حکومت طالبان مذاکرات کا عمل سست روی سے جاری
مرکزی حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل سست رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔
مرکزی حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل سست رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے، بظاہر تو یہ لگ رہا تھا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے مذاکراتی عمل بیوروکریٹس کو سونپنے کے بعد اس معاملہ میں تیزی آئے گی کیونکہ کمیٹی میں شامل تین سینئر بیوروکریٹس جن میں سے دو حاضر سروس ہیں اور ایک ریٹائر،تینوں قبائلی علاقوں اور وہاں کی عوام کے ساتھ ڈیلنگ کا تجربہ رکھتے ہیں۔
تاہم مذاکراتی عمل اب تک حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ براہ راست شروع کرنے کے حوالے سے جگہ کے تعین اور طالبان کی جانب سے ایک مرتبہ پھر ان کی خواتین اور بچوں کی سکیورٹی اداروں کی تحویل سے رہائی کے مطالبہ تک محدود ہے حالانکہ جہاں تک اس مطالبہ کا تعلق ہے تو یہ مطالبہ پہلی مرتبہ سامنے نہیں آیا بلکہ اس سے قبل بھی یہ بات کی گئی تھی جس کے جواب میں سکیورٹی اداروں نے واضح کردیا تھا کہ ان کی تحویل میں عسکریت پسندوں کی خواتین یا بچے نہیں ہیں اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی ہے تو ان کے نام مہیا کیے جائیں تاکہ جانچ پڑتال کی جا سکے اور اب شنید ہے کہ ایسی کوئی فہرست حکومت کے حوالے کی بھی جا رہی ہے تاہم اس کا جواب آنے کے بعد ہی صورت حال واضح ہوگی اور جہاں تک مذاکرات کے لیے جگہ کے تعین کا معاملہ ہے تو اگر طالبان رہنما مذاکرات کے لیے بندوبستی علاقے نہ بھی آنا چاہیں تو یہ کام قبائلی یا نیم قبائلی علاقوں میں بخوبی ہو سکتا ہے اور جب براہ راست مذاکرات کا عمل شروع ہوگا تو تبھی معاملات آگے بڑھیں گے کیونکہ اب تک طالبان اور حکومت نے اپنے مطالبات واضح انداز میں ایک دوسرے کے سامنے نہیں رکھے۔
مذاکرات کی رفتار جیسی بھی ہو تاہم یہ آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں البتہ اس سارے عمل میںجمعیت علماء اسلام(ف)کہیں بھی نظر نہیں آرہی جس کی وجہ سے جمعیت علماء اسلام کی صفوں میں مایوسی بڑھتی ہوئی نظر آرہی ہے کیونکہ ایک جانب تو مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے قبائلی جرگہ کے استعمال کی کھلی پیشکش کے باوجود وہ یا ان کی پارٹی اس عمل میں حکومت کی جانب سے شامل نہیں کی گئی ۔ دوسری جانب مسلم لیگ(ن) نے تحریک انصاف کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھالی ہیں جس کے ساتھ جے یو آئی کی مخالفت اور مخاصمت عام انتخابات کے دوران انتہاؤں کو چھو رہی تھی اور اب بھی اس کے اثرات باقی ہیں تاہم اسی تحریک انصاف کے رستم شاہ مہمند کو پہلے مرکزی حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے حکومتی رابطہ کار کمیٹی کا حصہ بنایا اور وہ بھی تحریک انصاف سے مشاورت کے بعد اور اب جبکہ حکومت نے نئی کمیٹی تشکیل دی ہے تو اس میں بھی رستم شاہ مہمند موجود ہیں جبکہ عمران خان کے ساتھ وزیراعظم کی ان کی رہائش گاہ پر ملاقات تو اس سے بھی ایک قدم آگے کا اقدام ہے اور پھر مرکز نے نہ صرف یہ کہ جے یو آئی کو مذاکراتی عمل سے باہر کرتے ہوئے تحریک انصاف کو سینے سے لگایا ہوا ہے بلکہ ساتھ ہی جے یو آئی سے تعلق رکھنے والے دونوں وزراء اکرم خان درانی اور مولانا عبدالغفور حیدری کو حلف اٹھائے مہینہ سے بھی زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن اب تک انھیں محکمے الاٹ نہیں کیے گئے جس کے باعث جے یو آئی نے مدارس کے خلاف کاروائی کے نام پر حکومت کے خلاف میدان میں آنے کا اعلان کیا ہوا ہے تو دوسری جانب جے یو آئی کے اندر سے مولانا فضل الرحمٰن پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ اپنے دونوں وزراء کو وفاقی کابینہ سے مستعفی کرالیں تاکہ جے یو آئی گناہ بے لذت کی کیفیت سے آزاد ہو سکے اوراگر مرکزی حکومت کا جے یو آئی کے ساتھ یہی سلوک جاری رہا تو ممکنہ طور پر جلد ہی جے یو آئی مرکزی حکومت سے الگ ہونے کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جائے گی ۔
مرکز اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے جو بھی معاملات جاری ہیں ان میں تحریک انصاف پوری طرح شامل ہے اور ہر قدم پر تحریک انصاف کے ساتھ بالواسطہ یا بلاواسطہ طریقہ سے مشاورت کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے تحریک انصاف اس انجانے خوف سے آزاد ہوگئی ہے جو اسے خیبرپختونخوا حکومت کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے لاحق تھا جس کے بارے میں اور کسی نے نہیں بلکہ خود مسلم لیگ(ن) سے تعلق رکھنے والے سردار مہتاب احمد خان نے ایک سے زائد مرتبہ اسمبلی میں ذکر کیا جس کی وجہ سے اس بات کو ہوا مل رہی تھی تاہم اب جبکہ مسلم لیگ (ن) قیام امن کے حوالے سے تحریک انصاف کو ساتھ رکھناچاہتی ہے تو اس سے ظاہر ہوگیا ہے کہ کم ازکم مرکز ،خیبرپختونخوا میں کوئی ایڈونچر کرنے نہیں جا رہاجس کے باعث عمران خان نے اپنی پارٹی کی طرف رخ موڑا ہے اور کارکردگی کی بنیاد پر جزاوسزا کا عمل شروع کردیا ہے ، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے حوالے سے جس غلط فہمی کا شکار قومی وطن پارٹی ہوئی تھی خود ان کی اپنی پارٹی اور حکومتی ٹیم کے ارکان بھی اسی غلط فہمی میں مارے گئے ہیں۔
قومی وطن پارٹی بھی عمران خان کو روایتی سیاستدان کے طور پر دیکھ رہی تھی اور ان کا خیال تھاکہ ان کی پارٹی کے وزراء کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ لینے سے قبل عمرا ن خان ان کے ساتھ رابطہ کرتے ہوئے معاملات کو ٹریک پر لانے کے لیے کہیں گے تاہم عمران خان کی جانب سے ڈائریکٹ ایکشن کیا گیا اور اب یہی صورت حال ان کی اپنی پارٹی کے اندر بھی ہے جہاں وہ تحریک انصاف کے ایجنڈے اور اپنے مستقبل پر کوئی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے یہی وجہ ہے کہ کابینہ میں ردوبدل ہو رہی ہے کیونکہ عمران خان مسقبل کی ممکنہ وزارت عظمیٰ کو کسی وزیر ،مشیر ،معاون خصوصی یا رکن اسمبلی کی خاطر قربان نہیں کریں گے اسی لیے انہوں نے کابینہ میں ردوبدل کرتے ہوئے پوری پارٹی کو ویک اپ کال دے دی ہے کہ جو توقعات پر پورا نہیں اترے گا اس کے لیے پی ٹی آئی کی صفوں میں کوئی جگہ نہیں۔
یہ بڑی واضح حقیقت ہے کہ عمران خان جو اس وقت ساٹھ سال کی عمر سے اوپر ہیں وہ آئندہ الیکشن تک اپنی عمر کی چھٹی دہائی کا نصف بھی پورا کر چکے ہوں گے اور اگر آئندہ الیکشن کے نتیجے میں بھی وہ وزارت عظمیٰ کے عہدہ تک نہ پہنچ سکے تو پھر ستر سال کی عمر میں ایسا ہونا تقریباً ناممکن ہو جائے گا ۔ آئندہ عام انتخابات کی صورت حال یہ ہے کہ وہ خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی ہی کو لے کر میدان میں اتریں گے اس لیے وہ اس حوالے سے کوئی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی کسی کو چھوٹ دینے کے موڈ میں ہیں۔ تاہم تحریک انصاف کے اندرونی حالات کو بہرکیف انھیں سنبھالنا ہوگا کیونکہ پی ٹی آئی کے اندر اس وقت کئی لابیاں کام کر رہی ہیں اور ہر گروپ اپنے ، اپنے طور پر ''مطلوبہ منزل'' پر پہنچنے کے لیے کوشاں نظر آرہا ہے جس کا فائدہ اپوزیشن جماعتیں اٹھانے کی کوشش کر رہی ہیں ، یقینی طور پر ان میں سے بہت سے معاملات اور اندرونی کہانیوں سے عمران خان باخبر نہیں ہوں گے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کہانیوں کے تانے بانے مزید مضبوط طریقہ سے بنے جا رہے ہیں اور حکومتی ٹیم کے جن ارکان کے محکموں میں ردوبدل ہو رہی ہے وہ بھی اب ان کہانیوں کو مزید ہوا دینے کا فریضہ انجام دیں گے تاہم اس حوالے سے یہ بات بھی بڑی واضح ہے کہ اگر تحریک انصاف کی صفیں درست نہ ہوئیں تو عمران خان جیسے غیر روایتی سیاستدان سے یہ بھی بعید نہیں کہ وہ خود ہی اپنی حکومت کا خاتمہ کرتے ہوئے سب کی چھٹی کرا دیں جس کا نقصان سب کو ہی ہوگا۔
کیونکہ یہ بات بالکل حقیقت ہے کہ مئی 2013 ء کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر جن لوگوں نے کامیابی حاصل کی ہے وہ کامیابی دراصل ان کی اپنی نہیں بلکہ عمران خان ،تحریک انصاف اور بلے کی تھی اوراگر اس صورت حال میں ان لوگوں کو دوبارہ الیکشن کے لیے میدان میں جانا پڑے کہ ان پر خود ان کی پارٹی کی جانب سے نااہلی کے الزامات بھی ہوں اور نااتفاقی کے بھی تو اس کا ممکنہ نتیجہ یہی نکلے گا کہ شاید تحریک انصاف تو پھر بھی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے تاہم جو لوگ اس کے ٹکٹ پر کامیاب ہوکر آئے تھے ان کی کامیابی یقینی نہیں ہوگی ، کابینہ میں ردوبدل کے بعد مزید کسی بڑے فیصلے سے قبل پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو ان لوگوں پر بھی نظر رکھنا ہوگی جو درمیان میں دیواریں حائل کرتے ہوئے بہت سے حقائق کو ان سے پوشیدہ رکھے ہوئے ہیں اور ان اتحادیوں کی طرف بھی توجہ دینا ہوگی جن کے اچھے کام تو عمران خان کو نظر آرہے ہیں تاہم جن طریقوں سے وہ ڈرائیونگ سیٹ پر پی ٹی آئی کے ہونے کے باوجود اپنی پوزیشن مضبوط کر رہے ہیں وہ بھی کپتان کی نظروں سے پوشیدہ نہ رہیں۔
تاہم مذاکراتی عمل اب تک حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ براہ راست شروع کرنے کے حوالے سے جگہ کے تعین اور طالبان کی جانب سے ایک مرتبہ پھر ان کی خواتین اور بچوں کی سکیورٹی اداروں کی تحویل سے رہائی کے مطالبہ تک محدود ہے حالانکہ جہاں تک اس مطالبہ کا تعلق ہے تو یہ مطالبہ پہلی مرتبہ سامنے نہیں آیا بلکہ اس سے قبل بھی یہ بات کی گئی تھی جس کے جواب میں سکیورٹی اداروں نے واضح کردیا تھا کہ ان کی تحویل میں عسکریت پسندوں کی خواتین یا بچے نہیں ہیں اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی ہے تو ان کے نام مہیا کیے جائیں تاکہ جانچ پڑتال کی جا سکے اور اب شنید ہے کہ ایسی کوئی فہرست حکومت کے حوالے کی بھی جا رہی ہے تاہم اس کا جواب آنے کے بعد ہی صورت حال واضح ہوگی اور جہاں تک مذاکرات کے لیے جگہ کے تعین کا معاملہ ہے تو اگر طالبان رہنما مذاکرات کے لیے بندوبستی علاقے نہ بھی آنا چاہیں تو یہ کام قبائلی یا نیم قبائلی علاقوں میں بخوبی ہو سکتا ہے اور جب براہ راست مذاکرات کا عمل شروع ہوگا تو تبھی معاملات آگے بڑھیں گے کیونکہ اب تک طالبان اور حکومت نے اپنے مطالبات واضح انداز میں ایک دوسرے کے سامنے نہیں رکھے۔
مذاکرات کی رفتار جیسی بھی ہو تاہم یہ آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں البتہ اس سارے عمل میںجمعیت علماء اسلام(ف)کہیں بھی نظر نہیں آرہی جس کی وجہ سے جمعیت علماء اسلام کی صفوں میں مایوسی بڑھتی ہوئی نظر آرہی ہے کیونکہ ایک جانب تو مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے قبائلی جرگہ کے استعمال کی کھلی پیشکش کے باوجود وہ یا ان کی پارٹی اس عمل میں حکومت کی جانب سے شامل نہیں کی گئی ۔ دوسری جانب مسلم لیگ(ن) نے تحریک انصاف کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھالی ہیں جس کے ساتھ جے یو آئی کی مخالفت اور مخاصمت عام انتخابات کے دوران انتہاؤں کو چھو رہی تھی اور اب بھی اس کے اثرات باقی ہیں تاہم اسی تحریک انصاف کے رستم شاہ مہمند کو پہلے مرکزی حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے حکومتی رابطہ کار کمیٹی کا حصہ بنایا اور وہ بھی تحریک انصاف سے مشاورت کے بعد اور اب جبکہ حکومت نے نئی کمیٹی تشکیل دی ہے تو اس میں بھی رستم شاہ مہمند موجود ہیں جبکہ عمران خان کے ساتھ وزیراعظم کی ان کی رہائش گاہ پر ملاقات تو اس سے بھی ایک قدم آگے کا اقدام ہے اور پھر مرکز نے نہ صرف یہ کہ جے یو آئی کو مذاکراتی عمل سے باہر کرتے ہوئے تحریک انصاف کو سینے سے لگایا ہوا ہے بلکہ ساتھ ہی جے یو آئی سے تعلق رکھنے والے دونوں وزراء اکرم خان درانی اور مولانا عبدالغفور حیدری کو حلف اٹھائے مہینہ سے بھی زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن اب تک انھیں محکمے الاٹ نہیں کیے گئے جس کے باعث جے یو آئی نے مدارس کے خلاف کاروائی کے نام پر حکومت کے خلاف میدان میں آنے کا اعلان کیا ہوا ہے تو دوسری جانب جے یو آئی کے اندر سے مولانا فضل الرحمٰن پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ اپنے دونوں وزراء کو وفاقی کابینہ سے مستعفی کرالیں تاکہ جے یو آئی گناہ بے لذت کی کیفیت سے آزاد ہو سکے اوراگر مرکزی حکومت کا جے یو آئی کے ساتھ یہی سلوک جاری رہا تو ممکنہ طور پر جلد ہی جے یو آئی مرکزی حکومت سے الگ ہونے کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جائے گی ۔
مرکز اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے جو بھی معاملات جاری ہیں ان میں تحریک انصاف پوری طرح شامل ہے اور ہر قدم پر تحریک انصاف کے ساتھ بالواسطہ یا بلاواسطہ طریقہ سے مشاورت کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے تحریک انصاف اس انجانے خوف سے آزاد ہوگئی ہے جو اسے خیبرپختونخوا حکومت کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے لاحق تھا جس کے بارے میں اور کسی نے نہیں بلکہ خود مسلم لیگ(ن) سے تعلق رکھنے والے سردار مہتاب احمد خان نے ایک سے زائد مرتبہ اسمبلی میں ذکر کیا جس کی وجہ سے اس بات کو ہوا مل رہی تھی تاہم اب جبکہ مسلم لیگ (ن) قیام امن کے حوالے سے تحریک انصاف کو ساتھ رکھناچاہتی ہے تو اس سے ظاہر ہوگیا ہے کہ کم ازکم مرکز ،خیبرپختونخوا میں کوئی ایڈونچر کرنے نہیں جا رہاجس کے باعث عمران خان نے اپنی پارٹی کی طرف رخ موڑا ہے اور کارکردگی کی بنیاد پر جزاوسزا کا عمل شروع کردیا ہے ، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے حوالے سے جس غلط فہمی کا شکار قومی وطن پارٹی ہوئی تھی خود ان کی اپنی پارٹی اور حکومتی ٹیم کے ارکان بھی اسی غلط فہمی میں مارے گئے ہیں۔
قومی وطن پارٹی بھی عمران خان کو روایتی سیاستدان کے طور پر دیکھ رہی تھی اور ان کا خیال تھاکہ ان کی پارٹی کے وزراء کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ لینے سے قبل عمرا ن خان ان کے ساتھ رابطہ کرتے ہوئے معاملات کو ٹریک پر لانے کے لیے کہیں گے تاہم عمران خان کی جانب سے ڈائریکٹ ایکشن کیا گیا اور اب یہی صورت حال ان کی اپنی پارٹی کے اندر بھی ہے جہاں وہ تحریک انصاف کے ایجنڈے اور اپنے مستقبل پر کوئی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے یہی وجہ ہے کہ کابینہ میں ردوبدل ہو رہی ہے کیونکہ عمران خان مسقبل کی ممکنہ وزارت عظمیٰ کو کسی وزیر ،مشیر ،معاون خصوصی یا رکن اسمبلی کی خاطر قربان نہیں کریں گے اسی لیے انہوں نے کابینہ میں ردوبدل کرتے ہوئے پوری پارٹی کو ویک اپ کال دے دی ہے کہ جو توقعات پر پورا نہیں اترے گا اس کے لیے پی ٹی آئی کی صفوں میں کوئی جگہ نہیں۔
یہ بڑی واضح حقیقت ہے کہ عمران خان جو اس وقت ساٹھ سال کی عمر سے اوپر ہیں وہ آئندہ الیکشن تک اپنی عمر کی چھٹی دہائی کا نصف بھی پورا کر چکے ہوں گے اور اگر آئندہ الیکشن کے نتیجے میں بھی وہ وزارت عظمیٰ کے عہدہ تک نہ پہنچ سکے تو پھر ستر سال کی عمر میں ایسا ہونا تقریباً ناممکن ہو جائے گا ۔ آئندہ عام انتخابات کی صورت حال یہ ہے کہ وہ خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی ہی کو لے کر میدان میں اتریں گے اس لیے وہ اس حوالے سے کوئی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی کسی کو چھوٹ دینے کے موڈ میں ہیں۔ تاہم تحریک انصاف کے اندرونی حالات کو بہرکیف انھیں سنبھالنا ہوگا کیونکہ پی ٹی آئی کے اندر اس وقت کئی لابیاں کام کر رہی ہیں اور ہر گروپ اپنے ، اپنے طور پر ''مطلوبہ منزل'' پر پہنچنے کے لیے کوشاں نظر آرہا ہے جس کا فائدہ اپوزیشن جماعتیں اٹھانے کی کوشش کر رہی ہیں ، یقینی طور پر ان میں سے بہت سے معاملات اور اندرونی کہانیوں سے عمران خان باخبر نہیں ہوں گے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کہانیوں کے تانے بانے مزید مضبوط طریقہ سے بنے جا رہے ہیں اور حکومتی ٹیم کے جن ارکان کے محکموں میں ردوبدل ہو رہی ہے وہ بھی اب ان کہانیوں کو مزید ہوا دینے کا فریضہ انجام دیں گے تاہم اس حوالے سے یہ بات بھی بڑی واضح ہے کہ اگر تحریک انصاف کی صفیں درست نہ ہوئیں تو عمران خان جیسے غیر روایتی سیاستدان سے یہ بھی بعید نہیں کہ وہ خود ہی اپنی حکومت کا خاتمہ کرتے ہوئے سب کی چھٹی کرا دیں جس کا نقصان سب کو ہی ہوگا۔
کیونکہ یہ بات بالکل حقیقت ہے کہ مئی 2013 ء کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر جن لوگوں نے کامیابی حاصل کی ہے وہ کامیابی دراصل ان کی اپنی نہیں بلکہ عمران خان ،تحریک انصاف اور بلے کی تھی اوراگر اس صورت حال میں ان لوگوں کو دوبارہ الیکشن کے لیے میدان میں جانا پڑے کہ ان پر خود ان کی پارٹی کی جانب سے نااہلی کے الزامات بھی ہوں اور نااتفاقی کے بھی تو اس کا ممکنہ نتیجہ یہی نکلے گا کہ شاید تحریک انصاف تو پھر بھی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے تاہم جو لوگ اس کے ٹکٹ پر کامیاب ہوکر آئے تھے ان کی کامیابی یقینی نہیں ہوگی ، کابینہ میں ردوبدل کے بعد مزید کسی بڑے فیصلے سے قبل پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو ان لوگوں پر بھی نظر رکھنا ہوگی جو درمیان میں دیواریں حائل کرتے ہوئے بہت سے حقائق کو ان سے پوشیدہ رکھے ہوئے ہیں اور ان اتحادیوں کی طرف بھی توجہ دینا ہوگی جن کے اچھے کام تو عمران خان کو نظر آرہے ہیں تاہم جن طریقوں سے وہ ڈرائیونگ سیٹ پر پی ٹی آئی کے ہونے کے باوجود اپنی پوزیشن مضبوط کر رہے ہیں وہ بھی کپتان کی نظروں سے پوشیدہ نہ رہیں۔