کیا ہم اپنی غلطی کی اصلاح کرسکیں گے
حادثات سے متاثرین کی ایک بڑی تعداد مقامی سطح پر موجود ہوتی ہے
دنیا بھر میں سانحات، حادثات یا قدرتی آفات اوراس کے نتیجے میں آنے والی تباہی ، بربادی سے سیکھ کر ہی ہم مستقبل کی بہتر منصوبہ بندی کرسکتے ہیں۔ کیونکہ حادثات کا پیدا ہونا ایک عمل اور ان حادثات سے بہتر نمٹنا ایک دوسرا عمل ہوتا ہے۔
حالیہ دنوں میں سیلاب کی تباہ کاریوں نے ہمیں قومی سطح پر ایک بار پھر جنجھوڑا ہے ۔ یہ سوال مختلف طبقات میں زیر بحث ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ہم سیلاب سے نمٹنے کے لیے جدید طورطریقے اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ۔محض حادثات کے رونما ہونے کے بعد ردعمل کی بنیاد پر حالات سے مقابلہ کرنا کیا درست حکمت عملی ہے ۔
اگر نہیں تو کیا وجہ ہے کہ پہلے سے حادثات سے نمٹنے کے لیے وہ تدابیر اختیار نہیں کرتے جو وقت کا تقاضہ بھی اور قومی ضرورت بھی ہے ۔یہاں ایک مسئلہ قومی ترجیحات کا بھی ہے۔ ہم ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ادارے تو بنادیتے ہیں مگر ان اداروں کو مستحکم کرنا اوران کو جدید بنیادوں پر تشکیل دینا ، نگرانی کرنا، وسائل کا مختص کرنا او ران میں عملًا جوابدہی کو یقینی بنانا جیسے امور ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں ۔
سیلاب یا دیگر حادثات سے نمٹنے کے لیے جہاں بہت سی حکمت عملی یا تدابیر کو اختیار کیا جاتا ہے وہیں ایک بڑی ترجیح ملک میں ایک مربوط یا مضبوط خود مختار مقامی حکومتوں کا نظام بھی ہوتا ہے۔کیونکہ یاد رکھیں جب بھی کوئی بڑے حادثات یا واقعات رونما ہوتے ہیں ان سے نمٹنے کی ایک بڑی اور مضبوط بنیاد مقامی حکومت کی مضبوطی سے جڑی ہوتی ہے۔
کیونکہ حادثات سے متاثرین کی ایک بڑی تعداد مقامی سطح پر موجود ہوتی ہے او ران ہی کو سب سے زیادہ ہنگامی بنیادوں پر ریلیف درکار ہوتا ہے۔وفاقی یا صوبائی اداروں کی اہمیت اپنی جگہ مگر جب تک مقامی سطح کے سیاسی، انتظامی، مالی اور قانونی ادارے موجودنہ ہوں تو وفاق یا صوبائی حکومتوں کی فعالیت بھی کچھ نہیں کرسکتیں ۔پاکستان میں تین طرز کی حکومتوں کا تصور ہے۔ وفاقی ، صوبائی او رمقامی حکومتیں ہماری سیاسی اور آئینی تقاضوں کی ضرورت ہے۔
لیکن آج بھی پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں موجود ہیں مگر مقامی حکومتوں کا عوام سے جڑا منتخب نظام موجود نہیں۔ عملی طو رپر پاکستان اس وقت مقامی حکومتوں کی عدم موجودگی کا شکار ہے۔
پنجاب میں انتخابات کی عدم موجودگی کے باعث مقامی حکومتوں کا نظام موجود نہیں۔ سندھ میں دوسرے مرحلے کا انتخاب نہیں ہوسکا جس کی وجہ سے نظام موجود نہیں ، بلوچستان میں تیسرے مرحلے کے انتخابات کی عدم موجودگی نظام میں رکاوٹ ہے۔ جب کہ خیبر پختونخواہ میں انتخابات کا عمل مکمل ہوگیا ہے مگر وہاں بھی اداروں کی فعالیت پر سوالیہ نشان ہیں ۔
پاکستان میں جب بھی زلزے یا سیلاب کی تباہ کاریاں ہوئی ہیں یا ملک میں حکمرانی کا بحران دیکھنے کو ملتا ہے تو اس میں سب سے زیادہ ہمیں متاثرین کی تعداد معاشرے کے محروم طبقات میں دیکھنے کو ملتی ہے ۔
ان ہی محروم طبقات جن میں عورتیں، بچے، کسان، مزدور، اقلیتیں ، خواجہ سراہیں زیادہ بدحالی کا شکار ہوتے ہیں۔ جب بھی ہماری وفاقی یا صوبائی حکومتیں ان متاثرین سے نمٹنے کی کوشش کرتی ہیں تو ہمیں جو بڑی خلیج دیکھنے کو ملتی ہے وہ مقامی حکومتوں کے نظام کی عدم موجودگی ہے۔
اگرچہ مقامی سطح پر انتظامی ڈھانچہ موجود ہوتا ہے مگر اس کی عدم فعالیت کی وجہ مقامی عوام کے منتخب نمایندوں کی عدم موجودگی اور مقامی ترجیحات کے تعین کی ناکامی سے جڑا ہوا ہے۔
اگرچہ ہمارا 1973کا آئین ہم کو پابند کرتا ہے کہ ہر صوبائی حکومت آئین کی شق 140-Aکے تحت پابند ہے کہ وہ اپنے اپنے صوبوں میں مقامی حکومتوں کے نظام کو یقینی بنانا جس میں تشکیل او رتسلسل سمیت ان منتخب حکومتوں کو سیاسی ، انتظامی او رمالی اختیارات دینے کو یقینی بنانا ہے۔
سیلاب کے دوران متاثرین کی درست تعداد کا اندازہ کرنا، درست اعداد وشمار کو اکھٹا کرنا ، جو مسائل ان کو فوری طور پر یا کچھ ایمرجنسی کے بعد درپیش ہیں ان کی درست نشاندہی کرنا، متاثرین کے نقصانات کا تخمینہ لگانا، خوراک، ادویات اور شیلٹرز کی فوری فراہمی کے ترسیلی نظام کو عملا شفاف بنانا ، لوگوں کو خطرات سے نکالنا اور محفوظ مقامات تک پہنچانا، سیلاب کے دوران اصل متاثرین تک پہنچنا او ران کی نشاندہی سمیت بڑا کام سیلاب آنے سے قبل جو مختلف محکموں کی جانب سے ہائی الرٹ جاری ہوتے ہیں،ان کو بنیاد بنا کر حادثات سے پہلے کی تیاری او رمنصوبہ بندی کو یقینی بنانا جیسے تمام امور مقامی حکومتوں کے نظام سے جڑے ہوتے ہیں ۔
اسی طرح سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد جو سب سے زیادہ مسائل مختلف بیماریوں کی صورت میں سامنے آتی ہے یا بچیوں سمیت عورتوں کو جو مقامی سطح پر لاتعداد مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان سے بھی نمٹنا مقامی حکومت کی ذمے داری کے زمرے میں آتا ہے۔
یہ مقامی حکومتوں کانظام ہی ہوتا ہے جو ان حادثات کے دوران متاثرین کی مدد کے لیے خود کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں سمیت فلاحی اداروں یا مقامی تنظیموں کی مدد کے ساتھ حالات سے بہتر طور پر نمٹنے کے لیے ایک بڑا روڈ میپ تیار کرتا ہے۔
منتخب مقامی حکومت مقامی حکومتی اداروں سے مل کر مستقبل کی منصوبہ بندی کرتی ہے تاکہ دوبارہ ان حادثات کو روکا جاسکے یا ان سے بہتر طور پر نمٹا جاسکے۔ مقامی سطح پر ڈسٹرکٹ ڈیساسٹر مینجمنٹ اتھارٹی، مقامی انتظامیہ اور مقامی سطح پر موجود مقامی حکومت اور اداروں کی باہمی کوششیں ہی سب سے موثر ہوتی ہیں۔
ایک جامع یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ خود مختار مقامی حکومتوں کے نظام پر مبنی حکمرانی سے جڑا نظام ریاست ، حکومت اور عوا م کے درمیان اعتماد کے ماحول کو پیدا کرتا ہے اور ان کے روزمرہ کے مسائل کا حل بھی اسی مقامی حکومتوں کے نظام سے جڑا ہوتا ہے ۔
جو تکلیف دہ مناظر ہمیں متاثرین کی امداد کی صورت میں میڈیا میں دیکھنے کو ملتے ہیں وہ ہمارے مجموعی ریاستی یا حکومتی سطح کے نظام بڑی خامیوں کی نشاندہی کرتی ہے۔دکھ ہوتا ہے کہ ہم آج کے دور میں کس طرح کے فرسودہ اور روائتی طور طریقوں کی بنیاد پر کام کرتے ہیں اور دنیا کے تجربات سے کچھ سیکھنے کے لیے تیار نہیں ۔
اس لیے سیلاب ہوں یا زلزلے ان سب کی تباہ کاریوں کا واحد سبق یہ ہے کہ ہم اپنے حکمرانی کے نظام کی بڑے پیمانے پر اصلاح کریں ۔ ان اصلاحات میں ایک بڑی توجہ مقامی حکومتوں کے مربوط او رخود مختاری کے نظام پر ہونی چاہیے ۔
کیونکہ دنیا کے تجربات یہ ہی سکھاتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ، مقامی حکومتوں کے نظام کی مضبوطی اور شہریوں کی مقامی فیصلہ سازی میں شرکت او رلوگوں کی سوک ایجوکیشن پر مبنی تعلیم کو بنیاد بنا کر ہم حکمرانی کے نظام میں شہریوں کا اعتماد حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ ہی سبق ہے کہ ہماری ریاست او رحکمران طبقہ ماضی کی غلطیوں سے نکل کر جدید مقامی حکومتوں کے نظام کو اپنی اولین ترجیحات کا حصہ بنائیں ۔