تقرریوں کی اجازت کا خط واپس نہیں لیا تو سندھ جامعات بند کرسکتے ہیں فپواسا
جامعات میں گریڈ ایک تا 22 کی تقرری کی اجازت کا خط فوری طور پر واپس لیا جائے، پروفیسر شاہ علی
فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن (فپواسا) سندھ چیپٹر کے صدر پروفیسر شاہ علی القدر نے کہا ہے کہ جامعات میں گریڈ 1 سے 22 تک کی تقرری کی اجازت کا خط فوری طور پر واپس نہیں ہوا تو فپواسا کے پلیٹ فارم سے سندھ کی تمام جامعات کو بند کرسکتی ہیں۔
جامعہ کراچی میں ملازمین اور آفیسر ایسوسی ایشن کے نمائندوں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے پروفیسر شاہ علی القدر نے کہا کہ اب وزیر اعلیٰ سندھ کے مقرر کردہ وائس چانسلرز کو خاکروب سے لے کر اوپر گریڈ تک کی تقرری کی اجازت کے لیے گریڈ 20 کے افسر مرید راہیمو کو خط لکھنا ہوگا، سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کو شاید یہ معلوم نہیں کہ وزیر اعلیٰ کو وائس چانسلر مقرر کرنے کا اختیار اور وائس چانسلر کو ملازمین کے تقرر کا اختیار سندھ اسمبلی نے دیا ہے۔
مرید راہیمو صاحب پبلک سیکٹر یونیورسٹیز کو سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں بدل دینا چاہتے ہیں جہاں اب لوگ اپنے بچوں کو بھیجنا پسند نہیں کرتے اور آج کی یہ پریس کانفرنس یونیورسٹی بچاؤ مہم کا حصہ ہے، اس سے قبل بھی سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز مرید راہیمو فروری میں زبردستی اساتذہ کا سلیکشن بورڈ ملتوی کروا چکے ہیں جس کے بعد ہم نے 14 روز تک تدریسی بائیکاٹ کیا تھا۔
انھوں نے مزید کہا کہ یونیورسٹیز کو چند ماہ سے کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ہمیں ہدایات دی جا رہی ہیں، سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز ان اختیارات کو استعمال کر رہے ہیں جو آئین و قانون کی رو سے یونیورسٹیز کے پاس ہیں۔
انھوں نے وائس چانسلر جامعہ کراچی سے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر سینڈیکیٹ کا اجلاس بلاکر اس معاملے پر بات کی جائے، سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز سینڈیکیٹ کے محض ایک رکن ہیں لیکن اس طرح کا کوئی خط ناقابل قبول ہے۔
پروفیسر شاہ علی نے وزیر اعلیٰ سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ خط آپ کی مرضی سے جاری ہوا ہے تو اسے واپس لیں اور اگر آپ سے اس کی اجازت نہیں لی گئی تو سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کو فوری طور پر تبدیل کیا جائے، جامعات کو ان کے آئینی اداروں کے ذریعے چلنے دیا جائے جبکہ وزیر اعلیٰ سندھ خود ان ہی جامعات کے فارغ التحصیل ہیں۔
علاوہ ازیں انھوں نے جامعات کی مالی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ فیڈرل گورنمنٹ تنخواہیں بڑھا دیتی ہے لیکن فنڈ نہیں دیتی، بیشتر جامعات میں 10 تاریخ تک تنخواہیں نہیں ملتی اور جامعہ کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف کلینیکل سائیکولوجی اور اپلائیڈ اکنامکس ریسرچ سینٹر میں تنخواہ دینے کے لیے رقم نہیں ہے، ہم وفاقی و صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جامعات کا فنڈ دگنا کیا جائے۔
جامعہ کراچی میں ملازمین اور آفیسر ایسوسی ایشن کے نمائندوں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے پروفیسر شاہ علی القدر نے کہا کہ اب وزیر اعلیٰ سندھ کے مقرر کردہ وائس چانسلرز کو خاکروب سے لے کر اوپر گریڈ تک کی تقرری کی اجازت کے لیے گریڈ 20 کے افسر مرید راہیمو کو خط لکھنا ہوگا، سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کو شاید یہ معلوم نہیں کہ وزیر اعلیٰ کو وائس چانسلر مقرر کرنے کا اختیار اور وائس چانسلر کو ملازمین کے تقرر کا اختیار سندھ اسمبلی نے دیا ہے۔
مرید راہیمو صاحب پبلک سیکٹر یونیورسٹیز کو سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں بدل دینا چاہتے ہیں جہاں اب لوگ اپنے بچوں کو بھیجنا پسند نہیں کرتے اور آج کی یہ پریس کانفرنس یونیورسٹی بچاؤ مہم کا حصہ ہے، اس سے قبل بھی سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز مرید راہیمو فروری میں زبردستی اساتذہ کا سلیکشن بورڈ ملتوی کروا چکے ہیں جس کے بعد ہم نے 14 روز تک تدریسی بائیکاٹ کیا تھا۔
انھوں نے مزید کہا کہ یونیورسٹیز کو چند ماہ سے کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ہمیں ہدایات دی جا رہی ہیں، سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز ان اختیارات کو استعمال کر رہے ہیں جو آئین و قانون کی رو سے یونیورسٹیز کے پاس ہیں۔
انھوں نے وائس چانسلر جامعہ کراچی سے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر سینڈیکیٹ کا اجلاس بلاکر اس معاملے پر بات کی جائے، سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز سینڈیکیٹ کے محض ایک رکن ہیں لیکن اس طرح کا کوئی خط ناقابل قبول ہے۔
پروفیسر شاہ علی نے وزیر اعلیٰ سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ خط آپ کی مرضی سے جاری ہوا ہے تو اسے واپس لیں اور اگر آپ سے اس کی اجازت نہیں لی گئی تو سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کو فوری طور پر تبدیل کیا جائے، جامعات کو ان کے آئینی اداروں کے ذریعے چلنے دیا جائے جبکہ وزیر اعلیٰ سندھ خود ان ہی جامعات کے فارغ التحصیل ہیں۔
علاوہ ازیں انھوں نے جامعات کی مالی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ فیڈرل گورنمنٹ تنخواہیں بڑھا دیتی ہے لیکن فنڈ نہیں دیتی، بیشتر جامعات میں 10 تاریخ تک تنخواہیں نہیں ملتی اور جامعہ کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف کلینیکل سائیکولوجی اور اپلائیڈ اکنامکس ریسرچ سینٹر میں تنخواہ دینے کے لیے رقم نہیں ہے، ہم وفاقی و صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جامعات کا فنڈ دگنا کیا جائے۔