توشہ خانہ کے تحائف … ویلڈن شہباز شریف

شہباز شریف کے اس فیصلے کو عوامی سطح پر بھی خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔ انھوں نے ایک اچھی روایت قائم کی ہے۔


مزمل سہروردی September 09, 2022
[email protected]

وزیر اعظم شہباز شریف نے بیرون ممالک سے ملنے والے تحائف کو وزیر اعظم ہاؤس میں عوام کو دیکھنے کے لیے رکھوا دیا ہے۔انھوں نے توشہ خانہ کی ساری لڑائی کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے واضح کر دیا ہے کہ بیرون ممالک دوروں کے دوران وزیر اعظم کو جو تحائف ملے ہیں، وہ یہ تحائف نہ توسستے داموں لیں گے اور نہ ہی کسی کو لینے دیں گے بلکہ یہ تحائف وزیرا عظم ہاؤس میں عوام کے سامنے رکھ دیے جائیں۔

شہباز شریف کو اب تک بہت سے مہنگے تحائف ملے ہیں۔ بلکہ خلیجی ممالک سے انھیں سابق وزیر اعظم عمران خان سے مہنگے تحائف ملے ہیں۔ شہباز شریف کو ملنے والی گھڑیاں عمران خان کو ملنی والی گھڑیوں سے مہنگی ہیں۔ شہباز شریف نے اس ضمن میں توشہ خانہ کو ہدایات جاری کر دی ہیں۔

توشہ خانہ کے تحائف پاکستان میں ایک تنازعہ رہے ہیں۔ یہ سوال اہم رہا ہے کہ کیا وزراء اعظم کو بطور وزیر اعظم ملنے والے تحا ئف انھیں خود لینے چاہیے کہ نہیں، اس حمام میں سب ننگے رہے ہیں۔ سب نے ہی یہ تحائف لیے ہیں، اس حوالے سے قواعد بھی بہت نرم ہیں۔ وزرا ء اعظم صرف بیس فیصد پر یہ تحائف لیتے رہے ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ وزیر اعظم کو یہ تحائف لینے کی اجازت ہونی چاہیے کیونکہ یہ انھی کو ملے ہوتے ہیں۔

دوسری رائے یہ ہے کہ نہیں یہ پاکستان کے وزیر اعظم کو ملتے ہیں، وہ ذاتی حیثیت میں جائیں توکیا،انھیں ایسے مہنگے تحائف دیے جائیں گے۔ اس لیے یہ جب تحائف ملے بطور پاکستان کے وزیر اعظم ہیں تو اس پر حق بھی ریاست پاکستان کا ہونا چاہیے۔ یہ پاکستان کی ملکیت ہونی چاہیے۔

بہر حال عمران خان نے توشہ خانہ کے تحائف کو جس طرح لیا، اس نے معاملے کو شدید متنازعہ بنا دیا۔ عمران خان کی جانب سے مہنگی گھڑیوں کی مارکیٹ میں فروخت نے پاکستان کی عالمی سطح پر بہت سبکی کی۔ تحائف رکھنا ایک بات ہے، ان کو فروخت کرنا دوسری بات ہے۔

ویسے بھی تحفہ کو بیچنا اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ تحفہ تحفہ ہوتاہے ،آپ اسے رکھ تو سکتے ہیں لیکن اسے بیچنا اخلاقاً درست نہیں سمجھاجاتا۔ پھر عمران خان توشہ خا نہ سے آئی فون اور ٹی سیٹ جیسے چھوٹے تحائف بھی لے گئے۔

ان کی قیمت پر بھی تنازعہ موجود ہے۔ ویسے کسی کو بھی عمران خان سے یہ امید نہیں تھی، وہ توشہ خانہ کے تحائف اس طرح لیں گے۔ایک طرف تو وہ کہتے ہیں کہ انھیں اﷲ تعالیٰ نے سب کچھ دیا ہوا تھا۔ وہ سیاست میں کسی مالی مفاد کے لیے نہیں آئے اور دوسری طرف توشہ خانہ سے اس طرح چیزیں لینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس نے عمران خان کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

لیکن اب غلط طریقہ سے یہ تحائف لینا عمران خان کے گلے کا پھندا بھی بن گیا۔ ان کے خلاف اسپیکر قومی اسمبلی نے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن میں بھیج دیا ہے۔ قانونی ماہرین کی رائے میں یہ بہت سنگین ہے۔ پھر تحائف کی فروخت کو دوست ممالک کے سربراہان نے بھی پسند نہیں کیا تھا۔

بہر حال شہباز شریف کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے کہ انھوں نے توشہ خانہ کے مسئلہ کو درست طریقہ سے ہمیشہ کے لیے حل کر دیا۔ توشہ خانہ کے گودام میں بھی یہ تحائف بند رکھنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ ان کی نیلامی کی بہت بات کی جاتی تھی لیکن دوسرے ملک سے ملنے والے تحائف کی نیلامی بھی بیرون ملک کوئی اچھا تاثر نہیں دیتی۔ دوست ممالک کے سربراہان کیا سوچتے کہ ہم نے جو تحفہ دیا ہے، یہ کیسا ملک ہے اس نے اسے نیلام ہی کر دیا۔

ویسے بھی کسی تحفہ کی قیمت لگوانا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ تحفہ تو تحفہ ہوتا ہے۔ اس سے پہلے طیب اردگان کی بیوی کے ہار کا تنازعہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ اس لیے ان کو وزیر اعظم ہاؤس میں ایک میوزیم بنا کر وہاں رکھنا ہی درست قدم ہے۔ لوگ دیکھ سکیں گے کہ کب کس ملک نے ہمارے وزیر اعظم کو کیا تحفہ دیا ہے۔ ابھی کچھ سال ہمیں تحائف جمع کرنے چاہیے۔ جب تحائف بہت زیادہ ہو جائیں گے تو دیکھیں گے کہ اس میوزیم کو کہاں لے کر جانا ہے۔

شہباز شریف نے پاکستان کی سیاست میں بہت سی اچھی روایات قائم کی ہیں۔ بطور وزیر اعلیٰ پنجاب انھوں نے جتنے بھی بیرون ملک دورے کیے ہیں، ان کے تمام اخراجات جیب سے ادا کیے تھے۔

ان کے وزیر اعلیٰ سے ہٹنے کے بعد تحریک انصاف کی حکومت نے بہت سے تحقیقات کیں لیکن انھیں کچھ نہیں ملا۔ بلکہ پنجاب اسمبلی میں ایک سوال کے جواب میں تحریک انصاف کی حکومت نے خود تسلیم کیا کہ دس سال وزیر اعلیٰ پنجاب رہنے کے دوران شہباز شریف نے اپنے کسی بیرون ملک دورے کے د وران کوئی سرکاری اخراجات نہیں کیے۔

بلکہ وہ تمام اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتے تھے اور کام حکومت کا کرتے تھے۔ وہ حکومت پاکستان پر بوجھ ڈالنے پر پہلے دن سے یقین نہیں رکھتے۔ اور سرکار کی ایک ایک پائی کا بہت خیال کرتے ہیں، ان کے ساتھ کام کرنے والے ان کی اس عادت سے تنگ بھی رہتے ہیں۔

عمران خان کے دور وزارت اعظمیٰ کے دوران شہباز شریف اور ان کے خاندان کو شدید انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کی کردار کشی کی ایک مربوط مہم چلائی گئی۔ اس دوران وہ بار بار کہتے رہے کہ اگر انھوں نے حکومت پاکستان کے خزانے کی ایک پائی کی بھی خرد برد کی ہو تو انھیں سر عام پھانسی پر لگا دیا جائے۔ تا ہم ان کے نجی کاروبار ی معاملات کو انتقامی کارروائی کے لیے استعمال کیا گیا۔

تاہم عمران خان شدید کوشش کے باوجود ان کے خلاف کچھ ثابت نہیں کر سکے۔ ورنہ عمران خان کو پہلے دن سے علم تھا کہ شہبا زشریف ہی ان کے اصل متبادل ہیں، اس لیے شہباز شریف ہی ان کے ٹارگٹ نمبر ون رہے۔

توشہ خانہ کے تحائف کو عوام کے سامنے رکھنے سے پاکستان کی عالمی سطح پر وقار میں بھی اضافہ ہوگا۔ دوست ممالک کے سر براہان کو اندازہ ہو گا کہ وہ جو بھی تحفہ دیں گے وہ پاکستان کی عوام کے سامنے رکھا جائے گا۔ کسی کے جیب میں نہیں جائے گا۔

دنیا بھر میں سربراہان ممالک ایک دوسرے کو تحائف دیتے ہیں ۔ ان تحائف کو عزت سے وصول بھی کیا جاتا ہے اور ان کو عزت سے بھی رکھا جاتا ہے۔ لیکن اس حوالے سے تنازعات نے پاکستان کی بہت جگ ہنسائی کی ہے۔ بالخصوص فروخت نے تو مذاق ہی بنا دیا ہے۔ تا ہم شہبا زشریف نے اب معاملہ کو درست طریقہ سے سلجھا دیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اب جب یہ تحائف جمع ہوتے رہیں گے تو ہمارے پاس ان تحائف کو ایک خوبصورت گلدستہ جمع ہو جائے گا۔

میرے خیال کسی بھی سابق حکمران کا خاندان بھی اگر کوئی چیز واپس اس میوزیم میں رکھوانا چاہے تو اسے پوری قیمت سرکاری خزانہ سے ادا کر کے یہ تحفہ واپس خرید لیا جائے۔ کیونکہ بہر حال تحفہ پاکستان کا ہے۔

ماضی کی غلط پالیسی کی وجہ سے چلا گیا تھا۔ شہباز شریف کے اس فیصلے کو عوامی سطح پر بھی خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔ انھوں نے ایک اچھی روایت قائم کی ہے۔ جس سے عوام میں حکمرانوں کا امیج بہتر ہوگا اور تنازعات ختم ہوںگے۔ سیاستدانوں کو اب اپنے امیج بہتر کرنے کے لیے ایسے اقدمات کرنا ہوںگے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔