بھارتی معیشت بلند و بانگ دعوے
یہ خبر ہم جیسے محب وطنوں کے لیے تشویش ناک تو نہیں البتہ خوش آیند نہ تھی، جس کے مطابق بلوم برگ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق انڈیا جی ڈی پی کے حوالے سے دنیا میں پانچویں نمبر پر آچکا ہے اور اس کی معیشت اتنی مستحکم ہوئی ہے کہ اس فہرست میں اس نے برطانیہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
بلوم برگ نے یہ نتیجہ دشمنِ جاں آئی ایم ایف کے ڈیٹا کی بنیاد پر نکالا ہے۔ ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ ہماری آئی ایم ایف سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے لیکن خدا گواہ ہے کہ جب جب ہمارے ملک پر کہیں سے بھی کوئی مسئلہ، مصیبت یا عذاب نازل ہوتا ہے تو اس سے نجات کے لیے آئی ایم ایف کو دہائیاں دی جاتی ہیں کہ اب ہمارے محلے کا گٹر بند پڑا ہے، جس کی وجہ سے محلے میں گندے پانی کی یلغار ہے۔
اس کے تعفن سے جینا حرام ہے اور تو اور مچھروں نے ناک میں دم کر رکھا ہے لہٰذا آپ یعنی آئی ایم ایف اس گٹر کو کھلوانے اور مچھروں سے خلاصی کے لیے ایک فنڈ مختص کر دیجیے کیونکہ آپ تو فنڈز کے خزانے رکھتے ہی ہیں اور آپ اتنے امیر بھی ہیں تو سرکار! آپ کے پاس دولت کی کمی نہیں، آپ کا کیا جائے گا، ہمارے پاس فنڈ ہی آئے گا، تو آنے دیں تاکہ ہم اس فنڈ کو اپنی صلاحیتوں سے بروئے کار لاتے ہوئے اسے ایسے احسن طریقے سے استعمال کریں کہ۔۔۔۔۔پہلے دیں پھر بتائیں گے۔
مجال ہے جو آئی ایم ایف نے ہمیں کبھی پیار بھری نظروں سے دیکھا ہو،کبھی پیار سے بات کی ہو،کبھی مسکرا کر ملے ہو، نجانے کیوں ہم جیسے معقول ہی ان کی نظروں میں کھٹکتے ہیں اور سچی بات تو یہ ہے کہ بھارت کو جس طرح سے دکھایا جا رہا ہے، پیش کیا جا رہا ہے اس میں بھی سارا کمال اس آئی ایم ایف کا ہی لگتا ہے۔
ویسے ہماری اپنی انفارمیشن تو بڑی کچی ہے، لیکن آخر انھوں نے آئی ایم ایف کو آخر کون سی ایسی پھکی کھلا دی ہے کہ اب ان کے خزانوں کے ڈیٹا کے یعنی حساب کتاب سے یہ خبر آشکار ہوئی۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ بھارتی بینکوں کی خیر خبر رکھنے والی آنٹی نے صاف بتایا تھا کہ بھائی لوگو! کورونا کے بعد ہمارے بینکوں کی حالت اچھی نہیں ہے۔ بینکوں میں جتنے بھی بنیے حضرات نے اپنا مال رکھوایا تھا یا تو ان کی جانب سے کارستانی تھی یا کچھ اور، پر معیشت کے بارے میں وہ پیلی یا اورنج ساڑھی والی آنٹی بڑی سی پریس کانفرنس میں کھول کھول کر بتا رہی تھیں۔
ایک اور دلچسپ خبر یہ بھی سنی گئی ہے کہ 2047 تک بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اپنے ملک کو ترقی یافتہ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے بھی تشویش تو ابھرے گی کہ آخر انھوں نے اپنا وہ والا مال چھپانے کے لیے کون سے خفیہ گلک کا استعمال کیا ہے۔
ویسے کپڑوں اور جوتوں پر تو وہ پیسے زیادہ خرچ کرتے نہیں، ایک سفید پائجامہ پر ڈھیروں دن رنگ برنگے کرتے استعمال کرلیتے ہوں گے اور تو اور شیو کا خرچہ بھی بچ گیا اب تو۔کھاتے بھی دال اور سبزی ہیں، پھر یہ پیسے کہاں خرچ کرتے ہیں؟ اتنی ساری رقم کی بچت تو ہو جاتی ہے، یہ سوال اہم ہے۔ بچے ان کے ہیں نہیں، بیوی کو پہلے ہی فارغ کرچکے تھے۔ پھر بھی بات تو تشویش ناک ہے کہ اب یہ پیسے (وہ والے) جاتے کہاں ہیں۔
ستمبر 2013کے ایک مضمون کے مطابق سو کروڑ آبادی والا بھارت خود کو معاشی طاقت بنانے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بھی ایک اہم ملک کے طور پر منوانے میں کامیاب رہا ہے۔
اس مضمون میں لکھنے والے نے ذرا دوسری طرح کی زبان بھی استعمال کی تھی جس سے بچ بچا کر ہی کام کرنا ہے۔ مقصد یہ کہ بھارت کو چوہدری بننے کا شوق پیدائشی ہے یا یوں کہہ لیں کہ جیسے ہی انگریزوں نے غلامی کا طوق اتارا تو انھیں صاحب بننے کا شوق پیدا ہو گیا، اور یہ شوق بڑھتا ہی چلا گیا اور اب ستمبر 2022 میں چوہدری صاحب بننے کی خبر بھی ہم نے سن لی۔
خبر تو کچھ عرصہ قبلہ افغانستان سے بھی سنی گئی تھی جب امریکی ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمتیں دیکھ کر دوسرے طریقے سے اس کی قیمت اس طرح گرائی کہ۔۔۔
نریندر مودی ہر حال میں اپنے مقاصد میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں، ٹھیک ہے ابھی تک تو وہ کامیاب جا رہے ہیں لیکن اندرونی طور پر جن مسائل میں انڈیا گھرا ہے اس سے معیشت کا پانچویں نمبر پر آنا یا جانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ مودی صاحب دراصل اندرونی اور بیرونی کھیل رہے ہیں اور سننے میں آیا ہے کہ بھارت میں سیاسی میدان میں حریف پارٹیاں جس طرح ان کے لیے ایشوز پیدا کر رہی ہیں اس کا حل انھیں بیرونی کھیل سے نظر آیا۔
بات پھر اپنے دشمن جاں آئی ایم ایف پر آتی دکھائی دیتی ہے۔ ارے بھیا! کیا دکھا دیا گیا ہے رسالے والوں کو کہ جسے پڑھ کر سب باتیں بنانے لگے۔ اب یا تو افغانستان والا دوسرا طریقہ ہو سکتا ہے ورنہ مودی جی کے (وہ والے) پیسوں کا گلک(پیسے جمع کرنے والا گلہ)۔۔۔۔ کہیں تو خرچ ہوتا ہی ہوگا۔
الزام لگانا ہمارا شیوہ نہیں ہے ، لیکن جب ننھے منے نیوز چینلز والے (بھارتی) اپنے گلی محلے میں آ کر معصوم لوگوں کو پاکستان مخالفت کے بیان دلوا کر بغلیں بجا سکتے ہیں تو ذرا سوچیے کہ بلوم برگ پر سارے بڑے بڑے ممالک کی نظریں اس پر ٹکی ہوں گی۔ آپس کی بات ہے نجانے یہ رسالہ ہے یا اخبار یا کتابچہ۔ پر جو بھی ہے، کام کی چیز ہے۔ تب ہی تو آئی ایم ایف نے اپنا شماریاتی زائچہ۔۔۔۔ یعنی حساب کتاب ان کے حوالے کردیا۔
اچھا اس تمام بحث سے یہ مراد ہرگز نہ لی جائے کہ گویا ہم تو بہت ہی اچھے ہیں۔ ہمارے ہاں تو اتنی خوش حالی ہے کہ وہ ہمارے درختوں پر جھولے جھولتی ہے۔ ہائے سارے درخت بھی کٹوا دیے اور جو بچے تھے وہ سیلاب میں اکھڑ گئے، لو کرلو بات! قدرتی نعمتوں کی ناشکری کی تھی نا۔ بھگتنا تو پڑے گا۔
ویسے ہمارے تو ہر گھر میں ڈیم نما ٹینک تو ہوتے ہی ہیں جو ٹینکر والے کے منتظر ہوتے ہیں، جن کے دام مزید بڑھ گئے اور سیلاب کے متاثرین۔۔۔ ان کے لیے دعائیں۔ باقی ہماری خدمت کرنے والی فلاحی انجمنوں کو سلام۔ بات پھر آئی ایم ایف کی جانب خودبخود بڑھ جاتی ہے، ذرا جو ان کو خدا کا خوف ہو۔ پہلے کورونا پھر یہ سیلاب۔ حد ہوتی ہے زیادتی کی، اب اگر ہمارے پاس (وہ والے) پیسوں کا گلک نہیں ہے، عوام کے لیے تو آپ ہی بتائیں ہم کیا کریں۔ ہماری بلا سے بھارت پانچویں نمبر پر آئے، چاہے صفر نمبر پر۔ بھئی! آپ بتائیے! ''کٹی کہ دوستی؟''
بلوم برگ نے یہ نتیجہ دشمنِ جاں آئی ایم ایف کے ڈیٹا کی بنیاد پر نکالا ہے۔ ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ ہماری آئی ایم ایف سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے لیکن خدا گواہ ہے کہ جب جب ہمارے ملک پر کہیں سے بھی کوئی مسئلہ، مصیبت یا عذاب نازل ہوتا ہے تو اس سے نجات کے لیے آئی ایم ایف کو دہائیاں دی جاتی ہیں کہ اب ہمارے محلے کا گٹر بند پڑا ہے، جس کی وجہ سے محلے میں گندے پانی کی یلغار ہے۔
اس کے تعفن سے جینا حرام ہے اور تو اور مچھروں نے ناک میں دم کر رکھا ہے لہٰذا آپ یعنی آئی ایم ایف اس گٹر کو کھلوانے اور مچھروں سے خلاصی کے لیے ایک فنڈ مختص کر دیجیے کیونکہ آپ تو فنڈز کے خزانے رکھتے ہی ہیں اور آپ اتنے امیر بھی ہیں تو سرکار! آپ کے پاس دولت کی کمی نہیں، آپ کا کیا جائے گا، ہمارے پاس فنڈ ہی آئے گا، تو آنے دیں تاکہ ہم اس فنڈ کو اپنی صلاحیتوں سے بروئے کار لاتے ہوئے اسے ایسے احسن طریقے سے استعمال کریں کہ۔۔۔۔۔پہلے دیں پھر بتائیں گے۔
مجال ہے جو آئی ایم ایف نے ہمیں کبھی پیار بھری نظروں سے دیکھا ہو،کبھی پیار سے بات کی ہو،کبھی مسکرا کر ملے ہو، نجانے کیوں ہم جیسے معقول ہی ان کی نظروں میں کھٹکتے ہیں اور سچی بات تو یہ ہے کہ بھارت کو جس طرح سے دکھایا جا رہا ہے، پیش کیا جا رہا ہے اس میں بھی سارا کمال اس آئی ایم ایف کا ہی لگتا ہے۔
ویسے ہماری اپنی انفارمیشن تو بڑی کچی ہے، لیکن آخر انھوں نے آئی ایم ایف کو آخر کون سی ایسی پھکی کھلا دی ہے کہ اب ان کے خزانوں کے ڈیٹا کے یعنی حساب کتاب سے یہ خبر آشکار ہوئی۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ بھارتی بینکوں کی خیر خبر رکھنے والی آنٹی نے صاف بتایا تھا کہ بھائی لوگو! کورونا کے بعد ہمارے بینکوں کی حالت اچھی نہیں ہے۔ بینکوں میں جتنے بھی بنیے حضرات نے اپنا مال رکھوایا تھا یا تو ان کی جانب سے کارستانی تھی یا کچھ اور، پر معیشت کے بارے میں وہ پیلی یا اورنج ساڑھی والی آنٹی بڑی سی پریس کانفرنس میں کھول کھول کر بتا رہی تھیں۔
ایک اور دلچسپ خبر یہ بھی سنی گئی ہے کہ 2047 تک بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اپنے ملک کو ترقی یافتہ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے بھی تشویش تو ابھرے گی کہ آخر انھوں نے اپنا وہ والا مال چھپانے کے لیے کون سے خفیہ گلک کا استعمال کیا ہے۔
ویسے کپڑوں اور جوتوں پر تو وہ پیسے زیادہ خرچ کرتے نہیں، ایک سفید پائجامہ پر ڈھیروں دن رنگ برنگے کرتے استعمال کرلیتے ہوں گے اور تو اور شیو کا خرچہ بھی بچ گیا اب تو۔کھاتے بھی دال اور سبزی ہیں، پھر یہ پیسے کہاں خرچ کرتے ہیں؟ اتنی ساری رقم کی بچت تو ہو جاتی ہے، یہ سوال اہم ہے۔ بچے ان کے ہیں نہیں، بیوی کو پہلے ہی فارغ کرچکے تھے۔ پھر بھی بات تو تشویش ناک ہے کہ اب یہ پیسے (وہ والے) جاتے کہاں ہیں۔
ستمبر 2013کے ایک مضمون کے مطابق سو کروڑ آبادی والا بھارت خود کو معاشی طاقت بنانے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بھی ایک اہم ملک کے طور پر منوانے میں کامیاب رہا ہے۔
اس مضمون میں لکھنے والے نے ذرا دوسری طرح کی زبان بھی استعمال کی تھی جس سے بچ بچا کر ہی کام کرنا ہے۔ مقصد یہ کہ بھارت کو چوہدری بننے کا شوق پیدائشی ہے یا یوں کہہ لیں کہ جیسے ہی انگریزوں نے غلامی کا طوق اتارا تو انھیں صاحب بننے کا شوق پیدا ہو گیا، اور یہ شوق بڑھتا ہی چلا گیا اور اب ستمبر 2022 میں چوہدری صاحب بننے کی خبر بھی ہم نے سن لی۔
خبر تو کچھ عرصہ قبلہ افغانستان سے بھی سنی گئی تھی جب امریکی ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمتیں دیکھ کر دوسرے طریقے سے اس کی قیمت اس طرح گرائی کہ۔۔۔
نریندر مودی ہر حال میں اپنے مقاصد میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں، ٹھیک ہے ابھی تک تو وہ کامیاب جا رہے ہیں لیکن اندرونی طور پر جن مسائل میں انڈیا گھرا ہے اس سے معیشت کا پانچویں نمبر پر آنا یا جانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ مودی صاحب دراصل اندرونی اور بیرونی کھیل رہے ہیں اور سننے میں آیا ہے کہ بھارت میں سیاسی میدان میں حریف پارٹیاں جس طرح ان کے لیے ایشوز پیدا کر رہی ہیں اس کا حل انھیں بیرونی کھیل سے نظر آیا۔
بات پھر اپنے دشمن جاں آئی ایم ایف پر آتی دکھائی دیتی ہے۔ ارے بھیا! کیا دکھا دیا گیا ہے رسالے والوں کو کہ جسے پڑھ کر سب باتیں بنانے لگے۔ اب یا تو افغانستان والا دوسرا طریقہ ہو سکتا ہے ورنہ مودی جی کے (وہ والے) پیسوں کا گلک(پیسے جمع کرنے والا گلہ)۔۔۔۔ کہیں تو خرچ ہوتا ہی ہوگا۔
الزام لگانا ہمارا شیوہ نہیں ہے ، لیکن جب ننھے منے نیوز چینلز والے (بھارتی) اپنے گلی محلے میں آ کر معصوم لوگوں کو پاکستان مخالفت کے بیان دلوا کر بغلیں بجا سکتے ہیں تو ذرا سوچیے کہ بلوم برگ پر سارے بڑے بڑے ممالک کی نظریں اس پر ٹکی ہوں گی۔ آپس کی بات ہے نجانے یہ رسالہ ہے یا اخبار یا کتابچہ۔ پر جو بھی ہے، کام کی چیز ہے۔ تب ہی تو آئی ایم ایف نے اپنا شماریاتی زائچہ۔۔۔۔ یعنی حساب کتاب ان کے حوالے کردیا۔
اچھا اس تمام بحث سے یہ مراد ہرگز نہ لی جائے کہ گویا ہم تو بہت ہی اچھے ہیں۔ ہمارے ہاں تو اتنی خوش حالی ہے کہ وہ ہمارے درختوں پر جھولے جھولتی ہے۔ ہائے سارے درخت بھی کٹوا دیے اور جو بچے تھے وہ سیلاب میں اکھڑ گئے، لو کرلو بات! قدرتی نعمتوں کی ناشکری کی تھی نا۔ بھگتنا تو پڑے گا۔
ویسے ہمارے تو ہر گھر میں ڈیم نما ٹینک تو ہوتے ہی ہیں جو ٹینکر والے کے منتظر ہوتے ہیں، جن کے دام مزید بڑھ گئے اور سیلاب کے متاثرین۔۔۔ ان کے لیے دعائیں۔ باقی ہماری خدمت کرنے والی فلاحی انجمنوں کو سلام۔ بات پھر آئی ایم ایف کی جانب خودبخود بڑھ جاتی ہے، ذرا جو ان کو خدا کا خوف ہو۔ پہلے کورونا پھر یہ سیلاب۔ حد ہوتی ہے زیادتی کی، اب اگر ہمارے پاس (وہ والے) پیسوں کا گلک نہیں ہے، عوام کے لیے تو آپ ہی بتائیں ہم کیا کریں۔ ہماری بلا سے بھارت پانچویں نمبر پر آئے، چاہے صفر نمبر پر۔ بھئی! آپ بتائیے! ''کٹی کہ دوستی؟''