لفظوں کے انتخاب نے
سیاستدانوں کی چند باتیں مجھے مجبوراً اپنی بات کی وضاحت کے لیے پیش کرنا پڑی ہیں
میں نے یہ مصرعہ جان بوجھ کر مکمل نہیں لکھا کہ میرا مقصد آج کل دن رات میڈیا پر جاری بحثوں میں شمولیت کے بجائے تمام احباب کی توجہ اس طرف مبذول کرانا ہے کہ یہ مسئلہ کسی ایک لیڈر یا جماعت کا نہیں پوری قوم کا ہے کیونکہ اس جرم میں سب برابر کے نہ سہی مگر شریک ضرور ہیں اور ان کی وجہ سے ہماری روزمرہ کی عام گفتگو اور سوشل میڈیا پر کی جانے والی لفظوں کی بے حرمتی کے سب لہجوں میں در آنے والی وہ تلخی اوراخلاقیات کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے جس نے پورے معاشرے کو ایک مخصوص انداز کی پستی میں گرا دیا ہے۔
عام طور پر اس روش کی بیشتر ذمے داری عمران خان پر ڈالی جاتی ہے جو کوئی بہت زیادہ غلط بھی نہیں کہ ایک تو ان کے لفظوں کا انتخاب بعض اوقات بہت زیادہ غیر محتاط ہوجاتا ہے دوسرے وہ فی البدیہہ گفتگو کے شوق میں یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے الفاظ اور بے تکلفانہ انداز میں کہی گئی بہت سی باتوں کو ان کے سوشل میڈیا کے حامی پارٹی کی پالیسی گردانتے ہوئے اس میں از خود اضافے شروع کر دیتے ہیں اور شائد ان کے قریبی ساتھیوں میں سے کوئی انھیں یہ بھی نہیں بتاتا کہ اب وہ گیارہ مزاج دان ساتھیوں کی ٹیم کے کپتان نہیں بلکہ ان کی بات کو کروڑوں لوگ سنتے ہیں اور یوں ان پر یہ ذمے داری بھی عائد ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے ذاتی غم و غصے اور رَدّعمل کو ماضی کے کپتان کے بجائے مستقبل کے سیاستدان کے طور پر بیان کریں، شیخ سعدی نے کہا تھا
تا مرد سخن نگفتہ باشد
عیب وہنرش نحفتہ باشد
مائیکروفون کے سامنے ہزاروں معتقدین کا مجمع یقیناً گفتگو کے مواد اور انداز پر اثر انداز ہوتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیںکہ آپ اپنے جوشِ خطابت و ایمانداری میں ان مسائل پر بھی پبلک میں رائے زنی کریں جو بہت احتیاط چاہتے ہیں یہاں یہ وضاحت کہ لفظوںکے اس غلط انتخاب کا سارا بوجھ عمران خان پر ڈال دینا بھی درست نہیں اس میڈیا پر میاں صاحبان ان کی فیملی اور مسٹر زرداری کے ایسے اقوال بھی نشر ہوچکے ہیں جن میں لفظوں کے غلط استعمال کے ایک سے ایک بڑھ کر ریکارڈ قائم کیے گئے ہیں ۔
تسلیم کہ ایک غلطی دوسری غلطی کا جواز نہیں ہوتی مگر وسیع تر معاشرتی یا قومی سطح پران سے پیدا شدہ منفی تاثرات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، ہوتا یہ ہے کہ یہ چند لیڈرانِ کرام کسی لمحے کی شدت کے زیر اثر اگر کوئی غلط بات کرتے ہیں تو ایک طرف اُن کے حواری اپنے مزید غیر ذمے دارانہ بیانات اور انتہائی تلخ لہجے کے باعث ان جملوں کو مزید ہوا دیتے ہیں اور دوسری طرف ہمارا میڈیا اپنی بیشتر بے معنی بحثوں سے اس آگ پر مزید تیل ڈالتا رہتا ہے اور رہی سہی کمی سوشل میڈیا کے مہربان پوری کردیتے ہیں کہ وہاں بھی لوگ اپنے لیڈر کی غلطی کو سہوِ زبان اور مخالفین کے بیانات کو قوم کے خلاف سازشیں قرار دینا شروع کر دیتے ہیں جس کا آخری نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ زبان بگڑی سو بگڑی تھی خبر لیجے دہن بگڑا۔
سیاستدانوں کی چند باتیں مجھے مجبوراً اپنی بات کی وضاحت کے لیے پیش کرنا پڑی ہیں وگرنہ ایک عام پاکستانی کی طرح مجھے بھی ان کے آپسی جھگڑوں سے کوئی سروکار نہیں کہ زندگی کا جو بھی بلا شبہ اپنے حصے کا کام ایمانداری اور خودتنقیدی سے نہیں کرتا اُسے اس جرم کی سزا جلد یا بدیر اسی زمین پر مل جاتی۔
اس موضوع پر بات کرنے سے میرا مقصد معاشرے کے عمومی لہجے، زبان اور انتخابِ الفاظ کی خرابی اور پستی ہے جس کا سلسلہ ان احباب کے غیر محتاط الفاظ کے انتخاب سے جُڑا ہوا ہے کہ جو ایک وبا کی طرح سے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں پھر نہ کوئی اخلاقی اصول رہتا ہے اور نہ کسی کی ماں بہن کی عزت کی حفاظت کا تقدس قائم رہتا ہے اور بدقسمتی سے جو لوگ ان کے روّیوں کو درست کرسکتے ہیں وہ خود ایک تہذیبی آشوب کا شکار ہونے کی وجہ سے اختلاف رائے اور دشمنی کے درمیانی فرق کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتے۔ یہاں مجھے ایک پرانی حکائت نما بات یاد آرہی ہے جس میں ان لیڈروں سمیت ہم سب کے لیے سمجھنے اور سیکھنے کی بہت سی باتیں ہیں۔
کہتے ہیں کہ ایک شہر میں دو مذہبی گروپوں کے سربراہان کے درمیان ایک طویل لفظی جنگ جاری تھی جس میں بعض اوقات وہ جوشِ خطابت میں ایک دوسرے کے خلاف بہت سخت اور غیر اخلاقی زبان بھی استعمال کرجاتے تھے، ان کے چیلے بھی بُری طرح سے اس گروہ بندی کے شکار تھے، ایک دن ایک چیلے نے اپنے گُرو کو خوش کرنے کے لیے دوسرے فرقے کے سربراہ کے بارے میں کچھ گھٹیا الفاظ اور پست خیالات کا اظہار کیا۔
اس پر اُس کے گرو نے جوتا اُٹھا کر اُس کی مرمت شروع کر دی۔ چیلے نے گھبرا کر کہا گُرو جی میں نے بھی وہی باتیں کی ہیں جو روز آپ اس مردُود کے بارے میں کرتے ہیں پھر یہ سرزنش کس لیے۔ اس پر اس بزرگ نے بہت ہی خوبصورت جواب دیا اور کہا او جاہل میں تو اس کا مقام جانتا ہوں سو ہمارا جھگڑا اپنی جگہ مگر تُو تو اُس کے جوتوں میں بیٹھنے کے لائق نہیں تجھے کیسے حوصلہ ہوا اس کے بارے میں ایسی باتیں کرنے کا۔اس پر ایک دوست نے اس بات کی تعریف کرتے ہوئے کہا''کیا ہی اچھا ہوتا اگر بزرگوار خود بھی اپنی زبان پر قابو رکھتے۔
اب اس بات کو سمیٹتے ہوئے یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ ا گر یہ لیڈرانِ کرام خود الفاظ کے انتخاب میں محتاط ہوجائیں اور دوسرے کی ذات ، خاندان یا نظریات کے بارے میں ''اختلافات رائے'' کے مسئلے کو دشمنی کا مسئلہ نہ بنائیں تو سوشل میڈیا سمیت پورے معاشرے کی اصلاح ہوسکتی ہے اور ہماری گفتگو صحیح معنوں میں شرفا کی گفتگو کہلاسکتی ہے ۔