اپنا شہر
انسانوں کی اکثریت فطری طور پر ماضی پسند واقع ہوئی ہے۔ خصوصاً جب ہاتھ پیروں میں رعشہ آ جائے
انسانوں کی اکثریت فطری طور پر ماضی پسند واقع ہوئی ہے۔ خصوصاً جب ہاتھ پیروں میں رعشہ آ جائے، نظر چندھیانے لگے اور آدمی کو بھائی یا چچا سے بابا جی کہہ کر پکارا جانے لگے تو گزرا زمانہ شدت سے یاد آنے لگتا ہے، خصوصیت سے شباب کا زمانہ، جب جوانی کا خمار کسی پل چین نہیں لینے دیتا، جب رگوں میں خون نہیں بجلی دوڑتی محسوس ہوتی ہے، اور حوصلوں کا یہ حال ہوتا ہے کہ آسمان کے ستارے سچ مچ اپنی دسترس میں محسوس ہوتے ہیں۔ آپ نے بھی مشاہدہ کیا ہو گا۔ آپ کے گھر میں کوئی بزرگ دادا، دادی... نانا، نانی یا چلیں اماں جان یا ابا حضور ہی کو لے لیجیے، آپ جب کبھی ان کے پاس بیٹھیں، آپ نوٹ کریں گے کہ بات کوئی بھی چل رہی ہو، وہ اس کا سرا پکڑ کر ماضی میں لے جائیں گے ۔
ماضی... پیارا ماضی...وہ سنہرا وقت جب بقول اُن کے سب لوگ خوشیوں کے ہنڈولے پر جھولتے تھے ،جب آٹا، دالیں اور چاول ٹکے سیر ملا کرتے تھے، جب محبت تھی، دیدوں میں مروت تھی اور پڑوسیوں میں ماں جایوں جیسی چاہتیں تھیں اور جب جب... یہ بہت سارے 'جب' بیان کرتے ہوئے ان کے دمکتے پر جوش چہروں کو دیکھا کیجیے۔ وہاں انوکھے رنگ جھلملاتے آپ کو نظر آئیں گے، وقتِ پیری شباب کی باتیں کرتے ہوئے ان کی جھریوں بھرے پپوٹوں سے جھانکتی زمانہ شناس آنکھیں خواب ناک ہو جائیں گی۔ اس وقت ان کی نگاہیں ماضی میں جھانک رہی ہوتی ہیں، گویا ان کا بچپن اور جوانی مجسم ان کے سامنے آ گئے ہوں، آواز میں چمک، لہجے میں لچک... خوشی اور حسرت کا ملا جلا امتزاج !
ہائے واقعی یہ ماضی بھی عجیب ہے... ہر ایک کو اپنا 'دور' ہی اچھا لگتا ہے، لیکن آپ ذرا غور کیجیے کہ بے شک ہمارے بزرگوں کا دور آج کے اعتبار سے مثالی تھا، لیکن کیا اس وقت خونریزی نہیں ہوتی تھی؟... کیا جنگ عظیم اول دوم ماضی کی جنگیں نہیں؟ کیا تقسیم کے وقت کی سفاکیت اور درندگی ہمارے بزرگوں کا ماضی نہیں؟ اگر چیزیں سستی تھیں تو آمدنی بھی تو کم تھی! ہمارا یہ مطلب نہیں کہ 'گزرا ہوا کل' اور ہمارا 'آج' اقدار اور امن و امان کے حوالے سے برابر ہیں، نہیں آج دنیا زیادہ بری ہو گئی ہے، دنیا والے زیادہ ظالم اور مادہ پرست ہو گئے ہیں، لیکن یہ کوئی انہونی نہیں تکوینی بات ہے، ہمارے بزرگوں کا دور اور اُن کے بزرگوں کا دور بھی تو برابر نہیں ہوں گے... اُن کے بزرگ ان کے سامنے اپنے 'دور' کو یاد کر کے سرد آہیں بھرتے ہوں گے...ایسا تو شروع سے ہے، حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے وصال سے، صحابہ فرماتے ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے فوراً بعد ہم نے تغیر محسوس کیا، ہماری وہ حالت نہیں رہی، جو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں تھی۔ پھر جیسے جیسے دنیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک عہد سے دور ہو تی گئی، ویسے ویسے ہر شعبہ انحطاط کا شکار ہوتا چلا گیا، نہ پہلے کے سے نفوس رہے، نہ ان کے سے کردار و عمل۔
بہرحال بات ہو رہی تھی کہ انسان جبلی طور پر ماضی پسند ہوتا ہے اور ہم تو شروع ہی سے کچھ بنیاد پرست اور قدامت پسند واقع ہوئے ہیں، ابھی بابا جی بننے کا مرحلہ بہت دور ہے لیکن اکثر 'گزرا' وقت بہت یاد آتا ہے۔ کاموں کا ہجوم جب سر پر سوار ہوتا ہے، فکروں اور پریشانیوں کے اژدھام میں جب دل گھبرا جاتا ہے تو ایسے میں بے اختیار اپنے بچپن اور لڑکپن کا پیارا دور نگاہوں میں گھوم جاتا ہے۔ جب کوئی فکر نہ تھی... اپنے شہر کی گلیاں... اپنا اسکول، اساتذہ اور دوست یاد آتے چلے جاتے ہیں اور دل ہمک ہمک کر اس چاند کی خواہش کرتا ہے جو آسمان کی وسعتوں میں نہیں بلکہ صرف چار گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ جی کرتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کچھ دن کے لیے اپنے شہر کا رخ کیا جائے، لیکن کتنی ذمے داریاں ہیں، جو قدم جکڑ لیتی ہیں۔ دفتر کا کام، گھر کا انتظام، بیگم اور بچے، لیکن اس بار جب ہم ایک تھکا دینے والی مصروفیت سے کچھ فارغ ہوئے اور ایک پیغام موصول ہوا کہ بچپن کے دوست سب اکٹھے ہو رہے ہیں۔ اسکول کا چکر لگانے کا بھی پروگرام ہے تو ہم نے ساری رسیاں توڑیں اور دو دن کا پروگرام بنا ہی لیا۔ سوچا بچوں کو بھی لے جائیں اور ٹرین سے جایا جائے تا کہ اس سے پہلے کہ خدانخواستہ پاکستان میں ٹرینیں بند ہی ہو جائیں، ان کا شوق پورا ہو جائے... لیکن افسوس یہ ممکن نہ ہو سکا۔ بہرحال ہم نے خود ہی اندرونِ سندھ 'ٹنڈوآدم' کی راہ لی...چار گھنٹے میں بس نے ہمیں پہنچا دیا۔
اگلے دو دن ہم عادت سے مجبور ہو کر اپنا اور اپنے شہر کا تجزیہ کرتے رہے۔ سچی بات یہ ہے کہ جہاں دوستوں سے مل کر انمول خوشی نصیب ہوئی۔ ماضی کے پرلطف قصے، شرارتیں، قہقہے اور مسکراہٹوں نے دل و دماغ کو فریش کر دیا۔ وہیں ایک پہلو سے دل اداس بھی ہو گیا...ہمارے ننھے سے پیارے شہر میں بھی 'بڑے' شہر وں والے سارے 'نخرے' آ گئے تھے۔ وہی پراپرٹی کی باتیں...وہی اونچی اونچی عمارتیں، جن کی آسمان کو چھوتی قیمتوں کا بڑے شہروں سے فخریہ موازنہ کرتے چہکتے لب اور چمکتی آنکھیں، وہی نفسانفسی اور بدامنی۔ اسکول کا حال دیکھ کر تو دل بہت برا ہو ا...ایک کھنڈر سامنے تھا۔ تجاوزات کی وجہ سے سڑکیں گلیاں بن گئی تھیں اور گلیاں ابلتے جوہڑ۔ ہمیں لگا، جو سوچا تھا غلط تھا، کیسا بچپن، کیسا لڑکپن!... سب ان عمارتوں کے جنگل میں گم ہو گیا۔ ہم جس خوبصورت ماضی کو کھوجنے آئے تھے۔ وہ تو جدیدیت میں کہیں تحلیل ہو گیا...بس خوشی و غم کے ملے جلے جذبات لیے ہم لوٹ کر اپنے کراچی آئے، اب تو بس یہی اپنا شہر ہے!... شہرِ غریباں... ایشیا کا گیٹ وے، شہر زرنگار... عروس البلاد اور روشنیوں کا شہر ...جو اب ''لاشوں کا شہر''بن گیا ہے! جس دن ہم آئے اسی دن لیاری میں گینگ وار میں ایک دن میں خواتین اور بچوں سمیت بارہ نفوس جاں بحق ہو گئے۔ معلوم ہوا کہ لیاری کے ڈیڑھ لاکھ مکیں نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں...نہ جانے کب لیاری والوں کے درد کا درماں کیا جائے گا؟ کب ان کی جان و مال، عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے کوئی واضح لائحہ عمل تیار کیا جائے گا؟ اللہ سب کی جان و مال، عزت آبرو اور ایمان کی حفاظت فرمائے اور ہم سب کو اپنی اقدار اور روایات کی حفاظت کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔
ماضی... پیارا ماضی...وہ سنہرا وقت جب بقول اُن کے سب لوگ خوشیوں کے ہنڈولے پر جھولتے تھے ،جب آٹا، دالیں اور چاول ٹکے سیر ملا کرتے تھے، جب محبت تھی، دیدوں میں مروت تھی اور پڑوسیوں میں ماں جایوں جیسی چاہتیں تھیں اور جب جب... یہ بہت سارے 'جب' بیان کرتے ہوئے ان کے دمکتے پر جوش چہروں کو دیکھا کیجیے۔ وہاں انوکھے رنگ جھلملاتے آپ کو نظر آئیں گے، وقتِ پیری شباب کی باتیں کرتے ہوئے ان کی جھریوں بھرے پپوٹوں سے جھانکتی زمانہ شناس آنکھیں خواب ناک ہو جائیں گی۔ اس وقت ان کی نگاہیں ماضی میں جھانک رہی ہوتی ہیں، گویا ان کا بچپن اور جوانی مجسم ان کے سامنے آ گئے ہوں، آواز میں چمک، لہجے میں لچک... خوشی اور حسرت کا ملا جلا امتزاج !
ہائے واقعی یہ ماضی بھی عجیب ہے... ہر ایک کو اپنا 'دور' ہی اچھا لگتا ہے، لیکن آپ ذرا غور کیجیے کہ بے شک ہمارے بزرگوں کا دور آج کے اعتبار سے مثالی تھا، لیکن کیا اس وقت خونریزی نہیں ہوتی تھی؟... کیا جنگ عظیم اول دوم ماضی کی جنگیں نہیں؟ کیا تقسیم کے وقت کی سفاکیت اور درندگی ہمارے بزرگوں کا ماضی نہیں؟ اگر چیزیں سستی تھیں تو آمدنی بھی تو کم تھی! ہمارا یہ مطلب نہیں کہ 'گزرا ہوا کل' اور ہمارا 'آج' اقدار اور امن و امان کے حوالے سے برابر ہیں، نہیں آج دنیا زیادہ بری ہو گئی ہے، دنیا والے زیادہ ظالم اور مادہ پرست ہو گئے ہیں، لیکن یہ کوئی انہونی نہیں تکوینی بات ہے، ہمارے بزرگوں کا دور اور اُن کے بزرگوں کا دور بھی تو برابر نہیں ہوں گے... اُن کے بزرگ ان کے سامنے اپنے 'دور' کو یاد کر کے سرد آہیں بھرتے ہوں گے...ایسا تو شروع سے ہے، حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے وصال سے، صحابہ فرماتے ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے فوراً بعد ہم نے تغیر محسوس کیا، ہماری وہ حالت نہیں رہی، جو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں تھی۔ پھر جیسے جیسے دنیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک عہد سے دور ہو تی گئی، ویسے ویسے ہر شعبہ انحطاط کا شکار ہوتا چلا گیا، نہ پہلے کے سے نفوس رہے، نہ ان کے سے کردار و عمل۔
بہرحال بات ہو رہی تھی کہ انسان جبلی طور پر ماضی پسند ہوتا ہے اور ہم تو شروع ہی سے کچھ بنیاد پرست اور قدامت پسند واقع ہوئے ہیں، ابھی بابا جی بننے کا مرحلہ بہت دور ہے لیکن اکثر 'گزرا' وقت بہت یاد آتا ہے۔ کاموں کا ہجوم جب سر پر سوار ہوتا ہے، فکروں اور پریشانیوں کے اژدھام میں جب دل گھبرا جاتا ہے تو ایسے میں بے اختیار اپنے بچپن اور لڑکپن کا پیارا دور نگاہوں میں گھوم جاتا ہے۔ جب کوئی فکر نہ تھی... اپنے شہر کی گلیاں... اپنا اسکول، اساتذہ اور دوست یاد آتے چلے جاتے ہیں اور دل ہمک ہمک کر اس چاند کی خواہش کرتا ہے جو آسمان کی وسعتوں میں نہیں بلکہ صرف چار گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ جی کرتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کچھ دن کے لیے اپنے شہر کا رخ کیا جائے، لیکن کتنی ذمے داریاں ہیں، جو قدم جکڑ لیتی ہیں۔ دفتر کا کام، گھر کا انتظام، بیگم اور بچے، لیکن اس بار جب ہم ایک تھکا دینے والی مصروفیت سے کچھ فارغ ہوئے اور ایک پیغام موصول ہوا کہ بچپن کے دوست سب اکٹھے ہو رہے ہیں۔ اسکول کا چکر لگانے کا بھی پروگرام ہے تو ہم نے ساری رسیاں توڑیں اور دو دن کا پروگرام بنا ہی لیا۔ سوچا بچوں کو بھی لے جائیں اور ٹرین سے جایا جائے تا کہ اس سے پہلے کہ خدانخواستہ پاکستان میں ٹرینیں بند ہی ہو جائیں، ان کا شوق پورا ہو جائے... لیکن افسوس یہ ممکن نہ ہو سکا۔ بہرحال ہم نے خود ہی اندرونِ سندھ 'ٹنڈوآدم' کی راہ لی...چار گھنٹے میں بس نے ہمیں پہنچا دیا۔
اگلے دو دن ہم عادت سے مجبور ہو کر اپنا اور اپنے شہر کا تجزیہ کرتے رہے۔ سچی بات یہ ہے کہ جہاں دوستوں سے مل کر انمول خوشی نصیب ہوئی۔ ماضی کے پرلطف قصے، شرارتیں، قہقہے اور مسکراہٹوں نے دل و دماغ کو فریش کر دیا۔ وہیں ایک پہلو سے دل اداس بھی ہو گیا...ہمارے ننھے سے پیارے شہر میں بھی 'بڑے' شہر وں والے سارے 'نخرے' آ گئے تھے۔ وہی پراپرٹی کی باتیں...وہی اونچی اونچی عمارتیں، جن کی آسمان کو چھوتی قیمتوں کا بڑے شہروں سے فخریہ موازنہ کرتے چہکتے لب اور چمکتی آنکھیں، وہی نفسانفسی اور بدامنی۔ اسکول کا حال دیکھ کر تو دل بہت برا ہو ا...ایک کھنڈر سامنے تھا۔ تجاوزات کی وجہ سے سڑکیں گلیاں بن گئی تھیں اور گلیاں ابلتے جوہڑ۔ ہمیں لگا، جو سوچا تھا غلط تھا، کیسا بچپن، کیسا لڑکپن!... سب ان عمارتوں کے جنگل میں گم ہو گیا۔ ہم جس خوبصورت ماضی کو کھوجنے آئے تھے۔ وہ تو جدیدیت میں کہیں تحلیل ہو گیا...بس خوشی و غم کے ملے جلے جذبات لیے ہم لوٹ کر اپنے کراچی آئے، اب تو بس یہی اپنا شہر ہے!... شہرِ غریباں... ایشیا کا گیٹ وے، شہر زرنگار... عروس البلاد اور روشنیوں کا شہر ...جو اب ''لاشوں کا شہر''بن گیا ہے! جس دن ہم آئے اسی دن لیاری میں گینگ وار میں ایک دن میں خواتین اور بچوں سمیت بارہ نفوس جاں بحق ہو گئے۔ معلوم ہوا کہ لیاری کے ڈیڑھ لاکھ مکیں نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں...نہ جانے کب لیاری والوں کے درد کا درماں کیا جائے گا؟ کب ان کی جان و مال، عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے کوئی واضح لائحہ عمل تیار کیا جائے گا؟ اللہ سب کی جان و مال، عزت آبرو اور ایمان کی حفاظت فرمائے اور ہم سب کو اپنی اقدار اور روایات کی حفاظت کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔