کاریوں کا قبرستان

ہم ’’کاریوں کا قبرستان‘‘ نہیں بلکہ ’’مزاحمتی عورتوں کی آخری آرام گاہ‘‘ دیکھنے گئے تھے


Mahnaz Rehman March 18, 2014

8 مارچ کو تپتی ہوئی ریت پر، کانٹے دار جھاڑیوں سے بچتے بچاتے کراچی اور حیدر آباد کی عورتوں کا ایک گروپ شہداد کوٹ کی روبینہ کی رہنمائی میں مٹی کی ان ڈھیریوں کی طرف جا رہا تھا جو دراصل ان عورتوں کی قبریں تھیں جنھیں ان کے گھر اور گاؤں کے مردوں نے ''کاری'' قرار دے کر قتل کر دیا تھا۔ ان عورتوں کو مرنے کے بعد بھی بخشا نہیں جاتا، انھیں کفن نہیں پہنایا جاتا اور نہ ہی انھیں عام قبرستان میں دفن کیا جاتا ہے بلکہ قتل کے وقت پہنے ہوئے کپڑوں میں ہی کسی ویران جگہ پر ان پر مٹی ڈال کے ان کی قبر بنا دی جاتی ہے، نہ ہی کبھی کوئی ان پر فاتحہ پڑھنے جاتا ہے، نہ پھول چڑھانے اور نہ چراغ جلانے لیکن اس مرتبہ خواتین محاذ محفل سے تعلق رکھنے والی کراچی اور حیدر آباد کی اٹھارہ بیس خواتین نے طے کیا تھا کہ وہ عورتوں کے عالمی دن کے موقعے پر ان قبروں پر حاضری دیں گی، ان پر پھول چڑھائیں گی اور انھیں خراج عقیدت پیش کریں گی کیونکہ یہ عورتیں ''کاری'' نہیں بلکہ ''مزاحمتی'' عورتیں تھیں جنھوں نے معاشرے کے فرسودہ رسوم و رواج سے بغاوت کر کے اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق مانگا تھا۔

ہم ''کاریوں کا قبرستان'' نہیں بلکہ ''مزاحمتی عورتوں کی آخری آرام گاہ'' دیکھنے گئے تھے جہاں سوائے چار پانچ مٹی کی ڈھیریوں کے باقی قبروں کے نام و نشاں مٹ چکے تھے صرف ایک قبر پختہ نظر آئی، روبینہ نے بتایا کہ اس لڑکی کی ماں نے اس کی قبر کو پختہ کروایا تھا اور اس جرم میں ماں کو بھی قتل کر دیا گیا تھا، پاس ہی واقع کچی قبر ماں کی تھی۔ تب ہی ایک عجیب سی بات ہوئی، اس چلچلاتی دوپہر میں اچانک ہمارے سر پر بادل آ گیا اور ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہمیں چُھو کر گزر گیا۔ شاید مظلوم ماں بیٹی کی روحیں ہمارا خیرمقدم کر رہی تھیں۔ ہم نے ان قبروں پر پھول چڑھائے۔ عطیہ داؤد نے آنسو بہاتے ہوئے اپنی نظم ''کاری'' پڑھی ان مزاحمتی عورتوں کی آخری آرام گاہ میں کچھ وقت گزار کے ہم شہداد کوٹ روانہ ہوئے جہاں پر بھات نامی تنظیم کے عالمی یوم خواتین کے حوالے سے ہونیوالے پروگرام میں دو سو سے زائد عورتیں ہمارا انتظار کر رہی تھیں۔ ہم سب کو دعوت خطاب دی گئی۔ خوش آیند بات یہ تھی کہ مقررین اور شرکا میں مرد حضرات بھی شامل تھے جو بڑے جذبے کے ساتھ عورتوں کے حقوق کی حمایت کر رہے تھے اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے۔

دوپہر کا کھانا جو منتظمین اپنے گھروں سے بنوا کر ہمارے لیے لائے تھے خاص طور پر چاول کی روٹی اور ذائقے دار پلہ مچھلی کھا کے ہم خیرپور روانہ ہوئے جہاں شاہ لطیف یونیورسٹی میں وائس چانسلر پروین شاہ اور بھٹائی ویلفیئر کے خادم میرانی نے عالم یوم خواتین کے موقعے پر ایک شاندار پروگرام میں ہمیں مدعو کیا تھا۔ ہمارے قیام کا انتظام یونیورسٹی کے گیسٹ ہاؤس میں کیا گیا تھا۔ اگلے روز ہم نے سکھر میں سادھو بیلا کا مندر دیکھا اور سہ پہر میں سکھر پریس کلب میں اپنے دورے کے حوالے سے ایک پریس کانفرنس کر کے کراچی کے لیے روانہ ہو گئے۔ کراچی کی ایکٹیوسٹ خواتین ہر سال عالمی یوم خواتین کراچی میں ہی منایا کرتی ہیں لیکن امسال 2014میں ہم نے یہ دن اندرون سندھ جا کے منانے کا فیصلہ کیا، سب سے زیادہ تحریک ہمیں کاریوں کے قبرستان کو دیکھنے کے خیال سے ملی۔ یہ خیال ہمیں اس وقت آیا جب ویمنز ایکشن فورم کراچی چیپٹر کی ارکان یکم اور دو فروری کو حیدرآباد چیپٹر کے کنونشن میں شرکت کرنے گئیں۔ یہ دو روزہ پروگرام انتہائی ولولہ انگیز تھا۔ جس میں لاہور سے نگہت سعید خاں نے بطور مبصر شرکت کی۔

کراچی چیپٹر کی سینئر ارکان نے حیدر آباد چیپٹر کی نوجوان ارکان کی سرگرمیوں کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا، دونوں چیپٹرز کی کوشش ہے کہ عورتوں کی تحریک کو پورے سندھ میں پھیلایا جائے۔ عالمی یوم خواتین اندرون سندھ جا کے منانے کا مقصد بھی یہی تھا۔ یہاں ہم آپ کو یہ بتاتے چلیں کہ خواتین محاذ عمل یا ویمنز ایکشن فورم کوئی این جی او نہیں ہے اور نہ ہی یہ کسی سے فنڈنگ لیتا ہے۔ اس کی ابتدا 1981 میں ضیا الحق کے دور میں اس وقت ہوئی جب فہمیدہ اللہ بخش کو کوڑوں کی سزا سنائی گئی تو شرکت گاہ کے دفتر میں چند خواتین جمع ہوئیں اور اس طرح کے اقدامات کے خلاف احتجاج کے لیے خواتین محاذ عمل تشکیل دیا۔ 12 فروری 1983 کو لاہور میں مال روڈ پر واف کی خواتین ضیا الحق کے بنائے ہوئے قانون شہادت کے خلاف اسمبلی میں جا کے عرضداشت جمع کرانے کے لیے اکٹھی ہوئیں۔ ان کے ساتھ عوامی شاعر حبیب جالبؔ بھی تھے۔ پولیس نے بے دردی سے ان سب پر لاٹھیاں برسائیں۔ حبیب جالبؔ کا سر پھٹ گیا۔ بہت سی خواتین زخمی ہوئیں اور بہت سی جیل پہنچ گئیں۔ اس واقعے کی بدولت ملکی اور غیر ملکی میڈیا کی توجہ ویمنز ایکشن فورم کی جانب مبذول ہو گئی اور سول سوسائٹی 12 فروری کو پاکستانی عورتوں کے دن کے طور منانے لگی۔

2010 میں اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے 12 فروری کو سرکاری طور پر پاکستانی عورتوں کا قومی دن قرار دیا اور یوں اس دن کو سرکاری طور پر بھی منایا جانے لگا۔ 1981 میں ویمنز ایکشن فورم کے قیام کے بعد سے پاکستان میں عورتوں کی تحریک کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ عورتوں کے خلاف ہونیوالے ظلم و زیادتی اور امتیازی قوانین اور رویوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند ہونے لگی۔ اس تحریک میں شامل خواتین نے بعد میں اپنی این جی اوز بھی بنائیں۔ شرکت گاہ تو پہلے سے بن چکی تھی۔ نگار احمد اور شہلا ضیا نے 1986 میں عورت فاؤنڈیشن بنائی۔ عاصمہ جہانگیر نے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان بنایا۔ حنا جیلانی ''دستک'' نامی ادارہ چلاتی ہیں جہاں مظلوم عورتوں کو پناہ دی جاتی ہے۔ نگہت سعید خاں نے ASR کے نام سے ایک تحقیقی و علمی ادارہ قائم کیا۔ نیلم حسن سیمرغ نامی ادارہ چلاتی ہیں۔ غرض یہ کہ عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنیوالے اداروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا مگر ویمنز ایکشن فورم نے اپنا تشخص برقرار رکھا۔ اس نے نہ کبھی کسی سے فنڈنگ لی اور نہ ہی کوئی نظام مراتب اپنایا بلکہ سارے فیصلے باہمی صلح و مشاورت سے کرنے کا طریقہ اختیار کیا۔

امسال کراچی کی اہم این جی اوز نے آرٹس کونسل کے تعاون سے عورتوں کے عالمی دن کے موقعے پر ایک پروگرام 7 مارچ کو منعقد کیا جس میں شیما کرمانی کی پرفارمنس بھی شامل تھی۔ انیس ہارون کے ابتدائی کلمات کے بعد شام 4بجے ویمنز ایکشن فورم کی ارکان آرٹس کونسل سے سیدھے خیرپور کے لیے نکل کھڑی ہوئیں۔ وفد کی آدھی خواتین نے تاخیر ہو جانے کے باعث رات دادو کے ایک گیسٹ ہاؤس میں بسر کی جب کہ دوسرا گروپ جو پہلے نکل گیا تھا اس نے خیرپور یونیورسٹی کے گیسٹ ہاؤس میں رات گزاری۔ دوسری صبح دونوں گروپس شہداد کوٹ سے ہوتے ہوئے کاریوں کے قبرستان پہنچے اور ان مظلوم عورتوں کی قبروں پر پھول چڑھا کے اور اشک بہا کے عورتوں کا عالمی دن منایا اور یوں ویمنز ایکشن فورم کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |