سعودی عرب سے ملنے والے ڈیڑھ ارب ڈالر پر تنقید کیوں
اب یہ وضاحت باقی ہےکہ دوست ملک نے یہ مہربانی پاکستان کے عوام پر کی ہےیا عوام کے منتخب وزیراعظم یا وزیر خزانہ پر کی ہے۔
پاکستان تاریخ کے نازک اور اہم ترین موڑ سے گزر رہا ہے۔ یہ بات اس وطن کے باسیوں نے ایک بار نہیں بار بار سنی اور اس حد تک سنی کہ اب یہ بات نہیں روایت بلکہ بعض اوقات مذاق محسوس ہونا شروع ہو جاتی ہے، البتہ اس اعتبار سے یہ نازک دور ضرور ہے کہ ہمیں ڈیڑھ ارب ڈالر ملتے ہیں تو اسے بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
پہلے تو یہ بات واضح نہ تھی کہ یہ گرانٹ ہے یا امداد ۔ ہمارے محترم وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جب تنقید حد سے آگے بڑھتے دیکھی تو وضاحت فرما دی کہ یہ تحفہ ہے اور یہ مہربانی پاکستان کے ایک دوست ملک نے کی ہے۔ اب اس کی وضاحت باقی ہے کہ دوست ملک نے یہ مہربانی پاکستان کے عوام پر کی ہے یا عوام کے منتخب وزیراعظم یا وزیر خزانہ پر کی ہے۔ تنقید کرنے والوں کو اپنی مجبوری کہ انہوں نے تو جیسے تنقید کرنے کا تہیہ ہی کر رکھا ہے، ڈیڑھ ارب ڈالر اچھی خاصی رقم ہے، اس نے وقتی طور پر صحیح ہمارے پاکستانی روپے کو ڈالر کے مقابلے میں کچھ تقویت تو دی مگر منفی سوچ رکھنے والوں کو اس سے بھی کسی بین الاقوامی سازش کی بُو آ رہی ہے اس وجہ سے صدر مملکت ممنون حسین نے بھی نیشنل پریس کلب کے صدر شہر یار خان اور پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ کی سربراہی میں ایوان صدر میں ان سے ملاقات کرنے والے صحافیوں کے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے جھنجھلاہٹ میں یہاں تک کہہ دیا کہ یہ ڈیڑھ ارب ڈالر ایک دوست ملک نے حکومت پاکستان کو دیے ہیں کسی سمگلر یا غیر قانونی کام کرنے والے نے تو نہیں دیے۔
انہوں نے کہا کہ وقت ایسا آ گیا ہے کہ آج خیر کے کام سے بھی لوگ شر کے پہلو نکالتے ہیں ۔ صدر مملکت نے اپنی سادہ مزاجی میں یہاں تک کہہ دیا کہ جب تک اس ڈیڑھ ارب ڈالر کے حوالے سے کوئی منفی بات سامنے نہیں آ جاتی اس وقت تک تو تعریف کریں ۔ ہمیں صدر ممنون اس اعتبار سے بھی صاف گو اور بھلے محسوس ہوئے کہ انہوں نے صحافیوں کے وفد میں شامل اراکین کے ذہنوں میں ابھرتا ہوا سوال ان کے چہروں سے پڑھتے ہوئے از خود وضاحتاً کہہ دیا کہ میں نہیں کہتا کہ اب حکومت میں کوئی فرشتے آ گئے ہیں مگر میاں نواز شریف کی کابینہ میں موجود اکثر بڑے باصلاحیت ہیں میں ان میں سے بہت سوں کو ذاتی طور پر جانتا ہوں مجھے یقین ہے کہ میاں نواز شریف اور ان کی کابینہ اس ملک کو ترقی و خوشحالی کے اچھے راستے پر لے جائیں گے۔ صدر مملکت کی صحافیوں سے ملاقات سے البتہ ہمیں یہ حوصلہ ضرور ملا کہ انہوں نے اصلاح کے پیشِ نظر تنقید جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا اور اپنے دورۂ چین کے حوالے سے فرمایا کہ یہ تاریخی اہمیت کا حامل دورہ تھا، جب پاکستان سمیت اس خطے میں خوشحالی آئے گی اور مورخ تاریخ لکھے گا تو ان کے دورۂ چین کو نظرانداز کرنا ممکن نہ ہو گا ۔
انہوں نے بتایا کہ چین آئندہ پانچ سالوں کے دوران پاکستان میں 32 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا ۔ ادھر ایک روز قبل وزیر اطلاعات پرویز رشید نے ایک بیان میں کہا تھا کہ چین آپ کو 35 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا تحفہ دے رہا ہے۔ جبکہ ایک اور وفاقی وزیر چین کی جانب سے 65 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی نوید سنا رہے ہیں، ایسے میں تنقید کرنے والے اپنے فرائض اصلاح کے کس زاویے سے ادا کریں کہ اعداد و شمار میں تو غلطی نہ کی جائے۔ بلکہ بہتر ہو گا کہ وزیر سرمایہ کاری از خود ہی قوم کو بتا دیں کہ ہمارا دوست ملک چین آئندہ ایک سال، پانچ سال یا دس سالوں میں کس کس شعبے میں کن شرائط پر کتنی سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے یا عملی اقدامات کر رہا ہے۔
کنگ آف بحرین شیخ حماد بن عیسیٰ الخلیفہ بھی پاکستان کے تین روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔ ایک عام پاکستانی بھی اس دورے کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا کہ گزشتہ چار عشروں کے دوران پاکستان کے سرکاری دورے پر آنے والے وہ بحرین کے پہلے بادشاہ ہیں۔ دو طرفہ تعلقات کے فروغ کے حوالے سے ان کا یہ دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بحرین پاکستان میں توانائی، دفاعی پیداوار و تربیت، افرادی قوت، شہری ہوا بازی اور تعمیرات کے شعبوں میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کرے گا۔
ادھر وزیراعظم نواز شریف اور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان امن مذاکرات کی کامیابی کے لیے انتہائی خلوص کے ساتھ سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے چاروں وزرائے اعلیٰ اور عسکری قیادت سے ضروری مشاورت مکمل کر لی گئی ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں میں سے پی پی پی کے سید خورشید احمد شاہ کے کچھ اعتراضات ہیں تو وزیراعظم نواز شریف ایک دو روز میں ان سے بالواسطہ یا بلاواسطہ رابطہ کرکے ان کے شکوک و شبہات دور کر سکتے ہیں۔ بہرحال تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے گھر تو وہ خود چل کر گئے اور امن مذاکرات و قومی سلامتی پالیسی کے حوالے سے انہیں اعتماد میں لے کر بیرونی دنیا کے لیے ایک اچھا پیغام چھوڑا۔ امریکی حکام بھی پاکستان میں جاری امن مذاکرات کا بغور جائزہ لے رہے ہیں کہ اگر حکومت پاکستان کے پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کامیاب رہے تو وہ بھی افغانستان میں قیامِ امن کے لیے پاکستانی مذاکرات کے عمل کو ماڈل کے طور پر اپنا کر افغان طالبان سے بات چیت آگے بڑھا سکتے ہیں ۔
اس موقع پر دونوں فریقین کو اپنے مطالبات پیش کرتے ہوئے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا ہو گا جیسا کہ طالبان اگر یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہوں نے 300 زیر حراست بچوں، عورتوں اور دیگر افراد کی فہرست پیش کر دی ہے اور انہیں فوراً رہا کیا جائے اور جواب میں یہ اطلاع موصول ہو کہ اس فہرست کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تو پھر بات آگے شاید نہ بڑھ سکے۔ مذاکرات میں شامل شخصیات کو میڈیا سے کچھ وقت کے لیے دور رہ کر کیس ٹو کیس واقعات، قیدیوں، مطالبات اور صورتحال کا جائزہ لینا چاہیے ۔ وقت سے پہلے بہت سی چیزوں کا میڈیا میں آ جانا بھی ناجائز ہی نہیں انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمارے ہاں سیاق و سباق سے ہٹ کر بات آگے بڑھانے کا رواج تو ویسے ہی عام ہے۔
مثلاً منگل کے روز ایوان صدر میں صحافیوں کے نمائندہ وفد سے گفتگو کرتے ہوئے صدر مملکت ممنون حسین نے کہا کہ مجھے منافقت سے سخت نفرت ہے مگر بین الاقوامی سیاست اور تعلقات کے تقاضوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ممالک کو بعض ممالک کے ساتھ بعض اوقات منافقت بھی کرنا پڑتی ہے۔ جبکہ صدر مملکت کی اس بات کو سیاق و سباق سے الگ کرکے جس طرح ہمارے ٹیلی ویژن چینلز نے ڈھنڈورا پیٹا اس پہ اور کوئی نہیں تو ہم سب کے صدر مملکت تو ضرور سر پکڑ کے بیٹھے ہوں گے۔
پہلے تو یہ بات واضح نہ تھی کہ یہ گرانٹ ہے یا امداد ۔ ہمارے محترم وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جب تنقید حد سے آگے بڑھتے دیکھی تو وضاحت فرما دی کہ یہ تحفہ ہے اور یہ مہربانی پاکستان کے ایک دوست ملک نے کی ہے۔ اب اس کی وضاحت باقی ہے کہ دوست ملک نے یہ مہربانی پاکستان کے عوام پر کی ہے یا عوام کے منتخب وزیراعظم یا وزیر خزانہ پر کی ہے۔ تنقید کرنے والوں کو اپنی مجبوری کہ انہوں نے تو جیسے تنقید کرنے کا تہیہ ہی کر رکھا ہے، ڈیڑھ ارب ڈالر اچھی خاصی رقم ہے، اس نے وقتی طور پر صحیح ہمارے پاکستانی روپے کو ڈالر کے مقابلے میں کچھ تقویت تو دی مگر منفی سوچ رکھنے والوں کو اس سے بھی کسی بین الاقوامی سازش کی بُو آ رہی ہے اس وجہ سے صدر مملکت ممنون حسین نے بھی نیشنل پریس کلب کے صدر شہر یار خان اور پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ کی سربراہی میں ایوان صدر میں ان سے ملاقات کرنے والے صحافیوں کے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے جھنجھلاہٹ میں یہاں تک کہہ دیا کہ یہ ڈیڑھ ارب ڈالر ایک دوست ملک نے حکومت پاکستان کو دیے ہیں کسی سمگلر یا غیر قانونی کام کرنے والے نے تو نہیں دیے۔
انہوں نے کہا کہ وقت ایسا آ گیا ہے کہ آج خیر کے کام سے بھی لوگ شر کے پہلو نکالتے ہیں ۔ صدر مملکت نے اپنی سادہ مزاجی میں یہاں تک کہہ دیا کہ جب تک اس ڈیڑھ ارب ڈالر کے حوالے سے کوئی منفی بات سامنے نہیں آ جاتی اس وقت تک تو تعریف کریں ۔ ہمیں صدر ممنون اس اعتبار سے بھی صاف گو اور بھلے محسوس ہوئے کہ انہوں نے صحافیوں کے وفد میں شامل اراکین کے ذہنوں میں ابھرتا ہوا سوال ان کے چہروں سے پڑھتے ہوئے از خود وضاحتاً کہہ دیا کہ میں نہیں کہتا کہ اب حکومت میں کوئی فرشتے آ گئے ہیں مگر میاں نواز شریف کی کابینہ میں موجود اکثر بڑے باصلاحیت ہیں میں ان میں سے بہت سوں کو ذاتی طور پر جانتا ہوں مجھے یقین ہے کہ میاں نواز شریف اور ان کی کابینہ اس ملک کو ترقی و خوشحالی کے اچھے راستے پر لے جائیں گے۔ صدر مملکت کی صحافیوں سے ملاقات سے البتہ ہمیں یہ حوصلہ ضرور ملا کہ انہوں نے اصلاح کے پیشِ نظر تنقید جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا اور اپنے دورۂ چین کے حوالے سے فرمایا کہ یہ تاریخی اہمیت کا حامل دورہ تھا، جب پاکستان سمیت اس خطے میں خوشحالی آئے گی اور مورخ تاریخ لکھے گا تو ان کے دورۂ چین کو نظرانداز کرنا ممکن نہ ہو گا ۔
انہوں نے بتایا کہ چین آئندہ پانچ سالوں کے دوران پاکستان میں 32 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا ۔ ادھر ایک روز قبل وزیر اطلاعات پرویز رشید نے ایک بیان میں کہا تھا کہ چین آپ کو 35 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا تحفہ دے رہا ہے۔ جبکہ ایک اور وفاقی وزیر چین کی جانب سے 65 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی نوید سنا رہے ہیں، ایسے میں تنقید کرنے والے اپنے فرائض اصلاح کے کس زاویے سے ادا کریں کہ اعداد و شمار میں تو غلطی نہ کی جائے۔ بلکہ بہتر ہو گا کہ وزیر سرمایہ کاری از خود ہی قوم کو بتا دیں کہ ہمارا دوست ملک چین آئندہ ایک سال، پانچ سال یا دس سالوں میں کس کس شعبے میں کن شرائط پر کتنی سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے یا عملی اقدامات کر رہا ہے۔
کنگ آف بحرین شیخ حماد بن عیسیٰ الخلیفہ بھی پاکستان کے تین روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔ ایک عام پاکستانی بھی اس دورے کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا کہ گزشتہ چار عشروں کے دوران پاکستان کے سرکاری دورے پر آنے والے وہ بحرین کے پہلے بادشاہ ہیں۔ دو طرفہ تعلقات کے فروغ کے حوالے سے ان کا یہ دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بحرین پاکستان میں توانائی، دفاعی پیداوار و تربیت، افرادی قوت، شہری ہوا بازی اور تعمیرات کے شعبوں میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کرے گا۔
ادھر وزیراعظم نواز شریف اور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان امن مذاکرات کی کامیابی کے لیے انتہائی خلوص کے ساتھ سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے چاروں وزرائے اعلیٰ اور عسکری قیادت سے ضروری مشاورت مکمل کر لی گئی ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں میں سے پی پی پی کے سید خورشید احمد شاہ کے کچھ اعتراضات ہیں تو وزیراعظم نواز شریف ایک دو روز میں ان سے بالواسطہ یا بلاواسطہ رابطہ کرکے ان کے شکوک و شبہات دور کر سکتے ہیں۔ بہرحال تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے گھر تو وہ خود چل کر گئے اور امن مذاکرات و قومی سلامتی پالیسی کے حوالے سے انہیں اعتماد میں لے کر بیرونی دنیا کے لیے ایک اچھا پیغام چھوڑا۔ امریکی حکام بھی پاکستان میں جاری امن مذاکرات کا بغور جائزہ لے رہے ہیں کہ اگر حکومت پاکستان کے پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کامیاب رہے تو وہ بھی افغانستان میں قیامِ امن کے لیے پاکستانی مذاکرات کے عمل کو ماڈل کے طور پر اپنا کر افغان طالبان سے بات چیت آگے بڑھا سکتے ہیں ۔
اس موقع پر دونوں فریقین کو اپنے مطالبات پیش کرتے ہوئے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا ہو گا جیسا کہ طالبان اگر یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہوں نے 300 زیر حراست بچوں، عورتوں اور دیگر افراد کی فہرست پیش کر دی ہے اور انہیں فوراً رہا کیا جائے اور جواب میں یہ اطلاع موصول ہو کہ اس فہرست کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تو پھر بات آگے شاید نہ بڑھ سکے۔ مذاکرات میں شامل شخصیات کو میڈیا سے کچھ وقت کے لیے دور رہ کر کیس ٹو کیس واقعات، قیدیوں، مطالبات اور صورتحال کا جائزہ لینا چاہیے ۔ وقت سے پہلے بہت سی چیزوں کا میڈیا میں آ جانا بھی ناجائز ہی نہیں انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمارے ہاں سیاق و سباق سے ہٹ کر بات آگے بڑھانے کا رواج تو ویسے ہی عام ہے۔
مثلاً منگل کے روز ایوان صدر میں صحافیوں کے نمائندہ وفد سے گفتگو کرتے ہوئے صدر مملکت ممنون حسین نے کہا کہ مجھے منافقت سے سخت نفرت ہے مگر بین الاقوامی سیاست اور تعلقات کے تقاضوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ممالک کو بعض ممالک کے ساتھ بعض اوقات منافقت بھی کرنا پڑتی ہے۔ جبکہ صدر مملکت کی اس بات کو سیاق و سباق سے الگ کرکے جس طرح ہمارے ٹیلی ویژن چینلز نے ڈھنڈورا پیٹا اس پہ اور کوئی نہیں تو ہم سب کے صدر مملکت تو ضرور سر پکڑ کے بیٹھے ہوں گے۔