ہمارے حکمران اور تاریخی روایت

جن لوگوں سے پاکستان کی ریاست اپنے ہی ملک میں دائمی امن کے قیام کے لیے باقاعدہ مذاکرات کر رہی ہے


Nusrat Javeed March 18, 2014
[email protected]

جن لوگوں سے پاکستان کی ریاست اپنے ہی ملک میں دائمی امن کے قیام کے لیے باقاعدہ مذاکرات کر رہی ہے، ان کا دعویٰ ہے کہ ''احرار الہند'' نامی تنظیم سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ حکومتی نمایندوں کے ساتھ حالیہ ملاقاتوں میں انھوں نے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ وہ اپنے طور پر اس تنظیم کا اتہ پتہ جاننے کی سنجیدگی سے کوششیں کریں گے۔ ریاستِ پاکستان کے لیے بقول چوہدری نثار علی خان 26 کے قریب ''ایجنسیاں'' کام کر رہی ہیں۔ ان میں سے ایک ایجنسی بھی اس تنظیم کے بارے میں ٹھوس معلومات سے باخبر نظر نہیں آتی۔ دو اہم، طاقتور اور باخبر فریقین کی ''احرار الہند'' کے بارے میں قطعی لاعلمی کے تناظر میں میرے جیسے عام رپورٹر اس تنظیم سے متعلق کوئی ایک بات بھی اعتماد سے بیان نہیں کر سکتے۔ ہم سب کی اجتماعی بے خبری ''تیسری قوت'' والے تاثر کو تقویت پہنچاتی ہے۔ ''تیسری قوت'' کا ذکر کرتے ہوئے زیادہ آسان کام پاکستان کے ''ازلی دشمن'' کو موردِ الزام ٹھہرانا ہے۔ اس کے ذکر سے اطمینان نہ آئے تو امریکا اور اسرائیل پر توجہ دینے میں بھی کوئی حرج نہیں جو ہمارے عوام کی اکثریت کی نظر میں عالم اسلام کے خلاف ہمہ وقت سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔ کبھی کبھار میرا دل یہ بھی چاہتا ہے کہ ایک لمحہ کو یہ سوچ لیا جائے کہ دُنیا کی ہر ریاست کی طرح اس ریاست کے خلاف نبرد آزما گروہوں میں بھی Hawks اور Doves ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ''احرار الہند'' ان لوگوں کی نمایندہ ہو جو حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے ہرگز آمادہ نہیں اور پے در پے کارروائیوں کے ذریعے انھیں سبوتاژ وغیرہ کرنے میں مصروف ہو۔

ٹھوس حقائق سے قطعی لاعلم ہونے کے باوجود مجھے ''احرار الہند'' کے نام نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا۔ اسی حوالے سے اتفاقاََ قرۃ العین حیدر کی تین جلدوں والی آپ بیتی ''کار جہاں دراز ہے'' کے ابتدائی ابواب کو پڑھتے ہوئے یاد آ گیا کہ انگریزوں کی ہمارے خطے میں آمد سے پہلے کئی سو برسوں تک مسلمان علماء ان دنوں کے وسط ایشیاء کے علاقوں سے اٹھے Adventurist جنگجوؤں کے ہمراہ براستہ افغانستان اس خطے میں تواتر سے چلے آیا کرتے تھے۔ وہ دلی پہنچ جاتے تو وہاں کے مسلمان حکمران انھیں باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ دور دراز علاقوں میں مساجد و مدارس قائم کرنے بھجوا دیتے۔ آلِ رسولؐ ہونے کے دعوے داروں کو قاضی مقرر کر دیا جاتا اور مقامی آبادی پر کنٹرول مستحکم ہوتا چلا جاتا۔

سوات کا ذکر تو ہمارے میڈیا میں 2009 کے آپریشن کے بعد شروع ہوا۔ مگر قرۃ العین حیدر کے اجداد میں سے ایک میر بندے علی نے 1850 میں ایک شادی بونیر سے آئے اس خاندان میں کی جو بونیر سے ان دنوں کے بھارتی یوپی میں آئے تھے۔ قرۃ العین نے یہ بھی لکھا ہے کہ بخارا، سمر قند، کابل اور سرحد سے آئے قاری ان دنوں کے مسلم نوابوں کو اپنی ماہرانہ اور سحر انگیز قرأت سے بہت متاثر کیا کرتے تھے۔ وہ ان کے علاقوں میں پہنچ جاتے تو ان کا بڑی گرم جوشی سے سواگت کیا جاتا اور پوری کوشش ہوتی کہ وہ اب اپنے وطن واپس نہ جائیں۔ ٹونک کی ریاست بھی بونیر سے آئے ایک جنگجو نے قائم کی تھی اور روہیل کھنڈ تو کئی صدیوں تک افغانستان سے آئے خاندان کے زیر تسلط رہا ہے۔ برصغیر میں جب انگریزوں نے بنگال وغیرہ پر قبضے کے بعد اودھ کی طرف پیش قدمی کا آغاز کیا تو پنجاب میں سکھوں نے عروج پکڑا۔ اس زمانے میں ہمیں سید احمد شہید کی چلائی تحریک کی صورت Reverse Migration کی ایک صورت اُبھرتی ہوئی محسوس ہوئی۔

Magnus Marsden اور Benjamin D Hopkins دو امریکی اور برطانوی محقق ہیں۔ انھوں نے 2011 میں Fragments of the Afghan Frontier کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ جس میں ''ماضی حال کی صورت میں رونما ہو رہا ہے'' کے عنوان سے ایک پورا باب سوات کے بارے میں لکھا گیا ہے۔ اس باب کا بنیادی مقصد اس بات پر اصرار کرنا تھا کہ سوات میں 1990 کی دہائی کے دوران تحریکِ نفاذِ شریعت محمدیؐ کا نمودار ہونا کوئی انوکھی اور اچانک بات نہ تھی۔ دونوں محققین نے بڑے ٹھوس حوالوں سے بلکہ اس بات پر اصرار کیا کہ اس تحریک کی جڑیں سید احمد شہید سے وابستہ ان لوگوں کی تنظیم سے جڑی ہوئی ہیں جو سکھوں کے خلاف جہاد لڑنے اس خطے میں آئے تھے۔ بالاکوٹ کی فیصلہ کن جنگ میں شکست کے بعد یہ لوگ خاموشی سے سوات اور بونیر کے درمیان واقع ''سیتانہ'' میں آباد ہو گئے۔ شمالی ہندوستان خاص طور پر بہار کے بہت سارے دیہات سے لوگ ان کے پاس آ کر رہنا شروع ہو جاتے۔ وہ خود کو مجاہدین پکارتے تھے مگر انگریزوں نے اس علاقے پر قبضے کے بعد انھیں "Hindustani Fanatics" کہنا شروع کر دیا۔ برطانوی جاسوس ان کی آبادی پر کڑی نگاہ رکھتے مگر ان کے ایک ''جنگی کیمپ'' والے ماحول کے بارے میں سب کچھ جانتے ہوئے بھی انگریزی سامراج نے ان کو اپنی حکومت کے لیے کبھی خطرناک نہ سمجھا۔ انھیں زیادہ سے زیادہ ''باغیانہ خیالات'' رکھنے والے بے زمین کسان ٹھہرایا گیا جو انگریزوں کی عملداری والے علاقوں سے ''ثقافتی (یعنی دینی) بنیادوں'' پر ہجرت کر کے اپنے ''اجداد'' کے علاقوں میں واپس آ کر آباد ہونے کی کوششیں کر رہے تھے۔ 1863 کے موسم گرما میں لیکن 9000 فوجیوں کے ساتھ برطانوی حکمرانوں کو ''ہندوستانی مجاہدین'' کے خلاف امبیلا آپریشن کرنا پڑا۔ اس آپریشن کے بعد بھی بنگال، بہار اور یوپی سے کئی مسلمان چپکے چپکے سوات اور بونیر آ کر آباد ہوتے رہے۔ 1895میں ان کی آبادی 580 افراد پر مشتمل پائی گئی۔

ان میں سے 300 کے قریب گھوڑوں اور بندوقوں کے ساتھ ہر وقت خود کو ''جہاد'' کے لیے تیار رکھتے تھے مگر پشاور میں بیٹھے کمشنر ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کو ہرگز تیار نہ ہوتے۔ پہلی جنگ عظیم کے دنوں میں لیکن ان افراد کو ''خطرناک'' قرار دے کر کسی کارروائی کے بارے میں سوچا گیا۔ خاص طور پر حاجی صاحب ترنگ زئی نے جب اسلام کے نام پر علم بغاوت بلند کرنے کی کوشش کی۔ راس کیپل 1915 میں پشاور کا کمشنر تھا۔ اس نے بڑی شدت کے ساتھ اپنے سینئرز کو سمجھانے کی کوشش کی کہ انھیں سوات و بونیر میں بسے ہندوستانی مجاہدین سے کوئی ''پنگا'' لینے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں۔ انھیں ان کے حال پر چھوڑ کر صرف ان پر کڑی نگاہ رکھی جائے۔ 1916 میں امیر نیامت اللہ ان مجاہدین کا رہنما تھا۔ انگریزی جاسوسوں نے پتہ چلایا کہ اسے بنگال،بہار اور پنجاب کے مسلمانوں کے علاوہ افغانستان حکومت کی جانب سے بھی برطانوی حکومت کے خلاف لڑنے کو تیار کرنے کے لیے رقومات فراہم کی جا رہی ہیں۔ بجائے اسے گرفتار کرنے کے انگریزی حکمرانوں نے پنجاب سے دو ''معزز اہل حدیث'' افراد مولوی برکت علی اور مولوی محمد علی کو نیامت اللہ سے مذاکرات کرنے بھیجا اور نہایت خاموشی کے ساتھ ایک ''امن معاہدہ'' طے پا گیا۔ اس معاہدے کے خلاف بھی ردعمل ہوا اور ان دنوں کے ''انتہاء پسند'' امیر نیامت سے کٹ کر سمرقند چلے گئے۔ وہاں جا بسے لوگوں میں سے ہی ایک نے بالآخر نیامت اللہ کو قتل کر دیا۔ اس قتل کے بعد مگر چمرقند میں مقیم ''انتہاء پسند'' ایک دوسرے کی جان کے درپے ہو گئے اور برطانوی حکومت نے بڑی ہوشیاری سے ان کے درمیان اختلافات کو ہوا دیتے ہوئے ان پر قابو پا لیا۔

سوات سے جڑی ''جہاد کہانیاں'' پڑھتے ہوئے میں ذرا سمجھ گیا ہوں کہ چوہدری نثار علی خان کی وساطت سے نواز شریف دراصل کیا چاہ رہے ہیں۔ کھل کر بات کرنے کا حوصلہ مجھ میں نہیں مگر اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ پوری توجہ اس امر پر دی جارہی ہے کہ آج کے ''مجاہدین'' چند مخصوص علاقوں تک محدود رہیں تو وفاقی حکومت اس کے ساتھ گزارہ کرنے کو بظاہر تیار نظر آتی ہے۔ مگر صدیوں پر پھیلی اس تاریخی روایت کا کیا ہوگا جو خود کو ایک خطے تک محدود رہنے کو تیار نہیں ہوا کرتی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں