سیاسی چاہت کا سفر

meemsheenkhay@gmail.com

6 ستمبر 1965 کے تاریخی دن کی مناسبت سے پاک فضائیہ کی دستاویزی فلم دکھائی گئی جو اپنی مثال آپ تھی۔ یہ دن ہمیں 1965 کے ان عظیم غازیوں اور شہدا کی یاد دلاتا ہے جنھوں نے عزم و استقلال سے دشمن کے مذموم عزائم کو خاک میں ملایا تھا۔

1965 کی پاک بھارت جنگ میں افواج پاکستان نے جس جرأت اور شجاعت کا مظاہرہ کیا، اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی مگر سابق وزیر اعظم نواز شریف نے 6 ستمبر کی چھٹی ختم کردی، معصوم نونہال اور نوجوان نسل اس دن کی اہمیت کو بھولتے جا رہے ہیں ، جب چھٹی ہوتی تھی تو ٹی وی سے فوج کے کارناموں پر تفصیلی پروگرام آن ایئر ہوتے تھے۔

ایک اہم دن تھا اس قوم کے لیے اس کی چھٹی منسوخ کردی گئی، جو خدمات افواج پاکستان نے پیش کیں انھیں یاد رکھنے کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف6 ستمبر کی چھٹی کو بحال کریں تاکہ نوجوان نسل اس دن کی اہمیت کو محسوس کرے۔پاکستان میں اب دو ادارے قوم کی بہتری کے لیے کام کر رہے ہیں، ہماری افواج پاکستان اور عدالتیں باقی اداروں کے لیے تفصیل میں جانا بے کار ہے کہ قوم کو احساس ہے کیا گلوکار امانت علی کے اس گیت کو بھول سکتے ہیں:

میری سرحد پر پہرہ ہے ایمان کا

میرے شہروں پر سایہ ہے قرآن کا

نسیم بیگم کے اس گیت کو کیسے بھول سکتے ہیں جس گیت کے بعد سابق صدر پاکستان ایوب خان مرحوم نے نسیم بیگم کو ایوان صدر بلالیا تھا اور ایوان صدر کے گیٹ پر ان کا خصوصی استقبال کرتے ہوئے کہا تھا بہن! آپ کے گیت نے میرے جوانوں اور افسروں کے حوصلے بلند کردیے۔ گیت کے بول تھے:

اے راہ حق کے شہیدو ! وفا کی تصویروں

تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں

آئیے! اب ان حالات کی طرف چلتے ہیں جن میں روتے دھوتے ہم زندگی گزار رہے ہیں۔ بقول گلوکار ناہید اختر کے گیت کے حوالے سے کہ:

زندہ رہیں تو کیا ہے جو مرجائیں ہم تو کیا

دنیا سے خاموشی سے چلے جائیں ہم تو کیا


قوم اب سیاسی بیانات کے تحت زندہ ہے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں جو بے چارے غیر تعلیم یافتہ ہیں وہ اس کو سچائی کی سیڑھی سمجھ رہے ہیں، جو تعلیم یافتہ ہے وہ ان بیانات کو سننے کے بعد صبر کا ماتم کر رہے ہیں مگر تعلیم یافتہ تو اپنی زندگی کی بہتری کے لیے الیکشن میں بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرتے ہیں مگر جو غیر تعلیم یافتہ ہیں وہ ان چکنی چپڑی باتوں میں آ کر غلط فیصلہ کرتے ہیں جس کا خمیازہ قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔

ہمارے سیاسی فیصلوں نے اس لیے تعلیم کو عام نہیں ہونے دیا، کیوں کہ انھیں پتا ہے کہ اگر اس قوم کو شعور آگیا تو ہم زیرو ہو جائیں گے، وہ تو بھلا ہو اس انٹرنیٹ کا کہ اس نے سارے کس بل نکال دیے اور جو ذہنوں میں خاکہ تھا غیر تعلیم یافتہ ہونے کا وہ بغیر تعلیم کے مکمل ہوا۔ آج سے 18 سال پہلے جب کوئی وزیر اپنے حلقے میں جاتا تھا تو غریب لوگ ایک جھلک دیکھنا تبرک سمجھتے تھے اب تو وہ زمانہ گیا۔

حلقے میں جانے والے ایم این اے اور وزیروں کے ساتھ قوم کیا سلوک کر رہی ہے، یہ سب آپ انٹرنیٹ پر دیکھ رہے ہیں، قوم اب شعور کی دہلیز پر کھڑی ہوگئی ہے ، مگر یہ سیاسی لوگ غلط فہمی کی بنا پر آج بھی 1985 کے دور سے گزر رہے ہیں، یہ سمجھ رہے ہیں کہ قوم اب بھی ہماری چاہت کے ستارے گننے میں مصروف ہے، ماضی میں ہمارے بزرگ ہمیں سمجھایا کرتے تھے کہ '' بیٹا! جو کرنا ہے جلدی کر لو ، کیونکہ گزرا وقت واپس نہیں آتا '' ہم مسکرا کر ان کی بات کو ٹال دیا کرتے تھے، اب ہم نے سنجیدگی کی دہلیز پر قدم رکھ دیا ہے، تو اب ان بزرگوں کو یاد کرتے ہیں ، مگر وہ اب دوسری دنیا میں جاچکے ہیں۔

اب ہم رہ گئے ہیں، تو نوجوان نسل کو اپنے بزرگوں کا پیغام دے رہے ہیں۔ گزرا وقت واپس آجاتا ہے ہمارے بزرگ تو ڈانٹ کر ہمیں پیغام دیا کرتے تھے، ہم نوجوان نسل کو بڑی محبت سے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ گزرا وقت واپس آگیا ہے، جو سیاست کے سمندر میں منہ زور کشتیوں کے تحت آیا ہے، بجلی 6 سے 7 گھنٹوں کے لیے اکثر غائب ہوتی ہے، جنھیں احساس ہونا چاہیے۔

ان کی بجلی نہیں جاتی، اب معاملہ ہے قوم کا تو گزرا وقت واپس آگیا ہے غریب تو UPS نہیں لگوا سکتا، خیر کوئی بات نہیں، لالٹین اب غریب جلا کر مردہ دل کو ہلکا سا روشن کرلیتے ہیں، پنکھوں کی جگہ ہاتھ کے پنکھوں نے لے لی ہے، اب آپ کو ہر گھر میں پنکھا ملے گا کیونکہ جوان UPS چار گھنٹے کے بعد بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ کر آپ کو مایوس کر دیتا ہے، پھر تو ہاتھ کا پنکھا ہے ناں، پٹرول اتنا مہنگا ہو چکا ہے کہ پہلے لوگ گھر سے سبزی لینے گاڑی میں یا موٹر سائیکل پر جایا کرتے تھے، آپ یقین کریں کہ بیشتر لوگوں نے سائیکل خرید لی ہے اب وہ اس پر ہوا خوری کے ساتھ گھر کا سامان لے کر آتے ہیں۔

اب قارئین! آپ گواہی دیں کہ گزرا وقت کس عزت و تکریم کے ساتھ واپس آیا ہے ، پاکستانی سیاست زندہ باد! ہم جیسے ناتواں اور غریب صحافی کو پیغام دیا جاتا ہے کہ قیاس آرائیوں سے گریز کریں، ارے جناب! ہم تو خاموشی کا تالا قلم پر ڈال کر ہر بات سے گریز کرتے ہیں۔ یہ بات دوسری ہے کہ سندھ میں آٹا غریب کی دسترس سے دور ہو گیا ہے اس پر توجہ دی جائے ایسا نہ ہو کہ کوئی غریب مہنگے آٹے کی وجہ سے صدمے میں آ کر دنیا کو ہی ٹاٹا نہ کر دے۔

وقت ہے کہ بدلنے کا نام ہی نہیں لے رہا، حالات جوں کے توں ہیں، مسائل بھاری پتھروں کی طرح ذہنوں میں جم کے رہ گئے ہیں، سیاست کے مینار میں ہر بڑا سیاسی اپنا قد اونچا کرنے میں لگا ہوا ہے، ایک دوسرے کے لیے گھٹیا زبانیں استعمال کی جا رہی ہیں، مسائل کو سیاسی بیانات میں حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اگر کوئی لیڈر کسی ادارے کے حوالے سے بیان دیتا ہے تو دوسری پارٹی کے لوگ ماضی کی وڈیو انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کردیتے ہیں کہ انھوں نے یہ کہا تھا، یہ غلط روایت ہے۔

اس کا سدباب ہونا چاہیے۔ نہ جانے سیاست کس نہج پر جا رہی ہے کوئی پرسان حال نہیں۔ تعلیم یافتہ طبقہ اور تعلیم یافتہ نوجوان ان حوالوں سے بے زار ہو چکے ہیں، ذہن میں ایک گوشہ ابھر رہا ہے وہ بتا دیتا ہے کہ اچھی سیاست اب اختتام کی طرف گامزن ہے۔

ارے جناب! پرانے وقتوں میں رواج ہوتا تھا کہ بیگمات شوہر سے لڑ کر یا ناراض ہو کر میکے چلی جاتی تھیں، اب تو اس گندی سیاست کے ناتے اچھی قدریں ایک ایک کرکے سب ختم ہو گئی ہیں۔ بیگمات بھی گھر کی زینت ہوتی ہیں مگر وہ بھی اب کسی نہ کسی سیاسی پارٹی سے وابستہ ہیں۔

آپ بحیثیت شوہرکے لاکھ سمجھا لیں کہ گھر پر توجہ دو ، چھوڑ دو ان باتوں کو، مگر مجال ہے کہ سر پر کوئی جوں رینگتی ہو۔ اس کی وجہ ہے کہ سیاسی جوئیں سب کے سروں میں مقیم ہو چکی ہیں اور مجال ہے کہ اس ہٹ دھرمی کا خاتمہ کیا جاسکے۔ سیاسی چاہت کا سفر تو یہ ہے کہ قوم کو قربانی کا درس دیا جاتا ہے، جب تک کابینہ اپنی مراعات میں کمی نہیں کرے گی، قوم قربانی کے درس پر کبھی عمل نہیں کرے گی۔

کیونکہ قدم تو پہلے اپنی دہلیز سے اٹھائیں، یہ مفلوک الحال اور بے سرو ساماں قوم خاموش ہے مگر یہ ہو سکتا ہے کہ الیکشن کے نتائج بہت کچھ بدل سکتے ہیں، اس کا احساس ابھی ہمارے سیاست دانوں کو نہیں ہے کہ آنیوالے الیکشن میں یہ وزیر اور ایم این اے ایم پی اے اپنے حلقے میں کس طرح عوام کو متوجہ کر پائیں گے؟ ہماری سیاست اب بھی ماضی کے اندھیروں میں زندہ ہے، یہ سیاسی چاہت کا سفر نہیں ہے، آنیوالا وقت بہت بڑا امتحان ہوگا۔
Load Next Story