لاڑکانہ واقعہ ہندو مسلم فساد کی سازش
لاڑکانہ میں ہندو مسلم فسادات کی مذموم سازش کرکے ایک دوسرا بڑا وار کیا گیا۔
تھر میں خشک سالی اور قحط کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال کو استعمال کرتے ہوئے بعض قوتوں نے سندھ حکومت پر ایک بہت بڑا وار کیا ، جس سے بچنا بہت مشکل تھا لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت کے تدبر اور بہتر حکمت عملی سے سندھ حکومت اس وار سے تو بچ گئی لیکن اس کے ساتھ ہی لاڑکانہ میں ہندو مسلم فسادات کی مذموم سازش کرکے ایک دوسرا بڑا وار کیا گیا ۔
سندھ حکومت نے اس سازش سے نمٹنے کے لیے بھی بروقت اقدامات کئے ہیں لیکن اس سازش کے تانے بانے بہت دور تک جا ملتے ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ سندھ حکومت حالات کو کس طرح کنٹرول کرتی ہے۔ سندھ حکومت تھر کی صورت حال کے باعث ایک بڑے بحران کا شکار ہو گئی تھی ۔ صرف تھر ہی نہیں بلکہ چولستان سمیت پاکستان کے صحرائی علاقوں میں ہر دو تین سال بعد ایسی صورت حال پیدا ہوتی ہے لیکن اس مرتبہ تھر کی صورت حال پر سندھ حکومت کو توقع کے برعکس اپنے خلاف ایک بڑی مہم کا سامنا کرنا پڑا ۔ وزیراعلیٰ سندھ نے مٹھی اسپتال کے ایم ایس اور میرپورخاص کے ڈائریکٹر ہیلتھ کے خلاف کرمنل کیس درج کرنے کی ہدایت کی ۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کمشنر میرپورخاص غلام مصطفیٰ پھل، ڈپٹی کمشنر مٹھی مخدوم عقیل الزمان اور ایس پی مٹھی سمیت کئی افسروں کا تبادلہ کردیا ۔ میڈیا میں یہ بھی خبریں چلیں کہ صوبائی وزیر ریونیو اینڈ ریلیف مخدوم جمیل الزمان سے ریلیف کا قلمدان واپس لے لیا گیا ہے ۔ بعض حلقوں کی جانب سے یہ بھی خبریں چلوائی گئیں کہ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو بھی ہٹایا جا سکتا ہے ۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر وائس چیئرمین مخدوم محمد امین فہیم اور وزیراعلیٰ سندھ کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی بھی کوششیں کی گئیں لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت نے بھانپ لیا کہ کچھ بیرونی اور اندرونی قوتیں سندھ کو سیاسی بحران میں مبتلا کرنا چاہتی ہیں اور سندھ کے سیاسی بحران سے پورے ملک میں بحران پیدا کیا جا سکتا ہے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے بڑائی کا مظاہرہ کیا اور وہ مخدوم امین فہیم کے پاس چلے گئے ۔ دونوں رہنماؤں نے ملاقات کے بعد صحافیوں سے جو بات چیت کی ، اس سے سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کے اندر محاذ آرائی کے بارے میں ہونے والی قیاس آرائیاں دم توڑ گئیں اور پیپلز پارٹی کی قیادت خصوصاً چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے تدبر سے سندھ حکومت کو سنبھلنے کا موقع مل گیا ۔ بلاول بھٹو زرداری نے خود تھر میں ریلیف کے کاموں پر توجہ مرکوز رکھی۔
اب سندھ حکومت تھر میں امدادی کارروائیوں پر بھرپور توجہ دے رہی ہے لیکن ہفتہ 15 مارچ کو لاڑکانہ میں ایسی صورت حال پیدا کردی گئی ، جس کے بارے میں کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا ۔ ایک موبائل فون کی ویڈیو نے لوگوں میں اشتعال پیدا کردیا ۔ اس ویڈیو میں یہ دکھایا گیا کہ ایک شخص قرآن پاک کے اوراق کی بے حرمتی کر رہا ہے۔ اس شخص کے بارے میں یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ نشے کا عادی ہے۔ حکومت سندھ اس بات کی تحقیق کر رہی ہے کہ نشے کے اس عادی شخص کو کس نے اس کام پر اکسایا اور ویڈیو بنا کر منصوبہ بندی کے تحت لوگوں میں کس نے تقسیم کی ۔ ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد مشتعل افراد نے مذکورہ شخص کے گھر پر دھاوا بول دیا ، جس کا تعلق ہندو برادری سے بتایا جاتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس شخص اور اس کے اہل خانہ کو نکال کر لے گئے ۔ مشتعل افراد نے دھرم شالا اور مندر پر حملہ کردیا اور یہ غم و غصہ پورے ملک میں پھیل گیا ۔ دوسرے دن یعنی اتوار 16 مارچ کو ہولی کا تہوار تھا ۔ منصوبہ بندی کرنے والے نے اس دن کا انتخاب کیا اور لاڑکانہ کو ہی اپنی سازش کا مرکز بنایا کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری اقلیتوں اور دیگر مظلوم طبقات کے حقوق کے لیے باتیں کرتے ہیں ۔ بلاول بھٹو زرداری ، میڈیا ، سول سوسائٹی اور سیاسی و قوم پرست جماعتوں نے اس آگ کو بجھانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن یہ بھی سندھ حکومت پر ایک بڑا وار تھا ۔
بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر حکومت سندھ نے صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے بروقت اقدامات کیے اور پیپلز پارٹی کے رہنما اس حوالے سے فوراً سرگرم ہو گئے ۔ بلاول بھٹو زرداری نے تمام رہنماؤںکو ہندو برادری کے ساتھ ہولی کی تقریبات میں شرکت کی بھی ہدایت کی تاکہ اقلیتی برداری خود کو محفوظ سمجھے ، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کا یہ کہنا درست ہے کہ جس شخص نے گستاخی کا ارتکاب کیا ہے ، اسے قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے ۔ پوری ہندو برادری کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا بلاجواز ہے ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اور سندھ حکومت اس صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہے ۔ امید ہے کہ حالات قابو میں آجائیں گے لیکن لاڑکانہ کے واقعے سے لگتا ہے کہ سندھ میں مزید حالات خراب کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا ہے، جب حکومت سندھ تھر میں امدادی کارروائیوں میں مصروف ہے اور تھر میں زیادہ تر آبادی ہندو برادری کی ہے ۔ حکومت سندھ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نہ صرف لاڑکانہ کے واقعہ کی تہہ تک پہنچنا چاہیے بلکہ شرپسند عناصر پر بھی کڑی نظر رکھنی چاہیے ۔
گورنر سندھ اور بعض ایم کیو ایم کے رہنما گزشتہ ہفتے اچانک دبئی روانہ ہو گئے ، یہ لگ رہا تھا کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان کچھ معاملات طے ہونے جا رہے ہیں ۔ سابق صدر آصف علی زرداری سے دبئی میں ملاقات کے دوران گورنر کے ساتھ ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ندیم نصرت بھی موجود تھے ۔ اس بات کی قوی امید کی جا رہی ہے کہ ایم کیو ایم سندھ حکومت میں شامل ہو سکتی ہے یا سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ کے بارے میں کوئی اہم فیصلے ہو سکتے ہیں لیکن سابق وزیر داخلہ اور پیپلز پارٹی کے رہنما رحمان ملک کا کہنا ہے کہ دبئی میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے درمیان ملاقاتوں کا مقصد سندھ حکومت یا وزیر اعلیٰ سندھ کو تبدیل کرنا نہیں ہے ۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی قربت سے سندھ خصوصاً کراچی کی صورت حال پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور وفاقی حکومت اس قربت پر کیا رد عمل ظاہر کرتی ہے ۔ دوسری طرف ایاز لطیف پلیجو نے کراچی کے علاقے لیاری میں جاری گینگ وار کے خاتمے کے لیے جو کوششیں کی ہیں ، ان کے بھی لیاری سمیت پورے کراچی کی امن وامان کی صورت حال پر مثبت اثرات پڑ سکتے ہیں ۔ ایاز لطیف پلیجو نے عزیر بلوچ اور بابا لاڈلہ گروپوں کے درمیان صلح کرا دی ہے اور دونوں گروپوں نے نہ صرف لڑائی بند کرنے کا اعلان کیا ہے بلکہ اس عزم کا بھی اظہار کیا ہے کہ لیاری میں بدامنی نہیں ہونے دیں گے ۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو یہ لیاری سمیت کراچی کے عوام کے لیے خوش آئند بات ہو گی لیکن خدشہ یہ ہے کہ لیاری کو اس نہج تک پہنچانے والی قوتیں کیونکر آرام سے بیٹھ جائیں گی ۔ ان قوتوں کی سازشوں کو بھی ناکام بنانا ہو گا ۔
سندھ حکومت نے اس سازش سے نمٹنے کے لیے بھی بروقت اقدامات کئے ہیں لیکن اس سازش کے تانے بانے بہت دور تک جا ملتے ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ سندھ حکومت حالات کو کس طرح کنٹرول کرتی ہے۔ سندھ حکومت تھر کی صورت حال کے باعث ایک بڑے بحران کا شکار ہو گئی تھی ۔ صرف تھر ہی نہیں بلکہ چولستان سمیت پاکستان کے صحرائی علاقوں میں ہر دو تین سال بعد ایسی صورت حال پیدا ہوتی ہے لیکن اس مرتبہ تھر کی صورت حال پر سندھ حکومت کو توقع کے برعکس اپنے خلاف ایک بڑی مہم کا سامنا کرنا پڑا ۔ وزیراعلیٰ سندھ نے مٹھی اسپتال کے ایم ایس اور میرپورخاص کے ڈائریکٹر ہیلتھ کے خلاف کرمنل کیس درج کرنے کی ہدایت کی ۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کمشنر میرپورخاص غلام مصطفیٰ پھل، ڈپٹی کمشنر مٹھی مخدوم عقیل الزمان اور ایس پی مٹھی سمیت کئی افسروں کا تبادلہ کردیا ۔ میڈیا میں یہ بھی خبریں چلیں کہ صوبائی وزیر ریونیو اینڈ ریلیف مخدوم جمیل الزمان سے ریلیف کا قلمدان واپس لے لیا گیا ہے ۔ بعض حلقوں کی جانب سے یہ بھی خبریں چلوائی گئیں کہ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو بھی ہٹایا جا سکتا ہے ۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر وائس چیئرمین مخدوم محمد امین فہیم اور وزیراعلیٰ سندھ کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی بھی کوششیں کی گئیں لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت نے بھانپ لیا کہ کچھ بیرونی اور اندرونی قوتیں سندھ کو سیاسی بحران میں مبتلا کرنا چاہتی ہیں اور سندھ کے سیاسی بحران سے پورے ملک میں بحران پیدا کیا جا سکتا ہے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے بڑائی کا مظاہرہ کیا اور وہ مخدوم امین فہیم کے پاس چلے گئے ۔ دونوں رہنماؤں نے ملاقات کے بعد صحافیوں سے جو بات چیت کی ، اس سے سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کے اندر محاذ آرائی کے بارے میں ہونے والی قیاس آرائیاں دم توڑ گئیں اور پیپلز پارٹی کی قیادت خصوصاً چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے تدبر سے سندھ حکومت کو سنبھلنے کا موقع مل گیا ۔ بلاول بھٹو زرداری نے خود تھر میں ریلیف کے کاموں پر توجہ مرکوز رکھی۔
اب سندھ حکومت تھر میں امدادی کارروائیوں پر بھرپور توجہ دے رہی ہے لیکن ہفتہ 15 مارچ کو لاڑکانہ میں ایسی صورت حال پیدا کردی گئی ، جس کے بارے میں کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا ۔ ایک موبائل فون کی ویڈیو نے لوگوں میں اشتعال پیدا کردیا ۔ اس ویڈیو میں یہ دکھایا گیا کہ ایک شخص قرآن پاک کے اوراق کی بے حرمتی کر رہا ہے۔ اس شخص کے بارے میں یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ نشے کا عادی ہے۔ حکومت سندھ اس بات کی تحقیق کر رہی ہے کہ نشے کے اس عادی شخص کو کس نے اس کام پر اکسایا اور ویڈیو بنا کر منصوبہ بندی کے تحت لوگوں میں کس نے تقسیم کی ۔ ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد مشتعل افراد نے مذکورہ شخص کے گھر پر دھاوا بول دیا ، جس کا تعلق ہندو برادری سے بتایا جاتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس شخص اور اس کے اہل خانہ کو نکال کر لے گئے ۔ مشتعل افراد نے دھرم شالا اور مندر پر حملہ کردیا اور یہ غم و غصہ پورے ملک میں پھیل گیا ۔ دوسرے دن یعنی اتوار 16 مارچ کو ہولی کا تہوار تھا ۔ منصوبہ بندی کرنے والے نے اس دن کا انتخاب کیا اور لاڑکانہ کو ہی اپنی سازش کا مرکز بنایا کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری اقلیتوں اور دیگر مظلوم طبقات کے حقوق کے لیے باتیں کرتے ہیں ۔ بلاول بھٹو زرداری ، میڈیا ، سول سوسائٹی اور سیاسی و قوم پرست جماعتوں نے اس آگ کو بجھانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن یہ بھی سندھ حکومت پر ایک بڑا وار تھا ۔
بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر حکومت سندھ نے صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے بروقت اقدامات کیے اور پیپلز پارٹی کے رہنما اس حوالے سے فوراً سرگرم ہو گئے ۔ بلاول بھٹو زرداری نے تمام رہنماؤںکو ہندو برادری کے ساتھ ہولی کی تقریبات میں شرکت کی بھی ہدایت کی تاکہ اقلیتی برداری خود کو محفوظ سمجھے ، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کا یہ کہنا درست ہے کہ جس شخص نے گستاخی کا ارتکاب کیا ہے ، اسے قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے ۔ پوری ہندو برادری کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا بلاجواز ہے ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اور سندھ حکومت اس صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہے ۔ امید ہے کہ حالات قابو میں آجائیں گے لیکن لاڑکانہ کے واقعے سے لگتا ہے کہ سندھ میں مزید حالات خراب کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا ہے، جب حکومت سندھ تھر میں امدادی کارروائیوں میں مصروف ہے اور تھر میں زیادہ تر آبادی ہندو برادری کی ہے ۔ حکومت سندھ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نہ صرف لاڑکانہ کے واقعہ کی تہہ تک پہنچنا چاہیے بلکہ شرپسند عناصر پر بھی کڑی نظر رکھنی چاہیے ۔
گورنر سندھ اور بعض ایم کیو ایم کے رہنما گزشتہ ہفتے اچانک دبئی روانہ ہو گئے ، یہ لگ رہا تھا کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان کچھ معاملات طے ہونے جا رہے ہیں ۔ سابق صدر آصف علی زرداری سے دبئی میں ملاقات کے دوران گورنر کے ساتھ ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ندیم نصرت بھی موجود تھے ۔ اس بات کی قوی امید کی جا رہی ہے کہ ایم کیو ایم سندھ حکومت میں شامل ہو سکتی ہے یا سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ کے بارے میں کوئی اہم فیصلے ہو سکتے ہیں لیکن سابق وزیر داخلہ اور پیپلز پارٹی کے رہنما رحمان ملک کا کہنا ہے کہ دبئی میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے درمیان ملاقاتوں کا مقصد سندھ حکومت یا وزیر اعلیٰ سندھ کو تبدیل کرنا نہیں ہے ۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی قربت سے سندھ خصوصاً کراچی کی صورت حال پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور وفاقی حکومت اس قربت پر کیا رد عمل ظاہر کرتی ہے ۔ دوسری طرف ایاز لطیف پلیجو نے کراچی کے علاقے لیاری میں جاری گینگ وار کے خاتمے کے لیے جو کوششیں کی ہیں ، ان کے بھی لیاری سمیت پورے کراچی کی امن وامان کی صورت حال پر مثبت اثرات پڑ سکتے ہیں ۔ ایاز لطیف پلیجو نے عزیر بلوچ اور بابا لاڈلہ گروپوں کے درمیان صلح کرا دی ہے اور دونوں گروپوں نے نہ صرف لڑائی بند کرنے کا اعلان کیا ہے بلکہ اس عزم کا بھی اظہار کیا ہے کہ لیاری میں بدامنی نہیں ہونے دیں گے ۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو یہ لیاری سمیت کراچی کے عوام کے لیے خوش آئند بات ہو گی لیکن خدشہ یہ ہے کہ لیاری کو اس نہج تک پہنچانے والی قوتیں کیونکر آرام سے بیٹھ جائیں گی ۔ ان قوتوں کی سازشوں کو بھی ناکام بنانا ہو گا ۔