ایک بڑے آدمی کی قربت
بھٹو کاسوشلزم اورمولانا کوثرنیازی کااسلامی دورتھا، ہم ریڈیوسے کنٹریکٹ کے طورپر وابستہ تھے، ماہانہ تین سوروپے ہمارے لیے کافی تھے کہ اچانک مولانا کوثر نیازی نے پشاورکے ایک خوبروجیالے کو خوش کرنے لیے پشاوراسٹیشن پر نزلہ گرادیا،باقی لوگ یاتو پکے ملازم تھے۔
اس لیے تبادلوں وغیرہ کی زد میں آگئے، جن آٹھ ادیبوں کو بین کردیاگیا، ان میں بھی باقی سب ریڈیوسے باہرتھے، صرف ہم ہی ایک عضوضعیف تھے، مچھلی کی طرح پانی سے نکال کر سوکھی زمین پر آگئے، ظاہرہے اورکوئی ذریعہ تو تھا نہیں، اس لیے تڑپنے لگے۔
اتنے میں ریڈیوہی کے ایک دوست نواب علی خان مرحوم نے خوشخبری دی اورایک بہت بڑے خاندانی سیاست دان کانام لیتے ہوئے کہا کہ وہ سیاست سے ریٹائرڈ ہوگئے ہیں اوروہ اپنے دورسیاست کی تحریروں اورتقریروں کو مدون کرکے چھاپنا چاہتے ہیں، اردو کی تحریروں، تقریروں کو پشتو اورپشتو کی اردومیں ترجمہ کرانا چاہتے ہیں۔
مذکورہ صاحب ایک جدی پشتی بیوروکریٹ بھی تھا اورایک مشہورسیاسی خاندان سے بھی تعلق رکھتا تھا، آخر میں صوبے کے گورنرشپ سے ریٹائرہوئے تھے بلکہ یوں کہیے کہ بھٹو نے لات مار کر نکالاتھا۔ملے تو بات بن گئی، ایک نہایت ہی فصیح و بلیغ تقریرکرتے ہوئے بولے کہ میں نے خواہ مخواہ سیاست میں وقت ضایع کیا،میں تو صاحب قلم ہوں۔
اصل میں وہ جب ریڈیو کے سربراہ تھے، تو اس کاایک بہت ہی مقبول ڈرامہ بھی نشرہواتھا جو واحد تھا اورواحد ہے کیوں کہ اس کے سوا اس کی کوئی تحریر یاتخلیق ریکارڈ پرنہ تھی اوراب وہ خود کو ادب کے لیے وقف کرناچاہتاتھا،بات بن گئی اگر چہ تین سو روپے یہاں میرے لیے کافی نہیں تھے کہ روزانہ گاؤں سے چل کر کئی بسیں بدلتے ہوئے یونیورسٹی ٹاون پہنچنے میں ہی آدھی تنخواہ خرچ ہوجاتی تھی لیکن ہمارے دل میں ایک اورلالچ نے جگہ بنالی تھی، ایک پشتو مجلہ جاری کرنا میراخواب تھا اوراس کی باتوںسے لگتاتھا کہ یہاں میرا یہ خواب پورا ہوسکتاتھا۔
بنگلے کے ایک دوردرازکونے میں مجھے دفتر دیاگیا، ضروری اسٹیشنری میزکرسی بھی مل گئی اوران فائلوں کا انباربھی جو اس کی تحریروں، تقریروں پر مشتمل تھیں۔ ایک جھٹکا تو دوسرے ہی دن لگا جب دوپہرکاکھانا دیا گیا،ایک چھوٹی پلیٹ میں شوربا، اس میں ایک آلو اور ایک بے گوشت ہڈی ،حالانکہ پہلے دن بہت پرتکلف کھاناملاتھا، بعد میں پتہ چلاکہ نوکروں کاڈیپارٹمنٹ بیگم چلاتی ہیں اورنوکروں کو ایسا ہی کھانا دیاجاتاہے۔
ڈرائیوروں، چوکیداروں اورمالیوں میں میرابھی شمار ہوگیا،چوکیداروں میں ایک چوکیدار ان کے علاقے کا تھا اورباورچی بھی اس کے گاؤں کا تھا،چنانچہ وہ چوکیدار اکثر ایک جالی دار کھڑکی کے پاس جاکر زورزورسے چلانے لگتا۔۔او۔۔میرعالم خان ۔خانہ خراب یہ ہڈیاں تم خود پھینکاکرونا، ہم سے کیوں پھنکواتے ہو۔آہستہ آہستہ مجھے پتہ چلا کہ بیگم صاحبہ کنجوسی میں ریکارڈ ہولڈر صرف ملازمین کی حد تک ہے۔
ایک مالی جس کی تنخواہ ایک سو بیس روپے تھی، بہت برے حالوں میں تھا،بال بچے دار آدمی تھا، پاس کے گاؤں کاتھا اوروہ تمام بیماریاں، لاچاریاں اورمجبوریاں ان کی مستقل مہمان رہاکرتی تھیں جو ایسے گھروں میں زبردستی کی مہمان بن کرجاتی ہیں، ایک سو بیس روپے بہت کم تھے، میں نے اسے کہاکہ آخر تم کام چھوڑ کرکیوں نہیں جاتے ،مالیوں کی مانگ بھی ہے اورتنخواہیں دوڈھائی سو ہوتی ہیں، انتہائی بیچارگی سے بولا،کوشش کرچکاہوں لیکن بیگم صاحبہ چوری کاالزام لگاکر پولیس سے خوب پٹواتی بھی ہے اور توبہ تائب کرکے اسی تنخواہ پر کام کرواتی بھی ہے۔
ایک لالچ تو مجھے مجلے کاتھا چنانچہ صاحب سے ذکر کیا تو وہ بڑے خوش ہوئے کہ یہ تو بڑا اچھا آئیڈیا ہے بلکہ خود ہی کہا کہ ایسامجلہ تو صرف ہماری اپنی کمپنی کے اشتہاروں سے بھی چلایاجاسکتاہے۔میں بتانا بھول گیا کہ وہ ایک بہت بڑی مشروبات بنانے والی کمپنی کے مالک بھی تھا۔
مجھ سے ڈیکلریشن کے کاغذات لاکر بھرنے کو کہا،تو دل خوش فہم کو ایک اورخوش فہمی ہوگئی کہ کچھ دن گزرجائیں تو موٹرسائیکل خریدنے کے لیے بھی کہہ دوں گا جو اس کے لیے کچھ بھی نہ تھا ،خود اپنی بھی اس کی چارپانچ گاڑیاں تھیں اورفیکٹری میں بھی ملازمین کی گاڑیوں کے علاوہ موٹرسائیکلوں کاشمار نہیں ،کبھی کبھی تو دل خوش فہم خودی اپنی کمرٹھونکنے لگتاکہ کیا زبردست مقام ہے۔
اس کے مہمان بہت آتے تھے جنھیں بٹھا لیا جاتاتھا اورصاحب خاصی دیر کرکے نکلتا تو قد م لغزیدہ لغزیدہ چشم خوابیدہ خوابیدہ بیھٹے ہی انگڑائی لیتے ہوئے بولتے معافی چاہتاہوں۔صبح کی نمازاورتلاوت کلام پاک کے بعد نیند آگئی تھی،اس کاایک خاص الخاص چترالی لڑکاملازم تھا ،ایک دن میں نے اس سے پوچھا، کیاواقعی صاحب صبح تہجد کی نمازپڑھتااورتلاوت کرتا تھا، چترالی لوگ بہت ہی ایمان دار،سچے اورسادہ لوح ہوتے ہیں۔
اس لیے بولا،چھوڑومنشی صاحب!وہ کہتے ہیں تو ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔بہت تنگ کیا تو بولا، خداکے لیے رہنے دو، جھوٹ میں بول نہیں سکتا اورسچ بولنانمک حرامی ہوگی۔مجھے خاص خاص لوگوں سے پتہ چلا کہ یہ جو صاحب آئے دن اسلام آباد جاتے رہتے ہیں۔
بھٹو صاحب کے آگے سجدے کرتے ہیں اورکارآمد لوگوں کے آگے ناک رگڑتے ہیں اوراسی کانتیجہ بھی ایک دن سامنے آگیا۔موصوف کو ایک مسلم ملک میں سفیر بنایاگیا تھا۔مجھے بلاکر بولے، کیاکروں مجبورہوں، بہت انکار کیالیکن ظالم آدمی ہے، اگر اس کی نہ مانوں تو نہ جانے کیاکربیٹھے،اس لیے مجبوراً سفیر بن کر جارہا ہوں لیکن تم فکر نہ کرو، میں بہت جلد آؤں گا اورکام پھر سے شروع کریں گے...اورتو کچھ نہیں ہوا لیکن میری پچیس دن کی تنخواہ کھوہ کھاتے چلی گئی۔
اس لیے تبادلوں وغیرہ کی زد میں آگئے، جن آٹھ ادیبوں کو بین کردیاگیا، ان میں بھی باقی سب ریڈیوسے باہرتھے، صرف ہم ہی ایک عضوضعیف تھے، مچھلی کی طرح پانی سے نکال کر سوکھی زمین پر آگئے، ظاہرہے اورکوئی ذریعہ تو تھا نہیں، اس لیے تڑپنے لگے۔
اتنے میں ریڈیوہی کے ایک دوست نواب علی خان مرحوم نے خوشخبری دی اورایک بہت بڑے خاندانی سیاست دان کانام لیتے ہوئے کہا کہ وہ سیاست سے ریٹائرڈ ہوگئے ہیں اوروہ اپنے دورسیاست کی تحریروں اورتقریروں کو مدون کرکے چھاپنا چاہتے ہیں، اردو کی تحریروں، تقریروں کو پشتو اورپشتو کی اردومیں ترجمہ کرانا چاہتے ہیں۔
مذکورہ صاحب ایک جدی پشتی بیوروکریٹ بھی تھا اورایک مشہورسیاسی خاندان سے بھی تعلق رکھتا تھا، آخر میں صوبے کے گورنرشپ سے ریٹائرہوئے تھے بلکہ یوں کہیے کہ بھٹو نے لات مار کر نکالاتھا۔ملے تو بات بن گئی، ایک نہایت ہی فصیح و بلیغ تقریرکرتے ہوئے بولے کہ میں نے خواہ مخواہ سیاست میں وقت ضایع کیا،میں تو صاحب قلم ہوں۔
اصل میں وہ جب ریڈیو کے سربراہ تھے، تو اس کاایک بہت ہی مقبول ڈرامہ بھی نشرہواتھا جو واحد تھا اورواحد ہے کیوں کہ اس کے سوا اس کی کوئی تحریر یاتخلیق ریکارڈ پرنہ تھی اوراب وہ خود کو ادب کے لیے وقف کرناچاہتاتھا،بات بن گئی اگر چہ تین سو روپے یہاں میرے لیے کافی نہیں تھے کہ روزانہ گاؤں سے چل کر کئی بسیں بدلتے ہوئے یونیورسٹی ٹاون پہنچنے میں ہی آدھی تنخواہ خرچ ہوجاتی تھی لیکن ہمارے دل میں ایک اورلالچ نے جگہ بنالی تھی، ایک پشتو مجلہ جاری کرنا میراخواب تھا اوراس کی باتوںسے لگتاتھا کہ یہاں میرا یہ خواب پورا ہوسکتاتھا۔
بنگلے کے ایک دوردرازکونے میں مجھے دفتر دیاگیا، ضروری اسٹیشنری میزکرسی بھی مل گئی اوران فائلوں کا انباربھی جو اس کی تحریروں، تقریروں پر مشتمل تھیں۔ ایک جھٹکا تو دوسرے ہی دن لگا جب دوپہرکاکھانا دیا گیا،ایک چھوٹی پلیٹ میں شوربا، اس میں ایک آلو اور ایک بے گوشت ہڈی ،حالانکہ پہلے دن بہت پرتکلف کھاناملاتھا، بعد میں پتہ چلاکہ نوکروں کاڈیپارٹمنٹ بیگم چلاتی ہیں اورنوکروں کو ایسا ہی کھانا دیاجاتاہے۔
ڈرائیوروں، چوکیداروں اورمالیوں میں میرابھی شمار ہوگیا،چوکیداروں میں ایک چوکیدار ان کے علاقے کا تھا اورباورچی بھی اس کے گاؤں کا تھا،چنانچہ وہ چوکیدار اکثر ایک جالی دار کھڑکی کے پاس جاکر زورزورسے چلانے لگتا۔۔او۔۔میرعالم خان ۔خانہ خراب یہ ہڈیاں تم خود پھینکاکرونا، ہم سے کیوں پھنکواتے ہو۔آہستہ آہستہ مجھے پتہ چلا کہ بیگم صاحبہ کنجوسی میں ریکارڈ ہولڈر صرف ملازمین کی حد تک ہے۔
ایک مالی جس کی تنخواہ ایک سو بیس روپے تھی، بہت برے حالوں میں تھا،بال بچے دار آدمی تھا، پاس کے گاؤں کاتھا اوروہ تمام بیماریاں، لاچاریاں اورمجبوریاں ان کی مستقل مہمان رہاکرتی تھیں جو ایسے گھروں میں زبردستی کی مہمان بن کرجاتی ہیں، ایک سو بیس روپے بہت کم تھے، میں نے اسے کہاکہ آخر تم کام چھوڑ کرکیوں نہیں جاتے ،مالیوں کی مانگ بھی ہے اورتنخواہیں دوڈھائی سو ہوتی ہیں، انتہائی بیچارگی سے بولا،کوشش کرچکاہوں لیکن بیگم صاحبہ چوری کاالزام لگاکر پولیس سے خوب پٹواتی بھی ہے اور توبہ تائب کرکے اسی تنخواہ پر کام کرواتی بھی ہے۔
ایک لالچ تو مجھے مجلے کاتھا چنانچہ صاحب سے ذکر کیا تو وہ بڑے خوش ہوئے کہ یہ تو بڑا اچھا آئیڈیا ہے بلکہ خود ہی کہا کہ ایسامجلہ تو صرف ہماری اپنی کمپنی کے اشتہاروں سے بھی چلایاجاسکتاہے۔میں بتانا بھول گیا کہ وہ ایک بہت بڑی مشروبات بنانے والی کمپنی کے مالک بھی تھا۔
مجھ سے ڈیکلریشن کے کاغذات لاکر بھرنے کو کہا،تو دل خوش فہم کو ایک اورخوش فہمی ہوگئی کہ کچھ دن گزرجائیں تو موٹرسائیکل خریدنے کے لیے بھی کہہ دوں گا جو اس کے لیے کچھ بھی نہ تھا ،خود اپنی بھی اس کی چارپانچ گاڑیاں تھیں اورفیکٹری میں بھی ملازمین کی گاڑیوں کے علاوہ موٹرسائیکلوں کاشمار نہیں ،کبھی کبھی تو دل خوش فہم خودی اپنی کمرٹھونکنے لگتاکہ کیا زبردست مقام ہے۔
اس کے مہمان بہت آتے تھے جنھیں بٹھا لیا جاتاتھا اورصاحب خاصی دیر کرکے نکلتا تو قد م لغزیدہ لغزیدہ چشم خوابیدہ خوابیدہ بیھٹے ہی انگڑائی لیتے ہوئے بولتے معافی چاہتاہوں۔صبح کی نمازاورتلاوت کلام پاک کے بعد نیند آگئی تھی،اس کاایک خاص الخاص چترالی لڑکاملازم تھا ،ایک دن میں نے اس سے پوچھا، کیاواقعی صاحب صبح تہجد کی نمازپڑھتااورتلاوت کرتا تھا، چترالی لوگ بہت ہی ایمان دار،سچے اورسادہ لوح ہوتے ہیں۔
اس لیے بولا،چھوڑومنشی صاحب!وہ کہتے ہیں تو ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔بہت تنگ کیا تو بولا، خداکے لیے رہنے دو، جھوٹ میں بول نہیں سکتا اورسچ بولنانمک حرامی ہوگی۔مجھے خاص خاص لوگوں سے پتہ چلا کہ یہ جو صاحب آئے دن اسلام آباد جاتے رہتے ہیں۔
بھٹو صاحب کے آگے سجدے کرتے ہیں اورکارآمد لوگوں کے آگے ناک رگڑتے ہیں اوراسی کانتیجہ بھی ایک دن سامنے آگیا۔موصوف کو ایک مسلم ملک میں سفیر بنایاگیا تھا۔مجھے بلاکر بولے، کیاکروں مجبورہوں، بہت انکار کیالیکن ظالم آدمی ہے، اگر اس کی نہ مانوں تو نہ جانے کیاکربیٹھے،اس لیے مجبوراً سفیر بن کر جارہا ہوں لیکن تم فکر نہ کرو، میں بہت جلد آؤں گا اورکام پھر سے شروع کریں گے...اورتو کچھ نہیں ہوا لیکن میری پچیس دن کی تنخواہ کھوہ کھاتے چلی گئی۔