صرف ’’شیر‘‘ ہمارا

ہماری بدبخت، دل سخت اور لخت لخت قسمت نے صرف چند ثانیے کے لیے آنکھ کھولی تھی


Saad Ulllah Jaan Baraq March 18, 2014
[email protected]

جب جناب امیر مقام کو اپنا مقام مل گیا تو ہمارے دل میں ایک لڈو پھوٹا پھر جب ایک فون کال پر آواز سنی کہ میں امیر مقام بول رہا ہوں تو دوسرا لڈو پھوٹا اور جب انھوں نے کہا کہ یہ میرا نمبر ہے جب بھی چاہو فون کر سکتے ہو،

مہربان ہو کے بلاؤ مجھے جب جی چاہے
میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں

تو لڈوؤں کی پوری ٹوکری دل میں پھوٹ پھوٹ کر پھٹ گئی، دل میں جو فوری خیال آیا کہ شاید ہماری کم بخت قسمت ایک ہی کروٹ لیٹے لیٹے تھک گئی تھی اور اب کروٹ بدلنے کے موڈ میں ہے، اس سے پہلے تو ہماری اس ناہنجار و جفا کار قسمت نے عادت سی بنا لی تھی کہ جب بھی ہمارا کوئی دوست رشتے دار کسی اونچی جگہ پر پہنچ جاتا اس کی یادداشت کا وہ حصہ مکمل طور پر مفلوج ہو جاتا جہاں ہمارا نام لکھا ہوتا تھا اور گہرے سے گہرے تعلق کا مضبوط سے مضبوط دھاگا بھی کچے دھاگے کی طرح پہلے تن جاتا اور پھر تڑاخ کر کے ٹوٹ جاتا۔

تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
تو کبھی نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا

لیکن یہ پہلی مرتبہ تھا کہ کسی اونچے مقام سے ہمیں فون آیا تھا اور پھر جب انھوں نے یہ بھی کہا کہ میں ہر وقت تابعدار ہوں تو

اسدؔ خوشی سے میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے
کہا جب اس نے ذرا میرے پاؤں داب تو دے

حالانکہ اس سے پہلے جب ہماری قسمت کا سست الوجود اور ''لوزر'' اونٹ ایک ہی کروٹ لیٹا ہوا تھا تو اونچے ایریا پر پہنچنے والے ''سابق دوستوں'' کو ہم فون کرتے اور وہاں سے سب کی طرف سے ایک ہی جواب آتا اس نمبر سے اس وقت رابطہ ممکن نہیں بعد میں ٹرائی ٹرائی اگین کریں۔

ہماری بدبخت، دل سخت اور لخت لخت قسمت نے صرف چند ثانیے کے لیے آنکھ کھولی تھی اور کروٹ بدلی تھی اور ایک مرتبہ پھر اس نے کروٹ بدل کر پرانی پوزیشن اختیار کر کے نہ صرف آنکھیں موند لیں بلکہ خراٹے بھی لینے لگی، پشتو کے بے بدل شاعر علی خان نے کہا تھا کہ

مالا گل بوئے کڑے نہ ووبہار تیر شو
لا مے غٹ ورتہ پہ زیر کتلی نہ وو
لکہ برق رخشندہ پہ تلوار تیر شو

یعنی میں نے ابھی پھول سونگھا بھی نہیں تھا کہ بہار گزر گئی اور میں نے ابھی اپنے یار کو اچھی طرح دیکھا بھی نہیں تھا کہ وہ برق رخشندہ کی طرح گزر گیا، کیوں کہ اس کے بعد ہم اس نمبر کو کھڑکاتے رہے اور اس طرف سے وہی جانی پہچانی نانی وہی بول بولتی سنائی دی کہ اس وقت رابطہ ممکن نہیں کچھ دیر بعد فون کریں۔ کچھ دیر بعد کیا ہم بڑی بڑی ڈھیر ساری ''دیریں'' کر کے بھی ملاتے رہے لیکن شاید

بخت جب بیدار تھا کم بخت آنکھیں سو گئیں
سو گیا جب بخت تو بیدار آنکھیں ہو گئیں

لیکن اب ''بیدار آنکھوں'' کا ہم کیا کرتے نوچ بھی تو نہیں سکتے کہ قسمت میں ابھی اس بے وفا بے لحاظ اور بے پروا دنیا کو مزید دیکھنا باقی ہے جہاں لوگ نمبر تو دیتے ہیں لیکن ٹیلی فون اٹھاتے نہیں۔

یہ دنیا غم تو دیتی ہے شریک غم نہیں ہوتی
کسی کے دور جانے سے محبت کم نہیں ہوتی

اس وقت سے لے کر ابھی تک لگے ہوئے ہیں مایوس ہوتے ہیں لیکن پھر امید جگاتے ہیں کہ لگے رہو منا بھائی شاید اس کم بخت سرا سرا برے وقت میں کہیں ایسی کوئی شبھ گھڑی بھی آ جائے جب ہمارے ستارے گردش سے نکل کر سٹیلائٹ پر اثر انداز ہو جائیں اور ادھر سے آواز آئے کہ ہیلو میں امیر مقام بول رہا ہوں اور ہم کبھی اپنے فون کو اور کبھی اپنے دل کی دھڑکن کو سننے لگیں،

پھر کوئی آیا ٹیلی فون نہیں کوئی نہیں
سائیکل ہو گی کہیں اور چلی جائے گی

پتہ نہیں کیا بات ہے شاید ہماری شکل کے ساتھ آواز بھی ایسی ہے کہ کوئی ایک بار سنے تو دوبارہ سننے کی ہوس ہی مر جاتی ہے، اس لیے اب کے ہم نے سوچا ہے کہ اپنی آواز کو آئینہ دکھائیں گے، کسی ٹیپ ریکارڈ پر اپنی آواز ریکارڈ کر کے سنیں گے ہو سکتا ہے کہ ایسی کوئی چیز نکل ہی آئے جو ان ساری شکایات کا جواب ہو کیوں کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ

ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا
کافی عرصہ پہلے ایک شخص سے ہماری شناسائی تھی جو اپنی بیٹی کی شادی کے لیے بہت زیادہ پریشان تھا جب بھی ملاقات ہوتی وہ یہی دکھڑا لے کر شروع ہو جاتا کہ لڑکی کی عمر گزرتی جا رہی ہے لیکن کہیں پر کوئی بات بن ہی نہیں رہی ہے، ایک مرتبہ سال ڈیڑھ بعد ملاقات ہوئی لیکن اس نے اپنا دکھڑا شروع نہیںکیا ہم سمجھے کہ شاید کسی نے اس کی بیٹی کو بیاہ لیا ہو گا چنانچہ پوچھ بیٹھے کہ وہ تمہاری لڑکی کی شادی تو اب ہو گئی ہو گی، پھٹ پڑا ۔۔۔ کہاں وہ ابھی تک میرے سینے پر بیٹھی مونگ دل رہی ہے۔ لوگ آتے ہیں اور اس سے چھوٹی بہنوں کو بیاہ کر لے جاتے ہیں لیکن اس کم بخت کے لیے کوئی پلو ہی نہیں ۔۔۔ کچھ دیر چپ رہ کر پھر بولا ۔۔۔ یار لوگوں کا بھی کوئی قصور نہیں، وہ بدبخت اتنی بد صورت ہے کہ اگر کوئی میرے لیے بھی مانگتا تو میں اس سے شادی کرنے کے بجائے خودکشی کو ترجیح دیتا۔

منہ زاغ کا سرخوک کا لنگور کی گردن
شاید ہماری آواز میں ایسی کوئی چیز ہو گی کہ خود سن کر ہمیں بھی کان بند کرنا پڑیں لیکن جب تک اپنی آواز کو ٹیپ ریکارڈ کا آئینہ نہیں دکھاتے تب تک تو ٹرائی ٹرائی اگین کرتے رہیں گے چاہے وہ محترمہ کتنی ہی بار ہمیں ٹکا سا جواب کیوں نہ دیں جو ایسے تمام لوگوں کی واحد ملکیت ہے جو نمبر تو دیتے ہیں لیکن جواب نہیں دینا چاہتے، جہاں تک جناب امیر مقام کا تعلق ہے تو ہم ان سے کچھ زیادہ نہیں مانگیں گے صرف اتنا چاہتے ہیں

بوسہ نہیں نہ دیجیے دشنام ہی سہی
آخر زباں تو رکھتے ہو تم گر دہاں نہیں

پہلے ہمارا خیال تھا کہ فون ملنے پر کہیں گے کہ '' م زر ما'' سارا آپ رکھ لیں صرف ''شیر'' ہمیں دے دیں کہ ہم بھی تھوڑے سے اپنے سوکھے ساکھے ہونٹ تر کر سکیں کیوں کہ ہماری وہ حالت ہو رہی ہے کہ
اخوندلہ خو دے پئی وی

آگے آپ خود جانتے ہیں لیکن اب اس خواہش سے بھی ہم گزر چکے ہیں، صرف اتنا چاہتے ہیں کہ ہم بھی کچھ دشمنوں کو یہ کہہ کر جلائیں اور مونچھوں کو تاؤ دیں گے کہ ہم اتنے گئے گزرے بھی نہیں بلکہ اونچے اونچے مقامات سے ہمیں فون آتے ہیں اور ہماری بھی مارکیٹ میں کوئی ''پوچھ'' موجود ہے۔ یہ کیا کہ

بجلی اک کوند گئی آنکھوں کے آگے یارب
بات کرتے کہ میں لب تشنہ تقریر بھی تھا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں