دانش اور اہلیت کا پروڈکشن یونٹ

ویزا لےلو ویزا دےدو،اتنا بینک بیلنس،اتنا ایجنٹ کا،تعلیم کیلئے یا کاروبار کیلئے، ویزالے لوویزا دے دو۔ گویا ایک جنون ہے۔


Sana Ghori March 18, 2014
بس کام یابی منزل ہے، چاہے اس کے لیے پیپر میرج کا غیراخلاقی راستہ ہی کیوں نہ اپنانا پڑے۔ گرافک : منظرالہیٰ

ویزا لے لو ویزا دے دو،اتنا بینک بیلنس،اتنا ایجنٹ کا، تعلیم کے لیے یا کاروبار کے لیے، ویزالے لو ویزا دے دو۔ گویا ایک جنون ہے، مہم ہے، تحریک ہے ''اب نکلو پاکستان سے۔'' کوئی اپنی تعلیم و صلاحیت کو سہاارا بناتا ہے تو کوئی وہاں مقیم اپنے رشتے داروں کے آسرے پر کوشاں ہوتا ہے اور ایسوں کی بھی کمی نہیں جو کسی گرین کارڈ ہولڈر یا کسی اور مغربی ملک کی شہری سے شادی کے ذریعے اپنی منزل پانے کا خواہش مند ہے۔

ہمارے نوجوانوں کے دل ودماغ میں یہ خیال پوری طرح جاگزیں ہوچکا ہے کہ سکون اور راحت تو پردیس میں ہے، ''یہاں کیا رکھا ہے۔'' مذہب اور معاشرت جدا ہے تو کیا فرق پڑتا ہے، اجنبی بن کے رہنا پڑے تو کیا حرج، بس جیب میں اس دیس کی کرنسی ہونی چاہیے، تاکہ زندگی عیش سے گزرے۔شادی کے ذریعے بیرون ملک جانے کے لیے کنوارہ ہونے کی بھی شرط نہیں۔ ایسے لاتعداد مرد ہیں جنہوں نے شادی شدہ ہونے کے باوجود ''پیپر میرج'' کی اور پردیس میں بس کر اپنا مستقبل سنوار لیا۔بس کام یابی منزل ہے، چاہے اس کے لیے پیپر میرج کا غیراخلاقی راستہ ہی کیوں نہ اپنانا پڑے۔ باصلاحیت، ذہین اور پروفیشنل افراد کی آنکھوں میں اترنے والا یہ سپنا پورا ہوکر ہمارے ملک کو رفتہ رفتہ محنت اور ذہانت کے اثاثے سے محروم کر رہا ہے۔

درحقیقت ہر شخص اپنے لوگوں اور اپنے ماحول میں رہنا چاہتا ہے، یہ حالات ہی ہوتے ہیں جو اسے ترک وطن پر مجبور کردیتے ہیں۔ ہمارے لوگ بھی ایسے ہی حالات کا شکار ہیں اور مجبور ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنا دیس چھوڑ کر بیرون ملک رہائش اختیار کررہے ہیں۔ بیرون ملک جانے والے وہاں کوئی آسان زندگی بسر نہیں کرتے، بہت مشکل روزوشب گزارتے ہیں۔ بڑی محنت تگ ودو کے بعد وہ مقام حاصل ہوتا ہے جس کی آرزو لے کر انھوں نے ہجرت کی تھی۔ اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ وہ محنت پاکستان میں رہ کر کیوں نہیں کی جاسکتی جس کے ذریعے ہمارے لوگ دیگر ممالک میں زندگی بناتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جو صورت حال ہے اس میں محنت اور مشقت کا سفر اکثر کولہو کے بیل کی دائرے میں گردش بن کر رہ جاتا ہے۔امن وامان کی صورت حال ، روزگار کے مواقع کی کمی، سرکاری اداروں میں اقرباپروری اور ملازمتوں کی فروخت جیسے مسائل اپنی جگہ، اس سب کے ساتھ ہمارے یہاں لوگوں کو ملازمت پر رکھنے کا معیار بھی عجیب وغریب ہے۔ ہم عموماً ''ٹین ان ون'' کے فارمولے پر عمل کرتے ہیںیعنی جس شخص کو ملازمت دی جائے وہ بیک وقت آٹھ دس کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ وہ تعلیم یافتہ بھی ہو، تیکنیکی صلاحیت کا بھی حامل ہو اور انتظامی معاملات بھی سنبھال سکے۔ چناں چہ اکثر اداروں میں ایک ہی شخص مختلف نوعیت کے دس کام کررہا ہوتا ہے۔

اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک میں ایک شخص میں ایک ہی صلاحیت تلاش کی جاتی ہے اور اسی بنیاد پر اسے ملازم رکھا جاتا ہے۔ کسی شخص سے اس کے رجحان، صلاحیت اور شوق کے برعکس کام لینا اس کے لیے ہمت شکنی اور بے زاری کا باعث بنتا ہے۔ہمارے ملک میںذہین، تعلیم یافتہ اور بہ صلاحیت نوجوان بے روزگاری کے صدمے جھیل کر ایک عمر گزار دیتے ہیں۔ ایسے میں بے روزگار نوجوان اپنی صلاحیت اور رجحان کے برعکس مجبوری میں کسی نہ کسی روزگار سے وابستہ ہوجانے پر مجبور ہوجاتے ہیں، مگر ان کے خواب پورے ہونے کو بے تاب اور تمنائیں ناآسودہ ہی رہتی ہیں۔

اس سلسلے میں نوجوانوں کو قرضوں کی فراہمی کے لیے مختلف حکومتوں نے جو اسکیمیں شروع کیں وہ بھی مختلف وجوہات کی بنا پر بے روزگاری کے مسئلے سے نمٹنے میں ناکام رہیں۔ مثلاً موجودہ حکومت نے حال ہی میں بے روزگار نوجوانوں کو کاروبار کے لیے قرضوں کی فراہمی کی اسکیم شروع کی ہے، جس پر حکومت کے حامی واہ واہ کی صدائیں بلند کر رہے ہیں، لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکل سکا ۔اس اسکیم کے تحت اربوں روپے مالیت کے قرضے دینے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ تاہم اس اسکیم کے حوالے سے نیشنل بینک نے قرضوں کی فراہمی کے لیے جو سخت ترین شرائط عاید کی ہیں ان پر ملک کے مختلف شہروں میں نوجوان سراپا احتجاج نظر آتے ہیں۔ قرضوں کے طلب گار نوجوان پریشان ہیں کہ اتنی بھاری مالیت کی ضمانت دینے والے ضامن کہاں سے لائیں؟ اس احتجاج کے باوجود نیشنل بینک کی شرائط جوں کی توں رہیں۔



برسوں بے روزگاری جھیلنے والے اُس نوجوان کے لیے بھی یہ اسکیم امید کا دروازہ اور روشنی کا راستہ تھی۔ لیکن اس راستے میں شرائط کا پہاڑ کھڑا تھا، ''ضامن، جس کے پاس دیے جانے والے قرضے سے ڈیڑھ گنا زیادہ مالیت کی نقدی یا جائیداد ہو یا گریڈ پندرہ کا سرکاری افسر'' افلاس کا مارے اس نوجوان ایسا رشتے دار یا شناسا کہاں سے لائے جو اس کی ضمانت دے سکے۔ کسی سے کہا بھی تو جواب ملا،''کاروبار کا کوئی تجربہ ہے۔'' اب تعلیم حاصل کرکے ملازت کے لیے برسوں دھکے کھانے والا یہ نوجوان کیا اور کیسے کاروبار کرتا، سو اس کا جواب تھا ''نہیں'' جس پر متوقع ضامن کے ہونٹوں پر بھی انکار کے سوا کچھ نہ تھا۔ لیجیے، امید کا دروازہ بند ہوگیا اور روشنی کا راستہ اندھیرے میں کھوگیا۔ اب کیا کرے یہ اور اس جیسے لاکھوں نوجوان؟

دوسری طرف ہر ذہن میں یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ یہ قرضے 8سال کی مدت کے لیے دیے جارہے ہیں، جب کہ حکومت 5سال رہے گی، پھر کون پوچھے گا کہ پیسہ کسے دیا کہاں گیا، چناں چہ نیشنل بینک نے شرائط ہی ایسی عائد کردیں کہ عام نوجوان کے لیے اس قرضے کا حصول خواب بن کر رہ جائے۔ اب حکمراں جماعت کے کارکن اس اسکیم کو اپنی حکومت کا کارنامہ بتاتے ہوئے اسکیم کو پروموٹ کر رہے ہیں کہ ''قرضہ لے لو، قرضہ لے لو'' مگر قرضہ ملے گا تو لیا جائے گا نہ۔

اب حکومت بھی خوش کہ وہ دعویٰ کرسکے گی کہ اس نے بے روزگار نوجوانوں کے لیے اسکیم جاری کی اور نیشنل بینک مطمئن کے اس نے کڑی شرائط کے ذریعے پیسہ بچالیا۔ان حالات میں ہمارا نوجوان کیا کرے؟ وہ پاکستان چھوڑ کر بیرون ملک جانے کی کیوں نہ ٹھانے، جہاں سخت محنت ہے تو اس کا صلہ بھی ملتا ہے، سپنے پورے ہونے کے روشن امکانات ہیں، اور کچھ نہیں تو وہاں کم ازکم جان تو محفوظ ہے۔ امن وامان قائم نہ کرسکنا ہماری حکومت کی مجبوری ٹھہری، لیکن اتنا تو کیا ہی جاسکتا ہے کہ ذہین، بہ صلاحیت اور پرفیشنل نوجوانوں کو باعزت روزگار اور مناسب طرز زندگی کی حامل تن خواہیں فراہم کی جائیں، ورنہ ذہانت اور صلاحیت کا یہ سفر جاری رہا تو ہمارا ملک صرف دانش اور اہلیت کا پروڈکشن یونٹ بن کر رہ جائے گا، جس کی پیداوار دوسروں ہی کے کام آئے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں