ناکامی کی راکھ سے کامیابی

بروک نے کہا تھا شکست نہ کھانے والا ارادہ، پریشان نہ ہونے والا خیال اور ختم نہ ہونے والی جدوجہد یہ کامیابی کے ضامن ہیں


Aftab Ahmed Khanzada March 18, 2014

بروک نے کہا تھا شکست نہ کھانے والا ارادہ، پریشان نہ ہونے والا خیال اور ختم نہ ہونے والی جدوجہد یہ کامیابی کے ضامن ہیں۔ انگریز عالم آئن نیشن جاپان گئے انھوں نے وہاں گیارہ سال رہ کر جاپانی زبان سیکھی اور گہرائی کے ساتھ جاپانی قوم کا مطالعہ کیا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے مطالعے اور تحقیق کے نتائج کی روشنی میں 238 صفحات کی ایک کتاب لکھی جس کا نام ہے '' جاپان کی کہانی ۔'' اس میں مصنف لکھتے ہیں '' جاپانی قوم کی زندگی کو جس چیز نے سب سے زیادہ گہرائی کے ساتھ متاثر کیا وہ سیاست نہیں تھی بلکہ کانٹو کا عظیم زلزلہ تھا، یکم ستمبر 1923 کو زلزلے کے زبردست جھٹکوں نے مشرقی جاپان کو تہس نہس کر دیا جو کہ جاپان کا سب سے زیادہ آباد علاقہ تھا دوسرا انسانی ساخت کا زلزلہ 1945 میں جاپان کی شکست تھی جب کہ دو ایٹم بموں نے جاپان کے دو انتہائی بڑے شہروں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔ زلزلے سے اگر تعمیر نو کا ذہن پیدا ہو تو زلزلہ ایک نئی ترقی کا زینہ بن جاتا ہے اس کے بر عکس زلزلہ اگر صرف محرومی اور جھنجھلا ہٹ کا احساس پیدا کرے تو اس کے بطن سے سیاسی چیخؒ پکار وجود میں آتی ہے جو نتیجے کے اعتبار سے اتنی بے معنیٰ ہے کہ اس سے زیادہ بے معنیٰ کو ئی چیز نہیں۔ '' دوسری عالمی جنگ کی ابتدا میں امریکا براہ راست شامل نہ تھا تاہم ہتھیار اور سامان کے ذریعے اس کی مدد برطانیہ اور اس کے ساتھیوں کی طاقت کا ذریعہ بنی ہوتی تھی چنانچہ جاپان نے امریکا کے خلاف ایک خفیہ منصوبہ بنایا۔

اس نے 7 دسمبر1941 کو اچانک امریکا کے بحری اڈہ پرل ہاربر پر شدید حملہ کیا اور اس کو تبا ہ کر دیا تاہم امریکہ کی ہوائی طاقت بدستور محفو ظ رہی۔ یہ وہ وقت تھا جب کہ امریکا میں ایٹم بم کی پہلی کھیپ زیر تکمیل تھی چنانچہ اس کے مکمل ہوتے ہی امریکا نے جاپان سے مطالبہ کیا کہ وہ غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دے ورنہ اس کو برباد کر دیا جائے گا۔ جاپان کو امریکا کی جدید قوت کا اندازہ نہ تھا اس نے اس کو منظور نہیں کیا۔ چنانچہ 14 اگست 1945 کو امریکا نے جاپان کے دو بڑے صنعتی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا دیے، ایک لمحے میں جاپان کی فوجی طاقت تہس نہس ہوکر رہ گئی اور جاپان نے مجبور ہو کر ہتھیار ڈالنے کا اعلان کر دیا۔ اس کے فوراً بعد جنرل میکارتھر امریکی فوجوں کے ساتھ جاپان میں اتر گئے اور جاپان کے اوپر مکمل طور پر امریکا کا فوجی قبضہ ہو گیا ۔

جاپان اگرچہ فوجی اعتبار سے شکست کھا چکا تھا مگر جاپانیوں کا جنگی جنون بدستو ر قائم تھا جاپانیوں کا جنگی جنون اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ وہ اپنے جسم میں بم باندھ کر جہازوں کی چمنی میں کود جاتے تھے۔ ا ب جنرل میکارتھر کے سامنے یہ سوال تھا کہ اس جنگی جنون کا خاتمہ کس طرح کیا جائے۔ جنرل میکارتھر نے اس کا حل اس تدبیر میں تلاش کیا کہ جاپانیوں کے جذبے کو جنگ سے ہٹا کر معاشی سرگرمیوں کی طرف پھیر دیا جائے۔ امریکی مبصر اینتھو نی لیوس نے 1985 میں لکھا جب جاپان نے 40 سال پہلے ہتھیار ڈالے تو جنرل میکارتھر نے نہ صرف جاپان پر فوجی قبضہ کر لیا بلکہ اس کے ساتھ ان کی مہم یہ تھی کہ وہ ملک کی از سرنو تشکیل کر یں اگر اس وقت ان سے پو چھا جاتا کہ ان کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے تو میرا خیال ہے کہ وہ کہتے کہ جاپان کے جار ح عوام کے جو ش کو جنگ کے بجائے اقتصادی حوصلوں کی طرف موڑ دینا۔ '' اس وقت جاپان کے لیے ایک صورت یہ تھی کہ وہ اپنے جنگی جوش کو باقی رکھتا اگر کھلے طور پر میدان جنگ میں لڑنے کے مواقعے نہیں تھے تو وہ خفیہ طور پر امریکا کے خلاف اپنی مقابلہ آرائی کو جاری رکھتا مگر جاپان نے فاتح کی پیشکش کو قبول کرتے ہوئے فوراً اپنے عمل کا رخ بدل دیا۔

اس نے امریکا سے براہ راست ٹکرائو کو مکمل طور پر ختم کر دیا اور اپنی تمام قوتوں کو سائنس، تعلیم اور ٹیکنیکل ترقی کے راستے میں لگا دیا۔ جاپان کو اس عقل مندی نے اس کے لیے نیا عظیم ترامکان کھول دیا۔ جنگی میدان میں اقدام کے مواقعے نہ پا کر اس نے اقتصادی میدانوں میں اپنی جدوجہد شروع کر دی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صرف 30 سال میں جاپان نے پہلے سے زیادہ طاقتور حیثیت حاصل کر لی۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے ایک مبصر لکھتے ہیں یہ پر ل ہاربر کے واقعے کا بڑا عجیب اختتام ہے مگر تاریخ میں اس طرح سے راستہ نکال لینے کی بہت سے مثالیں ہیں اور پرل ہاربر ان میں سے ایک ہے ۔ 1945 میں امریکا نے جاپان کے اوپر فتح کی خو شی منائی تھی۔ آج 1945 کا مفتوح جاپان امریکا کے اوپر اپنی اقتصادی فتح کی خو شی منا رہا ہے امریکا آج سب سے بڑا قرض دار ملک ہے۔ اس کے برعکس جاپان نے دنیا کو 240 بلین ڈالر قرض دے رکھا ہے ۔1945 میں امریکا نے جنگ جیتی تھی مگر جاپان نے امن جیت لیا۔ ''نیوز ویک میں 12 اگست 1985میں ایک رپورٹ بعنوانJapan the 40 year Miracle چھپی اس میں1945میں جاپان کی مکمل بربادی کے چالیس سال بعد اس کی غیر معمولی ترقی کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے کہا گیا کہ جاپانی قوم افسانوی پرندہ کی طرح خود اپنی راکھ کے اندر سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

جاپان کو خود اپنے فاتح کے مقابلے میں کامیابی اس لیے حاصل ہوئی کہ اس نے اپنی ناکامی کا اعتراف کر لیا تھا، حقیقت کا اعتراف ہی اس دنیا میں کامیابی کا واحد راز ہے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان ایک درست سمت میں ہے اور وہ اپنی حکمت عملی، پالیسیوں اور نظریے کی وجہ سے روز بروز طاقتور سے طاقتور ہوتا جا رہا ہے۔ عوام آزاد، خو شحال ہو چکے ہیں ملک کے تمام ادارے مستحکم ہو چکے ہیں۔ پاکستان بنا نے کے تمام مقاصد ہم نے حاصل کر لیے ہیں تو پھر آپ اپنی موجود ہ پالیسیوں، حکمت عملی اور نظریہ پر قائم و دائم رہیں آپ کو نہ کوئی روکے گا اور نہ ہی کوئی ٹو کے گا لیکن اگر آپ ملک کے18 کروڑ عوام کی طرح یہ سوچتے ہیں کہ ہم اپنی موجودہ پالیسیوں، حکمت عملیوں، نظریے، خارجہ پالیسی، پڑوسیوں سے خراب تعلقات، اقتصادی پالیسیوں، عدم مساوات، عدم برداشت، اور دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کی وجہ سے مکمل ناکامی، تباہی اور بربادی سے دو چار ہو چکے ہیں۔ تو پھرآپ ملک کے 18 کروڑ عوام کی طرح صحیح سوچتے ہیں۔

میتیھو نے کہا تھا جب اندھے کی رہنمائی اندھا کر رہا ہو تو دونوں گڑھے میں گرتے ہیں اور ہمارے ساتھ بالکل ایسا ہی ہوا ہے۔ جب ہم اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ ہم گڑھے میں گر چکے ہیں تو ظاہر ہے ہم اس سے باہر نکلنے کی کوئی نہ کوئی صورت اور راستہ نکال لیں گے اور یہ ہی وہ وقت ہو گا جب ہمارے نئے سفر کا ناکامی سے کامیابی کی طرف آغاز ہو جائے گا۔ سائرس نے اس موقعے کے لیے یہ کہا تھا اگر آپ چاہتے ہیں کہ کسی بلند مقام تک پہنچا جائے تو پھر کہیں سے بھی سفر شروع کر دیں۔ سیڑھی پر چڑھنے کے لیے پہلے زینے پر قدم ضرور رکھنا پڑتا ہے ۔ آپ اپنا پہلا قدم اٹھا کر دیکھیں پھر کس طرح ہماری ناکامی کی راکھ سے کامیابی جنم لیتی ہے۔ بس ہمیں اپنا رخ تبدیل کرنا ہے اور عوام کے جوش کو اقتصادی حوصلوں کی طرف موڑ دینا ہے۔ دنیا میں تین قسم کے آدمی ہوتے ہیں ایک وہ جو سوچتے ہی رہتے ہیں اور کرتے کچھ بھی نہیں دوسرے وہ جو بلا سوچے سمجھے ہر طرف ہاتھ مارتے ہیں اور ہر طرف سے منہ کی کھاتے ہیں تیسر ے وہ جو سوچتے بھی اور کرتے بھی ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو مٹی کو سونا بنا لیتے ہیں۔ آئیں !ہم اپنے لیے اپنے پیاروں کے لیے آنے والوں کے لیے سوچیں اور کرتے بھی جائیں ۔ مایوسی کفر ہے صبح جتنی قریب ہو گی رات اتنی ہی تاریک ہو گی۔ نپو لین نے بالکل صحیح کہا تھا فتح ہمیشہ مستقل مزاج لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔ پاکستانیوں کو بس یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ مستقل مزاج ہیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں