب انہیں سیاحوں کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ شاہی قلعہ کی سیرکے لئے آنیوالی ایک خاتون نمرہ امین نے کہتی ہیں شاہی قلعہ میں ویسے توبہت سے یادگاریں ہیں لیکن والڈسٹی آف لاہور اتھارٹی نے جس طرح یہ حمام دریافت کیے اوراب ان کی بحالی کی ہے یہ ایک بہت احسن اقدام ہے، یہ قلعہ مغلوں کی صرف ایک یادگارنہیں ہے بلکہ یہ ہماری تاریخ کا ایک جیتاجاگتا ثبوت ہے۔ یہ ہمارا ورثہ ہے۔ ایک اورخاتون خذیمہ زارا کاکہنا تھا شاہی قلعہ ایک تفریح مقام سے بڑھ کے آرکیالوجی اورتاریخ کے طالب علموں کے سیکھنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے ، ان درودیواراوران پربنے نقش ونگارمیں پانچ سوسال کی تاریخ جڑی ہے، ہمیں مختلف ادروار کے طرزتعمیراورثقافت کوسمجھنے کاموقع ملتا ہے.
والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کے ماہرین کا دعوی ہے کہ یہ حمام قلعہ کی قدیم تعمیرات میں سے ایک ہیں جو شہنشاہ اکبر کے دور میں بنائے گئے۔ حمام کی دیواروں کے درمیان بھاپ اور دھواں باہر نکالنے کے لیے چیمبر بنے ہیں۔ مرکزی ہال میں دو جانب بند طاق ہیں جبکہ فرش پر پانی کے نکاس کی نالیاں موجود ہیں۔ حمام میں گرم اور ٹھنڈے پانی کے حوض بھی موجود تھے۔جبکہ یہاں سوئمنگ پول کے بھی آثارہیں۔ ان تمام آثار کو کافی حد تک بحال کردیا گیا ہے۔
والڈسٹی آف لاہور اتھارٹی کے ڈائریکٹرکنزرویشن وپلاننگ نجم الثاقب کہتے ہیں '' اس زیرزمین حمام کا طرزتعمیر دہلی دروازے کے شاہی حمام سے مختلف ہے، شاہی حمام بڑے ہیں اوران کی تعمیرمیں فراسکوپینٹنگ کے ساتھ ساتھ مختلف ڈیزائن نظرآتے ہیں جبکہ یہ حمام چھوٹے ہیں ،ان کی تعمیرمیں ڈاٹ سسٹم اورجیومیٹری کے اصولوں کااستعمال کیا گیا ہے۔اس طرح کی تعمیرات جلال الدین محمد اکبر کے دورمیں کیا گیا۔ ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ جس طرح یہ حمام زیرزمین تعمیر کئے گئے تھے ممکن ہے یہاں زیرزمین مزید تعمیرات بھی ہوں تاہم اس حصے میں اب ملازمین کے کوارٹربنے ہیں ۔ شاہی قلعہ کے یہ حصہ جلال الدین اکبرکے عہد سے منسوب ہے۔ برطانوی دور میں قلعہ کی تعمیرات میں تبدیلیاں کرکے گیراج بھی بنایاگیا۔ نجم الثاقب کہتے ہیں برطانوی دورکی بجائے سکھ عہد میں قلعہ میں زیادہ تبدیلیاں کی گئیں جس کے آثاراب بھی نظرآتے ہیں.
انہوں نے مزید بتایا کہ وقت کے ساتھ ساتھ قلعہ کے ساتھ بہت زیادہ چھیڑخانی ہوتی رہی ہے لیکن پھر بھی اسے اس قدرنقصان نہیں پہنچاجتنا دہلی کے لال قلعے اورآگرہ کے قلعے کوپہنچا ہے ، یہاں ہم نے پھربھی بہت سے آثار کو آنے والے کئی برسوں کے لئے محفوظ کرلیا ۔انہوں نے کہا آج بھی شاہی قلعہ کے دامن اورتہہ خانوں میں ناجانے کتنے آثارچھپے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ دریافت ہوتے رہیں گے.