عوام ناراض ہوں تو انقلاب آتے ہیں

کہیں سے خبریں آرہی ہیں کہ عمران خان حکومت کے لیے ستمبر کے آخر تک یا اکتوبر کے شروع تک ’’آخری کال‘‘ دینے والے ہیں

ali.dhillon@ymail.com

ایک طرف سیلاب تو دوسری طرف ملکی سیاست میں زبردست ہلچل دیکھنے کو مل رہی ہے، کہیں خبریں آرہی ہیں کہ تحریک انصاف اور ن لیگ کے بیک ڈور آپسی رابطے شروع ہو رہے ہیں۔

کہیں سے خبریں آرہی ہیں کہ عمران خان حکومت کے لیے ستمبر کے آخر تک یا اکتوبر کے شروع تک ''آخری کال'' دینے والے ہیں، کہیں سے خبریں آرہی ہیں کہ تحریک انصاف کو دیوار کے ساتھ لگانے کی پوری تیاری ہو چکی ہے( جس کا برملا اظہار سابق وزیر اعظم عمران خان بھی جلسے جلوسوں میں کر چکے ہیں)۔ اور کہیں سے خبریں آرہی ہیں کہ عمران خان کا یہ ''دبنگ انداز'' اُنہیں چند دنوں میں گرفتار کروا دے گا۔

جب کہ اسی دوران ہر فکرمند حلقہ عمران خان کو فی الوقت سیاست موخر کرکے سیلاب زدگان کی مدد کو اپنی تمام توانائیاں خرچ کرنے کے لیے کہہ رہاہے مگر خان صاحب بضد اس لیے ہیں کہ اُن کے پاس وقت بہت کم ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر انھوں نے اب صبر کر لیا تو ملک حقیقت میں ڈوب جائے گا۔ وہ کسی بھی صورت اکتوبر تک اس حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں اور اسی سلسلے میں انھوں نے دباؤ بڑھانے کے لیے جلسوں کا سلسلہ بھی شروع کررکھا ہے۔ وہ اس وقت پاکستان کے سب سے زیادہ پاپولر لیڈر ہیں، سیاسی ماہرین کے مطابق اگر آج الیکشن ہوتے ہیں عمران خان سادہ اکثریت حاصل کر سکتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کے حامیوں پر اس وقت توشہ خانہ، فارن فنڈنگ، القادر ٹرسٹ سمیت کسی بھی اسکینڈل کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اس وقت ان پر عمران خان کی تقاریر کا سحر طاری ہے۔ اُن کے ووٹ بینک میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں، جنھوں نے کبھی دیگر کسی پارٹی کو ووٹ نہیں دیا۔ یہ ووٹ بینک بڑھ سکتا ہے کیوں کہ نئے رجسٹرڈ ہونے والے ووٹرز کی تعداد کو بھی ذہن میں رکھیں اور اگر بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملا تو پی ٹی آئی دیگر جماعتوں سے بہت آگے ہوگی۔ میری ناقص اطلاعات کے مطابق اب کی بار ''آخری کال'' یہ ہوگی کہ جو جہاں ہے وہیں پہیہ جام کردے کیوں کہ خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، انھیں وہاں کی سرکاری مدد بھی حاصل ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ انھوں نے عمران ٹائیگرز کے نام سے ایک مہم شروع کی ہے، جس میں نوجوانوں کو شامل ہونے کی دعوت دی گئی ہے، وہ ان نوجوانوں کو ضرور استعمال کریں گے۔


قصہ مختصر کہ اسلام آباد(وفاق) کے ایک طرف تو خیبر پختونخوا ہے اور دوسری طرف پنجاب ہے، موجودہ حالات اور بیانات سے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ اس بار دھرنا کچھ اس طرح دیں گے کہ اسلام آباد کا زمینی راستہ ملک کے دیگر حصوں سے کاٹ دیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو وفاقی حکومت کچھ نہیں کر پائے گی۔ کیوںکہ یہ دھرنا 2014 کے نہیں 2022 کے عمران خان دے رہے ہیں۔ اس بار ان کے پاس عوامی طاقت کے ساتھ ساتھ دو صوبائی حکومتیں بھی ہوں گی۔

تمام بڑے شہروں کو جام کرنے کی کال بھی دی جا سکتی ہے۔اگر یہی صورتحال رہی تو میرا نہیں خیال کہ وفاقی حکومت کے پاس عمران خان سے مذاکرات کے سوا کوئی آپشن باقی رہے گا، کیوں کہ وفاق صوبوں کے خلاف چڑھائی نہیں کرسکتا ہے۔ اس صورت میں پاکستان میں ایک خطرناک صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔میری رائے میں لوگ ناراض ہیں۔ لہٰذاوسیع تر ملکی مفاد میں اس وقت گرینڈ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔

اس میں اسٹیبلشمنٹ اپنا مثبت رول ادا کرے۔ میں نے پہلے عرض کیا کہ لوگوں میں مہنگائی کاغصہ ہے، مہنگی بجلی کا ہے، مہنگے راشن کا ہے، مہنگی ادویات کا ہے، مہنگے ڈالر کا ہے، مہنگی اشیائے خورونوش کا ہے، مہنگی سبزیوں کا ہے اور مہنگے پھلوں کا غصہ ہے ۔ اور پھر کیا یہ سب چیزیں کسی انقلاب کو دعوت نہیں دے رہیں؟

اور پھر دوسری جانب ملک کے گدلے سیلابی پانیوںکے کیچڑ میں لت پت لاشیں ، سیلاب سے بہہ جانے والی بستیاں، مفلوک الحال لوگ سبھی انقلاب کی ایک تصویر پیش کر رہے ہیں۔ جو کسی انقلاب کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں۔یوں تو پاکستان کے لوگ ہمیشہ سے ایک ایسے انقلاب کی توقع لگائے بیٹھے رہے ہیں جو معاشرے کے چھوٹے چھوٹے ظالم کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچا کر عام آدمی کو ترقی کی دوڑ میں شامل کرے۔لیکن ایسا اس لیے نہیں کہ شاید لوگ ظلم کی انتہا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ورنہ بقول شاعر

درگزر جتنا کیا ہے وہی کافی ہے مجھے

اب تجھے قتل بھی کر دوں تو معافی ہے مجھے
Load Next Story